کشمیر کے ایک چھوٹے سے گائوں سے سب سے بڑے شہر کراچی کا سفرممتاز زیرک صحافی عارف الحق عارف کی کتھا

چودھری غلام محمد مرحوم نے کیریئر کا فیصلہ کیا اور شعبہ صحافت میں داخلے کا مشورہ دیا

عارف الحق عارف ان چند نمایاں صحافیوں میں شامل ہیں جنہوں نے صحافت کے میدان میں اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ آپ اُن صحافیوں میں سے ہیں جو سیاست کا رنگ و سمت تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کی رپورٹنگ ایسی ہوتی تھی جس میںقطع و برید کی کم ہی گنجائش ہوتی تھی جو ان کی پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت ہے۔ ان سے انٹرویو کا بہت بار خیال آیا لیکن کئی وجوہات کی وجہ سے ہونہ پایا،پھر جب ایک دن میں نے امریکہ فون کیا تو دوسری طرف عارف الحق عارف صاحب موجود تھے۔ ان کی ایک خوبی یہ ہے کہ پہلی بیل پر ہی فون اٹھا لیتے ہیں اور اگر مصروف ہوں تو پہلی فرصت میں جوابی کال کرلیتے ہیں۔ یہ خوبی اب خال خال ہی نظر آتی ہے۔

میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کا تفصیلی انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ اب تو وقت ہی وقت ہے، لیکن کتنا باقی رہ گیا ہے، یہ علم نہیں۔ کہا کہ ہم اپنا شمار بڑے صحافیوں میں نہیں کرتے اور نہ ہی ہم نے صحافتی میدان میں کوئی قابلِ ذکر کام کیا ہے جس کی وجہ سے کوئی ہم سے انٹرویو لے۔یہ ان کا انکسار تھا، لیکن کئی اہم وجوہات کی وجہ سے ان کا انٹرویو کرنا بنتا تھا۔اسی لیے میں نے کہا کہ آپ کی اس آخری بات سے متفق نہیں ہوں کہ آپ نے کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا۔اس سوال کا جواب تو آپ کے دور اور اس کے بعد کے دور کے صحافی اور کراچی شہر کے وہ لاکھوں لوگ دیتے ہیں جنہوں نے آپ کی صحافت کے عروج کا زمانہ دیکھا ہے کہ کس طرح آپ کے سیاست دانوں، سرکاری افسروں اور شہر کے سربرآوردہ معززین سے قریبی تعلقات تھے کہ آپ کی ایک فون کال پر لوگوں کے کام ہوجایا کرتے تھے اور اس دور کے آپ کے بعض دوستوں کی روایت کے مطابق آپ کو اپنے عروج کے اس زمانے میں ان سیاست دانوں، وزیروں اور سرکاری افسروں اور محکموں کے سربراہوں کے لینڈ لائن نمبر زبانی یاد تھے، اور کسی نے کوئی کام کہا اور آپ نے ڈائری میں سے نمبر دیکھے بغیر کال ملائی اور کام کا کہا، اور کام ہو گیا۔ یہ آپ کا روز کا معمول تھا۔پھر ایک اور بات کا سہرا آپ کے سر ہے کہ آپ نے خاموشی کے ساتھ سیکڑوں صحافیوں کی تربیت کی،انہیں صحافت کے اسرار و رموز سکھائے اور ان کی رہنمائی کی، ان کو اچھا صحافی بننے کے اصول بتائے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ اور امنگ دی۔آپ کے کتنے ہی شاگرد اس وقت پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا یعنی اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور آپ کو دعائیں دے رہے ہیں۔آپ کا نام اُن صحافیوں میں لیا جاتا ہے جنہوں نے آج کل کے لفافہ صحافیوں کی طرح صحافت کے مقدس پیشے کو بدنام نہیں کیا بلکہ خاموشی کے ساتھ صحافی برادری اور کراچی کے شہریوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا ذریعہ بنے۔آپ جنگ جیسے بڑے اخبار کے چیف رپورٹر کی حیثیت سے اپنی مثبت اور شاندار نامہ نگاری اور مضامین کے ذریعے شہریوں کو ایک اچھا ماحول فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بنے۔ آپ نے روزنامہ جنگ میں اپنی خاموش حکمت عملی سے صحافیوں،کاتبوں، پروف ریڈرز اور پریس ورکرز کے مالی حالات بدلنے کیلیے ویج بورڈ کے نفاذ اور اس کے تحت اگلے گریڈ ز میں ترقی کی راہ ہموار کی جس سے کارکنوں کے حالاتِ کار بہتر ہوئے۔یہ بات بہت سے لوگوں کیلیے حیران کن ہوگی لیکن روایت کے مطابق1970ء کے پورے عشرے میں روزنامہ جنگ جیسے بڑے اور مالی لحاظ سے مستحکم اخبار سمیت کراچی کے اخبارات میں ویج بورڈ ایوارڈ پر عمل کم ہی ہوتا تھا، اور خاص طور سے اگلے گریڈ ز میں ترقی نہیں ہوتی تھی۔آپ نے1981ء میں جنگ سے اچانک استعفیٰ دیا تو جنگ کے مالک میر خلیل الرحمٰن نے آپ کو بات چیت کیلیے بلایا اور پوچھا کہ آپ نے استعفیٰ کیوں دیا؟ تو آپ نے اُن سے کھل کر بیان کیا کہ14 سال سے ڈسٹرکٹ ایڈیٹر اور چیف رپورٹر کے گریڈ ون کے عہدے پر کام کرنے کے باوجود مجھے گریڈ ون نہیں دیاگیا، اس لیے صحافت کو چھوڑ رہاہوں تا کہ بچوں کی اچھے اسکولوں میں تعلیم وتربیت جاری رکھ سکوں۔آپ سے ان مذاکرات کے بعد میر صاحب نے نہ صرف آپ کا استعفیٰ مسترد کردیا، آپ کو آپ کے حق کے مطابق گریڈ دیا بلکہ جنگ اور اس کے سارے اداروں میں صحافیوں اور دوسرے عملے کو ترقیاں اور گریڈ ملنا شروع ہوئے۔ آج کل کیا صورت ِحال ہے یہ معلوم نہیں، لیکن اخبارات کے حالات صحافی کارکنوں کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ کیونکہ عارف صاحب ایک نظریاتی جماعت سے فکری طور پر وابستہ تھے لیکن غیر جانب دارانہ سیاسی نامہ نگاری کی مثال قائم کی اور نو آموز صحافیوں کو بتایا کہ کسی کا کوئی بھی سیاسی نظریہ ہوسکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ صحافی بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں،لیکن جب وہ ایک صحافی کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیں تو پھر اپنے نظریات کو ایک طرف رکھ دیں اور واقعات، جلسے جلوس،پریس کانفرنسوں یا بات چیت کے دوران اپنی رپورٹنگ، نامہ نگاری اور تجزیے میں حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے غیرجانب داری کا مظاہرہ کریں، یعنی ایمان داری برتی۔اس لیے آپ کا یہ کہنا یا سوچنا تو درست ہو سکتا ہے کہ آپ کوئی بڑے ایڈیٹر،کالم نگار، بڑے اینکر پرسن یا بڑے ٹریڈ یونین لیڈر نہیں رہے ہیں لیکن آپ نے ایک بڑے سیاسی نامہ نگار اور ایک نامور صحافی کی حیثیت سے ایسے کام کیے ہیں جو بڑے بڑے ایڈیٹر،کالم نگار اور اینکر پرسنز نہیں کرسکے۔ آپ جنگ کے اچھی شہرت رکھنے والے سیاسی نامہ نگار تھے، اور اس طرح تمام سیاسی جماعتوں کے اُس وقت کے سارے ہی رہنماؤں سے آپ کے اچھے اور بے تکلفانہ تعلقات تھے۔لیکن متحدہ مسلم لیگ کے سر براہ اور سند ھ میں حروں کے روحانی پیشوا شاہ مردان شاہ پیر پگارا ہفتم سے آپ کی مثالی دوستی تھی۔یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے، ہر صحافی کے سیاست دانوں سے ایسے تعلقات ہوتے ہیں، لیکن آپ نے ان تعلقات کو جس طرح ملک کے مفادات اور عوام کی بہتری کیلیے استعمال کیا وہ آپ ہی کا کمال ہے۔آپ ان کے اچھے دوست اور بہترین مشیر بنے،محمد خان جونیجو کا نام 1981 ء میں وزیراعظم کے لیے تجویز کیا،پھر1985ء میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے۔ ان میں مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے صرف 28 لوگ کامیاب ہوئے تھے۔آپ نے پیر صاحب کو مشورہ دیا کہ تعداد بتائے بغیر یہ بیان دیں کہ مسلم لیگ کے ہم خیال اور ہم حال سب سے زیادہ کامیاب ہوئے ہیں اور یہ کہ وہی حکومت بنائیں گے۔جنگ کے سارے ایڈیشنوں میں اس بیان کے شائع ہونے کے بعد نو منتخب ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی مسلم لیگ میں جوق در جوق شامل ہوئے اور25 مارچ 1985ء کو محمد خان جونیجو وزیراعظم بن گئے۔جونیجو پیر پگارا کا شکریہ ادا کرنے کنگری ہاؤس اسلام آباد میں رات کو آئے تو پیر سائیں نے آپ کی موجودگی میں جونیجو کو ساری کہانی بیان کی کہ ان کے وزیر اعظم بننے میں عارف صاحب کا کس قدر بڑا کردار ہے۔اس پر جونیجو نے آپ کا شکریہ ادا کیا۔ ایک اور اچھا کام آپ نے یہ کیا کہ جماعت اسلامی اور پیر پگارا کے درمیان بلدیاتی انتخابی اتحاد کرایا جس کے نتیجے میں کراچی میں عبدالستار افغانی، لاڑکانہ میں مولانا جان محمد عباسی کے بیٹے قربان علی عباسی اور ٹنڈوآدم میں عبدالستار غوری میئر منتخب ہوئے۔ اس طرح آپ کی وجہ سے شہر کراچی، لاڑکانہ اور ٹنڈو آدم میں بہترین بلدیاتی حکومتیں قائم ہوئیں اور ان شہروں میں عوام کو سہولتیں ملیں۔

اس پس منظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عارف الحق عارف کا یہ انٹرویو سیاست اور صحافت کی اہم تاریخ کے ساتھ ماضی میں سندھ کی سیاست کو سمجھنے کے لیے بھی اہم ہے۔ اس میں سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔

فرائیڈے اسپیشل:آج امریکہ میں بیٹھے عارف الحق عارف کے پاس، پانچویں جماعت تک پہننے کے لیے جوتے بھی نہیں تھے۔یہاں تک کہ مسلسل ننگے پائوں چلتے دیکھ کر والد رنجیدہ ہوجاتے تھے۔والدین غربت کا شکار تھے۔والد صاحب کی مدد کے لیے بچپن میں کتابوں کی جلد سازی کا کام بھی کیا۔آپ آج ماضی میں جھانک کر حال کو دیکھتے ہیں تو کیسا محسوس کرتے ہیں؟

