بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی سیاست اور ماہ رنگ بلوچ سے معاہدہ

پیپلز پارٹی کے دو بڑے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری بلوچستان کے دورے پر آتے رہتے ہیں۔ اب تو ان کی آمد بطور حکمران ہوتی ہے کہ صوبہ ان کی دسترس میں بھی ہے۔ آصف علی زرداری مملکت کے صدر ہیں، ظاہر ہے پروٹوکول اسی شان کا ملتا ہے۔ حکمران کا پروٹوکول بلاول بھٹو کو بھی حاصل ہے۔ صوبے کی حکومت ان کے آگے پیچھے رہتی ہے۔ ویسے تو اِس حکومت کا حقیقی خالق کوئی اور ہے، مگر پھر بھی زرداری اور ان کے بیٹے کو حیثیت حاصل ہے۔

بلاول بھٹو 4 اور 5جولائی کو کوئٹہ آئے۔ لوگوں نے کہا کہ پارٹی رہنمائوں اور خاص کر بلوچستان اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے بعض اراکین کے کہنے پر دورہ کیا جو سرفراز بگٹی سے نالاں ہیں۔ ظاہر ہے یہاں کوئی ذرا بھی محرومی گوارا نہیں کرتا، اور یقیناً ہر ایک کی فرمائش پوری کرنا سرفراز بگٹی کے بس کی بات بھی نہیں۔ بہرحال پارٹی صوبے میں اندرونی کشمکش کا شکار ہے۔ صوبائی عہدے داروں نے ایک دوسرے کے خلاف پریس کانفرنسیں کیں جس پر مرکزی قیادت نے انہیں شوکاز نوٹس جاری کیے۔ صوبائی صدر چنگیز جمالی اور سیکریٹری جنرل روزی خان کاکڑ نے صوبائی سیکریٹری اطلاعات سمیت 20 عہدے داروں کی رکنیت یہ کہہ کر ختم کردی کہ انہوں نے عام انتخابات اور بلدیاتی انتخابات میں مخالف امیدواروں کی حمایت کی۔ پارٹی کے صوبائی سینئر نائب صدر سردار عمر گورگیج اور صوبائی سیکریٹری اطلاعات سربلند جوگیزئی کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان کے 28 اضلاع کے عہدے دار پہلے ہی صوبائی صدر اور جنرل سیکریٹری پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں، اس لیے وہ اپنے عہدوں سے فارغ ہوچکے ہیں۔ دراصل یہ اختلافات پی ایس ڈی پی کے فنڈز پر ہیں۔ صوبائی حکومت نے پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر کے لیے 80 کروڑ، جبکہ سیکریٹری جنرل کے لیے تقریباً 60 کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز مختص کیے جو ان کی مرضی کے منصوبوں پر خرچ ہونے تھے۔ تاہم پارٹی کے صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی عہدے داروں نے ترقیاتی منصوبوں میں اپنے علاقوں کو نظرانداز کرنے پر احتجاج کیا اور بلاول بھٹو زرداری کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا، جس پر یہ فنڈز روکے گئے۔

سرفراز بگٹی پر پیپلز پارٹی کا لیبل ضرور لگا ہے مگر ان کے سرپرست زورآور ہیں، اُن کی رضا کے بغیر سرفراز بگٹی کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکے گا، یہ سرپرست اتنے طاقت ور ہیں کہ دو مرتبہ قدوس بزنجو جیسے نامعقول شخص کو بھی وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا چکے ہیں۔ تب سرفراز بگٹی کو بھی ان کی حاکمیت تسلیم کرنا پڑی۔ پیپلز پارٹی خالق کے اس کھیل میں شریک تھی۔

