آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کی گرفتاری
پاکستان میں احتساب چاہے سیاسی لوگوں کا ہو یا غیر سیاسی لوگوں یا اداروں کا… اس میں سیاسی اہداف، انتقام یا سیاسی دشمنی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں احتساب کا نعرہ شفافیت یا جواب دہی کو ممکن بنانے کے لیے نہیں بلکہ ایک مخصوص سیاسی ایجنڈے کی بنیاد پر سامنے لایا جاتا ہے۔ اس ملک کا اصل مسئلہ بدعنوانی یا لوٹ مار نہیں، بلکہ ان معاملات میں قومی سطح پر سیاسی سمجھوتے ہیں۔ ہم احتساب کو ایک مخصوص سیاسی ایجنڈے کی بنیاد پر کسی کی حمایت اور کسی کی مخالفت میں سامنے لاتے ہیں، اور اس عمل میں اپنے لیے سیاسی راستہ یا ذاتی مفاد بھی تلاش کرتے اور اسے یقینی بناتے ہیں۔ وہ لوگ، جن کے خلاف ہم آگے بڑھ کر کرپشن کے مقدمات بناتے ہیں، ان ہی سے سمجھوتے کرکے ان ہی کی مدد سے اقتدار کی بندر بانٹ بھی کرتے ہیں اورکرپٹ لوگوں کو اقتدار کی کرسی پر بٹھاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری ریاستی اور حکومتی ترجیحات میں کرپشن کا خاتمہ یا کرپٹ لوگوں کو احتساب کے شکنجے میں لانا شامل نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں کرپٹ لوگوں کا ایک دوسرے کو تحفظ دینا ہی قومی ترجیحات کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی جمہوری حکومتیں ہوں، یا جنرل ضیا الحق، جنرل پرویزمشرف یا جنرل قمر جاوید باجوہ کا فوجی حکومتی بندوبست… سب نے احتساب کے نعرے کو اپنے حق میں استعمال کیا اور اس پر قوم کے اربوں روپے بھی برباد کیے، مگر نتیجہ کرپشن اور بدعنوانی میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک طرف سیاسی حکومتیں اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کا کھیل ہے، جس سے ملک میں شفافیت کا نظام قائم نہیں ہوسکا۔ احتساب کے نام پر جذباتیت کا غلبہ ہے۔ اب ایک نیا مقدمہ یا نئی کہانی جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اور اُن کے ساتھیوں کی گرفتاری ہے۔ بظاہر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یہ معاملہ ہائوسنگ سوسائٹیوں میں موجود کرپشن سے جڑا ہوا ہے، لیکن لگتا ہے کہ اصل کہانی سیاسی عزائم سے ہی جڑی ہوئی ہے، کیونکہ جب سے جنرل(ر) فیض حمید کی گرفتاری ہوئی ہے یا اُن کے ساتھیوں کوگرفتار کیا گیا ہے، تب سے اس پر سیاست ہی سیاست ہورہی ہے۔ ایک فریق سمجھتا ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید نے سیاسی امور میں اپنے مخصوص ایجنڈے کی بنیاد پر مداخلت کی اور وہ مجرم ہیں۔ دوسری طرف اُن کا اور عمران خان کا تعلق جوڑا جاتا ہے کہ وہ عمران خان کو اقتدار میں بھی لائے اور اب جب وہ گرفتار ہیں تو اُن سے جنرل (ر)فیض حمید کے سیاسی رابطے ہیں اور 9مئی کے واقعات میں وہ عمران خان کے ساتھ ملوث ہیں۔ تیسری طرف جنرل (ر) فیض حمید کا تعلق مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی سمیت بعض ججوں کے ساتھ بھی جوڑا جارہا ہے، اور چوتھی طرف یہ سمجھا جارہا ہے کہ جو کچھ جنرل(ر) فیض حمید نے کیا اس میں آرمی چیف شامل نہیں تھے بلکہ انہوں نے یہ سب انفرادی سطح پر کیا۔ جبکہ خود وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض عمران خان کی حکومت کو گرانے کے کھیل کا حصہ تھے، یا یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جنرل فیض، عمران خان کے حامیوں کے ساتھ فوج میں رابطوں میں تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جنر ل(ر) فیض اس حد تک طاقت رکھتے تھے کہ وہ آرمی چیف سے بھی بالا ہوگئے تھے؟ اور جو کچھ وہ کررہے تھے اس میں جنرل باجوہ کی رضامندی شامل نہیں تھی؟ یقیناً ایسی کوئی بات نہیں ہوگی۔ اگر مسئلہ محض ہائوسنگ سوسائٹیوں کا ہے تو پھر یہ ساری سیاسی خبریں اخبارات اور میڈیا کی بحثوں میں کیوں شامل ہیں، اور کیا وجہ ہے کہ لوگ احتساب کے اس سارے عمل کو ایک بڑے سیاسی ایجنڈے کی بنیاد پر دیکھ رہے ہیں؟کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جو کچھ جنرل(ر) فیض حمید کے ساتھ ہورہا ہے اس کے تانے بانے عمران خان کے ساتھ جوڑے جارہے ہیں، اور مقصد عمران خان پر دبائو کو بڑھانا، یا اُن کے گرد دائرہ مزید تنگ کرکے انہیں قانون کے شکنجے میں لانا ہے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے مان لیا جائے کہ جنرل(ر) فیض کا سیاسی ایجنڈا تھا تو فوج کی سیاسی عمل میں مداخلت کی کہانی تو بہت پرانی ہے جو ختم ہونے کے بجائے مزید مضبوط شکل میں قومی سیاست کا حصہ بن چکی ہے۔ لیکن اگر یہ کہانی محض کرپشن اور بدعنوانی کی ہے تو پھر یہ عمل اتنی دیر سے کیوں شروع کیا گیا؟ اور کیا وجہ ہے کہ کرپٹ لوگ احتساب کے شکنجے میں نہیں لائے جاتے؟ کیونکہ ہائوسنگ سوسائٹیوں کے کاروبار میں تو درجنوں بڑے افراد شامل ہیں، اور جوکچھ انہوں نے کیا اس پر قانونی گرفت کیوں نہیں ہورہی؟ عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ فوج جنرل(ر) فیض کو میرے خلاف وعدہ معاف گواہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے تاکہ مجھے سول عدالتوں سے فوجی عدالت کی طرف دھکیلاجائے۔ اُن کے بقول اگر انہیں 9 مئی کے واقعات پر ڈر ہوتا تو وہ اس پر جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ ہی نہ کرتے۔
یقینی طور پر فوج کا اپنا داخلی احتساب کا نظام ہے، اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کا کورٹ مارشل تازہ ہوا کا جھونکا ہے،کیونکہ فوج نے باقی فوجی افسران کو پیغام دیا ہے کہ وہ ان معاملات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ معاملہ محض جنرل (ر) فیض حمید تک محدود نہیں رہے گا، اور جب یہ پنڈورا باکس کھلے گا تو کئی اور نام بھی سامنے آئیں گے جن میں وہ تمام سیاسی افراد بھی ہوں گے جو کسی نہ کسی شکل میں فائدے اٹھاتے رہے ہیں۔ اصل سوال فوج یا اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سیاسی عمل یا سیاسی فیصلوں میں مداخلتوں کا ہے۔ کیا پاکستان کی سیاست سے فوج کا کردار ختم ہوسکے گا؟ اور جو کچھ ماضی میں اس تناظر میں ہوا ہے یا آج بھی ہورہا ہے اس کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا؟ کیونکہ اگر ہمیں اس عمل کو روکنا ہے جس کی وجہ سے ہمارا سیاسی اور جمہوری نظام کمزور ہورہا ہے تو سیاسی اور جمہوری راستوں سمیت آئینی و قانونی بنیاد پر ہی اس ملک کے نظام کو چلانا چاہیے۔ اس وقت بھی جو کچھ پاکستان میں سیاسی بنیادوں پر ہورہا ہے یا انسانی سیاسی حقوق کی پامالی ہورہی ہے اس کا علاج کیسے ممکن ہوسکے گا؟کیونکہ پاکستان کے داخلی نظام کی ساکھ دنیا میں بری طرح متاثر ہورہی ہے اور ہماری جمہوری ساکھ سمیت آئینی ریاست ہونے پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ اس لیے ہمیں جہاں احتساب کے عمل کو یقینی بنانا ہے وہیں اپنی جمہوری ساکھ بہتر بنانا ہوگی اور ایک مضبوط سیاسی نظام کی طرف بھی پیش رفت کرنا ہوگی تاکہ ہم جمہوری بنیادوں پر آگے بڑھ سکیں۔ کیونکہ ہم پر داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر سوالات اٹھ رہے ہیں، جن سے ہم خود کو علیحدہ نہیں رکھ سکیں گے۔ یہ جو ہم طاقت کی بنیاد پر علاج تلاش کررہے ہیں اور سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی ہے وہ کارگر نہیں ہوسکے گی۔ ایک معاملہ یہ بھی ہورہا ہے کہ ہم غیر ضروری امور کو بنیاد بناکر قومی نوعیت کے اہم اور حساس مسائل سے خود کو علیحدہ کررہے ہیں۔ حالانکہ ہمیں مضبوط بنیادوں پر ایک روڈ میپ تلاش کرنا ہے، مگر ہماری حکمت عملی یہ ہے کہ نان ایشوز کو اجاگر کرکے قوم میں موجود حساسیت کو بڑھائیں اور لوگوں کو یکجا نہ ہونے دیں۔ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا ہے اس کا بھی خوف مجموعی طور پر پورے ریاستی وحکومتی نظام پر غالب ہے۔