عارف الحق عارف :یہ بڑی طویل داستان ہے،اس کو بیان کیے بغیر بات سمجھ میں مشکل سے آئے گی۔یہ کہانی ہے آزاد کشمیر کے دور دراز دیہات کے غریب اور دو روٹی کے محتاج خاندان کے ایک ایسے بچے کی، جس کو پڑھنے کا شوق تھا۔اس کہانی کا آغاز اکتوبر 1947ء سے ہوتا ہے۔اُس وقت میں چھ سات سال کا تھا۔ہر بات اچھی طرح یاد ہے۔پاکستان بن چکا ہے، ہندوستان بٹ گیا ہے،اس خبر سے گاؤں کے لوگ خوش ہیں، وہ خوشیاں منا رہے ہیں کہ رات کی تاریکی میں بمبار لڑاکا طیاروں سے ہمارے گاؤں پر حملہ ہوتا ہے۔یہ حملہ انڈیا کی فضائیہ نے کیا ہے۔ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے وسیع علاقے اور اس کے بلند ترین پہاڑوں کو اپنے قبضے میں کیا جائے۔ ہمارا گاؤں کوہ ہمالیہ کے بلند ترین سلسلے کے ایک اونچے پہاڑ پیر بڈیسر کے دامن میں ہے۔روشنیوں کے گولوں اور پھر بمباری سے گاؤں کے لوگ بدحواس ہیں۔وہ اپنے گھروں سے نکل آتے ہیں، چیڑ اور دوسرے درختوں کے جنگل میں جمع ہوتے ہیں اور ایک ساتھ ہجرت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ان حملوں سے بچتے بچاتے رات بھر کے سفر کے بعد وادی بناہ کے مرکزی مقام اور شہر کھوئی رٹہ پہنچتے ہیں، لیکن لڑاکا طیاروں کے حملے جاری ہیں۔اب ہجرت کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہیجو بڑے بڑے قافلوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ وادی بناہ اور کھوئی رٹہ بھی محفوظ نہیں۔ یہ سوچ کر ہمارا خاندان ایک قافلے کے ساتھ میر پور کی طرف چل پڑا۔یہ پیدل سفر تھا جو ڈیڑھ دو ماہ کے دوران مکمل ہوا۔وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ شہر میں ہزاروں مہاجر آچکے ہیں۔بڑوں سے سنا کہ ہمارا سفر ابھی ختم نہیں ہوا، اور اب ہجرت کرنیوالوں کو جہلم اور دینہ کے درمیان چک جمال کی فوجی چھاؤنی میں عارضی طور پر رکھا جائے گا۔ ہمارا قافلہ پھر پیدل ہی اس نئی منزل کی طرف روانہ ہوا۔میرپور سے کھڑی شریف اور وہاں سے دریائے جہلم کو ایک پل کے ذریعے پار کرکے ہفتہ دس دن میں وہاں پہنچے جہاں ان خاندانوں کو بڑی بڑی اور طویل بیرکوں کی کھلی جگہ میں رکھا گیا۔ہمارا خاندان بھی وہیں بس گیا۔ہمیں روزانہ بتایا جاتا کہ یہ ہجرت عارضی ہے،کشمیر پر انڈیا کے حملے اور قبضے کو اقوام متحدہ میں چیلنج کردیاگیا ہے، جلد کشمیر کا فیصلہ ہوجائے گا اور آپ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ہم کو سرکاری راشن اور دوسری امدادی سہولتیں دی جاتی ہیں اور عارضی اسکول بھی قائم ہوجاتے ہیں۔ایک ڈیڑھ سال گزرتا ہے کہ وہیں کے اسکول میں داخل کرائے جاتے ہیں۔پہلی جماعت پاس کر کے دوسری میں ہوتے ہیں کہ ایک بار پھر ہجرت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ ہجرت مختلف مقامات کی جانب ہے۔ہمارا خاندان واپس کشمیر جانے کا فیصلہ کرتا ہے اور پھر جس طرح پیدل چلتے چلتے آئے تھے اسی طرح پیدل چلتے چلتے کھوئی رٹہ کے پاس ڈھیری صاحب زادیاں کے گاؤں میں آباد ہوتے ہیں اور1952ء میں ہم شہر کے اسکول کی دوسری جماعت میں داخل ہوجاتے ہیں۔غربت کا یہ حال ہے کہ قحط کی سی صورت ِحال ہے۔مشکل سے دو وقت کی صرف روٹی ملتی ہے۔اسکول کی ایک آنہ سے آٹھ آنہ ماہانہ تک کی فیس دینے کی طاقت نہیں۔ان حالات میں 1960ء میں اچھی پوزیشن سے میٹرک کرتے ہیں۔اسکول میں تیسری پوزیشن آتی ہے۔مزید پڑھنے کا بے حد شوق ہے۔والد سے اس کا ذکر کرتے ہیں۔وہ پریشان ہوتے ہیں۔آنکھیں نم ہیں، کہتے ہیں جتنا پڑھانا بس میں تھا پڑھا دیا، اب نوکری کرو،ہمارا سہارا بنو، اور اس کے ساتھ ساتھ پڑھنا چاہتے ہو تو پڑھو۔ ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔کھوئی رٹہ شہر کے معززین سے مشورہ کرتے ہیں۔ ان سے رابطہ تھا۔وہ اچھا طالب علم ہونے کی وجہ سے جانتے اور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔وہ مشورہ دیتے ہیں کہ یہ دونوں کام ملازمت اور تعلیم ایک ساتھ صرف کراچی میں ہو سکتے ہیں اگر جانے کا کوئی وسیلہ بنے۔وہ نہیں تو لاہور چلے جاؤ،اور اگر وہاں بھی جا نہ سکوتو راولپنڈی تو قریب ہی ہے،لیکن یہاں سے نکلنا ہو گا۔ہم نے پہلے آپشن پر غور کیا۔ہمارے گاؤں ہی کا ایک اسکول فیلو دوست جو دو سال پہلے میٹرک کے بعد کراچی جا چکا تھا، شادی کے لیے آیاہوا تھا۔اس سے مشورہ کیا اور کہا: پیسے نہیں ہیں، کراچی جانا چاہتے ہیں۔ساتھ میں شرط رکھ دی کہ کراچی لے جاؤ تین ماہ میں اگر نوکری نہ ملی تو واپس آ جائیں گے۔اُس نے ہامی بھرلی۔سوچا کراچی تک کا کرایہ اور خرچا اپنا ہونا چاہیے۔پوچھنے پر اس نے بتایا25 روپے۔ گھر آئے، والد صاحب سے ذکر کیا۔سن کر خوشی اور پریشانی دونوں کا اُن کے چہرے پر ظہور ہوا۔خوشی جانے کی اور پریشانی کرائے کی رقم نہ ہونے پر۔ ان کی آنکھوں سے دو تین آنسو ٹپ ٹپ گرے اور وہ خاموشی سے باہر چلے گئے۔ ایک دو گھنٹوں میں واپس آئے،کہا15 روپوں کا انتظام ہوگیا ہے۔ تین دن بعد روانگی تھی۔ہم باپ بیٹا پریشان گھر کے باہر چار پائی پر بیٹھے تھے کہ دیہات سدھار کا ایک افسر آگیا، وہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کا تھا اور اس سے دوستی تھی۔ ہمیں پریشان دیکھا تو وجہ پوچھی۔ اسے پوری صورت حال بتائی۔وہ ہماری روداد سن کر کچھ کہے بغیر چلا گیا، کچھ دیر بعد آیا اور دس روپے ہمارے حوالے کردیے۔اس طرح چند دن کے سفر کے بعد ہم نومبر1960ء کے آخری دنوں میں کراچی آئے۔

