اسرائیل کو تسلیم کرنے پر سعودی ولی عہد کو اپنی جان کو خطرہ
’’مہذب‘‘ دنیا ، 25 لاکھ انسانوں کی موت کے انتظار میں؟
غزہ میں ہر لمحہ بے گناہ افراد مارے جارہے ہیں لیکن ٹھیکیدارانِ امن کے نخرے ختم ہونے کو ہی نہیں آرہے۔ قطر میں امریکہ، اسرائیل، مصر اور میزبان ملک کے لال بجھکڑ دو دن بات چیت کے بعد تھک گئے اور گفتگو کا اگلا دور ایک ہفتے بعد قاہرہ میں ہوگا۔ مذاکرات کی میز پر مزاحمت کار موجود نہیں۔ دوسری طرف اسرائیل نے امریکہ سے بموں کی نئی کھیپ ملنے پر بارود کی بارش تیز کردی ہے۔ اوسطاً 40 حملے یومیہ کیے جارہے ہیں۔ تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق 7 اگست کو اس وحشت کے 10 مہینے مکمل ہونے پر جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 40 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگ زخمی ہیں۔ ان میں ملبے تلے دبے ہزاروں افراد شامل نہیں۔ خونریزی کے لیے امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور ہندوستان کا اسلحہ استعمال ہورہا ہے۔
آب نوشی اور نکاسیِ آب کا ڈھانچہ تباہ ہوجانے کی وجہ سے وبائی امراض شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ شدید بمباری، اسکولوں کی بندش اور صحت کی سہولتیں تباہ ہونے کی بنا پر اِس سال بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے جاسکے۔ گزشتہ ہفتے 11ماہ کی ایک بچی پولیو سے متاثر پائی گئی۔ 19 برس پہلے غزہ میں فلسطینیوں کی حکومت قائم ہونے پر وزارتِ صحت نے زبردست مہم چلا کر پوری پٹی کو پولیو سے پاک کردیا تھا۔ اب یہ موذی مرض دوبارہ رینگ رہا ہے۔ خوراک کی قلت یا malnutrition کی شکل میں معذوری کی ڈائن پہلے ہی معصوم بچوں کا کلیجہ چبا رہی تھی کہ اب پولیو کے اژدھے نے بھی اپنا منہ کھول دیا ہے۔
قطر کے حالیہ مذاکرات سے پہلے اہلِ غزہ نے صاف صاف کہا کہ مکمل و غیر مشروط جنگ بندی اور فوجی انخلا پر اسرائیل کی آمادگی سے پہلے قیدیوں کے تبادلے پر بات نہیں ہوگی۔ شاید اسی لیے مہذب دنیا 25 لاکھ انسانوں کی موت کا انتظار کررہی ہے۔ دس ماہ کے دوران ڈیڑھ لاکھ اہلِ غزہ کو قتل اور زخمی کرکے ٹھکانے لگایا جاچکا۔ بمباری کے ساتھ قحط اور وبائی امراض کا ہتھیار بھی اب بہت مؤثر انداز میں استعمال ہورہا ہے۔ مغربی دنیا اور اُس کے عرب اتحادیوں کو یقین ہے کہ باقی بچ جانے والے 23 لاکھ سخت جان بھی جلد ہی پیوندِ خاک ہوجائیں گے۔ صدر ٹرمپ کے داماد نے Gaza Beachfront کی تیاری شروع کردی ہے اور اس نفع بخش منصوبے سے روپئے کی آٹھ چونّی بنانے کے لیے اماراتی و عرب سرمایہ کار بھی پُرعزم ہیں۔
فائربندی کے لیے امریکہ کی دوڑ دھوپ قطری فرماں روا تمیم بن حمد کے اس بیان کے بعد بڑھ گئی جس میں انھوں کہا کہ اگر غزہ خونریزی بند ہوجائے تو وہ ایران کو قتلِ اسماعیل ہنیہ کے انتقام سے دست بردار ہونے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے سیاسی و سفارتی ذرائع کاکہنا ہے کہ مذاکرات کے آغاز پر امیرِ قطر نے ایران سے درخواست کی تھی کہ امن کا ’ماحول‘ بنانے کے لیے بات چیت کے دوران اسرائیل پر حملہ نہ کیا جائے، جس کا تہران نے مثبت جواب دیا اور ایرانی قیادت نے عندیہ دیا ہے کہ اگر امن کے لیے اہلِ غزہ کی شرائط مان لی جائیں تو اسرائیل پر حملے کا منصوبہ منسوخ کیا جاسکتا ہے۔
غزہ جنگ بندی اسرائیلی وزیراعظم کی سیاسی عاقبت کے لیے بے حد مہلک ہے۔ یہ عام خیال ہے کہ اگر اُن کی جماعت اور اتحادی دوبارہ انتخابات جیت گئے تب بھی نیتن یاہو وزیراعظم نہیں بنیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت انتہا پسندوں کو اکساکر جنگی جنون و ہیجان برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