اس لیے حکمرانوںکو ڈر لگتا ہے کہ لوگ کہیں اشتعال میں آکر یا حالات سے تنگ ہوکر باہر نکلنے کی کوشش نہ کریں۔اس لیے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جو کچھ ہمیں قومی سیاسی اسکرین پر دکھایا جارہا ہے وہ پردے کے پیچھے کھیلے جانے والے کھیل سے بالکل مختلف ہے۔لوگوں کو گمراہ کرنا یا ان کی سوچ کو سیاسی بنیادوں پر تقسیم کرنا طاقت ور لوگوں کا مشغلہ ہوتا ہے تاکہ لوگ وہ نہ سوچ سکیں جو اُن کو سوچنا چاہیے۔اسی بنیاد پر محاذآرائی، ٹکرائو اور تنائو سمیت سیاسی دشمنی کے کھیل میں سیاسی رنگ بھرکے ہم لوگوں کو غیر اہم ایشوز میں الجھائے رکھتے ہیں۔
خیبر پختون خوا میں بھی صوبائی وزیر شکیل خان کو کرپشن کے معاملے پر برطرف کیا گیا ہے جس پر پی ٹی آئی میں داخلی سطح پر بڑی تقسیم اور ٹکرائو دیکھنے کو مل رہا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا پر الزام ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے لیے احتساب کے عمل کو بنیاد بناکر اپنے سیاسی ایجنڈے کو تقویت دے رہے ہیں۔ شکیل خان کی برطرفی پر صوبائی سطح پر خاصے اختلافات سامنے آئے ہیں۔ اس پر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے پارٹی کے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ شکیل خان کی برطرفی کو عوام میں ایشو نہ بنائیں بلکہ مذکورہ کمیٹی میں اپنے تحفظات پیش کیے جائیں۔ اصل میں سیاسی محاذ پر بھی سیاسی فریق اپنی ہی جماعت میں احتساب کے عمل کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ آئی پی پیز نے گھنائونا کھیل کھیل کر قومی خزانے کو جس طرح لوٹا ہے اس کا احتساب کون کرے گا؟ کیا وجہ ہے کہ ہمارا ریاستی اور حکومتی نظام آئی پی پی کو سیاسی اور قانونی سطح پر تحفظ دے رہا ہے؟ دراصل ہمیں ماننا ہوگا کہ ملک میں مافیاز پر مبنی حکمرانی کے نظام کوطاقت دی گئی ہے اور اس کی مدد سے اپنے ریاستی و حکومتی نظام کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) ہو یا پیپلز پارٹی… یہ دونوں جماعتیں اقتدار کا حصہ ہیں، اس لیے وہ کیوں احتساب کے عمل کو ممکن بنائیں گی؟ ان کے ذاتی اور کاروباری مفادات قومی سیاست پر غالب آچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب عام پاکستانیوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ یہ نظام ہماری سیاسی اور معاشی ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکے گا۔ اسی مایوسی میں لوگ بالخصوص نئی نسل ملک چھوڑنے پر مجبور ہورہی ہے، اور جتنی تیزی سے لوگ پاکستان چھوڑ رہے ہیں وہ توجہ طلب مسئلہ ہے۔ پاکستان کا ریاستی اور حکومتی نظام اپنی درستی کے لیے ایک بڑی سرجری چاہتا ہے، مگر اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ اس سرجری سے بچ کر اپنے ذاتی اور کاروباری مفادات کو تحفظ دینے کی کوشش میں ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جس کی وجہ سے ملک میں ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا ہورہی ہے۔ یہ سوچ اور فکر کسی بھی صورت میں ملک کے مفاد میں نہیں ہے، اور ہمیں مجموعی طور پر ایسی تمام پالیسیوں اور حکمت عملیوں سے گریز کرنا چاہیے جو ملک کو مزید سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کا سبب بنیں۔یاد رکھنا ہوگا کہ ہم پہلے ہی بہت دیر کرچکے ہیں اور اپنے داخلی معاملات میں غلط سمت کھڑے ہوکر اپنا نقصان کرچکے ہیں، اب ہمار ے پاس غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے۔لیکن سوال یہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ اور کیا کوئی بڑی عوامی مزاحمت ریاست اور حکومت پر دبائو کو بڑھاسکے گی اور ان کو مجبور کرسکے گی کہ وہ اپنے روایتی اور فرسودہ ایجنڈے سے باہر نکل کر قومی مفاد کو ترجیح دیں۔