فرائیڈے اسپیشل:اُس وقت کراچی شہر کو آپ نے کیسا پایا؟

عارف الحق عارف: ہم ایک چھوٹے سے دیہات اور چھوٹے سے شہر کھوئی رٹہ سے آئے تھے۔کراچی اُس وقت بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر تھا۔ہم سٹی اسٹیشن سے سیدھے کیماڑی گئے تھے۔وہاں تک جاتے ہوئے ہمیں یہ شہر صاف ستھرا، روشنیوں کا شہر نظر آیا۔ ہم تو اس شہر کی بڑی بڑی عمارتوں، کشادہ سڑکوں اور ہرملک، ہر رنگ، ہر نسل اور کئی زبانیں بولنے والے انسانوں کو دیکھ کر حیرت میں پڑ گئے۔ سب سے بڑی شاہراہ بندرروڈ کو دیکھا۔اس پر چلتی ٹرام دیکھی اور اس میں کیماڑی سے چڑیا گھر اور صدر تک سفر کیا۔ کیماڑی کی بندر گاہ گئے۔ سمندر کا سکون دیکھا، کلفٹن کے ساحل پر سمندر کی ابھرتی لہریں دیکھیں۔لوگوں کو اس میں تفریح کرتے اور نہاتے دیکھا۔ وہیں بڑا ماہی خانہ دیکھا۔ بڑے بڑے جھولے دیکھے۔ساحل پر اونٹ اور اس کی سواری دیکھی۔ ملک میں ایوب خان کا مارشل لا نیا نیا تھا۔ہر چیز میں ڈسپلن تھا۔ بندرروڈ کو ہر صبح دھویا جاتا تھا۔

فرائیڈے اسپیشل:آپ تو ملازمت اور پڑھنے کے مقصد سے کراچی آئے تھے، اس کا کیا ہوا؟ کیا ملازمت فوری طور پر مل گئی؟ مزید تعلیمی پروگرام کا کیابنا؟

