جانے شیخ کو شب کیا سوجھی

بڑھاپا بھلا اور کسے کہتے ہیں؟ قوتِ برداشت کم سے کم تر ہوتی جاتی ہے اور مزاج نازک سے نازک تر۔ زبان وبیان کی بڑی بڑی غلطیاں تو کھٹکتی ہی تھیں، اب چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی کھٹکنے لگی ہیں۔ پچھلے دنوں پڑھا کہ ’’قائدِاعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876ء میں پیدا ہوئے‘‘۔ دل چاہا کہ فاضل مصنف کو فوراً فون کرکے فاصلاتی رابطے پر پڑھایا جائے کہ صاحب! اس فقرے کے اندر حرفِ ربط ’میں‘ بالکل بے موقع استعمال کیا گیا ہے۔ مگر دماغ نے یہ کہہ کر دل کی اس چاہت پر پونچھا پھیر دیا کہ ’’بڑے میاں! چپ چاپ پڑے رہو… وہ زمانہ اور تھا، اب یہ زمانہ اور ہے‘‘۔ صاحبو! اگر ذکر صرف سنہ و سال کا ہوتا تو یوں لکھنا جائز تھا کہ ’’قائداعظم سنہ1876ء میں پیدا ہوئے‘‘۔ لیکن اگر متعین تاریخ بتائی جائے گی تب ’میں‘ کی جگہ حرفِ ربط ’کو‘ استعمال ہوگا۔ یعنی یوں کہا جائے گا کہ فلاں شخص فلاں تاریخ ’کو‘ پیدا ہوا۔ ہاں اگر فقط سنہ بتانا مقصود ہو تواس طرح بتایا جائے گا کہ شخصِ مذکور یعنی فلاں شخص کی پیدائش فلاں سنہ ’میں‘ ہوئی۔ مگر اِس ’فلاں‘ کے کیا معنی ہیں؟ کسی بھائی کو معلوم ہو تو ہاتھ کھڑا کرکے آواز دے یا کم از کم اتنا ہی بتا دے کہ فلاں کے معنی فلاں شخص سے معلوم ہوں گے۔ معلوم ہوا ہے کہ اِن صاحب کو انگریزی میں “Mr. so and so”کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اس پکار میں جو ’سو ‘ ہے وہ اُردوکا لگتا ہے، صیغۂ امر، یعنی حکم۔

اہلِ صرف و نحو کہتے ہیں کہ حرفِ ربط ’میں‘کا استعمال ’ظرفیت‘ کی نشان دہی کے لیے ہوتا ہے۔ ظرف یوں تو برتن کو کہتے ہیں، جس کی جمع ’’ظ سے ظروف‘‘ ہے، مگر یہی لفظ حوصلے اور استعداد کو ناپنے کے لیے بھی بولا جاتا ہے، جیسے کم ظرف یا اعلیٰ ظرف یا اہلِ ظرف۔ لغت میں صرف مٹی، شیشے اور دھاتوں کے ظروف نہیں پائے جاتے، وہاں ’زمانے‘ اور ’جگہ‘ کے برتن بھی سجے ہوئے ہیں۔ ظرفِ زمان اور ظرفِ مکان۔ اِن برتنوں میں بھی بہت کچھ دھرا ہوتا ہے۔ یہاں واضح کرتے چلیں کہ ’مکان‘ فقط افتخار عارفؔ صاحب کے دولت کدے کو نہیں کہتے (جس کے لیے وہ اپنے خدا کے حضور دُعاگو رہا کرتے تھے کہ ’’میں جس مکان میں رہتا ہوں اُس کو گھر کر دے‘‘) ’جگہ‘ کو بھی مکان کہتے ہیں۔ اقبالؔ نے اسی روز وشب میں اُلجھے ہوئے مردِ مومن کو کسی روز و شب مطلع کیا تھا ’’کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں‘‘۔ اُدھر اپنے اُتّرپردیش کے ضلع گونڈہ والے اصغرؔ گونڈوی مرحوم نے مٹی اور مکان کے ظروف اُٹھاکر ایک ہی شعر کی جھانپی میں جھونک دیے ۔ جھانپی گونڈہ میں “Basket”کو کہتے ہیں۔ فرمایا:

رند جو ظرف اُٹھا لیں وہی ساغر بن جائے
جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی مے خانہ بنے

لغت کے مطابق ہندی حرفِ ربط ’میں‘ زمان و مکان دونوں کے اندر پائی جانے والی چیزوں کی نشان دہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ظرفِ زمان کی مثال سلیم احمد کے اس شعر میں دیکھیے:

آگ دو دن میں ہو گئی ٹھنڈی
حضرتِ دل دکھا گئے جھنڈی

حضرتِ دل شاید ریلوے گارڈ ہوں گے۔’’دو دن میں‘‘ ظرفِ زمان ہے۔ظرفِ مکان کی مثالیں کلیم عاجزؔ کے اس شعر میں دیکھیے

آنکھوں میں کہیں آنسو نہ رہے، سینے میں کسی کے دل نہ رہا
ہیں شہر میں قاتل ہی قاتل، سنتے ہیں کوئی بسمل نہ رہا

