گرداب میں پھنسی معیشت اورحکومت کے اقدامات؟

جماعت اسلامی کی تحریک اور دھرنے اس وقت ختم ہوں گے جو عوام کو ریلیف ملے گا۔

بجلی کے نرخوں میں کمی لانے کے مطالبے کے ساتھ جماعت اسلامی نے جو تحریک شروع کررکھی ہے وہ جاری ہے، راولپنڈی میں جو دھرنا دیا تھا اس میں ایک مختصر سا وقفہ آیا ہے، تاہم یہ تحریک ختم نہیں ہوئی۔ تحریک میں وقفہ لینے کا مقصد حکومت کو ایک معقول وقت دینا ہے تاکہ وہ فیصلہ سازی کے لیے اپنی سفارشات مرتب کرسکے۔ حق دو تحریک اور اس کے مطالبات اب بھی زندہ ہیں اور پوری طرح فعال۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا جماعت اسلامی کے کارکنوں اور جماعت اسلامی کے اس مطالبے کے حامی ملک کے شہریوں کا عزم متزلزل نہیں کرسکتا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے ترقیاتی بجٹ سے 50 ارب روپے کی کٹوتی کرکے 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو ریلیف دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نے یہ بات تسلیم کرلی کہ وہ بجلی کے نرخوں میں واقعی عوام سے زیادتی کررہی تھی، اسے اب ایسی زیادتیوں کا باب بند کرنا پڑے گا۔ حکومت کی صفوں کی اطلاع یہ ہے کہ ریلیف کے لیے حکومت سفارشات مرتب کررہی ہے اور آرمی چیف سے بھی مشاورت کی جارہی ہے، ہوسکتا ہے کہ یوم آزادی کے موقع پر یا مستقبل قریب میں حکومت کوئی جامع سفارشات مرتب کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ جماعت اسلامی اور حکومت کے درمیان جو معاہدہ طے پایا ہے اس مذاکراتی کمیٹی میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن اور لیاقت بلوچ شامل تھے۔ مذاکرات کے بعد حافظ نعیم نے بڑے واضح انداز میں پیغام دیا ہے کہ حق دو تحریک اور دھرنے ختم اُس وقت ہوں گے جب عوام کو ریلیف ملے گا۔ حکومت دو پیکیجز پر کام کررہی ہے، بجلی کے یونٹ 200 تک استعمال کرنے والوں کے لیے ایک الگ پیکیج ہوگا، اسی طرح 500 یونٹ تک استعمال کرنے والوں کے لیے الگ پیکیج ہوگا۔ حکومت کو مزید یہ بھی کرنا ہوگا کہ بجلی کے نرخ ہر ہفتے بڑھانے کا سلسلہ ترک کرنا ہوگا۔ نرخوں میں مناسب حد تک کمی نہ ہوئی تو قوم کسی صورت ایسے پیکیجز قبول نہیں کرے گی۔

ملک کے معاشی مسائل پر قابو پانے کے لیے حکومت بہت سے اقدامات کررہی ہے جن میں سے کچھ واقعی لائقِ تحسین ہیں۔ دوست ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کرنا اور ملک کے اندر ایسا ماحول پیدا کرنا جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے سہولت پیدا ہو واقعی ایسے اقدامات ہیں جن کی ایک عرصے سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) پوری طرح متحرک ہے، اس سب کے باوجود آئی ایم ایف کے ساتھ جس سطح پر معاملات طے کیے جارہے ہیں اس سے کوئی مثبت تاثر نہیں ابھرتا۔ اقتصادی گرداب سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا اگر مجبوری ہے، تو بھی کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے جس سے یہ تاثر نہ ملے کہ ملک کو عالمی ساہوکار کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔

وزارتِ خزانہ کی راہداریوں سے ملنے والی اطلاع ہے کہ ’’گھریلو ترقی یافتہ اقتصادی منصوبہ‘‘ کے عنوان سے پالیسی کے مسودے کی نوک پلک سنواری جارہی ہے، اور اب یہ وزیراعظم کو پیش کیا جائے گا۔ اقتصادی منصوبے کے مندرجات اگست میں ہی کسی بھی ہفتے سامنے آجائیں گے۔ دستاویز کا بنیادی فوکس نجکاری اور ملک میں معاشی سرگرمیاں بڑھانے کے علاوہ سبسڈی ختم کرنا ہے۔ حکومت جس منصوبے پر کام کررہی ہے، اس پر27 سال قبل ملک معراج خالد کی نگران حکومت نے کام شروع کیا تھا۔ اُس وقت ڈاکٹر محمد احمد زبیر نے جو فاروق لغاری مرحوم کے عزیز ہیں، ورکنگ پیپرز تیار کیے تھے۔ بعد میں یہی دستاویزات تحریک انصاف نے بھی آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ ان ورکنگ پیپرز میں اقتصادی پالیسی کی تشکیل میں ترقی، اور اشرافیہ کی گرفت ختم کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ عمران خان نے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے حکومت کی برطرفی سے پہلے اسی کی بنیاد پر 3 سالہ اقتصادی منصوبہ نافذ کرنے کی منظوری دی تھی، اس سے برآمدی ہدف 110 ارب ڈالر ہونے کی توقع تھی، تاہم پی ڈی ایم حکومت نے اقتدار میں آکر یہ منصوبہ ترک کردیا۔ اس کے بعد نگراں حکومت نے اس پر کام شروع کیا، اب اسے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال مزید آگے بڑھا رہے ہیں۔ احسن اقبال نے متعلقہ فریقوں کے ساتھ مل کر پانچ سالہ منصوبہ تیار کیا ہے۔ اب ایک عالمی شہرت یافتہ ماہر پروفیسر اسٹیفن ڈیرکون بھی ملک کے اقتصادی منصوبے میں کسی نہ کسی حد تک شامل ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ یہ پاکستان کا پہلا اقتصادی منصوبہ ہوگا، یہ دستاویز معیشت کا رخ متعین کرے گی کیونکہ ملک میں کئی دہائیوں سے کوئی اقتصادی منصوبہ نہیں آیا ہے۔ پروفیسر اسٹیفن نے وزارتِ خزانہ کی بجٹ دستاویزات کا محصولات اور اخراجات کے لیے ایک اسٹرے ٹیجک بلیو پرنٹ کے طور پر حوالہ دیا اور کہا کہ برآمدات بڑھائی جائیں۔ ماہرِ اقتصادیات نے درآمدی محصولات، جیسے اضافی کسٹم ڈیوٹی، ریگولیٹری ڈیوٹی اور ایکسپورٹ ڈیوٹی کی بھی نشاندہی کی، جس کے بعد وزارتِ خزانہ کی بجٹ پالیسی خام مال یا نیم تیار شدہ مصنوعات پر ٹیکس لگانے کے لیے تیار ہوئی ہے۔ نئے منصوبے میں معیشت کو چلانے یا صنعتوں کی، سبسڈی یا اعلیٰ ٹیرف کے تحفظ کے ذریعے، مدد کرنے میں حکومت کی شرکت کم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ پالیسی نیو لبرل ازم کی پوری روح پر مبنی ہے، جو اوپن کیپٹل فلو، سرمایہ کاری، اور مارکیٹ سے چلنے والی شرح مبادلہ کی وکالت کرتی ہے۔ پاکستان نے بیرونی فنانسنگ اور ٹیکس بیس کو بڑھانے سمیت تمام ضروری اعداد و شمار اور منصوبوں کی تفصیلات کا آئی ایم ایف کے ساتھ تبادلہ کرلیا ہے، جو معلومات آئی ایم ایف کو مہیا کی گئی ہیں ان میں آئندہ پانچ برس کا تخمینہ اور منصوبہ بندی بھی شامل ہے۔ ایف بی آر کا منصوبہ ہے کہ آئندہ 5 برسوں کے دوران 2 کروڑ سے زائد افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا جس کے لیے رواں سال 37 لاکھ 22 ہزار افراد کے علاوہ 23 ہزار 5 سو ایسوسی ایشن آف پرسنز رجسٹرڈ کی جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک کی افسر شاہی خود کام کرنے کے بجائے آئی ایم ایف کی ہدایات اور ہمیں قرض دینے والے ممالک کی سفارشات کا ہی کیوں انتظار کرتی ہے؟ کیا اپنے مسائل حل کرنے کے لیے بھی ہمیں بیرونی عناصر کی طرف سے دی جانے والی ترغیبات کی ہی ضرورت ہے؟

ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پنجاب ریونیو اتھارٹی کو ریونیو وسائل بڑھانے کا ہدف دیا گیا ہے کہ ریونیو ہدف میں 50 ارب کا اضافہ کیا جائے۔ یہ ضرور بتایا جانا چاہیے کہ عام آدمی کو متاثر کیے بغیر ریونیو ہدف میں 50 ارب کا اضافہ کیسے ہوگا؟ جب اشرافیہ پر ٹیکس لگائے ہی نہیں جائیں گے اور انھیں ہر طرح سے تحفظ فراہم کیا جائے گا تو پھر ریونیو ہدف بڑھانے کے لیے عام آدمی کی کھال ہی اتاری جائے گی۔

دوسری جانب مشیر خزانہ خیبر پختون خوا مزمل اسلم نے کہا ہے کہ وفاق نے صوبے کے پیسے نہ دیے تو آئی ایم ایف سے سرپلس کا جو وعدہ کیا ہے ہم سے اس کی توقع بھی نہ رکھے۔ کے پی کے کا دعویٰ ہے کہ اس سال وفاق سے ضم اضلاع کے لیے 400 ارب روپے ملنے چاہیے تھے لیکن اس کے لیے 70 ارب روپے رکھے گئے، 70 ارب میں سے اب ملیں گے کتنے، یہ30 جون 2025ء کو پتا چلے گا۔ کے پی کے حکومت کا مؤقف ہے کہ بجلی کا خالص منافع اور رائلٹی کے واجبات نہ ملے تو سرپلس کی حد تک جانا مشکل ہوگا۔ یہ مسائل دراصل این ایف سی ایوارڈ سے متعلق ہیں۔ ایک جانب محدود آمدن اور کم وسائل نے حکومت کو گھیرا ہوا ہے تو دوسری جانب سیاسی عدم استحکام بھی پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومت کو ایسی پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی جو قابلِِ عمل ہوں اور جن سے مثبت نتائج برآمد ہوں۔

آئی ایم ایف پر گزشتہ ساڑھے چھے دہائیوں سے انحصار کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری ہر حکومت قرض لینے کی عادی ہوچکی ہے۔ جوسیاسی جماعت بھی وفاق میں اقتدار سنبھالتی ہے اگلے ہی لمحے آئی ایم ایف کے پاس کشکول لے کر پہنچ جاتی ہے۔ آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کے لیے ضروری ہے کہ سرکاری اخراجات میں کمی لائی جائے، اور اس سلسلے میں اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی اربوں ڈالر کی مراعات و سہولیات فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی کمزوریوں کی دوسری سب سے بڑی وجہ سیاسی لوٹا بازی اور سیاسی جماعتیں بدل بدل کر ہر حکومت میں شامل رہنے کا کلچر ہے۔ وہ شخص جس نے اپنی حکومت میں جو فیصلے کیے ہوتے ہیں، سیاسی جماعت بدل کر انہی فیصلوں کو عوام دشمن فیصلے قرار دے رہا ہوتا ہے، یوں سادہ لوح عوام بھی زندہ باد اور مُردہ باد کرتے رہتے ہیں۔