5 سالہ اقتصادی منصوبے کا اعلان

قوتِ خرید کم ہونے کی وجہ سے 82 فیصد پاکستانی صحت بخش مکمل خوراک سے محروم ہیں

جب ملکی مسائل کے حل کی بات آتی ہے تو ہمیں ایک بھی دن ایسا نظر نہیں آتا جب اہلِ اقتدار مسائل کے حل کے لیے عوام کی سطح پر آکر سوچتے ہوں۔ ملک میں عوام اور اشرافیہ کے مابین بہت بڑا فاصلہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید بڑھتا چلا جارہا ہے۔ عوام پہلے ووٹ دینے والی مشین تھے اب بجلی، گیس کے بلوں کی ادائیگی کرنے والی مخلوق بن چکے ہیں، اب یہ بل بوجھ بن رہے ہیں، جس کے نتیجے میں کہیں خودکشی کے واقعات ہورہے ہیں اور کہیں ایک دوسرے کی جان لی جارہی ہے، اس کے باوجود اشرافیہ کو صرف اپنے حل کی فکر ہے، اور یہ فکر کھائے چلی جارہی ہے کہ ان کی مراعات کم کرنے کی کوشش کیوں ہورہی ہے؟ ماضی کے حکمرانوں کی طرح آج وزیراعظم شہبازشریف متعدد بار دعویٰ کرچکے ہیں کہ حکومت جلد ہی آئندہ پانچ سال کے لیے معاشی منصوبے کا اعلان کرے گی۔ ابھی تک اس پلان کے خدوخال سامنے نہیں آئے کہ اس کا تجزیہ کیا جاسکے۔ اس پر اُس وقت گفتگو مناسب ہوگی جب ان فیصلوں کے نتائج سامنے آئیں گے۔

پاکستان نے اپنے ابتدائی برسوں میں پانچ سالہ اقتصادی منصوبوں کی مدد سے جو معاشی فوائد حاصل کیے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ہمارے یہ منصوبے کس حد تک فائدہ مند تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ ملکوں نے انھیں رہنما بناکر اپنے معاشی مسائل کے حل کے لیے کام شروع کیا، اور آج وہ دنیا میں مستحکم معیشت کے حامل شمار کیے جاتے ہیں۔ ہمارا پہلا پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ 1955ء میں نافذ کیا گیا تھا جو منصوبہ بندی بورڈ کے سربراہ زاہد حسین کی رہنمائی میں تیار کیا گیا تھا، انہوں نے آئی ایم ایف کے بغیر یہ منصوبہ بنایا تھا۔ اُن کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف کے اثر سے آزاد ماہرِ معیشت نہیں ملا۔ پاکستان کے ابتدائی ایام میں ہی یہ پہلو سامنے آگیا تھا کہ ملکی معیشت پر مخصوص خاندان قابض ہیں۔ اس کی ایک ہلکی سی جھلک یہ ہے کہ ملکی معیشت پر ماضی میں 22 خاندان مسلط رہے ہیں، ان کی تعداد اب تین گنا ہوچکی ہے۔ جس دور میں یہ بائیس خاندان قومی معیشت کے گرد باڑھ لگائے بیٹھے تھے اُس زمانے میں قومی بنکوں کے پاس92 ارب روپے تھے، یہ 1960ء کی دہائی کی بات ہے، اور اُس وقت بنکوں نے کھاتے داروں کی جمع کرائی گئی رقوم کا 90 فی صد انہی کاروباری خاندانوں کو بزنس میں توسیع کے لیے بطور قرض دینے کے لیے رکھا ہوتا تھا۔ بنکوں میں یہ رقم قلیل آمدنی والے خاندانوں نے بچت کے لیے جمع کرائی ہوتی تھی جنہیں بوقتِ ضرورت قرض نہیں ملتا تھا، بلکہ ایسے لوگوں کے لیے بنکوں کے پاس کُل سرمائے کا محض دس فی صد رقم میسر ہوتی تھی، جب کہ کاروباری خاندانوں کے لیے قرض کی رقم 90 فی صد کی حد تک رکھی جاتی تھی۔ یہی سلسلہ آج بھی مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ ابھی چار سال قبل کورونا کے دور میں تحریک انصاف کی حکومت نے صرف تین خاندانوں کو کورونا کے باعث ہونے والے نقصان کی تلافی کے لیے تین ارب ڈالر کی رقم زیرو شرح سود پر مہیا کی تھی، بلکہ اسٹیٹ بنک نے تو پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو ان خاندانوں کے نام بتانے سے بھی انکار کردیا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت ملک میں بجلی کی تقسیم کی چار کمپنیاں تھیں: کراچی الیکٹرک، ملتان، راولپنڈی اور کوئٹہ۔ ان میں سب سے زیادہ منافع ملتان الیکٹرک کماتی تھی۔ ان چاروں کمپنیوں میں اُس وقت کے بڑے کاروباری خاندان ہی ڈائریکٹرز میں شامل تھے، یہی لوگ آج بھی نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے اور حکومت کو فروخت کرنے والی کمپنیوں کے مالک ہیں۔ یہی صورتِ حال گھی، ٹیکسٹائل اور شوگر ملز کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کاروباری مافیا نے ملکی معیشت کو جکڑ رکھا ہے اور حکومت ان کے سامنے بے بس ہے یا خود اس نظام کی سرپرست ہے۔

یہ بات حکومتِ پاکستان کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ 1968ء میں ملک میں صنعتی اداروں کے 20 مالکان کو ایک ارب پچیس کروڑ روپے کا منافع ہوا تھا، جبکہ اُس وقت مزدور کی ماہانہ تنخواہ68 روپے تھی۔ یہ تفاوت وقت کے ساتھ اسی طرح بڑھتا رہا، آج منافع کی حد کھربوں کو چھو رہی ہے اور مزدور آج بھی دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔ اس پورے نظام کو بدلنے کے لیے ملک میں بہت بڑی تحریک کی ضرورت ہے جو انصاف پر مبنی معاشی نظام اس ملک میں نافذ کرنے کی راہ ہموار کرسکے۔

توانائی کی قلّت، خصوصاً بجلی کی پیداوار، تقسیم اور نرخ پاکستان کے ایسے سنگین مسائل ہیں جو عشروں سے عوام کے مصائب ومشکلات میں اضافہ کرتے آئے ہیں۔ ہر حکومت دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ ایسے اقدامات کررہی ہے جن کے نتیجے میں لوگوں کو ریلیف ملے گا اور ان کی زندگی آسان ہوجائے گی۔ لیکن کرپشن، بدنظمی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے عام آدمی کی شکایات کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی گئیں۔ اس کی تازہ ترین مثال آئی پی پی کے غیرمنصفانہ معاہدوں، بجلی کی چوری، مہنگے ایندھن کے استعمال اور اہل کاروں کی غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے جاری ہونے والے بجلی کے بھاری بل ہیں جو صارفین پر بجلی بن کر گرے ہیں۔ توانائی کے بحران سے زراعت اور صنعت دونوں متاثر ہورہی ہیں، تجارتی خسارہ الگ سے بڑھ رہا ہے۔ بلاشبہ پاکستان میں بجلی سستی ہوسکتی ہے لیکن اس معاملے میں بجلی کمپنیوں سے ہونے والے غیرمنصفانہ معاہدوں پر نظرثانی، مہنگے ڈیزل، پیٹرول اور گیس کے بجائے پانی، ہوا،کوئلے اور سورج کی روشنی سے بجلی کی پیداوار بڑھانا اشد ضروری ہے، اور بجلی کی چوری روکنا اور ترسیل کا نظام بہتر بنانا بھی وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔

پنجاب حکومت نے 201 سے 500 یونٹ تک استعمال کرنے والے صارفین کے لیے دو ماہ کے لیے بجلی کے بلوں میں 14 روپے فی یونٹ کمی کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اعلان نہ صرف نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے تحت ٹیرف میں 2.56 روپے فی یونٹ اضافے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے، بلکہ یہ فیصلہ آئی ایم ایف کے ساتھ ملین ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت کے نام پر ہونے والے معاہدے سے مشروط ہے۔ پنجاب میں صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں دو ماہ کے ریلیف کا اعلان ابھی کسی بڑے امتحان سے گزرے گا، کیونکہ پاور سیکٹر کے لیے کُل بجٹ کی وفاقی سبسڈی 1.6 ٹریلین روپے سے کچھ زیادہ ہے۔ پنجاب کی حد تک یہ واضح نہیں ہے کہ سبسڈی کے لیے 45 ارب روپے کی مالی اعانت کے لیے کون سے اخراجات میں کٹوتی کی جائے گی؟ اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ آیا اس کا اثر بجٹ کے 630 بلین روپے پنجاب کے صوبائی سرپلس پر پڑے گا جس پر وفاقی حکومت اور فنڈ کے ساتھ اتفاق کیا گیا ہے، جب کہ آئی ایم ایف متفق ہے کہ سبسڈیز بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ادا کی جائیں۔ آئی ایم ایف بھی یہ جاننے میں دلچسپی لے گا کہ اس اقدام سے پنجاب حکومت کے وفاقی بجٹ میں سرپلس کی پیداوار پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اور اگر صوبائی سرپلس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا تو پیسہ کہاں سے آئے گا؟ یہی سوال آج یا کل اٹھے گا اور حکومت ایک نئے امتحان میں گھر جائے گی۔

اسلام آباد میں اقتدار کی راہداریوں میں یہ بات کہی اور سنی جارہی ہے کہ ستمبر کا دوسرا اور تیسرا ہفتہ ملکی سیاست کے لیے بہت اہم ہے۔ انہی راہداریوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے خیال میں آئندہ 10 ہفتے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، اکتوبر کے آخری ہفتے میں ہونے والی تبدیلی کے معاملے نے کئی ایوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پہلی بات عدلیہ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد ہے، اگرچہ حکومت کی جانب سے وضاحت دی جا چکی ہے کہ وہ اب ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کا ارادہ نہیں رکھتی، مگر حکومتی اقدامات کچھ اور ہی اشارہ کررہے ہیں۔ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد روکنے بلکہ اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کے عمل نے اکتوبر میں ہونے والی تبدیلی کے معاملے پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس معاملے پر شکوک و شبہات میں اُس وقت مزید اضافہ ہوا جب حکومت نے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے شروع کردیے تاکہ آئینی ترمیم کرسکے، مگر خواتین کی مخصوص نشستوں کے عدلیہ کے فیصلے نے حکومت کے قدم قدرے روک دیے ہیں، تاہم معاملہ ابھی بھی گرم ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن بھی خاموشی کے ساتھ متحرک ہے، وہ عام انتخابات کے نتائج کو چیلنج کرنے والی ہے، اگر ایسا ہوگیا اور عدالتی فیصلہ بھی اپوزیشن کے حق میں آگیا تو ملک میں ایک آئینی بحران ضرور جنم لے گا، اسی خوف کے پیش نظر حکومت کچھ اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انتخابی عذرداریوں کی سماعت کے لیے حاضر سروس کے بجائے سابق ججوں کو لانے کا قانون پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا۔ حکومت کا خیال ہے کہ عدلیہ میں بڑی تبدیلی کے بعد ٹریبونلز کے معاملات اور الیکشن کی شفافیت سے متعلق پٹیشنز اس کے لیے مسائل پیدا کرسکتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے گزشتہ ہفتے پنشنرز سے متعلق کیس کے فیصلے کے ذریعے اور اس کے بعد ایک تقریب سے خطاب کے دوران بڑا واضح پیغام دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ہر صورت عمل درآمد کرنا ہوگا ورنہ اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ تقریب سے خطاب کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تھا کہ انتظامی اداروں کو سمجھنا ہوگا کہ ان کے پاس سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کے سوا کوئی چوائس نہیں، عدالتی فیصلہ ٹھیک ہے یا نہیں، یہ کہنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔ عدلیہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں سنگین نتائج سے بھی آگاہ کررہی ہے۔ اب مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی تحریری فیصلہ موجودہ صورتِ حال میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ حکومتی طرز عمل اور اس پر عدلیہ کا ردعمل بہت کچھ بتا رہا ہے۔

