معنویت اور مفہوم: کمیونزم کا زوال اور ترقی پسندوں کے ردعمل کی مختلف صورتیں

کمیونزم کے زوال نے برصغیر میں ترقی پسندوں اور سوشلسٹوں میں ردعمل کی جو صورتیں پیدا کی ہیں وہ کئی اعتبار سے اہم اور دل چسپ ہیں، لیکن ان صورتوں پر اس طرح توجہ نہیں دی گئی جیسی کہ دی جانی چاہیے تھی۔ اس کی وجہ جو بھی ہو، یہ صورتِ حال ایک طرح کا علمی خسارہ ہے، کیوں کہ کمیونزم کا زوال اور اس کے مختلف اثرات ایسی چیز نہیں جنہیں نظرانداز کردیا جائے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ بحیثیت قوم ہم نے طے کرلیا ہے کہ خسارے کے سوا کسی چیز کو عزیز نہیں رکھیں گے۔

خیر خسارے کا مسئلہ ایک الگ موضوع ہے۔ یہاں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کمیونزم کے زوال نے ردعمل کی کتنی صورتیں پیدا کی ہیں اور ان کا کیا مفہوم اور کیا معنویت ہے؟ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ردعمل کی چار صورتیں سامنے آتی ہیں۔

ترقی پسندوں اور سوشلسٹوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو کمیونزم کے خاتمے یا سوویت یونین کے انہدام کے بعد بجھ کر رہ گئی ہے اور اب تک اس کی کم و بیش یہی حالت ہے۔ ردعمل کی اس نوعیت کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو جو کچھ ہوا اس کی توقع ہی نہیں تھی، اور وہ ایک شاک یا صدمے سے دوچار ہوگئے۔

یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے کہ کمیونزم کے زوال کے ساتھ ہی کچھ لوگ مذہب کی جانب راغب ہوگئے۔ اس سلسلے میں کچھ لوگوں نے پابندِ شرع ہونے کو کافی سمجھا۔ کچھ لوگ جو سیاسی کارکن تھے، انہوں نے کسی مذہبی جماعت سے وابستگی اختیار کرلی۔ ایک آدھ مثال ایسی بھی ہے کہ کچھ لوگوں نے خود کو مذہب کی تبلیغ کے لیے وقف کردیا۔ ردعمل کی یہ صورت پہلی صورت سے زیادہ اہم اور دل چسپ ہے، اور اس کی دو معنویتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ایسے لوگوں کے لیے ترقی پسندی اوڑھی ہوئی شخصیت کی طرح تھی، چنانچہ اوڑھی ہوئی شخصیت ریزہ ریزہ ہوگئی تو یہ اپنی اصل کی جانب لوٹ گئے۔ اس ردعمل سے دوسری معنویت یہ آشکار ہوتی ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک بنیادی حقیقتیں دو ہی تھیں: ایک مذہب اور دوسرا مارکسزم، سوشلزم۔ ان میں سے ایک حقیقت شکست کھا گئی تو ان کے پاس کوئی چارۂ کار نہیں تھا کہ وہ باقی رہ جانے والی حقیقت کو تسلیم و اختیار کرلیں۔ اس سلسلے میں جزوی صداقت کے طور پر اس بات کو بھی اہم قرار دیا جاسکتا ہے کہ ان کا سماجی پس منظر اور سماجی تجربہ ایسا تھا کہ وہ کمیونزم کے زوال کے بعد سرمایہ دارانہ نظام یا مغربی تہذیب کی جانب جا ہی نہیں سکتے تھے۔

ردعمل کی تیسری صورت یہ ہے کہ کچھ ترقی پسند کمیونزم کے زوال کے ساتھ ہی سرمایہ داروں کے کیمپ میں کھسک گئے۔ ایسے لوگوں کی چار اقسام ہیں: پہلی قسم کے لوگ وہ ہیں جنہیں نہ ترقی پسندی عزیز تھی نہ کمیونزم۔ انہیں صرف اپنے مفادات عزیز تھے۔ چنانچہ ایک جانب سے مفاد پرستی ممکن نہ رہی تو انہوں نے مطلب براری کے لیے دوسرا در کھول لیا۔ کتوں کو تو در چاہیے، یہ نہیں تو وہ سہی۔ البتہ اس ردعمل کی ایک توجیہ یہ ہے کہ تمام تر اختلافات کے باوجود کمیونزم اور سرمایہ داری ایک ماں کے جڑواں بچوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ماں مغربی تہذیب ہے۔ اس ماں کے ایک بچے نے خودکشی کرلی تھی۔ اس بچے کے پرستاروں نے یہ دیکھا کہ دوسرا بچہ اگرچہ دشمن رہا ہے لیکن ہے تو وہ ہمارے ممدوح کا بھائی، چنانچہ یہ مماثلت انہیں دوسرے کیمپ میں گھسیٹ کر لے گئی۔ ذرائع پیداوار مارکسزم کا بنیادی تصور ہے، اور بعض لوگ سرمایہ داری اور کمیونزم کی کشمکش کو اسی تناظر میں دیکھتے تھے، تاہم بالآخر سرمایہ داروں کے ذرائع پیداوار نے خود کو برتر ثابت کردیا، چنانچہ کچھ لوگ برتر ذرائع پیداوار کی جانب چلے گئے ہیں۔ ایسے لوگوں کی چوتھی قسم وہ ہے جو سمجھتی ہے کہ جو غالب ہے وہی صحیح ہے، اس لیے غالب کا ساتھ دو۔