عارف الحق عارف: جی ہاں، اپنے دوست کے ساتھ کراچی اس شرط پر آئے تھے اور یہ شرط بھی ہم نے خود ہی رکھی تھی کہ تین ماہ تک ملازمت نہ ملی تو واپس کشمیر چلے جائیں گے، اس لیے اس کی پابندی ضروری تھی۔ اس لیے آتے ہی چند دن آرام کرنے اور شہر دیکھنے کے بعد ملازمت کی تلاش شروع کردی۔صبح گھر سے نکلتے، ہر جگہ معلوم کرتے، لیکن شام کو ناکام واپس آتے۔ہمارا دوست پوچھتا تو اُس کو ہمارے چہرے پر چھائی پریشانی سے معلوم ہو جاتا۔اب وہ کیماڑی کے کے پی ٹی کوارٹر سے ساتھ ہی بھٹی ویلیج منتقل ہو گئے تھے۔ڈھائی ماہ گزر گئے تھے کہ انہوں نے ہی ٹاور پر ایک کلیئرنگ اور فارورڈنگ کمپنی میں بھیجا۔وہاں رات کو بندرگاہ پر ٹیلی کلرکی کا کام مل گیا، لیکن یہ بھی چند روز جاری رہا، ہم پھر بے روزگار ہوگئے۔ ان کے گھر کے سامنے ان کے قریبی عزیز چراغ عالم رہتے تھے، وہ کے پی ٹی کے ڈپٹی ٹریفک منیجر مسٹر کاواجی کے دفتر کے معاون تھے۔ایک دن اُن کو معلوم ہوا کہ ہمیں ابھی تک کوئی ملازمت نہیں ملی تو وہ اپنے ساتھ دفتر لے گئے اور ہمیں کاواجی کے سامنے پیش کردیا۔انہوں نے ہمارا انگریزی کا امتحان لیا اور کے پی ٹی میں ڈیلی ویجز پر ملازمت دے دی۔اس میں کام کا انحصار تجارتی جہازوں کی زیادہ آمدو رفت پرتھا۔اس لیے کبھی کام ملتا، کبھی نہ ملتا، لیکن ہر ماہ رات اور دن میں5 سے10 دن تک ضرور مل جاتا۔دن کے 5 روپے اور رات کے 5 روپے 8 آنے ملتے تھے۔ہماری شرط پوری ہوگئی تھی، اب واپسی کا خطرہ ٹل گیا تھا۔عارضی ڈیلی ویجز کا سالانہ امتحان ہوتا تھاجس میں پاس ہونے والوں کو پکی ملازمت مل جاتی تھی۔یہ امتحان1962ء کے آخری مہینوں میں ہوا، اللہ کے خاص فضل سے ہم نے اس میں اول پوزیشن لی اور ہم جنرل آؤٹ ٹرن کلرک بنا دیے گئے۔اب رہا تعلیم جاری رکھنے کا معاملہ…تو یہ مقصد تو ایک لمحے کو بھی ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوا۔ہمارا خیال ہی نہیں بلکہ یقین تھا کہ ہمیں نوکری کے دوران کالج میں داخل ہو کر پڑھنے کا شاید ہی موقع مل سکے، اس لیے ہم نے شارٹ کٹ تلاش کرلیا۔ وہ شارٹ کٹ یہ تھا کہ ہم ادیب فاضل، منشی فاضل اور عربی فاضل میں سے کوئی فاضل کرلیں اور انٹر،بی اے،اور ایم اے کا صرف ایک ایک پرچہ پاس کرلیں تو انٹر، بی اے اور ایم اے کی ڈگری مل جائے گی۔ہم نے1962ء میں ادیب فاضل کرلیا۔اسی اثنا میں ہمیں نہ صرف ملازمت مل گئی تھی بل وہ پکی سرکاری ملازمت بھی تھی، اور جب ہماری ڈیوٹی بندرگاہ پر جہازوں سے تجارتی مال کی گنتی اور اس کی رپورٹ لکھنے سے ہٹ کر باقاعدہ ایک دفتر میں ہوگئی تو ہم نے دفتر کے افسروں کی اجازت سے1963ء میں اردو کالج میں داخلہ لے لیا۔1964ء میں انٹر اور1966ء میں بی اے کیا۔طالب علم ہی تھے کہ کیماڑی میں کچھ اچھے لوگوں سے رابطہ ہوا جن کی وجہ سے ہماری سوچ کا دھارا بدل گیا۔