بدھ 14 اگست کی صبح اسرائیلی وزیراندرونی سلامتی اتامر بن گوئر نے ایک بار پھر مسلح فوجیوں کے پہرے میں گنبد صخرا کے قریب عبادت کی۔ یہ 1967ء کے معاہدہ Status Queکی خلاف ورزی ہے جس کے تحت غیر مسلم بلا اجازت القدس شریف (مشرقی بیت المقدس) میں داخل نہیں ہوسکتے۔ یہ خود یہودی عقائد کے اعتبار سے بھی درست نہیں کہ معبد عظمیٰ (Temple Mount)کی تعمیرِ نو سے پہلے یہودیوں کا القدس شریف میں داخلہ توہینِ ناموسِ حضرت سلیمانؑ ہے۔ اسرائیلی وزیر کی القدس شریف میں دراندازی پر سرکاری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا ’’مسٹر بن گوئر کا Temple Mount جانا اُن اقدامات میں شامل ہے جنہیں امریکہ اسرائیل کی سلامتی سے انحراف اور خطے میں عدم تحفظ وعدم استحکام کا باعث سمجھتا ہے‘‘۔ کچھ ایسا ہی بیان یورپی یونین سے بھی آیا، اور اسرائیلی انتہاپسندوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اس قسم کے بیانات محض موذیوں کا منہ بند کرنے کو دیے جاتے ہیں۔
اس کے دوسرے دن انتہا پسند غزہ کی طرف روانہ ہوئے۔ پے در پے جانی نقصان اٹھاکر 15اگست 2005ء کو اسرائیل نے تمام بستیاں اپنے ہاتھوں مسمار کرکے غزہ خالی کردیا تھا۔ انتہا پسندوں نے اس دن کی یاد منانے اور دوبارہ آبادکاری کے لیے غزہ میں خیمہ زنی کا منصوبہ بنایا۔ قافلے کا استقبال سوختہ جاں اہلِ غزہ نے بھرپور فائرنگ سے کیا، چنانچہ اسرائیلی فوج نے ان لوگوں کو غزہ کی سرحد پر روک دیا۔ قبضے کی علامت کے طور پر وہیں سحر کی نماز یا شاہریت ادا کی گئی۔ شایع شدہ پروگرام کے تحت تینوں فرض نماز غزہ میں ادا کرنی تھیں، لیکن شدید مزاحمت کی بنا پر نمازِسحر کے بعد ہی مجمع منتشر ہوگیا۔ احباب کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ یہودیوں کے یہاں روزانہ تین نمازیں فرض ہیں۔
شاہریت (Shacharit): یہ دراصل سحر کی نماز ہے جس کا وقت طلوع آفتاب سے دو گھنٹے تک ہے۔ اس نماز کا حکم حضرت ابراہیمؑ نے دیا تھا۔
منشا (Minchah): اس نماز کا وقت زوال سے غروبِ آفتاب تک ہے۔ توریت کے مطابق اس دوسری نماز کا آغاز حضرت اسحاقؑ نے کیا اور توریت میں یہ ’ظہر‘ درج ہے۔
مغرب (Maarive): اس نماز کا وقت غروبِ آفتاب کے ڈیڑھ گھنٹے بعد سے نصف شب تک ہے۔ اس نماز کا حکم حضرت یعقوبؑ المعروف اسرائیل نے دیا تھا۔
اسی دن غربِ اردن میں قیلقیلہ کے گاؤں جیت پر مسلح اسرائیلی قبضہ گرد (Settlers)چڑھ دوڑے۔ اندھا دھند فائرنگ کے بعد درجنوں مکانات، گاڑیاں اور مویشی خانے جلا دیے گئے۔ فائرنگ سے ایک فلسطینی جاں بحق ہوگیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ غنڈوں کو فوج کا تحفظ حاصل تھا۔
امریکہ بہادر بزعم خود امن مذاکرات کے سب سے بڑے سہولت کار ہیں اور اُن کے اخلاص کا یہ عالم کہ مذاکرات کے نئے دور کے آغاز پر 14 اگست کو امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن صاحب نے بہت مسرت کے ساتھ اسرائیل کے لیے 20 ارب ڈالر کی عسکری امداد کا اعلان فرمایا۔ اس رقم میں سے 19 ارب ڈالر ایف 15 بمبار طیاروں پر خرچ ہوں گے، جبکہ ٹینک کے گولوں، بکتربند گاڑیوں اور دوسرے ’’دفاعی‘‘ سامان کے لیے ایک ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ 20 ارب کی یہ اعانت 14 ارب ڈالر کی اُس امداد کے علاوہ ہے جس کی منظوری کانگریس نے کچھ عرصہ پہلے دی تھی۔ فوجی امداد کا اعلان کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے بہت دلگیر لہجے میں کہا کہ ’’مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام امریکہ کی خواہش ہے اور غزہ میں انسانی جانوں کے زیاں کی تفصیلات سن کر صدر بائیڈن کو نیند نہیں آتی‘‘۔