اپنے مذکورہ دورے میں بلاول بھٹو نے قرار دیا کہ ان کی جماعت دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں نہیں آئی ہے بلکہ پیپلز پارٹی کے خلاف دھاندلی ہوئی ہے۔ بات بلوچستان کی حد تک کی جائے تو بلاول بھٹو کذب بیانی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ سب سے پہلی مثال سرفراز بگٹی خود ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ وہ کس طرح کامیاب ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے علی مدد جتک، صمد گورگیج، عبید گورگیج، ملک شاہ گورگیج، جمال رئیسانی سمیت سارے پانچ پانچ سو ووٹ والے ہیں، جنہیں جیتنے والوں پر برتری دلائی گئی۔ پیپلز پارٹی کے بعض ایم پی ایز اور ایم این ایز کے پاس جب حلقہ انتخاب کے لوگ کسی کام کی غرض سے جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ووٹ سے نہیں ”فرشتوں“ کی مدد سے آئے ہیں اور کسی کے کام کرنے کے پابند نہیں۔ یعنی وہ یہ اقرار کرتے ہیں کہ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو اچھی طرح جانتے ہیں کہ فارم47مرتب کرنا اُن کے اور آصف علی زرداری کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی ڈکٹیشن لیتی ہے۔ یہاں بلوچستان کے حالات کے بارے میں اُن کا اور مقتدرہ کا مؤقف ایک ہی ہے۔ بلوچستان کے مرض کی جو دوا مقتدرہ تجویز کرتی ہے وہی پالیسی اور بیانیہ پیپلز پارٹی آگے لے کر جاتی ہے۔ ہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ کل کلاں پیپلزپارٹی اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو ناکامیوں اور برائیوں کا ٹوکرا سرفراز بگٹی کے کاندھوں پر ڈالنے کا وتیرہ اپنایا جائے گا، جس طرح 2008ء کی حکومت کے اختتام پر کیا گیا۔ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ وزیراعظم اسی کا تھا۔ صدرِ مملکت کی کرسی پر آصف زرداری بیٹھے ہوئے تھے۔ اُس دور میں بلوچستان کو مزید لوٹا گیا۔ یہ لوگ امن قائم کرنے میں ناکام رہے۔ آصف زرداری نے اپنے دامن کا داغ دھونے کی کوشش کرتے ہوئے ملبہ سارے کا سارا نواب اسلم رئیسانی پر ڈالا۔ نواب اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ تھے۔ کوئٹہ کے ہزارہ عوام اور اہلِ تشیع کے احتجاج کو جواز بناکر نواب رئیسانی کی حکومت ہٹاکر گورنر راج نافذ کردیا، حالاں کہ پرخاش اور وجہِ انتقام بلوچستان کے اندر بڑے بڑے منصوبوں میں نواب رئیسانی کی ہٹ دھرمی تھی۔ وہ آصف علی زرداری کی خواہشات اور احکامات کے آگے رکاوٹ تھے۔ بلاشبہ نواب رئیسانی بھی مثالی وزیراعلیٰ نہ تھے۔ چناں چہ سرفراز بگٹی بھی رنگ بدلنے میں دیر نہیں کریں گے۔ آج بلاول بھٹو ان کے قائد ہیں تو کل نوازشریف تھے۔ بلوچستان عوامی پارٹی میں جام کمال خان ان کے قائد تھے، یہاں تک کہ عبدالقدوس بزنجو بھی ان کے قائد رہ چکے ہیں۔ سو آئندہ بلاول بھٹو کے بجائے کوئی اور ان کا قائد بن سکتا ہے، اور وہ پیپلز پارٹی کو جواب ترکی بہ ترکی دیں گے۔

کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں ڈھائی ڈھائی سال کی حکومت کا فارمولا طے ہے۔ تاہم اس معاہدے کی کسی جانب سے تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ اگر ہو بھی تو مسلم لیگ نواز کا بلوچستان میں ایک بھی ڈھنگ کا رکن نہیں ہے جو وزارتِ اعلیٰ کے منصب کے لیے موزوں ہو۔ خیر بلوچستان میں کچھ بھی ممکن ہے، جب دو مرتبہ عبدالقدوس بزنجو جیسا پست سطح کا آدمی وزارتِ اعلیٰ کے اہم منصب پر بٹھایا جاچکا ہے تو نواز لیگ کے حاضر وقت کے ارکان میں سے بھی کوئی یہ منصب سنبھال ہی لے گا۔