ترقی پسندوں کے ردعمل کی چوتھی صورت سب سے اہم اور دل چسپ ہے۔ بعض ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ ترقی پسند تحریک ختم کیوں ہوگئی؟ تو وہ کہتے ہیں کہ یہ سوال ہی غلط ہے، کیوں کہ تحریک تو زندہ ہے اور اس لیے زندہ ہے کہ تحریک کبھی ختم نہیں ہوتی، البتہ تنظیم ختم ہوگئی ہے، اور تنظیم کا خاتمہ کوئی اہم بات نہیں، اس لیے کہ تنظیم تو کسی بھی وقت کھڑی کی جاسکتی ہے۔ اس مؤقف میں کٹ حجتی تو خیر ہے ہی، لیکن اس کے علاوہ بھی اس میں بہت کچھ ہے۔ مثلاً جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تحریک موجود ہے، وہ تحریک کو ایک ’’آئیڈیا‘‘ قرار دیتے ہیں، اور اس لیے کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ آئیڈیا یا خیال کبھی نہیں مرتا۔ مارکسزم میں جدلیاتی مادیت کا جو تصور ہے اس میں کسی ’’دائمی آئیڈیے‘‘ کا تصور ہی نہیں۔ یہاں تو ایک آئیڈیا ابھرتا ہے اور پھر اس کی ضد پیدا ہوتی ہے، اور ان کے تصادم سے ایک نیا خیال جنم لیتا ہے۔ مارکس کے نزدیک تاریخ کا سفر اسی طرح آگے بڑھا ہے اور بڑھتا رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں کسی تحریک کے نہ مرنے کی بات مضحکہ خیز نہیں تو کیا ہے؟ دیکھا جائے تو دائمی حقیقت کا تصور صرف مذہب میں موجود ہے۔ یہاں حضرت آدم علیہ السلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک ہی پیغام آیا ہے۔ چنانچہ جو ترقی پسند اپنے آئیڈیے کو دائمی قرار دیتے ہیں وہ شعوری یا لاشعوری طور پر مذہب کا تصور مستعار لے لیتے ہیں، لیکن مذہب اور مارکسزم میں تو ازلی و ابدی بیر ہے۔ مارکسزم جو کچھ بھی تھا ایک اجتماعی تصور اور ایک اجتماعی جدوجہد سے عبارت تھا، اور اجتماعی جدوجہد کے لیے تنظیم ضروری ہوتی ہے۔ چنانچہ تنظیم کی موت کا اعتراف کرنے والوں کو کم سے کم اتنا تو تسلیم کر ہی لینا چاہیے کہ اجتماعی جدوجہد ختم ہوگئی ہے۔ لیکن وہ تو اس کے لیے بھی تیار نہیں دکھائی دیتے۔

بہت سے ترقی پسندوں کو توقع ہے کہ کمیونزم کا ’’احیاء‘‘ ہوگا۔ اس امکان کو درست تسلیم کیا جا سکتا ہے، لیکن کیا ہمارے ترقی پسند حضرات بھول گئے کہ وہ اسلام کے احیاء کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ ان کا کہنا تھا کہ احیاء کا تصور ہی غلط ہے۔ جدلیاتی مادیت کا تصور بتاتا ہے کہ جو فنا ہوگیا اس کا احیاء ممکن نہیں، چنانچہ اسلام کے احیاء کا بھی کوئی امکان نہیں۔ تاہم اب وہ خود اپنے نظریے کے احیاء کے امکان کی باتیں کررہے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ لوگ نہ صرف یہ کہ اپنے نظریے اور اپنے کہے کی تردید کررہے ہیں بلکہ وہ اپنے نظریے کو ایک ’’دین‘‘ کے منصب پر فائز کررہے ہیں۔ اس ردعمل پر صرف ہنسی ہی نہیں آتی، رحم بھی آتا ہے۔