فرائیڈے اسپیشل:وہ کون لوگ تھے اور انہوں نے کس طرح آپ کی زندگی پر اثرات ڈالے؟

عارف الحق عارف:یہ جماعت اسلامی کے لوگ تھے۔ہم بچپن ہی سے اپنے ماحول اور والدصاحب کی تربیت کی وجہ سے دینی رجحان رکھتے اور صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔کراچی آکر بھی نماز با جماعت پڑھتے۔زیادہ نمازیں حاجی غائب شاہ مسجد میں ادا ہوتیں۔نمازیوں میں ایک، شبیر صاحب تھے۔ ایک دن انہوں نے علیک سلیک کے بعد درسِ قرآن میں شرکت کی دعوت دی۔اس سے کیسے انکار کیا جاسکتا تھا!شریک ہوئے تو معلوم ہوا یہ جماعت اسلامی کے زیراہتمام تھا اور جہاں یہ درس ہوا وہ جماعت اسلامی کا دفتر تھا۔اس دوران دوسرے لوگ بھی دوست بن گئے۔جماعت میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تو قبول کر لی۔کوئی مشکل اس لیے نہیں ہوئی کہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کے نام سے زمانہ طالب علمی سے واقف تھے۔مولانا کی کتاب ’’رسالہ دینیات‘‘ ہمارے نویں اور دسویں کے نصاب میں تھی اور ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ بھی ہمارے اسکول میں آتا تھا اور ہم اس کا بھی مطالعہ کرتے تھے۔جماعت اسلامی کی خبریں اخبارات میں شائع ہوتی تھیں اور معلوم تھا کہ اس کے بانی اور امیر مولانا مودودیؒ ہیں۔یہ1963ء کی بات ہے،ہم تین طالب علم جماعت کے کارکن بنے اور اس کے اجتماعات اور سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ جماعت کا دفتر کیماڑی کے مشہور میڈیکل ڈاکٹر کیپٹن (ر) مسعود الدین حسن عثمانی کا تھا اور اس کی پہلی منزل پر وہ خود رہتے تھے۔وہ بھی جماعت کے قدیم رکن تھے لیکن 1957ء میں مولانا امین احسن اصلاحی کے ساتھ جماعت کے طریقہ کار سے اختلاف کے باعث جماعت سے الگ ہوگئے تھے لیکن اب بھی جماعت کا مرکز اُن کا دیا ہوا دفتر اور اُن ہی کا گھر تھا۔ ان کی اہلیہ محترمہ تسلیم النساء جماعت کی رکن تھیں اور 1975ء میں اپنے انتقال تک رکن ہی رہیں۔یہ گھر ہمارا بھی گھر بن گیا۔ہمارا کوئی رشتے دار کراچی میں نہیں تھا۔محترمہ تسلیم نے ہمیں اپنے بیٹوں سعید عثمانی، شکیل عثمانی اور جمیل عثمانی کی طرح اپنا بیٹا سمجھا۔ اس طرح ہمیں کراچی میں ماں اور تین بھائی مل گئے۔ہم نوکری اور اردو کالج میں تعلیم کے ساتھ ساتھ جماعتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔اُس وقت جماعت اسلامی ملک میں جمہوریت، حقوقِ انسانی، اظہارِ رائے اور صحافت کی آزادیوں اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں بڑی سرگرم تھی اور اس کے خلاف اُس وقت کے وزیر داخلہ خان حبیب اللہ خان اور مشرقی پاکستان کے ایک اور وزیر عبدالصبور خان یا عبدالوحید روزانہ کوئی نہ کوئی بیان دیتے تھے۔ایک دن وزیر داخلہ نے یہ بیان دیا کہ پنجاب یونیورسٹی اور ریلوے میں جو جھگڑا ہواہیاس میں جماعت اسلامی ملوث ہے۔میاں طفیل محمد نے اس کا واضح جواب دیا کہ نہ طلبہ میں ہمارا کوئی کارکن یا رکن ہے اور نہ ہی سرکاری محکمہ ریلوے میں ہے۔ یہ دونوں باتیں کیماڑی کی حد تک غلط تھیں۔ ہم نے یہ بیان پڑھا، فکرمند ہوئے کہ یہاں کی سی آئی ڈی کو معلوم ہے کہ ہم تین کارکن طالب علم ہیں اور ہمارے ناظم محمودالحسن واسطی ریلوے کے بڑے افسر ہیں اور ساتھ میں رکن جماعت بھی ہیں۔ ہم نے جنگ اخبار خریدا اور واسطی صاحب کے دفتر پہنچ گئے جو کیماڑی کی بندرگاہ کے اندر برتھ نمبر10 پر تھا۔ ان کو صورت ِحال بتائی۔ انہوں نے کہا کہ شام کو آرام باغ میں دفتر جماعت اسلامی کراچی میں امیر جماعت چودھری غلام محمد سے ملتے ہیں اور ان کے فیصلے پر عمل کریں گے۔اسی شام ہم پوچھتے پوچھتے دفتر پہنچے تو واسطی صاحب پہلے سے موجود تھے۔انہوں نے ہم ہی سے بات کرنے کو کہا۔چودھری صاحب نے پوری بات سن کر توجہ دلانے پر ہمارا شکریہ ادا کیا اور واسطی صاحب سے رکنیت سے استعفیٰ لیا اور ہمیں پیار بھری ڈانٹ پلائی کہ تم طالب علموں کا جماعت اسلامی میں کیا کام ہے! اسلامی جمعیت طلبہ میں جاؤ، اس میں کام کرو۔انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے دفتر کا پتا بتایا اور کہاکہ وہاں جاؤ اور سید منورحسن سے ملو جو جمعیت کراچی کے ناظم ہیں۔دفتر سے جاتے وقت انہوں نے ہمیں کہا کہ مجھ سے ملتے رہا کرو۔اس طرح چودھری صاحب سے ہمارا رابطہ ہوگیا جنہوں نے بعد میں ہر وقت شفقتِ پدری کا مظاہرہ کیا۔ہم نے جمعیت کے دفتر میں منوربھائی سے ملاقات کی اور جمعیت میں شامل ہوگئے۔ اس طرح ہمیں چودھری صاحب کی شکل میں سرپرست اور سید منورحسن اور جمعیت کے ساتھیوں کی شکل میں بھائی مل گئے۔

فرائیڈے اسپیشل:کس چیز نے آپ کو صحافی بننے کی ترغیب دی؟

عارف الحق عارف: اب دیکھیے کہ ہمارا کراچی میں ایک نیا خاندان بن رہا ہے۔ وہ ایک نظریاتی خاندان ہے جس کی بنیاد 1941ء میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒنے لاہور میں رکھی۔اس خاندان کا نام جماعت اسلامی یا تحریکِ اسلامی ہے۔چودھری غلام محمد امیر جماعت اسلامی کراچی اس کے سربراہ اور ہمارے سرپرست ہیں۔ہم نے1964ء میں انٹر کیا، اُن کو اس کی اطلاع دی تو انہوں نے جماعت کے دفتر میں اس خوشی میں مٹھائی بانٹی کہ میرا بیٹا پاس ہوا ہے۔1966ء میں بی اے کیا اور ان کو بتایا تو انہوں نے اس پر بھی خوشی کا اسی طرح مٹھائی بانٹ کر اظہار کیا۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ چودھری صاحب اب ہم آگے کیا پڑھیں؟ انہوں نے کچھ سوچنے کے بعد ہم سے پوچھا:’’تمہاری انگریزی کیسی ہے؟‘‘ ہم نے بتایا ’’جی بہتوں سے بہتر‘‘، تو فوری طور پر فیصلہ سنا دیا’’آپ صحافی بنو گے‘‘۔ اس طرح انہوں نے ہماری اسی طرح کیریئر پلاننگ کی جس طرح کوئی اپنے بچوں کی کرتا ہے۔ انہوں نے ہی ہمیں کراچی یونیورسٹی میں صحافت کے شعبے میں داخلے کا مشورہ دیا اور ہم نے داخلہ لے لیا۔

