غربِ اردن پر ڈرون حملے اور ٹارگٹ کلنگ
امریکی انتخابی مہم میں غزہ کی بازگشت۔
غزہ خونریزی کے دس مہینے مکمل ہونے پر بمباری میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اسماعیل ہنیہ کے تہران میں، اور اُسی دن جنوبی لبنان میں مزاحمت کاروں کے کمانڈر فواد شُکر المعروف حاجی محسن کے قتل سے وزیراعظم نیتن یاہو کے حوصلے بلند اور زمین پر لوٹتا اُن کی مقبولیت کا گراف سنبھلتا نظر آرہا ہے۔ لواحقین کے مظاہرے جاری ہیں جن میں قیدیوں کی واپسی کے ساتھ نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جارہا ہے، لیکن پہلی بار ’فتحِ مبیں‘ تک جنگ جاری رکھنے کے حق میں بھی مظاہرے ہورہے ہیں۔
غزہ کے ساتھ غربِ اردن میں قیامت برپا ہے۔ الخلیل، نابلوس، جنین، طوباس، کفر قود، باقاالغربیہ، رام اللہ سمیت تمام شہروں پر فوج کے دھاوے کے ساتھ ڈرون سے بمباری کا سلسلہ تیزی اختیار کرگیا ہے۔ تلاشی کے نام پر ٹارگٹ کلنگ اور مکانوں کا انہدام جاری ہے۔
غزہ میں اسکول اسرائیلی فوج کا خاص ہدف ہیں۔ تمام کی تمام جامعات، کالج اور دارالمطالعے پہلے ہی منہدم کیے جاچکے ہیں۔ اسکولوں کو نشانہ بنانے کے دو مقاصد ہیں، پہلا تو یہ کہ تعلیم کی جو تھوڑی بہت سہولت باقی رہ گئی ہے اس کو بھی ختم کردیا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ بے گھر و بے اماں شہریوں کے لیے سر چھپانے کی کوئی جگہ نہ رہے۔
اس ہفتے شمالی غزہ میں النصر اور حسن سلامہ ہائی اسکولوں، شجاعیہ کے پرائمری اسکول اور وسطِ غزہ میں درج محلے کے تابعین ہائی اسکول کو مسمار کردیا گیا۔ تابعین اسکول پر 10 اگست کو عین نمازِ فجر 2000 پائونڈ کے بم گرائے گئے جس سے وہاں پناہ لینے والے سو افراد جاں بحق ہوئے۔ سیکڑوں زخمی ہیں جن کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ ہزاروں لوگ ملبے تلے دبے ہیں۔ یہ ایسی بھیانک کارروائی تھی کہ مصر کے سنگ دل جنرل السیسی بھی اس پر چیخ اٹھے، لیکن ترک صدر کے سوا کسی اور مسلم رہنما کا بیان سامنے آیا اور نہ مسلم معاشروں کے سوشل میڈیا پر اس کا کوئی ذکر دکھائی دیا۔
امریکی نائب صدر اور ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا دیوی ہیرس کے انتخابی جلسے میں اس حملے پر احتجاج ہوا اور شدید نعرے بازی کے باعث انھیں اپنی تقریر روکنی پڑی۔ کملا صاحبہ نے اسکول پر بمباری کی مذمت کرتے ہوئے غزہ میں فوری جنگ بندی پر زور دیا۔
شام کو اسرائیلی فوج نے اس حملے میں مارے جانے والے 19 ’’دہشت گردوں‘‘ کی تصاویر شائع کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ تابعین اسکول مزاحمت کاروں کا فوجی اڈہ تھا۔ فلسطینی وزارتِ صحت نے نام اور شناختی کارڈ کی تفصیلات کے ساتھ مارے جانے والوں کی جو فہرست شایع کی ہے اس میں اسرائیل کا جاری کردہ ایک نام بھی شامل نہیں۔
اسرائیل کی یہ وحشت بلاسبب نہیں۔ امریکہ اور مغرب کی غیر مشروط مالی، فوجی اور سیاسی حمایت کی بنا پر اسرائیل کو کوئی بھی قدم اٹھاتے وقت اس کے ردعمل کے بارے میں سوچنا نہیں پڑتا۔ مہینوں کی عرق ریزی کے بعد سی آئی اے اور امریکہ کے دوسرے سراغ رساں اداروں نے غربِِ اردن میں تعینات اسرائیل کی بدنام زمانہ ’ظفرِ یہود‘ یا Netzah Yehuda بٹالین کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی کے ناقابلِ تردید شواہد اکٹھے کیے۔ ثبوت اتنے واضح تھے کہ امریکی وزارتِ دفاع نے ایک مکتوب میں صدر بائیڈن سے اس بٹالین پر تادیبی پابندیاں عائد کرنے کی سفارش کی۔ خیال تھا کہ پابندی لگادی جائے گی، لیکن اس ہفتے امریکی آن لائن خبر رساں ایجنسی Axios نے بتایا کہ امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن نے اسرائیلی وزیردفاع کو پابندی نہ لگانے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔
اسی کے ساتھ صدر بائیڈن نے اسرائیل کے لیے منظور کی جانے والی 14 ارب ڈالر کی امداد میں سے ساڑھے 3 ارب ڈالر فوری جاری کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ضابطے کے مطابق کانگریس (پارلیمان)کو اپنے فیصلے سے مطلع کردیا ہے۔ (حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)
ایران میں اسماعیل ہنیہ پر حملہ بین الاقوامی جرم ہے کہ ایک خودمختار ملک کی حدود میں داخل ہوکر سرکاری مہمان کو قتل کیا گیا جس کی دنیا کے کسی ’’مہذب‘‘ ملک نے مذمت نہیں کی، بلکہ ایران کی جانب سے متوقع ردعمل کا جواب دینے کے لیے امریکہ نے ایک اضافی طیارہ بردار جہاز، میزائیلوں سے لیس جوہری کشتیاں اور لڑاکا طیاروں کا اسکواڈرن بحیرہ روم بھیج دیا۔ امریکی وزیردفاع نے بڑے جوشیلے لہجے میں کہا ’’واشنگٹن اسرائیل کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہے‘‘۔
اسی پشت پناہی کا نتیجہ ہے کہ حال ہی میں عالمی عدالت (ICJ) نے غرب ِ اردن، غزہ اور مشرقی یروشلم پر اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو وہاں سے واپسی اور ہرجانہ ادا کرنے کا جو حکم دیا تھا اسے وزیراعظم نیتن یاہو نے پائوں تلے روندتے ہوئے امریکی جریدے ٹائم کو ایک انٹرویو میں کہا کہ غرب اردن، یروشلم اور غزہ اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہیں۔ انھوں نے غرب اردن کے بجائے اس علاقے کو یہوداالسامرہ کہا جو ان کی تاریخ کے مطابق سلطنت دائود ؑکا حصہ تھا۔ جب ان کی توجہ ICJ کے حالیہ فیصلے کی طرف دلائی گئی تو انھوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینی علاقوں کو انتظامی خودمختاری دینے کو تیار ہے لیکن وہاں فوج اسرائیل کی رہے گی۔
اسرائیل اپنے دوستوں اور سرپرستوں سے بھی اسی انداز میں بات کرتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ناروے کے سفارت کاروں نے رام اللہ میں مقتدرہ فلسطین (PA)کے حکام سے ملاقات کی۔ اسرائیل نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ملاقات کرنے والے ناروے کے 8سفارت کاروں کی اسنادِ سفارت منسوخ کردیں۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ سفارت کاری کی چھتری اسرائیل مخالف اقدامات کو تحفظ فراہم نہیں کرتی۔ اسرائیلی وزیرخارجہ نے ازراہِ مہربانی فرمایا کہ متاثر اہلکار نئی اسناد کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
ناورے کے وزیرخارجہ نے اسنادِ سفارت کی منسوخی کو انتہا پسندی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ امریکہ اور یورپی یونین نے بھی اسرائیل کے اس فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا، لیکن کوئی ٹھوس جوابی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
