اشرافیہ کی بدمعاشی کا خاتمہ کب ہوگا؟
غیر ملکی سرمایہ کاری کے پردے کے پیچھے مقامی مافیا کے مکروہ چہرے
پاکستان کی توانائی کی تاریخ میں آئی پی پیز اسکینڈل ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس اسکینڈل نے نہ صرف ملک کے معاشی نظام کو متاثر کیا بلکہ سیاسی اور سماجی مباحثوں میں بھی بڑا ہنگامہ برپا کیا۔
آئی پی پیز کا قیام 1990ء کی دہائی میں ہوا جب پاکستان کو توانائی بحران کا سامنا تھا۔ اُس وقت کی حکومت نے نجی شعبے کو بجلی کی پیداوار میں شامل کرنے کے لیے معاہدے کیے تاکہ ملک کی بجلی کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ حکومت نے ان کمپنیوں کو طویل المدتی معاہدے دیے جن میں ”گیس رینٹل“ اور ”کیپیسٹی پیمنٹ“ کی شرائط شامل تھیں۔ یعنی چاہے یہ کمپنیاں بجلی پیدا کریں یا نہ کریں، حکومت انہیں ادائیگی کرنے کی پابند تھی۔
سیاسی جماعتیں اُس وقت کے آئی پی پیز معاہدوں پر شدید اعتراضات اب کررہی ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہ معاہدے غیر منصفانہ ہیں اور ان میں عوامی مفادات کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ خاص طور پر ان معاہدوں میں طے شدہ بجلی کے نرخ عوام پر اضافی بوجھ ڈالنے کا سبب بنے ہیں۔
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں نے مصنوعی آواز اٹھائی ہے۔ دراصل ان معاہدوں کو زندگی سب نے مل کر دی ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے حوالے سے ملک بھر میں شور مچایا تو یہ معاملہ ایک اہم مسئلے کے طور پر سامنے آیا، اور اگر اس کا کریڈٹ کسی کو جاتا ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے 14 دن دھرنا جاری رکھا اور بالآخر 5 مذاکراتی ادوار کے بعد حکومت نے ہم سے ایک تحریری معاہدہ کیا ہے، اس معاہدے میں واضح طور پر اُن تمام شقوں کو شامل کیا گیا ہے اور ان کو ایک متعین وقت کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں عوام کو ریلیف ملے گا۔
آئی پی پیز پاکستانی عوام کے خلاف دہشت گردوں سے کم نہیں ہیں۔ پاکستان کے کئی ماہرینِ معاشیات نے بھی آئی پی پیز معاہدوں پر تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدے غیر حقیقت پسندانہ تھے اور انہوں نے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ان معاہدوں میں شفافیت کی کمی تھی اور حکومت نے ان کمپنیوں کو غیر ضروری فوائد فراہم کیے، جو کہ معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔
اخبارات اور جرائد میں شائع ہونے والی ماہرین کی آراء میں یہ بات عام رہی کہ حکومت کو ان معاہدوں پر دوبارہ غور کرنا چاہیے اور عوامی مفادات کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔
عدالتوں نے بھی اس اسکینڈل پر نوٹس لیا اور مختلف اوقات میں ان معاہدوں کی شفافیت پر سوالات اٹھائے۔ عدالت ہائے عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ میں اس معاملے پر کئی مقدمات چلے، جن میں آئی پی پیز معاہدوں کی قانونی حیثیت پر بحث ہوئی۔
اب ایک ہوش ربا رپورٹ اور اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آئی پی پیز کے لیے ٹیکس استثنیٰ کیپیسٹی چارجز سے تجاوز کرگیا ہے، جس کا حجم رواں مالی سال 20.91 کھرب روپے ہونے کی توقع ہے، یہ آئی پی پیز 40 بااثر خاندانوں کی ملکیت ہیں جن کا براہِ راست یا بالواسطہ تعلق پاور کوریڈورز سے ہے۔
ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں یکم جولائی 1988ء کے بعد قائم ہونے والے الیکٹرک پاور پلانٹس سے حاصل ہونے والے منافع پر کارپوریٹ ٹیکس کی چھوٹ حاصل کرتی ہیں۔
اس کے بعد سے جمہوری اور آمر حکومتوں نے تاحیات ٹیکس چھوٹ کی رعایت کے ساتھ تقریباً 5 پاور پالیسیاں نافذ کیں جبکہ 106 آئی پی پیز قائم ہوئے۔
ڈان کا کہنا ہے کہ دستیاب سرکاری ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ یکے بعد دیگرے حکومتوں نے 19-2018ء تک معاشی سروے میں آئی پی پیز کو ٹیکس چھوٹ کا ڈیٹا فراہم کیا لیکن اس کے بعد جب ٹیکس چھوٹ کی مالیت میں اضافہ ہوا تو انہوں نے معلومات کو ظاہر کرنا بند کردیا۔ اس کے بجائے استثنیٰ کی لاگت کو دوسرے شعبوں کے ساتھ ملادیا گیا تاکہ اسے لوگوں سے چھپایا جا سکے۔
معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق 1990ء کی دہائی کے وسط سے 18-2017ء تک اس ٹیکس چھوٹ کی مالیت ایک کھرب روپے تھی، انہوں نے اس رقم کا تخمینہ ’پولیٹکل اکانومی آف انیکویلیٹی ان پاکستان‘ پر اپنی تحقیق کے حصے کے طور پر لگایا۔ حفیظ پاشا کے مطابق آئی پی پیز کی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار کو ایک مثال سمجھا جاتا ہے، جس میں بجلی کے ٹیرف اس انداز میں طے کیے گئے ہیں کہ حکومت ان کے کیپیسٹی چارجز اور ایندھن کے اخراجات کو مکمل طور پر پورا کرتی ہے۔ اس لاگت پر مبنی قیمتوں کے تعین کے طریقے نے آئی پی پیز کے لیے مارکیٹ کے خطرات کو کم کردیا ہے، خاص طور پر جب ممکنہ صلاحیت کا مکمل استعمال نہ ہو۔ کچھ آئی پی پیز نے مختلف سالوں میں اپنی ایکویٹی پر 25 سے 30 فیصد تک کے ریٹرن کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اس پالیسی نے ملک میں آئی پی پیز کے قیام کے لیے راہیں ہموار کیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق 1988ء کے بعد پاور پالیسی کے نتیجے میں 2002ء تک پانچ بڑے آئی پی پیز قائم کیے گئے تھے، جن میں سے چار نے اپنے بجلی کی خریداری کے معاہدے مکمل کرلیے، اور اب صرف حب پاور کمپنی باقی ہے جو انہی مراعات پر بجلی کی پیداوار جاری رکھے ہوئے ہے۔
ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف کے آمرانہ دور میں 2002ء سے 2008ء کے درمیان کُل دس نئے آئی پی پیز قائم کیے گئے، جبکہ 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ٹیکس چھوٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بجلی پیدا کرنے کے لیے مزید دس آئی پی پیز قائم کیے گئے۔ 2013ء سے 2018ء تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران آئی پی پیز کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا، اس عرصے میں مجموعی طور پر 55 نئے پاور پلانٹس قائم کیے گئے۔ اس کے بعد 2018ء سے 2023ء تک پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی حکومتوں کے دور میں 40 آئی پی پیز کا اضافہ ہوا۔
اقتصادی سروے کے مطابق 2014ء سے 2016ء کے دوران آئی پی پیز کو دی گئی ٹیکس چھوٹ کی مجموعی مالیت تقریباً 51.5 ارب روپے تھی۔ تاہم اگلے دو سالوں میں یعنی 2017ء سے 2019ء کے دوران یہ ٹیکس چھوٹ کم ہوکر 18 ارب روپے رہ گئی، لیکن حکومت نے اس کمی کی کوئی وضاحت فراہم نہیں کی۔
مالی سال 2020ء میں آئی پی پیز کے لیے ٹیکس چھوٹ میں دوبارہ اضافہ دیکھنے میں آیا، جو 26.88 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد مالی سال 2021ء میں یہ چھوٹ نمایاں طور پر بڑھ کر 47.528 ارب روپے ہوگئی، جس کی بڑی وجہ مزید پاور پلانٹس کا قیام قرار دیا جاسکتا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے آئی پی پیز کے معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کیے جس کے باعث مالی سال 2022ء میں ٹیکس چھوٹ کی مالیت کم ہوکر 37.45 ارب روپے رہ گئی۔
