شورائی اور جمہوری نظام

حضرت جابر بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
” اللہ اس شخص پر رحم کرے جو بیچتے اور خریدتے اور تقاضا کرتے وقت نرمی اور ملائمت کرتا رہے“۔
(بخاری، جلد اول کتاب البیوع حدیث نمبر :1947)

خلافت ِ راشدہ کی دوسری بنیاد یہ تھی کہ اس کا پورا نظام شورائی اور جمہوری تھا۔ اسلام میں شوریٰ کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ خود نبی اکرمؐ سے فرماتا ہے:
وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ (اٰل عمران ۳:۱۵۹) اور معاملات میں ان سے مشورہ کیا کرو۔
اور ملّت کے نظامِ اجتماعی کے متعلق قرآن کی واضح ہدایت یہ ہے کہ: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ(الشورٰی ۴۲:۳۸) ان کے معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں۔
خلافت ِ راشدہ کا نظام اسی نصِ قرآنی کی اساس پر قائم تھا اور حکومت کے ہرشعبے میں مشاورت کی اسپرٹ کارفرما تھی:

ا- خلیفہ کا انتخاب باہم مشورے سے ہوتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کو ثقیفہ بنوساعدہ میں باہم مشاورت کے بعد منتخب کیا گیا۔ حضرت عمرؓ کی تجویز پر تمام مسلمانوں نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کو برضا و رغبت اپنا خلیفہ چُنا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت عمرؓ کو نامزد کرنے سے پہلے حضرت ابوبکرؓ نے تمام صحابہ ؓ سے مشورہ کیا اور حضرت عمرؓ نے بیعت ِ عام کے بعد اپنے منصب کو سنبھالا۔ حضرت عثمانؓ کے انتخاب میں بھی مدینہ کے ایک ایک فرد سے مشورہ کیا گیا اور مسلمانوں کی راے سے آپ خلیفہ منتخب ہوئے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانے کی تجویز دی گئی تو حضرت علیؓ نے صاف کہا: میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہوسکتی۔ یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہوسکتی ہے۔ آپؓ نے اسی موقع پر اسلام کے نظامِ انتخاب کو ان الفاظ میں بیان فرمایا: ’’تمھیں ایسا کرنے کا (یعنی کسی کو خلیفہ بنانے) کا اختیار نہیں ہے۔یہ تو اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر کا کام ہے جس کو اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر خلیفہ بنانا چاہیں گے، وہی خلیفہ ہوگا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے‘‘۔

اس طرح خلافت ِ راشدہ کے دور کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں خلافت ایک انتخابی منصب تھا اور مسلمان اپنی آزاد مرضی سے اپنے میں سے بہترین شخص کو اس کام کے لیے منتخب کرتے تھے۔ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہ تھا کہ وہ اُوپر سے اُمت پر مسلط ہوجائے۔ جب مسلمانوں میں قیصروکسریٰ کے اس مکروہ طریقے کا آغاز ہوگیا تو خلافت راشدہ ختم ہوگئی اور ملوکیت کا دور شروع ہوگیا!

ب- خلافت ِ راشدہ میں عمال اور گورنر بھی متعلقہ صوبوں کے لوگوں کے مشوروں سے مقرر کیے جاتے تھے اور اگر کسی مقام کے لوگ کسی شخص کو ناپسند کرتے تھے تو اسے تبدیل کردیا جاتا تھا۔

ج- حکومت کے سارے معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے تھے۔ امیر تمام اہم معاملات میں پالیسی بنانے سے پہلے ارباب حل و عقد سے مشورہ کرتا تھا اور ان کے مشورے سے جو پالیسی طے ہوتی تھی اسے نافذ کرتا تھا۔ اس مقصد کے لیے دو ادارے تھے۔ ایک مجلس شوریٰ اور دوسرا مسلمانوں کا اجتماعِ عام۔ بالعموم معاملات مجلس شوریٰ ہی میں طے ہوتے تھے لیکن اگر کسی مسئلے پر بڑی مشاورت کی ضرورت محسوس ہوتی تو عام منادی کر دی جاتی اور مسجد میں جمع ہوکر بحث و تمحیص کے بعد اس مسئلے کو جمعیت مسلمین طے کرلیتی۔

یہ بحث و مشورہ پوری طرح آزادانہ فضا میں ہوتا اور ہرشخص اپنی حقیقی راے کا بے لاگ اظہار کرتا۔ ایک مجلس مشاورت کی افتتاحی تقریر میں حضرت عمرؓ نے صحیح اسلامی پالیسی کو اس طرح بیان فرمایا: ’’میں نے آپ لوگوں کو جس غرض کے لیے تکلیف دی ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مجھ پر آپ کے معاملات کی امانت کا جو بار ڈالا گیا ہے اسے اُٹھانے میں آپ میرے ساتھ شریک ہوں۔ میں آپ ہی کے افراد میں سے ایک فرد ہوں اور آج آپ لوگ وہ ہیںجو حق کا اقرار کرتے ہیں۔ آپ میں سے جس کا جی چاہے میرے ساتھ اتفاق کرے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں‘‘۔

مولانا شبلی نعمانی نے الفاروق میں اس نظامِ مشاورت کی پوری تفصیل دی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ خلافت ِ راشدہ کا نظام، شوریٰ کی بنیاد پر قائم تھا۔

د- قانون سازی کا اختیار امیر کو حاصل نہیں تھا۔ اصل قانون قرآن اور سنت ہے لیکن جن چیزوں میں قرآن و سنت خاموش ہیں، امیر کا اجتہاد بھی ایک اجتہاد ہے۔ قانون کا درجہ اسے صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس پر اُمت کے ارباب حل و عقد کا اجماع ہوجائے۔ قانون ساز ادارے (Legislative Organ)کی حیثیت اجماع کو حاصل ہے، امیر کی راے کو نہیں۔ اپنے زمانے میں یہ ایک ایسا انقلابی اقدام تھا کہ ایک عرصے تک تاریخ اس کی اصل اہمیت کو محسوس بھی نہ کرسکی۔ آج جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دراصل وظائف حکومت کی مختلف اداروں میں تقسیم تھی اور اس کے ذریعے نظامِ حکومت میں محاسبہ و توازن کا ایک نظام قائم کیا گیا تھا۔

مندرجہ بالا بحث سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ خلافت ِ راشدہ کی دوسری بنیاد شوریٰ تھی یہی اسلام کی اصل روح ہے۔ اگر یہ باقی نہ رہے تو پھر خلافت کا نظام بے معنی ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے خلفاے اربعہ کے زمانے میں مناسب ادارے بھی بنائے گئے تھے تاکہ شوریٰ کا اصول عملی طور پر بروے کار آسکے۔ جب خلافت آمریت اور ملوکیت میں بدل گئی تو شوریٰ کا یہ نظام بھی درہم برہم ہوگیا۔ اسلام کے اس شورائی نظام کو اسلامی جمہوریت کہا جاسکتا ہے جس میں جمہور کی راے اور کردار ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے لیکن وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طے کردہ حدود کے اندر واقع ہوتا ہے اور ان حدود سے باہر جانے کا اختیار کسی کو بھی حاصل نہیں۔

(اقتباس،تبدیلی کی سمت اور منزل مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست
پروفیسر خورشید احمد | مارچ ۲۰۱۲ | اشارات)