تحریکِ پاکستان میں شعوری طور پر حصہ لینے والی شخصیات کی اکثریت دنیا سے رخصت ہوگئی ہے تاہم اب بھی کچھ لوگ بقیدِ حیات ہیں جو مکمل یادداشت کے ساتھ قیامِ پاکستان کا پس منظر بیان کرسکتے ہیں۔ پروفیسر شفیع ملک بھی ان میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن آل انڈیا سے کیا، تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصہ لیا، قربانیاں دیں اور ہجرت کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اگر یہ پاکستان مسلم لیگ میں ہوتے تو صفِ اوّل کے رہنماؤں میں شمار کیے جاتے اور حکومتی عہدوں اور وزارتوں سے مستفید ہوکر ایک بڑے سرمایہ دار بن جاتے۔ ایسے بے شمار مواقع بھی ملے لیکن انہوں نے مسندِ اقتدار کو نہیں، نظریات کو ترجیح دی اور قیامِ پاکستان کے اصل مقاصد کو اپنا نصب العین بنایا۔ ہمیں ایسے لوگوں کی، زندگی میں قدر کرنی چاہیے اور ان کے تجربات سے استفادے کے ساتھ انہیں خراجِ تحسین بھی پیش کرنا چاہیے۔
پروفیسر محمد شفیع ملک 20اگست 1928ء کو تجارہ، الور انڈیا میں پیدا ہوئے۔ وہیں ابتدائی تعلیم اور انٹرمیڈیٹ کیا، جہاں ممتاز عالم دین مولانا حامد بدایونی کو سننے اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ کالج سیاست میں حصہ لیا، یونین کے صدر منتخب ہوئے اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن الور کے صدر بھی بنائے گئے۔ تحریک ِ پاکستان کو ایسے ہی لائق، باصلاحیت اور پُرجوش نوجوانوں کی ضرورت تھی جن کی شبانہ روز محنت سے تحریک ِ پاکستان مسلمانانِ ہند کی واحد ترجمان بن گئی، اور پھر وہ مبارک دن بھی آیا جب جدوجہد رنگ لائی، جس کے لیے بھارت کے مسلمانوں نے بھاری قیمت چکائی، لاکھوں مردو زن نے جان و مال، زمین و جائداد، عزت و آبرو کی قربانیاں دیں، آگ و خون کا دریا عبور کرکے ہجرت کی سعادت حاصل کی۔
پروفیسر شفیع ملک بھی ان مہاجرین میں شامل ہیں جو ہجرت کے بعد کیمپ میں رہے،کسمپرسی کی زندگی گزاری، جبکہ یہ الور کی خانزادہ راجپوت برادری کے ایک متوسط خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اعلانِ قیامِ پاکستان ہوا تو محض ہندوؤں نے نہیں، بھارتی فوج نے بھی تجارہ شہر میں مسلمانوں کی نسل کُشی شروع کردی۔ ظلم کی انتہا ملک صاحب کے گھرانے پر بھی ہوئی۔ حویلی میں اُس وقت 17 افراد تھے جو سب شہید کردیے گئے، ایک خاتون زخمی حالت میں زندہ بچی۔ دیگر لوگوں کی طرح ملک صاحب کسی طرح وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور ماموں کے گھر لکھنؤ پہنچ گئے۔ لیکن ہر طرف افراتفری اور ہُو کا عالم تھا، وہاں سے اجمیر اپنی خالہ کے گھر آگئے اور پھر تنہا ہی پاکستان ہجرت کا سفر کیا۔ مونا باؤ کے راستے ریل گاڑی کے ذریعے حیدرآباد پہنچے تو ریلوے اسٹیشن کے سامنے میر گارڈن میں مہاجر کیمپ قائم تھا، انہیںوہیں قریب میں ایک بورڈنگ ہاؤس میں رہائش دے دی گئی۔ اکیلے تھے کیا کرتے! 15دن بعد کراچی چلے گئے، یہاں برما شیل میں ملازمت مل گئی تو نانِِ شبینہ کا انتظام کیا، لیکن ساتھ ہی انہیں خوش خبری ملی کہ والد محمد ابراہیم والدہ، دو بھائیوں محمد رفیق اور محمد نوارملک اور تین بہنوں کے ساتھ پاکستان پہنچ گئے ہیں، حیدرآباد میں قیام کیا ہے، تو واپس لوٹ آئے۔ کہتے ہیں انہیں چھوٹکی گھٹی میں والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ ایک مکان مل گیا۔ وہیں رہے اور1950ء میں پی ڈبلیو ڈی اورپھر ریلوے میں عارضی ملازمت مل گئی۔