ایک اور معاملہ جو حکومتی عزائم کی خبر دے رہا ہے وہ نئے چیف جسٹس کے تقرر کے نوٹیفکیشن کا ٹائم فریم ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جب چیف جسٹس آف پاکستان بنے تو اُن کی تقرری کا نوٹیفکیشن حکومت نے تین ماہ قبل ہی جاری کردیا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو ریٹائر ہورہے ہیں، ان کے بعد کیا ہوگا؟ کیا انہیں توسیع مل جائے گی؟ یہی سوال ہے جس کا جواب اسلام آباد میں اقتدار کی راہداریوں میں تلاش کیا جارہا ہے۔

حکومت کو بجلی کے فی یونٹ نرخ طے کرنے کا معاملہ اس قدر ہلا چکا ہے کہ اقتدار کی چولیں ہل رہی ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں کمی لانے کے لیے جماعت اسلامی کے دھرنے کے دوران جو مذاکرات ہوئے اُن میں حکومت نے جماعت اسلامی کو آگاہ کیا تھا کہ وہ اس بات کا جائزہ لے گی کہ آئی پی پی کے حوالے سے کس حد تک جا سکتی ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے صارفین کو ٹیرف میں کس قدر ریلیف فراہم کرسکتی ہے۔ سیکرٹری پاور کا مؤقف یہی ہے کہ بجلی کی قیمتیں آئی ایم ایف کے دباؤ کی وجہ سے بڑھائی گئی ہیں جو صارفین سے پوری لاگت کی وصولی چاہتا ہے۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے معاشی سروے برائے سال 24-2023ء کا اجرا کیا جا چکا ہے۔ یہ سروے گزشتہ مالی سال کی معاشی کارکردگی اور آنے والے خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ فنانس ڈویژن کی جانب سے جاری سروے اس خطرے کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ شرح مستقبل کی معاشی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے ناکافی ہے۔ صنعتوں کو درپیش مسائل کا اعادہ کرتے ہوئے سروے میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ بڑی صنعتوں کی منفی نمو کی بنیادی وجوہات میں پیداواری لاگت میں اضافہ اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں شامل ہیں۔ اگر حکومتی آمدنی اور اخراجات میں فرق کو دیکھا جائے تو آمدنی اخراجات سے زیادہ ہے، یہ اطمینان بخش ہے۔ گویا ہماری ساری اقتصادی مشکلات کی جڑ سودی قرضے ہیں۔ تاہم کُل بجٹ کا خسارہ مالی سال 2024ء کے پہلے 9 ماہ میں جی ڈی پی کا 3.7 فیصد رہا۔ تاہم پورے مالی سال کے حوالے سے سروے میں بجٹ کے خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کا 6.5 فیصد لگایا گیا ہے۔ اس خسارے کی بڑی وجہ سود کی ادائیگی ہے جوکہ کُل اخراجات کا 40 فیصد ہے۔ سود کی ادائیگی میں اضافے کی بنیادی وجہ اونچی شرح سود کو قرار دیا گیا ہے۔سروے میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ بڑھی ہوئی شرحِ سود سے سرمایہ کاری کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے جو کہ مہنگائی کا باعث ہوسکتا ہے۔ مہنگائی کے باعث لوگوں کی قوتِ خرید کم ہوئی ہے۔ ایک اوسط پاکستانی خاندان کو صحت بخش خوراک کے لیے کم ازکم ماہانہ 53 ہزار روپے چاہئیں، جو تقریباً 82 فیصد پاکستانی خاندان خرید نہیں سکتے۔ سروے میں اس بات کا بھی اظہار کیا گیا کہ لوگوں کی معاشی حالت بہت خراب ہے، بار بار کے آئی ایم ایف کے پروگرام نے حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے پر مجبور کردیا ہے، ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے، عوامی فلاح و بہبود پر کیے جانے والے اخراجات بشمول سبسڈی کم ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کا معیارِ زندگی اور کم ہوگیا ہے،ان سب سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط پالیسی کی ضرورت ہے جس میں معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام کا ہونا ناگزیر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قلیل مدت اور طویل مدت کے اہداف متعین کیے جائیں۔ ایک آزاد معاشی پالیسی اختیار کی جائے جس میں ملک کا مفاد مقدم ہو۔