کشمیر اسمبلی کے انتخابات… بھارت کا ایک اور دردِ سر

وزیراعلیٰ کو بے اختیار کرنے کے بعد انتخابات کا فیصلہ

مقبوضہ جموں وکشمیر میں تمام تر سیاسی اہداف حاصل کرنے کے بعد بالآخر مودی حکومت نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کرلیا۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے ستمبر کے مہینے میں تین مراحل میں مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ یہ انتخابات 18ستمبر، 25 ستمبر اور یکم اکتوبر کو منعقد ہوں گے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی 75 نشستوں پر براہِ راست انتخابات ہوتے ہیں، جبکہ پسماندہ ذاتوں کے لیے 7 اور پسماندہ قبائل کے لیے 9 نشستیں مختص ہیں۔

مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی کا آخری انتخاب 2014ء میں ہوا تھا، جس کے نتیجے میں محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مخلوط حکومت قائم کی تھی، مگر دوانتہاؤں کی یہ ساجھے داری زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکی تھی۔ اس دوران کشمیر کے نوجوان اور مقبول پوسٹر بوائے برہان وانی کی شہادت ہوئی جس نے کشمیر میں ایک طوفان برپا کردیا تھا۔ اس طوفان کی لہروں میں محبوبہ مفتی اور بی جے پی کی حکومت بھی بہہ گئی تھی، جس کے بعد سے کشمیر میں گورنر راج نافذ چلا آرہا ہے۔ اسی دوران 5 اگست 2019ء کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کرکے حالات کی بساط ہی اُلٹ دی تھی۔ اس فیصلے کو درجنوں درخواستوں کے ذریعے کشمیریوں نے بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا مگر بھارتی عدالت نے اس رٹ کو سماعت کرنے میں چار سال لگا دیے تھے، جس کے بعد سماعت شروع ہوئی تو اس سے سوائے اس کے کچھ برآمد نہ ہوسکا کہ 30 ستمبر تک کشمیر اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ اب عدالت کے اسی حکم کے تحت بھارتی حکومت نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات منعقد کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سے پہلے بھارتی حکومت نے ایسے بے شمار اقدامات کیے ہیں جن کے نتیجے میں انتخابات اور اسمبلی کے ذریعے عوامی شرکت اب بے وقعت اور بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔ جموں وکشمیر کا لیفٹیننٹ گورنر دہلی کا نمائندہ ہے، اور دہلی کا کردار غالب رکھنے کے لیے انتخابات سے پہلے ہی گورنر کے اختیارات میں اس قدر غیر معمولی اضافہ کیا گیا ہے کہ اب کشمیر کے وزیراعلیٰ کی حیثیت اس کے پرائیویٹ سیکرٹری کی سی ہوگی۔ اس طرح طاقت کا توازن کشمیری عوام کے بجائے دہلی کی طرف ہوگیا ہے، حتیٰ کہ کشمیر پولیس بھی گورنر کی نگرانی میں ہوگی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصل انتظامی اختیار گورنر کا ہوگا۔ اختیارات کے اس عدم توازن کے ساتھ عوامی نمائندہ یعنی وزیراعلیٰ کلی طور پر بے اختیار ہوگا۔ یہ ساری پیش بندی کرنے کے بعد اب کشمیر اسمبلی کے انتخابات منعقد کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی کی پراکسی جماعتوں کا حشر دیکھنے کے بعد اب بھارت کی پوری کوشش ہوگی کہ وادی کا مسلمان ووٹ تقسیم کا شکار ہوجائے۔ وادی میں فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی دوبڑی جماعتوں کے طور پر موجود ہیں اور دونوں جماعتوں کو عوام میں پذیرائی حاصل ہے۔ گوکہ لوک سبھا انتخابات میں دونوں جماعتوں کی قیادت عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو شکست سے دوچار ہونا پڑا مگر ریاستی اسمبلی کے انتخابات کی نوعیت اس سے قطعی مختلف ہے۔ محبوبہ مفتی نے تو اعلانیہ کہہ دیا ہے کہ گورنر کو تمام اختیارات کا منبع بنانے کے بعد اب کشمیر میں ہونے والے انتخابات کی اہمیت باقی نہیں رہی۔ انہوں نے ان انتخابات کے بائیکاٹ کا عندیہ بھی دیا ہے۔ محبوبہ مفتی کی جماعت انتخابی عمل سے باہر نکل جاتی ہے تو اس سے کشمیر کے مسلم ووٹ کی تقسیم کے امکانات کم ہوجائیں گے اور یوں نیشنل کانفرنس وادی کی زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکتی ہے، اس سے بی جے پی کا وزیراعلیٰ لانے کا منصوبہ بھی ناکام ہوسکتا ہے۔ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ اِس وقت کشمیر کی سیاست میں ایسی تقسیم پیدا کردی جائے کہ اس کے لیے اپنے مستقبل کے خاکوں میں رنگ بھرنا آسان ہوجائے۔ بھارت کا مستقبل کا خاکہ یہی ہے کہ کشمیر کو رفتہ رفتہ ہندو شناخت اور آبادی والی ریاست بنادیا جائے۔ پانچ سال سے بھارت کے ہر فیصلے کی ڈور کا سرا اسی سوچ سے جاملتا ہے۔ ایسے میں لوک سبھا کے انتخابات سے بھی بھارت کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ وادی کے تین ارکان میں سے انجینئر رشید تو تہاڑ جیل میں مقید ہیں اور انہیں لوک سبھا کا حلف لینے کے لیے پیرول پر بھی رہا نہ کیا گیا، مگر دو دیگر ارکان لوک سبھا میں بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں، بالخصوص آغا روح اللہ بہت جرات مندانہ انداز سے کشمیری عوام کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے لوک سبھا میں نریندرمودی اور امیت شاہ کی موجودگی میں پانچ اگست کے فیصلے کو ڈاکا قراردیا تو دونوں کی تلملاہٹ اُن کے چہروں سے عیاں تھیں۔ آغا روح اللہ نے کہا کہ ہم سے سب کچھ چھین لیا گیا اور یہ بدترین ڈاکا ہے، ہمیں اس کو تسلیم کرنے کا کہا جا رہا ہے جسے ہم کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ اسی طرح کی تقاریر اگر کشمیر اسمبلی میں ہونے لگیں تو پانچ اگست کی حقیقت دنیا پر مزید عیاں ہوتی جائے گی۔ اسی سوچ کے تحت بھارت نے کشمیر میں جمہوری عمل کو پانچ سال تک دبائے رکھا تھا تاکہ لوگوں کو بولنے کے لیے ایک پلیٹ فارم میسر نہ آئے۔ چار وناچار بھارت کو اس فیصلے پر نظرثانی کرنا پڑی کیونکہ غیر معینہ مدت تک کشمیر کو اس حالت میں رکھنا ممکن نہیں تھا۔