اسرائیلی قیادت کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ ان کے وزرا غیرانسانی اقدامات کی خواہش کا کھل کر اظہار کررہے ہیں اور انھیں احتساب کا ذرہ برابر ڈر نہیں۔ ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخزانہ بیزلیل اسوترچ نے کہا کہ ’’اسرائیلی قیدیوں کی واپسی تک غزہ کے 20 لاکھ باشندوں کو بھوکا رکھنا ہر اعتبار سے منصفانہ اور اخلاقی ہے لیکن (بے انصاف) دنیا اس کی اجازت نہیں دے گی۔‘‘
اسی بات کو ایک ریڈیو انٹرویو میں اسرائیلی وزیر اندرونی سلامتی اور عظمتِ یہود جماعت کے سربراہ اتامر بن گوئر نے کچھ اس طرح کہا ’’امن بات چیت کی ضرورت ہی کیا ہے؟ غزہ کو پانی اور ایندھن کی فراہمی روک دو، امدادی ٹرک نہ جانے دو، دوہفتے میں یہ لوگ خود ہی بلبلا کر ہتھیار ڈال دیں گے۔ بی بی (وزیراعظم نیتن یاہو) دہشت گردوں کو امن کی پیشکش کرکے حماقت کررہے ہیں۔ یہ معاہدہِ امن نہیں ہتھیار ڈالنے کی دستاویز ہے۔‘‘
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، غزہ جنگ کے اثرات امریکہ کی انتخابی مہم پر بھی محسوس ہورہے ہیں، اگرچہ کہ اسرائیل نوازی کے معاملے میں ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن کے درمیان دوڑ لگی ہے لیکن مسلمانوں کو یکسر نظرانداز کردینا بھی ممکن نہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا دیوی ہیرس پر اسرائیل نواز عناصر دبائو ڈال رہے تھے کہ نائب صدر کا ٹکٹ پنسلوانیا کے گورنر جاش شپیرو کو دیا جائے۔ جناب شپیرو ایک راسخ العقیدہ یہودی اور اسرائیل کے پُرجوش حامی ہیں۔ انھوں نے جامعات میں احتجاجی خیمہ زنی پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انھیں ہٹانے کے لیے ریاست کے نیم فوجی دستے بھیجنے کی دھمکی دی تھی۔ مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی نہ کرنے پر گورنر صاحب نے جامعہ پنسلوانیا (Upen)کی سربراہ کو استعفے پر مجبور کیا۔
سخت مقابلے کی بنا پر کامیابی کے لیے کملا جی کا پنسلوانیا جیتنا ضروری ہے، اور جناب شپیرو یہ ہدف حاصل کرنے میں بطور امیدوار کلیدی کردار ادا کرسکتے تھے۔ لیکن ڈیموکریٹک کے مسلم اراکینِ کانگریس محترمہ رشیدہ طلیب اور الحان عمر نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر شپیرو کو نائب صدر کا امیدوار نامزد کیا گیا تو مسلمان ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اسی دبائو کا نتیجہ ہے کہ کملا ہیرس نے جاش شپیرو کے بجائے ریاست مینیسوٹا کے گورنر ٹم والز (Tim Walz) کو نائب صدر کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا۔
اسرائیل کی خوفناک بمباری اور بہیمانہ کارروائیوں کے باوجود غزہ میں مزاحمت جاری ہے۔ جمعہ 9 اگست کو جنوبی غزہ میں کریم سلام کراسنگ پر راکٹ برسا دیے گئے۔ اس علاقے پر اسرائیل کی گرفت بہت مضبوط سمجھی جاتی ہے۔ حملے میں ایک افسر سمیت پانچ اسرائیلی سپاہی شدید زخمی ہوگئے۔
غزہ میں قتلِ عام کے ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے ریاض سے گفت و شنید بھی جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے ٹائمز آف اسرائیل نے انکشاف کیا کہ سعودی عرب کے لیے ضرب ِ کاری لگانے والے امریکی اسلحے یعنی Offensive Arms پر سے پابندی ختم کی جارہی ہے اور بائیڈن انتظامیہ نے اپنے اس فیصلے سے کانگریس کا مطلع کردیا ہے۔ اس نوعیت کے اسلحے کی فروخت کے لیے واشنگٹن کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرط عائد ہے۔ صدر بائیڈن کے حالیہ فیصلے کو سفارت کار حلقے اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