فرائیڈے اسپیشل:عملی صحافت میں کب اور کیسے آئے؟

عارف الحق عارف:ہم نے عملی صحافت کا آغاز روزنامہ جنگ سے 16 اپریل1967ء کو کیا۔جب چودھری غلام محمد نے ہمیں صحافت میں آنے کا مشورہ دیا تو ہم نے ان سے یہ سوال کیا کہ ملک میں اردو کے اخبارات چند ہی ہیں اور ان میں صحافیوں کی تعداد بھی کچھ زیادہ نہیں ہے تو ہم وہاں کیسے اپنی جگہ بنا سکیں گے؟ تو چودھری صاحب نے ہمیں پہلے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخل ہونے کا مشورہ دیا۔ ہم نے داخلہ لے لیااور ان کو اس کی اطلاع دی تو انہوں نے ہمیں جنگ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر یوسف صدیقی کے پاس بھیجا۔ہم چودھری صاحب کے حوالے سے ان کے پاس گئے۔ انہوں نے ہم سے برطانیہ کے کسی اخبار کے ایک آرٹیکل کا اردو میں ترجمہ کرایا اور کہا کہ جب جنگ میں جگہ نکلے گی تو اطلاع دے دی جائے گی۔یہ مرحلہ چند ماہ بعد اُس وقت آیا جب روزنامہ مشرق کے کراچی سے اپریل1967ء سے جاری کرنے کا اعلان ہوا۔ جنگ میں کراچی یونیورسٹی سے ہم سمیت چار طلبہ قمر عباس جعفری، فیض اللہ بیگ اور ظہیر کو منتخب کیا گیا۔اس طرح ہمارا جنگ میں تقرر ہوا۔ان میں سے دو فیض اللہ اور ظہیر اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوچکے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے۔

فرائیڈے اسپیشل:کیا آپ صحافت میں اپنے ابتدائی سالوں کے بارے میں یادداشت سے کچھ بتا سکتے ہیں؟

عارف الحق عارف:جس وقت ہم نے عملی صحافت میں قدم رکھا،اُس وقت ایوب خان کی حکومت کا عروج تھا، اس کو دس سال ہونے والے تھے اور وہ عشرہ اصلاحات منانے کا پروگرام بنارہی تھی۔لیکن اس کے ساتھ ملک میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے جمہوریت کی بحالی کی تحریک بھی چل رہی تھی۔ایوب کابینہ کے اہم رکن وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت سے علیحدہ ہوکر پیپلز پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنا لی تھی۔اس لیے ملک میں افراتفری کی سی کیفیت تھی۔اس کے ساتھ ساتھ ملک میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست بھی اپنے عروج پر تھی اور اس کا زیادہ زور مزدوروں میں تھا۔صحافیوں میں بھی تقسیم نہ صرف واضح تھی بلکہ زوروں پر تھی اور بائیں بازو اور آزاد خیال صحافیوں کا گروپ اخبارات،ریڈیو اور پاکستان ٹیلی ویژن میں چھایا ہوا تھا اور اہم عہدوں پر فائز تھا۔اسلام پسند صحافی تعداد میں کم تھے اور مخالف گروپ ان کو ہلکے پھلکے طنز و تشنیع کا نشانہ بنائے رکھتے تھے۔لیکن اس کے باوجود وہ ان کو برداشت کرتے تھے اور ان کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ بھی کرتے تھے۔اُس وقت صحافت میں بڑے قد آور صحافی موجود تھے جن کے ساتھ ہمیں کام کرنے اور ان سے صحافت کے اسرار و رموز سیکھنے کے وافر مواقع ملے۔صرف جنگ میں ایسے صحافیوں کی کہکشاں سی تھی جو میرِ صحافت میرخلیل الرحمٰن کے گرد روشن ستاروں کی مانند اپنی صحافت کی روشنی پھیلا رہے تھے۔ان میں سید محمد تقی جیسا فلسفی، سید رئیس امروہوی اور استاد نازش حیدری جیسے شاعر اور قطع نگار،یوسف صدیقی جیسا ملک کا سب سے بڑا ایڈیٹر، افضل صدیقی جیسا نیوز ایڈیٹر، ابراہیم جلیس اور انعام درانی جیسے بڑے مزاحیہ کالم نگار،شفیع عقیل جیسا ادیب، شاعر اور میگزین ایڈیٹر، ارشاد احمد زیدی (آئی اے زیدی) جیسا بڑا کارٹونسٹ، محمد خالد فاروقی جیسا بڑا اداریہ نویس، سید ظفر رضوی اور ارشاد احمد چغتائی جیسے ڈسٹرکٹ ایڈیٹر، عبدالکریم عابد جیسا ہر موضوع پر عبور رکھنے والا صحافی، محمود شام جیسا ادیب اور شاعر، نثار زبیری جیسا کمال پرست سٹی ایڈیٹر، مجیب الرحمٰن جیسا انٹر ویو نگار، محمدقریشی اور اسرار احمد جیسے فوٹو گرافر، اجمل دہلوی اور سید محمود احمد مدنی اور یونس ریاض جیسے مکمل خبر نویس اور حافظ اسلام جیسا چیف رپورٹر، کنور افضالی اور حامد سعیدی جیسے کرائم رپورٹر اور داؤد سبحانی جیسے رپورٹر اور فوٹو جرنلسٹ، واجد شمس الحسن اور ایس ایم فضل جیسے انگریزی کے صحافی شامل تھے۔آپ بلا خوف ِتردید کہہ سکتے ہیں کہ کسی ایک اخبار میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے اتنے با کمال صحافی اور اخبار نویس نہیں تھے جیسے جنگ کے بانی میرخلیل الرحمٰن جیسے مردم شناس نے اپنے جنگ گروپ میں جمع کررکھے تھے۔ان کی اکثریت بائیں بازو اور آزاد خیال تھی لیکن ہم نے جماعتی ہوتے ہوئے ان سے سیکھا اور انہوں نے سکھایا۔

فرائیڈے اسپیشل: سرخ اور سبز کی گہری کشمکش کے باوجود آپ کہتے ہیں کہ آپس میں بڑی رواداری کا ماحول تھا۔کسی مثال سے اس کو بیان کرسکیں تو مہربانی ہوگی۔

