برطانیہ میں مسلم مخالف فسادات دعوتِ اسلام کے مواقع

چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ کی واضح مذمت

برطانیہ میں مسلم مخالف فسادات کی لہر پر مکمل طور پر قابو پالیا گیا۔ ایک عرصے کے بعد فسادات کی بڑی لہر دیکھنے میں آئی جو کہ2011ء کے لندن فسادات سے کہیں زیادہ بڑی، وسیع اور تباہی کا باعث بنی۔ 2011ء کے لندن فسادات لندن تک ہی محدود رہے، اور ان میں کسی بھی مذہب کو براہِ راست نشانہ نہیں بنایا گیا، لیکن 2024ء کے فسادات اس حوالے سے زیادہ مہلک ثابت ہوئے کہ ان فسادات کی لہر پورے برطانیہ تک پھیل گئی اور اس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ لیکن ہر شر میں سے کوئی نہ کوئی خیر ضرور برآمد ہوتا ہے، برطانیہ کے مسلم مخالف فسادات میں سے خیر ہی خیر برآمد ہوا، اور یہ فسادات اپنے کروانے والوںکے لیے اللہ کی مشیت سے نہ صرف الٹا خسارے کا باعث بن گئے بلکہ یہ اسلام کی دعوت ایک بڑے طبقے تک پھیلانے کا باعث بھی بنے۔ وہ مسلمان جو کل تک کسی نہ کسی حد تک تقسیم تھے وہ بھی ان فسادات کے باعث باہم یکجا ہوئے اور اسلام کی دعوتِ عظیم الشان کے ایسے مظاہر دیکھنے کو ملے جس کے باعث مغرب میں رہنے بسنے والے خود اسلام کے امن پسند مذہب ہونے کے عینی شاہد بن گئے۔ اس سلسلے میں گوکہ واقعات کی ایک طویل فہرست ہے، تاہم برطانوی میڈیا میں لیورپول کی مسجد عبداللہ کلیم کے امام اور مسلمانوں کا بڑا چرچا ہے۔ امام صاحب کے انٹرویو برطانوی نشریاتی اداروں پر نشر کیے جارہے ہیں اور اسلام کی دعوت خود اُسی میڈیا سے پھیل رہی ہے جو کل تک مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی طور نفرت کا پرچار کررہا تھا۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ برطانیہ کے شہر لیورپول میں فسادات کا آغاز ہوتے ہی عبداللہ کلیم مسجد کے باہر مظاہرے کی کال دی گئی۔ پولیس نے مسجد کے باہر حفاظتی انتظامات کے تحت بار لے کر مسجد کو حفاظتی تحویل میں لے لیا۔ ادھر مظاہرہ شروع ہوا تودوسری جانب مسجد کی انتظامیہ نے مظاہرین سے نمٹنے کا انوکھا طریقہ استعمال کیا، انہوں نے ان مظاہرین کے لیے مسجد کے کچن میں طعام کا انتظام شروع کردیا۔ برگر اور چپس تیار کیے گئے، اور تقریباً تین گھنٹے کے مظاہرے کے بعد جب مظاہرین تھوڑے ٹھنڈے ہوئے تو امام مسجد وہ برگر اور چپس وافر مقدار میں ان مظاہرین کے پاس لے کر گئے، ان سے گفتگو کا آغاز کیا اور انہیں یہ کھانا پیش کیا۔ یہ سب کچھ مظاہرین کے لیے اتنا حیرت انگیز تھا کہ وہ ششدر رہ گئے، کئی ایک تو نظریں چراتے رہے۔ امام مسجد نے ان کو مسجد کے اندر آنے کی دعوت دی۔ کئی مظاہرین نے موقع پر موجود مسلمانوں کو گلے لگا لیا۔ جب اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو پورے برطانیہ میں اس کی تحسین کی گئی۔ برطانوی میڈیا اور پولیس سمیت سب حیران ہیں کہ اسلام کا یہ رخ شاید ان کی نظروں سے اوجھل تھا۔ اور یہ سب کچھ قرآن کی آیت کی تفسیر ہی تو ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