مالی سال 2023ء میں ٹیکس چھوٹ کی رقم دوبارہ بڑھ کر 56.02 ارب روپے تک پہنچ گئی، لیکن مالی سال 2024ء میں کم ہوکر 30.23 ارب روپے رہ گئی۔
آئی پی پیز اسکینڈل پاکستان کی تاریخ کی بدترین کرپشن کی کہانیوں میں سے ایک ہے جو کہ آج بھی معیشت اور توانائی کے شعبے میں بحث کا موضوع ہے۔ اس اسکینڈل نے ہماری اشرافیہ کے گندے چہروں کو ایک بار پھر بے نقاب کیا ہے۔ یہ ظالم، طاقت ور حلقوں کے ساتھ مل کر عوام دشمنی میں لگے ہوئے ہیں۔
پاکستان کو آج بھی توانائی بحران کا سامنا ہے اور آئی پی پیز معاہدوں کی وجہ سے عوام کو اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑرہا ہے،۔ پاکستان کے معاشرتی اور سیاسی منظرنامے پر گہری نظر رکھنے والوں سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ملک کے عوام انتہائی بے چینی کا شکار ہیں، لوگ اپنے بچوں کے ساتھ خودکشیاں کررہے ہیں۔ اشرافیہ کے ظلم و ستم، معاشرتی ناانصافی، اور عدل کے فقدان نے ملک میں ایک ایسے لاوے کو جنم دیا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں اشرافیہ کا کردار ہمیشہ سے ہی متنازع رہا ہے۔ دولت مند اور طاقتور طبقے نے ہمیشہ اپنے مفادات کی خاطر عوام کے حقوق کو پامال کیا ہے۔ یہ ظلم صرف معاشی ناہمواری تک محدود نہیں، بلکہ سیاسی اثر رسوخ، عدالتی نظام کی عدم دستیابی، اور ریاستی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے عوام کی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
بنگلہ دیش میں حالیہ دنوں میں جو عوامی بغاوت دیکھنے میں آئی، وہ ہمارے لیے ایک سبق ہے۔ وہاں کے عوام نے بھی اسی طرح کے ظلم، ناانصافی اور جبر کے خلاف آواز اٹھائی اور بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ اگر بنگلہ دیش میں لوگ اپنے حقوق کے لیے باہر آسکتے ہیں، تو پاکستان میں بھی یہ لمحہ قریب ہوسکتا ہے جب عوام اسی طرح اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر ہوں گے۔ عوامی غصہ اور بے چینی ایک وقت میں ناقابلِ برداشت حد تک پہنچ سکتی ہے، اور یہ ممکن ہے کہ لوگ اس کے بعد پھر کچھ نہ دیکھیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ریاست اور اُس کے ادارے اس لاوے کے پھٹنے سے پہلے کوئی قدم اٹھائیں گے؟ حکومتی اداروں کی خاموشی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یا تو وہ اس صورت حال کی سنگینی کو سمجھنے میں ناکام ہیں، یا پھر جان بوجھ کر اس بحران کو نظرانداز کررہے ہیں۔
اگر حکومت اور اُس کے ادارے اس صورتِ حال کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور عوام کی بے چینی کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات نہیں کرتے، تو وہ دن دور نہیں جب یہ بے چینی ایک بڑی عوامی بغاوت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ عوام کو بہت زیادہ وقت تک بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ عوام کی بے چینی کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ عدلیہ، مقننہ، اور انتظامیہ کو عوام کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا، اور سیاست کے کھلاڑیوں کو بالخصوص اپنی مکروہ عوام دشمن مفاداتی سیاست سے رجوع کرنا ہوگا۔