پیپلز پارٹی واضح الفاظ میں کہہ چکی ہے کہ بلوچستان کے اندر حکومتی رٹ کے قیام کے لیے طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ عوامی سطح پر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو ہزیمت کا سامنا ہے۔ مسلح گروہ اپنی جگہ، یہاں ڈاکٹر ماہ رنگ پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی کی فارم 47 کے تحت قائم حکومت کے مقابل بلوچ عوام کو سڑکوں پر لاچکی ہیں۔ گوادر جلسہ عام کو سبوتاژ کرنے کے پیپلز پارٹی حکومت کے آمرانہ حربوں کے بعد ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بلوچ یکجہتی کمیٹی کو مزید مہمیز ملی ہے۔ گوادر دھرنے کا اختتام پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ تحریری معاہدے کے تحت ہوا۔

دھرنے کے اختتام پر گوادر میں جلسہ کرکے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ 9 اگست کو جلوس کی صورت میں تربت روانہ ہوگئیں اور فقیدالمثال جلسہ عام سے خطاب کیا۔ اجتماع میں ہزاروں بلوچ خواتین بھی شریک تھیں۔ جلسے کا منظر ہو بہو بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا کے جلسہ عام جیسا تھا جس سے 7 اگست کو سابق وزیراعظم خالدہ ضیاءنے حسینہ واجد کی قید سے رہائی کے بعد خطاب کیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ تربت کے بعد 10اگست کو پنجگور گئیں، یہاں بھی مرد و خواتین کا ہجوم امڈ آیا تھا۔ 11اگست کو سوراب اور قلات اور12اگست کو نوشکی میں استقبال دیدنی تھا۔

لوگوں کا ایسا ہجوم آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو بلوچستان کا خزانہ لگا کر بھی اکٹھا نہیں کرسکتے۔ 12 اگست کو کوئٹہ کے سریاب روڈ کے شاہوانی فٹ بال گراؤنڈ میں بڑا جلسہ عام منعقد ہوا۔ ماہ رنگ بلوچ اور دوسرے رہنماؤں نے خطاب کیا۔

یہاں بلوچ یکجہتی کمیٹی کا پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ گوادر کا تحریری معاہدہ بھی مدنظر رہے جو درج ذیل نکات پر مشتمل ہے:

٭ 7 رکنی معاہدے کے تحت بلوچ راجی مچی (بلوچ قومی اجتماع) کے دوران گرفتار کیے گئے تمام افراد کو رہا اور ان پر مقدمات ختم کیے جائیں گے ماسوائے اُن مقدمات کے، جو جانی نقصان سے متعلق ہیں۔

٭دھرنا ختم ہوتے ہی تمام شاہراہیں اور نیٹ ورک بحال کیا جائے گا۔

٭احتجاج کے دوران ہونے والے عوام کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا۔

٭محکمہ داخلہ نوٹیفکیشن جاری کرے گا کہ کسی قسم کے پُرامن اور قانونی اجتماع پر طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔
٭حکومت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں اور احتجاج کے شرکاء کو ہراساں کرے گی اور نہ کوئی مقدمہ درج کرے گی۔

٭معاہدے میں احتجاج کے دوران ہلاک و زخمی افراد کے مقدمات ریاستی اداروں کے خلاف درج نہ ہونے پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کا قانونی چارہ جوئی کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔

٭حکومت تین صوبائی وزراء پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے گی جو طے شدہ معاہدے پر عمل کرے گی۔

اس معاہدے پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، صبغت اللہ، سمی دین بلوچ، جبکہ حکومت کی جانب سے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینئر صوبائی وزیر ترقی و منصوبہ بندی ظہور احمد بلیدی، رکن قومی اسمبلی ملک شاہ گورگیج، پارلیمانی سیکریٹری لیاقت علی لہڑی اور ڈپٹی کمشنر گوادر حمود الرحمان نے دستخط کیے۔