(ترجمہ) ’’اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔

یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیب والے ہیں۔‘‘
(سورہ فصلت، آیت نمبر 34۔35)

مغرب میں مسلمانوں کے لیے عداوت کا جو بیج بویا گیا تھا وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے صبر و استقامت کے بعد آج ختم ہورہا ہے۔ مسلمانانِ مغرب کا رویہ اسلام کے پیغامِ عظیم الشان کو لوگوں تک پہنچا رہا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ان فسادات میں خود سفید فام نسل سے تعلق رکھنے والے مساجد کی حفاظت میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ تھے، بلکہ مساجد کی حفاظت کے معاملے میں وہ مسلمانوں سے تعداد میں کہیں زیادہ تھے۔ یہی حال ان نفرت پھیلانے والوں کے خلاف مظاہرے کرنے والوں کا تھا، لندن سمیت پورے ملک میں سفید فام نسل کے افراد ہی ان نفرت پھیلانے والے سفید فام افراد کے خلاف نکل آئے اور فلسطین کے حق میں کم ہونے والے مظاہرے مزید بڑھ گئے۔ اگر چند الفاظ میں اس کو بیان کیا جائے تو یہ محض اللہ کی نصرت ہی ہے، ورنہ ایک ایسا ملک جس میں مسلمانوں کی تعداد کُل آبادی کا محض 6.5 فیصد ہے، وہاں اگر نسل اور مذہب کی بنیاد پر یہ سلسلہ جاری رہتا تو نتائج بھیانک ہوسکتے تھے۔

دوسری جانب جسٹن ولبائے جوکہ آرچ بشپ آف کٹربر ہیں اور چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ ہیں، انہوں نے واضح طور پر ان فسادات کو مسلم مخالف فسادات قرار دیتے ہوئے تمام عیسائیوں کو ان میں نہ صرف شمولیت سے منع کیا بلکہ ان مظاہروں میں عیسائی مذہبی نشانات کے استعمال کی مذمت کی۔ انہوں نے برطانوی مؤقر اخبار دی گارجین کی 12 اگست 2024ء کی اشاعت میں لکھا کہ ان نشانات کو فسادات میں استعمال کرنے والوں کا عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں، مسیحیت امن کا مذہب ہے اور وہ کسی اور مذہب کی عبادت گاہوں پر حملوں یا ان کے خلاف نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے کھل کر ان فسادات کی جڑ پر بھی اظہارِ خیال کیا، انہوں نے لکھا کہ اس نفرت کی بنیاد ہمارے میڈیا اور سیاست دانوں نے جھوٹ پر رکھی ہے۔ ہم اس نفرت کی کھل کر مذمت کرتے ہیں اور جھوٹی خبریں پھیلانے والے دراصل نفرت کو فروغ دینے والے ہیں۔

جسٹن ولبائے نہ صرف چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ ہونے کی وجہ سے، بلکہ اپنے واضح مؤقف اور اس کا دوٹوک اظہار کرنے کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہیں۔ انہوں نے گزشتہ حکومت میں بھی کھل کر حکومت کے مہاجرین کو روانڈا بھیجنے کے اقدام کی مخالفت کی تھی۔ رشی سونک کی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا:

’’جو وسائل خدا نے ہم کو دیے ہیں یہ صرف ہمارے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہیں، اور وہ لوگ جو کسی وجہ سے پریشانی کے عالم میں اپنے ملک کو چھوڑتے ہیں اِن وسائل پر اُن کا بھی حق خدا نے اُن کو دیا ہے جس کو حکومت اپنے کسی بھی اقدام یا قانون سازی سے ختم نہیں کرسکتی۔‘‘

اور اب وہ دوبارہ نہ صرف مہاجرین بلکہ کھل کر مسلمانوں کے حق میں کھڑے ہیں اور اس کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عیسائیت و عیسائی اقدار پر یقین رکھنے والے آج بھی مسلمانوں کے زیادہ قریب ہیں۔ ان فساد پھیلانے والوں کا زیادہ حصہ لادین، لاعلم اور غیر تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہے جس کا اظہار کئی ویڈیو انٹرویوز میں ہوچکا ہے۔ چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ کا یہ بیان صرف ایک بیان ہی نہیں بلکہ اُس بیانیے کا مکمل خاتمہ بھی ہے جو جارج بش نے نائن الیون کے بعد کروسیڈ کا لفظ استعمال کرکے دیا تھا۔ بظاہر صورتِ حال بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے جس کا اندازہ شاید کسی کو نہیں تھا۔ مغرب میں فلسطین کے حق میں رائے عامہ کی ہمواری، فلسطین میں نسل کُشی کرنے والوں کی مغرب میں سفید فاموں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے میں ناکامی، فلسطین کی نسل کُشی کا ہٹلر کی یہودیوں کی نسل کُشی سے موازنہ، مغربی میڈیا پر اسلام کے پیغامِ عظیم الشان کا ابلاغ… یہ سب وہ حقائق ہیں جن کو دیکھ کر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کی نیندیں حرام ہورہی ہیں۔

اللہ کی مصلحت کے تحت ایسے عجیب و غریب واقعات رونما ہورہے ہیں کہ بار بار مغرب کا میڈیا ان کو دکھانے پر مجبور ہے، اور لوگ بھی اس سے اثر لے رہے ہیں۔ 12 اگست 2024ء کو لندن کے مصروف ترین علاقے لیسڑ اسکوائر میں ایک شخص نے چاقو کے وار کرکے ایک گیارہ سالہ بچی اور اس کی 34 سالہ ماں کو زخمی کردیا۔ وہ فرد چاقو لے کر دیگر افراد پر حملہ آور تھا کہ اتنے میں کافی شاپ کے سیکورٹی گارڈ نے اس کو قابو کرلیا، اس کے بعد پولیس آئی اور وہ فرد گرفتار ہوا۔ حملہ آور کو قابو کرنے والا سیکورٹی گارڈ عبداللہ ایک مہاجر ہی ہے جو وہاں کافی شاپ پر سیکورٹی گارڈ ہے، جبکہ خود حملہ آور جس کو ویڈیو میں دیکھا گیا تاہم پولیس نے اس کی شناخت ابھی تک ظاہر نہیں کی، سفید فام ہے۔ اب برطانوی میڈیا میں چہار جانب عبداللہ کا چرچا ہے۔ ’’اللہ کا بندہ‘‘ لوگوں کی جان بچانے والا ہیرو ہے، جبکہ گزشتہ ماہ جس نفرت اور جھوٹ کی بنیاد پر ان فسادات کا آغاز ہوا تھا وہ

بھی کم و بیش یہی تھیں کہ جھوٹ گھڑا گیا کہ ایک مسلمان نے بچوں کی نرسری پر حملہ کرکے تین بچیوں کو قتل کردیا۔ جبکہ قاتل غیر مسلم نکلا۔ اب زخمی ہونے والا اور زخمی کرنے والا تو مسلمان نہیں لیکن کئی لوگوں کی جان بچانے والا مسلمان ہے۔ یہ واقعہ کسی دور دراز کے علاقے میں رونما ہوتا تو بھی شاید اتنی پذیرائی نہ پاتا، لیکن ہزاروں افراد کے سامنے ایک مسلمان اپنی جان کی پروا کیے بغیر جانوں کو بچارہا ہے۔

ایہ ہے اللہ کی مصلحت کہ اُس نے معاملات کو پلٹ دیا۔ مکر و فریب تیزی سے بے نقاب ہورہا ہے، مسلمانانِ مغرب حوصلے میں ہیں اور اُن کا حوصلہ پوری دنیا کے نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری دنیا میں امن کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہوگا۔
مغرب میں تبدیلی کی لہر کو امن پسند، با علم اور کسی بھی مذہب کے ماننے والے خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ شاید کہ یہ نئے دور کا آغاز ہے۔