عارف الحق عارف: دونوں باتیں درست ہیں کہ دائیں اور بائیں بازو کی خلیج بڑی وسیع تھی،پورا ملک ’’سبز ہے سبز ہے ایشیا سبز ہے‘‘، ’’سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے‘‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا،ایک دوسرے کے خلاف جذبات بھی بڑے شدید تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا رجحان بھی تھا۔اس کی ایک مثال ہماری منگنی ہیجو1969ء میں ہماری کیماڑی والی امی اور ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کی والدہ باجی جان نے مشترکہ کوششوں سے ایک متوسط گھرانے میں کی تھی اور جس کو ہم نے لڑکی دیکھے بغیر قبول کر لیا تھا۔ ہماری ہونے والی بیگم کے ایک بھائی لاہور میں رہتے تھے۔ منگنی ہونے کے بعد وہ کراچی آئے اور اپنے طور پر ہمارے بارے میں پوچھ تاچھ کرنے ہماری چھٹی والے دن روزنامہ جنگ کے دفتر بھی آئے۔ اُس زمانے میں آج کی طرح سیکو رٹی نہیں ہوتی تھی، ہر شخص خبر دینے نیوز روم میں آسکتا تھا۔ چنانچہ وہ بھی بآسانی جنگ بلڈنگ کی دوسری منزل پر واقع نیوز روم میں پہنچ گئے۔ ظفر رضوی فون پر بات کررہے تھے،فارغ ہوئے تو اُن کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ ’’بھائی صاحب آپ کیوں یہاں کھڑے ہیں؟ اپنی خبر دیں اور جائیں‘‘۔ اُس زمانے میں لوگ خبر دینے کیلیے نیوز روم تک آجاتے تھے۔خلیل بھائی نے جواب میں کہا کہ ’’میں خبر دینے نہیں،آپ سے ایک خبر لینے آیا ہوں‘‘ اور ساتھ ہی اپنی آمد کا مقصد بیان کیا ’’آپ کے یہاں عارف الحق نام کا ایک لڑکا کام کرتا ہے، اس کے ساتھ میری بہن کا رشتہ طے ہواہے۔ مَیں اُس کے بارے میں کچھ معلومات اور آپ کی رائے لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں‘‘۔ ظفر رضوی نے کہا ’’پوچھیے کیا پوچھنا ہے؟‘‘ انہوں نے وہ سارے سوال پوچھ ڈالے جو ہمارے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے۔ ظفر رضوی نے ایک ایک سوال کا جواب دیا اور تصدیق کی کہ ’’مولوی صاحب یہاں سب ایڈیٹر ہیں، اُن کی تنخواہ اتنے روپے ماہانہ ہے۔ بڑے شریف اور شرمیلے سے ہیں، ہماری پوری کوشش کے باوجود گالم گلوچ کی طرف مائل نہیں ہیں‘‘۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد ظفر رضوی صاحب نے اُن سے جو کچھ کہا، اُس نے خلیل بھائی کو حیران کردیا۔ ظفر بھائی نے ذرا بلند آواز میں کہا کہ ’’بھائی صاحب! آپ نے بہت اچھا کیا کہ اس رشتے کے بارے میں پوچھ گچھ کررہے ہیں اور اس سلسلے میں میرے پاس بھی آئے ہیں۔ مَیں آپ کو یہ سب کچھ بتانے کے بعد اتنا ضرور کہوں گا کہ میرے اور عارف کے نظریات اور مذہبی مسلک میں بڑا فرق ہے، مَیں سوشلسٹ ہوں، وہ ’’جماعتیہ‘‘ ہے۔ مَیں شیعہ ہوں، وہ سنّی ہے۔ ہمارے اختلافات اس قدر ہیں کہ اگر ہم ایک دوسرے کی مخالفت میں ساری حدود بھی پار کردیں تو کسی کو تعجب نہ ہوگا۔ مگر اس لڑکے کو مَیں نے جتنا اس دو ڈھائی سال کے عرصے میں دیکھا اور پرکھا ہے اور جتنا اس کی ذات کو جان پایا ہوں، اس کے بعد صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اگر میری کوئی بیٹی یا بہن ہوتی اور عارف کا رشتہ آتا تو مَیں آنکھیں بند کرکے ہاں کردیتا اور یہ میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہوتی۔ آپ بھی ایسا ہی کریں۔‘‘ ظفر رضوی کی اس بات نے ان کو بڑا حیران اور متاثر کیا اور ان کی پوچھ گچھ مہم کا یہ آخری دورہ ثابت ہوا۔ انہوں نے اس کے بعد اس رشتے کو مضبوط کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ ظفر رضوی نے ہم سے اِس واقعے کا ذکر کبھی نہیں کیا تھا،اور نہ ہی خلیل بھائی نے اس تفتیش کے بارے میں کچھ بتایا۔ ہمیں اس کا علم شادی کے قریباً دس سال بعد اُس وقت ہوا جب لاہور میں ایک بار بھائی خلیل نے ہم سے ظفر رضوی صاحب کی خیریت دریافت کی۔ ہم نے حیرانی سے پوچھا ’’آپ ظفر بھائی کو کیسے جانتے ہیں؟‘‘ تب انہوں نے یہ سارا واقعہ سنایا۔ ہم حیران تھے کہ اُن دونوں میں سے کسی ایک نے بھی ہمیں یہ بات نہیں بتائی تھی۔ کراچی واپسی کے بعد جب ہم نے دفتر آکر ظفر رضوی صاحب سے اس بات کا تذکرہ کیا تو انہوں نے جواب دیا ’’مجھے آپ کے سالے صاحب نے سختی سے منع کردیا تھا، وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس ’معلوماتی دورے‘ کی اطلاع آپ تک پہنچے۔ مَیں تو بس اس وعدے کی پاس داری کررہا تھا۔‘‘یہ تھا ہمارے استاد ِمحترم سوشلسٹ سید ظفر رضوی کا کردار۔