مغرب کی بھرپور مدد کے باوجود زمینی حقائق اسرائیل کے لیے اب بھی مایوس کن ہیں۔ 13 اگست کو اسرائیلی پارلیمان کی مجلسِ قائمہ برائے دفاع کے اجلاس میں وزیردفاع یوو گیلنٹ نے کہا کہ نیتن یاہو کا ’مکمل فتح‘ والا بیانیہ بکواس ہے۔ جواب میں وزیراعظم تنک کر بولے ’’گیلنٹ نے اسرائیل مخالف بیانیہ اپناکر (قیدیوں کی رہائی کے) معاہدے کے امکانات کو نقصان پہنچایا ہے۔‘‘ (حوالہ: اسرائیلی روزنامہ Haaretz)
وزیردفاع اور اسرائیلی فوج کے خدشات بے سبب نہیں۔ لاکھوں ٹن بارود برسانے اور پوری پٹی کو فاقے میں مبتلا کردینے کے باوجود اسرائیل مزاحمت کچل نہیں پایا۔ جس وقت کنیسہ (پارلیمان) میں وزیراعظم اپنے وزیردفاع کو سخت و سست کہہ رہے تھے عین اسی وقت اہلِ غزہ نے دور مار میزائل داغے جو امریکی ساختہ جدید ترین حفاظتی نظام آئرن ڈوم سے کنی کتراکر تل ابیب کے ساحلوں تک پہنچ گئے۔ کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا لیکن اس سے نہ صرف غزہ پر اسرائیل کے قبضے کا دعویٰ غلط ثابت ہوا بلکہ یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ اہلِ غزہ اسلحہ بنانے اور میزائل چلانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ جواب میں اسرائیلی فوج نے غربِ اردن میں رام اللہ کے ایک محلے کو پامال کردیا، یا یوں کہیں کہ دھوبی پر بس نہ چلا تو گدھے کے کان اینٹھ دیے۔
اسرائیلی فوج اپنی افرادی قوت پر بڑھتے دبائو سے بھی خاصی پریشان ہے۔ پارلیمان کی مجلسِ قائمہ برائے دفاع کے جس اجلاس میں وزیراعظم و وزیردفاع کے درمیان زبانی جھڑپ ہوئی، اسی نشست میں فوج کے سربراہ نے قانون سازوں کو بتایا کہ اسرائیلی فوج کا بڑا حصہ غزہ میں مصروف ہے۔ لبنان کی جانب سے میزائل و راکٹ حملوں کے ساتھ غربِ اردن میں ’’دہشت گردی‘‘ خطرے کے نشان کو چھورہی ہے اور اب ایران کی جانب سے بھی شدید حملہ خارج از امکان نہیں۔ جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ مؤثر دفاع کے لیے نئی بھرتی ضروری ہے لیکن مذہبی عناصر حفظِ توریت کے نام پر نوجوانوں کو فوج میں بھرتی سے روک رہے ہیں۔ مدارس کی جانب سے مزاحمت کا زور توڑنے کے لیے اسرائیلی اٹارنی جنرل نے ایک سرکاری خط میں وزارتِ محنت کو حکم دیا ہے کہ توریت مدارس کے جو طلبہ فوج میں بھرتی سے انکار کریں ان کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے day careکی سہولت ختم کردی جائے۔ دوسری طرف اہلِ توریت کے خیال میں سہولتوں سے محرومی اور جیل، غزہ کی جہنم سے بہتر ہے ۔
ادھر امریکہ میں تعطیلات کے بعد جامعات میں کلاسیں شروع ہونے کو ہیں اور اسی کے ساتھ آنے والے دنوں میں مظاہروں کے منصوبے بھی بن رہے ہیں۔ آزادی وانصاف کے لیے پُرعزم طلبہ کو اس ہفتے ایک بڑی کامیابی نصیب ہوئی۔ فلسطین اور انسانی حقوق کے لیے مظاہرے کرنے والے طلبہ کے اخراج،اسناد سے محروم کرنے اور احتجاجی کیمپ اکھاڑنے کے لیے نیم فوجی دستے طلب کرنے والی جامعہ کولمبیا (نیویارک) کی شیخ الجامعہ ڈاکٹر مونیکا شفیق مستعفی ہوگئیں۔ ڈاکٹر صاحبہ پر استعفے کے لیے طلبہ اور اساتذہ کا دبائو تھا۔
اب آخر میں سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کا معاملہ۔ ٹائمز آف اسرائیل نے امریکی آن لائن سیاسی جریدے Politico کے حوالے سے ایک سنسنی خیز انکشاف کیا ہے۔ خبر کے مطابق امریکی ارکانِ کانگریس سے باتیں کرتے ہوئے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان المعروف MBSنے کہا’’عرب عوام فلسطین کے بارے میں بہت حساس ہیں اور اسرائیل سے تعلقات کے یک طرفہ فیصلے کو عرب ممالک کی سڑکوں پر غداری سمجھا جائے گا۔ہم نے اگر فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرلیا تو میں مارا جاسکتا ہوں‘‘۔ ارکانِ کانگریس کے سوال پر MBSنے کہا ’’آپ کو یاد نہیں (مصری صدر) انوار السادات کے ساتھ کیا ہواتھا؟‘‘
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