پروفیسر محمد شفیع ملک صاحب نے 1950ء میں بحیثیت استاد جامعہ عربیہ اسکول تلک چاڑی میں ملازمت اختیارکرلی اور ساتھ ہی گورنمنٹ کالج حیدرآباد میں بی اے سالِ اوّل میں داخلہ بھی لے لیا اور 1953ء میں گریجویشن میں پہلی پوزیشن آگئی۔ اس کے بعد سندھ یونیورسٹی میں ایم اے اکنامکس میں داخلہ لے لیا۔ پڑھنے لکھنے کا بچپن سے شوق تھا، ملک صاحب کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے افراد نے مفکرِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کا لٹریچر پڑھنے کو دیا، وہ سب فوراً ہی پڑھ لیا اور جماعت کے کاموں میں دلچسپی لینے لگا۔ اسی دوران کراچی سے جمعیت کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن منظور احمد صاحب (ڈاکٹر منظور احمد، سابق وائس چانسلر جامعہ کراچی) اور ظفراسحاق انصاری (فرزند مولانا ظفر احمد انصاری جو 1970ء میں جماعت اسلامی کی حمایت سے کراچی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے) دیگر احباب کے ہمراہ حیدرآباد آئے اور انہوں نے مجھے اسلامی جمعیت طلبہ کی رکنیت کا فارم دیا، یہاں پہلا ناظم بنایا گیا۔ میں 1956ء تک اس ذمہ داری پر فائز ہوتا رہا۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جب غلبۂ اسلام کے لیے دیگر شعبوں کی طرح طلبہ اور مزدوروں کو ہدف بنایا کیونکہ یہی وہ دو اہم طبقات ہیں جن کے کاندھوں پر سوار ہوکر کمیونزم و سوشلزم کے حاشیہ بردار اس مملکتِ پاکستان پر سرخ جھنڈا لہرانا چاہتے تھے، سید مودودیؒ نے جہاں عالمی سطح پر کمیونزم کے سامنے اپنی تحریروں کے ذریعے، نظریۂ اسلام کی برتری کا بند باندھا، وہیں اپنے ملک میں اس باطل نظریے کے تدارک کے لیے عملی قدم اٹھایا۔ اس کام کے لیے انہیں بہترین افرادِ کار کی ضرورت تھی جو پختہ ایمان، شائستہ زبان، سلیقہ مندی، حکمت و تدبر، وعظ ونصیحت، انتظامی صلاحیت اور اپنے قول و فعل میں ہم آہنگی سے لوگوں کے دلوں میں گھر بناسکیں جس کے لیے انہوں نے ’’صالحین‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی، بنیادی طور پر انہیں ہر سطح اور ہر شعبۂ زندگی کے لیے ایمان دار اور جان دار رہنما یعنی مقامی لیڈر شپ کی ضرورت تھی، پروفیسر شفیع ملک اس معیار پر پورا اترے، جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے طلبہ، تعلیم اور مزدور سیاست میں اپنی قیادت کا لوہا منوایا۔ میدانِ کار کو سمجھنا، ماحول کو اپنے حق میں بدلنا اور پھر مؤثر رہنمائی کرنا معمولی کام نہیں ہے، لیکن شفیع ملک صاحب نے ایسا کیا اور اس کے گہرے نقوش چھوڑے۔ انہوں نے طلبہ سیاست میں قدم رکھا تو طلبہ کے منتخب رہنما کہلائے، شعبہ تعلیم میں گئے تو درس و تدریس کا ایسا ماحول بنایا کہ بہترین اُستاد و مربی ثابت ہوئے۔
کورس تو حرف ہی سکھاتے ہیں
آدمی، آدمی بناتے ہیں
مزدوروں کی دنیا تو عجیب ہوتی ہے۔ مسائل ومشکلات، مطالبات و احتجاج، ہڑتالیں، آجر و اَجیر کے تعلقات وغیرہ ایک ایسے ماحول کو جنم دیتے ہیں جہاں سے موقع پرست لیڈرشپ اپنے مذموم مقاصد کے لیے نام نہاد انقلاب کے نام پر سادہ لوح لوگوں کو ایندھن بنالیتی ہے۔ ایسے ماحول میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ باطل نظریات کے مقابل آوازِ حق بلند ہوگی۔ لیکن بہت جلد اسلامی مزدور تحریک نے اپنی جگہ بنائی اور شفیع ملک صاحب الکاسب حبیب اللّٰہکا نعرہ لگاکر یہاں داخل ہوئے اور بہت جلد مزدوروں کی امیدوں کا مرکز بن گئے، اور پھر ایک جہدِ مسلسل سے عالمی سطح پر اسلامی مزدور تحریک کا نام و کام اجاگر کیا، کئی بین الاقوامی لیبر کانفرنسوں میں شریک ہوکر پاکستان کے مزدوروں کی بھرپور نمائندگی کی۔ ان کی اس مساعیِ جمیلہ کے سب ہی معترف ہیں۔
پروفیسرمحمد شفیع ملک کو بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا بھی خاص قرب حاصل رہا اور بعد کے امرائے جماعت کا اعتماد بھی… لیکن ہر امیر کی اپنی بھی ترجیحات ہوتی ہیں اور اجتماعیت میں رائے کا اختلاف بھی جمہوریت کا حسن کہلاتا ہے، تاہم مثبت سوچ، صحت مند تنقید اور مقاصد نیک، سب کو رکھتے ہیں ایک۔ نامساعد حالات اور نشیب و فراز میں بھی ملک صاحب نے مستقل مزاجی اور دلجمعی سے اپنے حصے کا کام اپنے حق سے بڑھ کر کیا ہے، حالانکہ ایسے مواقع بھی آئے جب ملک صاحب اپنی دنیا آپ بسا سکتے تھے۔ لیکن نظریاتی کارکن اپنے نظریات کو ترجیح دیتا ہے۔
راقم کو بھی محترم پروفیسر محمد شفیع ملک کو قریب سے دیکھنے، سننے اور حالات و واقعات پر گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے۔ جب وہ نارتھ ناظم آباد میں رہائش پذیر تھے تو ان کے گھر قیام و طعام کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے اکلوتے فرزند زبیر ملک خانزادہ سے جمعیت کے زمانے میں دوستی تھی، جبکہ ان کے سگے بھتیجے اور داماد دوئم، ڈاکٹر شاہد رفیق سے میرے کئی عشروں سے بھائیوں جیسے تعلقات ہیں۔ ملک صاحب کے بڑے داماد حیدرآباد کے سابق طالب علم رہنما، گورنمنٹ کالج حیدرآباد کی طلبہ یونین کے صدر و سیکریٹری کے منصب پر فائز رہنے والے مسعود اعجازی ہیں۔ ان دِنوں ملک صاحب انہی کے گھر میں انہی کی خواہش پر اہلیہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔
گزشتہ دنوں مسعود بھائی کے گھر پر محترم ملک صاحب کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ ان سے جو سوالات ہوئے وہ تفصیلی ہیں تاہم یوم آزادی کی مناسبت سے مختصر انٹرویو نذرِ قارئین ہے:
سوال: آپ نے تحریک ِ پاکستان میں بھرپور حصہ لیا، اس کے پیچھے کیا جذبہ کارفرما تھا، جبکہ آپ کی رہائشی ریاست میں پاکستان قائم نہیں ہونا تھا؟
جواب: شعوری طور پر برصغیر کے مسلمانوں کو علم تھا کہ جس خطے میں پاکستان قائم ہوگا وہ ان کے علاقے نہیں ہیں، لیکن ہر شخص جانتا تھا کہ ایک اسلامی ریاست وجود میں لائی جارہی ہے، اس کے قیام میں تعاون کرنا ہر مسلمان پر لازمی ہے۔ اس فریضے کو عین عبادت سمجھ کر لوگوں نے انجام دیا اور ہر طرح کی قربانی دی۔ پاکستان بننے کا اعلان ہوتے ہی ہندو اور سکھوں کے مسلح جتھے ہر طرف نکل آئے، انہوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا، ہمارے شہر تجارہ میں تو خود فوج نے ایسا کیا۔ بڑی تعداد میں مسلمان شہید ہوئے، ایک دن میں 30 افراد نے جامِ شہادت نوش کیا، صرف ہماری حویلی میں 17افراد کو شہید کیا گیا۔ میں اپنے شہر میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر تھا، بچتا بچاتا اکیلا ہی پاکستان پہنچ گیا۔ میرے والد ریلوے میں ملازم تھے، کسی طرح وہ بھی تاخیر سے سہی لیکن میری والدہ اور بہن بھائیوں کے ہمراہ پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ ہجرت کا یہ عمل معمولی نہیں ہے، لوگوں نے کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والی ریاست کے لیے آگ و خون کا دریا عبور کیا۔
سوال: انڈیا میں آپ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر اور تحریک ِ پاکستان کے کارکن رہے، پاکستان آکر آپ نے ایم ایس ایف کو منظم کرنے یا مسلم لیگ میں جانے کے بجائے اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی سے وابستگی کیوں اختیار کی؟
جواب: قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی رحلت کے بعد مسلم لیگ اور پاکستان کی قیادت میں وہ جذبہ نہیں رہا جس کے لیے پاکستان قائم ہوا، سازشوں کا دور شروع ہوگیا، نواب زادہ لیاقت علی خان کی شہادت اور قائد کی ہمشیرہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ انہوں نے لوگوں کو مایوس کیا۔ یہ اتفاق ہے کہ مجھے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا لٹریچر پڑھنے کو ملا، اس نے میری سو چ و فکر کو مہمیز دی، میں نے شعوری طور پر طے کیا کہ اب اصل کام پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا ہے تاکہ اس کے قیام کا مقصد حاصل کیا جاسکے، اس کے بعد میں جماعت اسلامی، پھر اسلامی جمعیت طلبہ، اور پھر جماعت اسلامی کا حصہ بن گیا۔ میں نے 23 فروری 1958ء کو جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف اٹھایا۔ مولانا وصی مظہر ندوی مرحوم حیدرآباد کے امیر جماعت اسلامی تھے۔ اُسی سال جنرل ایوب خان نے ملک میں مارشل لا لگادیا تھا تو سیاسی سرگرمیاں تقریباً ختم ہوگئی تھیں۔
سوال: آپ نے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا، جماعت اسلامی، اس کے طلبہ اور لیبر ونگ میں اہم ذمہ داریاں نبھائیں، کیا سمجھتے ہیں ہم اپنی منزل کے قریب ہیں یا راستہ بھٹک گئے ہیں؟
جواب: اس کے لیے بہت تفصیلی تجزیہ چاہیے کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ دکھ اُس وقت ہوا جب پاکستان دولخت ہوا۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت کے ٹوٹنے کا صدمہ معمولی نہیں تھا۔ پاکستان توڑنے کے ذمہ دار کردار سامنے آچکے ہیں۔ بھارت و بیرونی قوتوں کے علاوہ جرنیلوں، سیاست دانوں اور حکومتوں کے غلط و امتیازی فیصلے پاکستان توڑنے کا سبب بنے، تاہم اس کے باوجود ہم نے سبق نہیں سیکھا ہے۔ باہر کا دشمن تب کامیاب ہوتا ہے جب اندر سازشی عناصر پوری طرح سرگرم ہوں۔ بدقسمتی سے ہم سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ غیر ذمہ دارانہ اور غلط فیصلوں سے ریاست کمزور ہورہی ہے، ملک کے مستقبل سے ہر شخص پریشان ہے۔ اگر آئین و قانون کی پاسداری پر سب یکسو ہوجائیں، حکمراں کفایت شعاری کا راستہ اختیار کرکے معیشت کو بہتر بنانے کے لیے مثبت فیصلے کریں تو ہم معاشی و سیاسی بحران سے نکل سکتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان میں اللہ کی ہر نعمت موجود ہے لیکن ہم کفرانِ نعمت کررہے ہیں، تاہم دیانت دار اور باصلاحیت قیادت ملک کو اس گرداب سے نکال سکتی ہے۔