کراچی اُس زمانے میں بڑا صاف ستھرا شہر تھا۔ آبادی چار پانچ لاکھ سے زیادہ نہ تھی۔ کشمیر روڈ اور لیاری ندی سے پرے ریت کے تودوں کے سوا کچھ نہ تھا، اور گورا قبرستان کے آگے ہُو کا ایسا عالم تھا کہ اس کے پڑوس کے بنگلے میں رہنے سے میں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ گورِ غریباں کی چوکیداری مجھے قبول نہیں۔
نیپئر بیرک کے ایک گھر میں بستر کھول کر میں بے خبر سویا تھا کہ گیدڑوں کی ہائے توبہ نے جگادیا اور معلوم ہوا کہ پولو گرائونڈ میں ان کا مستقل بسیرا ہے۔ شروع شروع میں شہر میں بڑا امن چین تھا اور اہل سندھ نے مہاجروں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بات تب بگڑی جب لوگ جان بچانے نہیں بلکہ مال بنانے کے لیے درّاتے ہوئے آئے اور تارکینِ وطن و مقامی باشندوں کے مفاد میں رسّآکشی شروع ہوئی۔
بصد مشکل حکومت کا ابتدائی ڈھانچہ کھڑا ہی ہوا تھا اور نصف کروڑ ہندو اور سکھ اپنی منقولہ ملکیت لے کر سرحد پار ہوئے تھے اور اُن کی جگہ اتنے ہی شکستہ حال مسلم مہاجروں نے سنبھالی تھی کہ سال بھر بعد قائداعظم انتقال فرماگئے۔ ملک کی بنیاد رکھی گئی تھی کہ معمار اٹھ گیا۔ لیاقت علی خاں نے ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کی اور اس سفر میں جب وہ جاں بحق ہوئے تو پاکستان اس بحران میں مبتلا ہوگیا جو بیس سال بعد اس کی تقسیم کا باعث ہوا۔
اس بحران کے اسباب صاف ظاہر ہیں۔ ایک تو یہ کہ مسلم لیگ کے پاس آزاد پاکستان کی تعمیر کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ دوسرے یہ کہ پاکستان اتنی جلدی اور ان حالات میں بنا کہ اس کا بچ رہنا معجزے سے کم نہیں۔ آزادی کے وقت ہندوستان کو پاکستان پر کئی لحاظ سے سبقت حاصل تھی لیکن اندرونی خلفشار کی کمی نہیں تھی۔ وقت کے ساتھ اگر وہاں سیاسی بحران پر قابو پالیا گیا تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ عنانِ حکومت 30 سال (1947ء سے 1977ء) تک کانگریس کے ہاتھ میں رہی، جس نے پالیسی میں تسلسل اور مرکز اور صوبوں میں رابطہ برقرار رکھا۔ مسلم لیگ کا دارو مدار قائداعظم کی شخصیت اور مسلمانانِ ہند کے اُس سیاسی شعور پر تھا جو 1943ء سے 1947ء تک غیر مسلم تسلط سے نجات کا طالب رہا۔ تنظیمی اعتبار سے پاکستانی علاقے میں مسلم لیگ کی جڑیں کمزور تھیں اور یہ کمزوری لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد ہی ظاہر ہوگئی۔ اب جو سیاسی خلا پیدا ہوا اسے نوکر شاہی اور فوجی آمریت نے پُر کرنے کی کوشش کی، اور بے چارے ملک کی حالت اُس یتیم کی ہوگئی جو والدین کے انتقال کے بعد چیرہ دست ملازموں کے رحم و کرم کا محتاج ہوجائے۔
لیاقت علی خاں کے دورِ حکومت میں اگر آئین بن جاتا، جائدادِ متروکہ کا قضیہ بلاتاخیر ختم کردیا جاتا اور سرکاری ملازمتوں میں صوبائی تخصیص کے اصول کو ختم کردیا جاتا تو ملک اُس سیلابِ بلا سے بڑی حد تک محفوظ رہ جاتا جس سے وہ دوچار ہوا۔ ان تینوں مرحلوں کو ہندوستان نے ابتدائی دور میں بلادقت طے کرلیا تھا۔ جنگِ عظیم کی ہولناک تباہ کاری کے باوجود یوگوسلاویہ نے قلیل مدت میں آئین مرتب کرلیا تھا جو لسانی اور مذہبی اختلافات کے باوجود تیس سال سے بحسن و خوبی کارفرما ہے، اور مغربی جرمنی نے مشرقی جرمنی کے ایک کروڑ جرمن مہاجروں کو اپنے دامن میں سمولیا تھا۔ اگر پاکستان اس آزمائش میں ناکام رہا تو اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ ملک پر مفاد پرستوں کی گرفت شروع ہی میں مضبوط ہوگئی تھی۔ متروکہ جائداد زہر قاتل کی طرح معاشرے میں داخل ہوگئی اور حرص و ہوس کا بازار ایسا گرم ہوا کہ لوگوں کا حلیہ بدل گیا۔ نودولتیوں، شعبدہ بازوں اور گرہ کٹوں کی بن آئی۔ بارہا وحشت کے عالم میں اس اجنبی شہر کی سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے ہوئے میں اکڑی ہوئی گردنوں، ریش نما تزویر کی کمندوں اور بیگموں کو چھبیلی بھٹیاریوں کے روپ میں رواں دواں دیکھتا رہتا تھا۔ اس طلسمِ نظر کو آغا اشرف (مرحوم) نے یہ کہہ کر توڑا ”جب یہ مان لوگے کہ 1947ء میں سب کا نیا جنم ہوا ہے تو بات صاف ہوجائے گی۔“ (”گردِ راہ“…ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری)