حکومت کو یہ بھی ڈرہے کہ آگے جاکر عدلیہ اگر انتخابات کی شفافیت کے مسئلے کو اٹھاتی ہے تو اس صورت میں موجودہ حکومت اور پارلیمان کو برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔
پاکستان میں تمام ادارے ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں، اور ہر ادارہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ باقی اداروں پر بالادستی رکھتا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں ہمیں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا عدلیہ کے ساتھ ٹکرائو دیکھنے کو مل رہا ہے اور حکومت عدالتی فیصلوں کو قبول کرنے سے مکمل انکاری ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ عدالتی فیصلے ایک مخصوص جماعت پی ٹی آئی کے حق میں آرہے ہیں، اور ان فیصلوں کو بنیاد بناکر حکومت کو دبائو میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی بنیاد پر عدلیہ اور ججوں کو متنازع بنایا جارہا ہے جس سے عدالتی ماحول میں بھی تلخیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اس ٹکرائو کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل بیانات کافی ہیں:
(1)پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہماری عدالتیں اور جج موجودہ حالات میں سیاسی بحران پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں‘‘۔ ان کے بقول ایک ادارہ یعنی سپریم کورٹ باربار پارلیمانی نظام میں مداخلت کرتا ہے، حالانکہ پی ٹی آئی سے بلے کا نشان ہم نے نہیں بلکہ خود عدالت نے چھینا تھا اور اب عدالت نے پی ٹی آئی کو وہ کچھ دیا ہے جو انہوں نے عدالت سے مانگا ہی نہیں تھا۔
(2) جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ہر صورت عمل کرنا ہوگا۔ جسٹس منصورعلی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے حکم نامہ جاری کیا ہے کہ بطور اپیکس کورٹ آئینی تشریح، انصاف کی فراہمی اورآئین پر عمل درآمد کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ فیصلے محض سفارشات یا ایڈوائزی نہیں ہوتے۔ اُن کے بقول فیصلوں کو نظرانداز کرنا یا ان پر عمل درآمد میں تاخیر آئینی ڈھانچے کو چیلنج کرنے کے مترادف ہوتی ہے۔ جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ نے ایک مقدمے میں ریمارکس دیے ہیں کہ جرنیلوں اور بیوروکریٹس نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے اور بیوروکریٹس عوام کی نہیں بلکہ کسی اور کی خدمت کررہے ہیں۔ اُن کے بقول یہ ملک عوام کے لیے بنا ہے صاحبوں کے لیے نہیں، اورملک ایسے نہیں چلے گا۔ یہ باتیں چیف جسٹس اور اٹارنی جنرل کے درمیان مکالمے کی صورت میں سامنے آئی ہیں۔
یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کہ ایک طرف حکومت نے اپنا لنگر لنگوٹ کس لیا ہے اور سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں والے فیصلے پر عمل درآمد سے انکار کردیا ہے، وہ عدالتی فیصلے کے خلاف ریویو میں چلی گئی ہے اور دوسری طرف اس نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر اپنے مؤقف کی حمایت میں الیکشن ایکٹ میں ہی ایسی ترامیم کرلی ہیں جو پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے سے روکتی ہیں۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن نے بھی عدالتی فیصلے کو من وعن قبول کرنے کے بجائے اسے عدالت میں چیلنج کردیا ہے۔ اس لیے اب سپریم کور ٹ کے سامنے اوّل حکومتی ریویو، دوئم الیکشن ایکٹ میں ترامیم، سوئم الیکشن کمیشن کا فیصلے کو چیلنج کرنے کا عمل موجود ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ حکومتی عزائم پر عدالتیں کیا فیصلہ کرتی ہیں، اورکیا ان فیصلوں کی بنیاد پر ہمیں حکومت اور عدلیہ کے تناظر میں نئی لڑائی دیکھنے کو ملے گی؟ اس سے قبل بڑی اور چھوٹی عدالتوں کے ججوں نے تحریری طور پر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ ان پر اسٹیبلشمنٹ، ایجنسیوں اور حکومت کا دبائو ہے اور انہیں اور ان کے اہلِ خاندان کو مختلف طور طریقوں سے ڈرایا جارہا ہے یا دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ عدالتی فیصلوں کو ہمارے تابع رکھیں وگرنہ دوسری صورت میں سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔ مگر اس پر اعلیٰ عدالتوں نے کوئی مؤثر نوٹس نہیں لیا۔
اصل میں اسٹیبلشمنٹ ہو یا حکمران اتحاد… ان دونوں نے طے کرلیا تھا کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو مکمل طور پر دیوار سے لگانا ہے اور اس عمل میں عدالتوں نے پی ٹی آئی کے خلاف سہولت کار کا کردار ادا کرنا ہے۔ حکومت کو اس بات کا گلہ ہے کہ اعلیٰ عدالتیں اور ان کے بڑے جج حکومت کے فیصلوں کے ساتھ کھڑے ہونے سے انکاری ہیں۔ حکومت اوراسٹیبلشمنٹ دونوں نے اس بات پر بھی عدالت سے گلہ کیا ہے کہ وہ 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے ساتھ نرمی برت رہی ہیں اور وہ افراد جنہوں نے ریاست کے خلاف بغاوت کی اُن کے بارے میں نرم گوشہ اختیاررکھا جارہا ہے اور عدالتیں ان کو سزا دینے کے بجائے انہیں ریلیف دے رہی ہیں۔ جبکہ اس پر عدالت کا مؤقف ہے کہ ہم کسی کو بھی جان بوجھ کر رعایت نہیں دے رہے بلکہ ان کی رہائی یا ان کو جو ریلیف مل رہا ہے وہ ٹھوس ثبوت اور شواہد نہ ہونے کی وجہ سے مل رہا ہے، اور ہم کسی کو بھی کسی صورت بغیر ثبوت کے سزا نہیں دے سکتے۔عدالتیں اپنے فیصلوں میں بار بار لکھ رہی ہیں کہ حکومت اور پراسیکیوشن کی ان مقدمات میں کوئی تیاری نہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ثبوت ہے۔ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے عزائم یہ تھے کہ ہم عدالت میںایک بڑی تقسیم پیدا کردیں گے اور اس تقسیم کے تناظر میں عدالتوں سے اپنی مرضی اور بینچ کی بنیاد پر فیصلے کروالیں گے،مگر اس میں ناکامی نے یقینی طور پر حکومت کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔بنیادی بات یہ ہے کہ حکومت یا بلاول بھٹو کی جانب سے یہ جو کہا جارہا ہے کہ عدلیہ موجودہ سیاسی بحران کی ذمہ دار ہے، سوال یہ ہے کہ سیاسی معاملات کو بار بار عدالتوں کی طرف کون لے کر جارہا ہے؟ اور حکومت ہو یا حزب ِاختلاف… دونوں ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ سیاسی فیصلے سیاسی فورم پر کرنے کے بجائے عدالتوں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے، اور یہ بھی کوشش کی جاتی ہے کہ عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلے کروائے جائیں، اور اگر فیصلے خلاف آتے ہیں تو پھر عدالتوں کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا جاتا ہے۔ حکمران طبقے کی حکمتِ عملی ہمیشہ سے عدالتوں کو نظریۂ ضرورت کے تحت چلانے، اپنی مرضی کے جج لگوانے، مرضی کے بینچ بنانے اور ججوں کو اپنی حمایت پر مجبور کرنے کی رہی ہے۔ اصل بحران یہ ہے کہ حکومت سمجھتی ہے اگر مخصوص نشستوں پر عدالتی فیصلے کو تسلیم کیا تو اس سے اُسے سیاسی محاذ پر خاصی پسپائی کا سامنا ہوگا اور بہت سی نئی مشکلات پیدا ہوں گی۔ اسی طرح اگر عدالت کی طرف سے بنائے گئے الیکشن ٹریبونلز کے فیصلے بھی حکومت کے ارکانِ اسمبلی کے خلاف آتے ہیں تو ان کی نہ صرف اکثریت ہی ختم ہوجائے گی بلکہ پورے انتخابات کی ساکھ مجروح ہوگی۔ حکومت کو یہ بھی ڈرہے کہ آگے جاکر عدلیہ اگر انتخابات کی شفافیت کے مسئلے کو اٹھاتی ہے تو اس صورت میں موجودہ حکومت اور پارلیمان کو برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔اس لیے اگر حکمران طبقہ عدالت کو بنیاد بنا کر مہم جوئی کررہا ہے یا عدلیہ کو دبائو میں لانے کی کوشش کررہا ہے تو یہ سب کچھ ان کے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ حکمران طبقے کو لگتا ہے کہ ان کے سیاسی عزائم میں عدلیہ رکاوٹ پیدا کررہی ہے، اوراگر اس کو روکا نہ گیا تو پھر اس حکومتی بندوبست کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔اسی لیے حکمران اتحاد چاہتا ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سمیت دیگر رہنمائوں اور جماعت کوکسی بھی سطح پر عدالت سے کوئی ریلیف نہ ملے اور عمران خان کو بدستور جیل ہی میں رکھا جائے۔مگر حکومت کو اندازہ ہے کہ اب عمران خان کو عدالتی موڈ کی بنیاد پر زیادہ عرصے تک جیل میںنہیں رکھا جاسکے گا،کیونکہ عمران خان کے خلاف وہ ثبوت اور شواہد نہیں ہیں جن کی بنیاد پر اُن کو عدالت کی طرف سے کسی بڑی سزا کی طرف دھکیلا جاسکے۔
حکومت کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اس سے نہ تو سیاسی بحران اور نہ ہی معاشی بحران حل ہورہا ہے، اور اس ناکامی کی وجہ سے اسے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھی بوجھ سمجھا جارہا ہے۔ حکومت کو خدشہ ہے اور اس کی خبریں بھی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ موجودہ حکومت سے مایوس ہوکر عمران خان سے نئے معاملات طے کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ حکومتی حلقوں میں ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ پسِ پردہ عمران خان اور غیر سیاسی لوگوں میں کچھ نہ کچھ چل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف شہبازشریف کو خدشہ ہے کہ کہیں معاملات ان کو باہر نکال کر طے نہ ہوجائیں، اوردوسری طرف نوازشریف کی بھی پریشانی بڑھ رہی ہے اور اُن کو لگتا ہے کہ ان کے بھائی اور اسٹیبلشمنٹ نے ان کو واپس بلا کر ان کی سیاست کو خراب کردیا ہے۔ وہ کچھ بولنا چاہتے ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ سے ہٹ کر سیاست کرنے کی ان کو بھی اجازت نہیں ہے۔ اگر انہوں نے پہلے سے طے شدہ ریڈلائن کو کراس کرنے کی کوشش کی تو انہیں نہ صرف لال جھنڈی دکھائی جائے گی بلکہ ان کو مزید نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اسی بنیاد پر اسلام آباد کا سیاسی موسم غیر یقینی کا شکار ہے اور روزانہ کی بنیاد پر موجودہ نظام سے نمٹنے کے لیے ایک متبادل نظام پر سوچ بچار اور اس میں رنگ بھرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بعض لوگوں نے اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بھی بنگلہ دیش ماڈل کی طرف بڑھیں اور اس حکومت کو رخصت کرکے ایک دو برس پر مبنی عبوری سیٹ اپ لائیں، اور دو برس کے بعد نئے انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تمام جماعتیں چاہے حکومتی سطح کی ہوں یا حزبِ اختلاف کی، وہ کیوں دوبرس پر مبنی ایسا عبوری سیٹ اپ قبول کریں گی جس سے ان کو باہر نکال کر سیاسی دربار سجایا جائے گا، اور وہ اس اسکرپٹ کے خلاف کیوں مزاحمت نہیں کریں گی؟ اس لیے پاکستان اور بنگلہ دیش کے حالات مختلف ہیں، اور خود بنگلہ دیش میں بھی اگر عبوری سیٹ اپ نے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کی اور انتخابات میں تاخیری حربے اختیار کیے تو عبوری حکومت کو خاصی مزاحمت اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ویسے بھی عبوری سیٹ اپ کا مشورہ دینے والے افراد غیر سیاسی ہیں۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اپنے لیے سیاسی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طرز کے عبوری سیٹ اپ کی داخلی و خارجی ساکھ کچھ نہیں ہوگی، اور نہ ہی یہ نظام ہمیں معاشی طور پر کھڑا کرسکے گا۔ اسی طرح اس طرز کے عبوری سیٹ اپ کو عدالت میں بھی چیلنج کیا جائے گا اور عدالتی مزاحمت کا پہلو بھی سامنے آسکتا ہے۔بہرحال عدلیہ کا حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو بڑھتا ہے تو یہ کسی بھی صورت میں ریاست کے مفاد میں نہیں ہوگا، اورعدالتی فیصلوں پر عمل نہ کرنے سے بحران بڑھے گا، کم نہیں ہوگا۔ اس لیے حکومت ہو یا اسٹیبلشمنٹ… ان کو سیاست سمیت عدالت کے محاذ پر پہلے سے جاری مہم جوئی کو ختم کرنا ہوگا، اور اگر کسی نئی مہم جوئی کا اسکرپٹ لکھا جارہا ہے تو اس سے بھی انہیں گریز کرنا ہوگا۔ کیونکہ ہم جن حالات سے گزررہے ہیں وہ مشکل ہیں، اور اس مشکل سے نکلنے کے لیے ہمیں سیاسی،جمہوری، آئینی اور قانونی راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔کیونکہ پہلے ہی ہم مختلف نوعیت کی مہم جوئی یا ایڈونچرز سے ملک کو پیچھے کی طرف دھکیل چکے ہیں، اور اگر اس کھیل کو نئے انداز کے ساتھ جاری رکھا جاتا ہے تو نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہوں گے۔ اس لیے خود سیاسی جماعتیں، بالخصوص جو حکمران اتحاد کا حصہ ہیں یا اپوزیشن کی سیاست کررہی ہیں سوچیں کہ وہ ملک کو کدھر لے کرجارہی ہیں۔پہلے ہی ملک میں لوگوں کی بڑی تعداد اپنے خلاف ہونے والی معاشی دہشت گردی سے نالاں ہے۔ لوگو ں کے بقول ریاستی و حکومتی نظام نے ان کی زندگیوں میں سوائے مشکلات کے اور کچھ نہیں چھوڑا۔جب لوگوں میں بدحالی ہو، غیر یقینی حالات ہوں اور ان کو مستقبل کی کوئی روشنی نظر نہ آرہی ہو تو ایسے میں لوگوں اور ملک کے ساتھ مہم جوئی کا راستہ اختیار نہیں کیاجاتا۔ آج بھی اگر ملک کو آگے بڑھانا ہے تو سوائے مفاہمت اور بات چیت کے کوئی راستہ نہیں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے تو اسٹیبلشمنٹ کو بھی سمجھنا ہوگا کہ عمران خان بھی ایک سیاسی حقیقت ہیں، اور ان کو اس نظام سے جبر کی بنیاد پر باہر نکال کر، یا ان پر یا ان کی جماعت پر پابندی عائد کرکے مسائل حل نہیں ہوں گے، بلکہ اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوں گے۔ یہ بات جتنی جلدی اسٹیبلشمنٹ سمجھ لے کہ موجودہ سیاسی بندوبست اور حکمران طبقہ اس نظام پر بوجھ ہے اوراس نے نہ صرف ریاست یا عوام بلکہ خود اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی بہت سی ایسی مشکلات پیدا کردی ہیں کہ خود وہ بھی بہت زیادہ مسائل میںپھنس کر رہ گئے ہیں، اور ان کو بھی باہرنکلنے کے لیے ایک محفوظ راستے کی تلاش ہے۔