’آنکھیں‘وہ ظرفِ مکان ہیں، جن میں آنسو ذخیرہ کیے جاتے ہیں۔’ سینہ‘ وہ ظرفِ مکان ہے، جس میں دل دھڑک رہا ہوتا ہے، اور ’شہر‘ وہ ظرفِ مکان ہے، جس میں قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔اسی طرح ’سال‘ بھی ایسا ’ظرفِ زمان‘ ہے جس میں بارہ مہینے ہوتے ہیں، باون ہفتے ہوتے ہیں اور تین سو پینسٹھ دن۔ لہٰذا سال کے اندر اندر کوئی واقعہ رُونما ہوا ہو، کسی مہینے کے اندر ہونے والی کسی بات کی نشان دہی کرنی ہو، یا ہفتۂ رفتہ و گزشتہ کے اندر کوئی واردات ہوگئی ہو تو اس کے لیے حرفِ ربط’میں‘ استعمال کیا جائے گا۔جیسے ’سنہ 2023ء میں پیش آنے والے واقعات‘۔ ’گزشتہ ماہ میں ہونے والی شادیاں‘ یا ’اگلے ہفتے میں سر پر پڑنے والے ممکنہ اخراجات ‘ وغیرہ وغیرہ۔

’میں‘ کا ایک معروف استعمال معصوم بچوں کے ہاں بھی پایا جاتا ہے۔ چوں کہ بکری کے ممیانے کی آواز میں ایک طویل ’میں‘ شامل ہوتی ہے، چناں چہ ہمارے بچے بکری کو پیار سے ’میں میں‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔

کسی مخصوص تاریخ،کسی خاص دن یاکسی خصوصی شب کو کوئی بات ہو جائے توایسے موقع پرظرفِ زمان کی نشان دہی کے لیے حرفِ ربط ’کو‘ لگاناچاہیے۔ مثلاً ’پچیس تاریخ کومیرا امتحان ہے‘۔ یا ’حامد بدھ کو آئے گا‘۔ یا ’دادا جان کل رات ہی کو کراچی سے آگئے تھے‘ وغیرہ وغیرہ۔ بعض اوقات ’کو‘ حذف بھی کردیا جاتا ہے۔ جیسے ارشدؔ کاکوی مرحوم نے درجِ ذیل شعر میں ’شب کو‘ کی جگہ صرف ’شب‘ استعمال کیا ہے۔ ’کو‘ حذف کردیا ہے۔ جب کہ ’صبح‘ کے ساتھ وہ ’کو‘ استعمال کرنا نہیں بھولے:

جانے شیخ کو شب کیا سوجھی، رندوں کو سمجھانے آئے
صبح کو سارے مے کش اُن کو مسجد تک پہنچانے آئے

حرفِ ربط ’کو‘ کے استعمالات لکھنے کو محض ایک کالم کافی نہیں۔ سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے۔تاہم چند سطروں میں چند مثالیں ملاحظہ فرما لیجے۔ بالعموم ’کو‘ مفعول کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔’’مے کش اُن کو مسجد تک پہنچانے آئے‘‘۔ ارادہ یا قصد ظاہر کرنے کے لیے بھی ’کو ‘بولتے ہیں۔ جیسے ’عمر آج کل میں لاہور جانے کو ہے‘۔ ’کے لیے‘ یا ’کے واسطے‘ کی جگہ بھی ’کو‘ کا استعمال عام ہے: ’’پہننے کو کپڑا نہ کھانے کو روٹی‘‘۔ برج بھاشا، بھوج پوری یا پوربی زبان میں کون کی جگہ بھی ’کو‘ بولا جاتا ہے: ’’کوہے رے؟‘‘اسی طرح ’کی جانب‘ یا ’کی طرف‘کے معنی میں بھی ’کو‘ کا استعمال عام ہے، مگر بعض لوگ اسے غیر فصیح قرار دیتے ہیں۔ مثلاً: ’’ایک چوہا ڈر کر بولا گھر کو بھاگ چلو‘‘۔گویا گھر کو بھاگنا غیر فصیح عمل ٹھہرا۔ خوف زدہ آدمی آخر گھرکو نہ بھاگے تو کدھر کو بھاگے؟ ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی کہتے ہیں کہ ’’خوف زدہ آدمی گھر ’کو‘ نہیں بلکہ خوف زدہ ہوکر گھر ’سے‘بھاگتا ہے، بشرطے کہ شادی شدہ ہو۔ خیر، غیر فصیح قرار دیے جانے کے باوجود ’کی طرف‘ کے معنوں میں ’کو‘ بکثرت لکھا اور بولا جاتا ہے۔ ایک مصرع بھی کسی نامعلوم شاعر کا یوں مشہورہے:

اے جانِ قیس تیرا ارادہ کدھر کو ہے؟

کہنے والے کہتے ہیں کہ ارادے کی مناسبت سے یہاں ’کو‘ کی جگہ ’کا‘ مناسب تھا۔ اسی طرح غالبؔ کا یہ شعربھی دیکھیے:

جو آؤں سامنے اُن کے تو مرحبا نہ کہیں
جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیر باد نہیں

یہاں کہیں کے بعد ’کو‘ حرفِ زائد قرار دیا گیا ہے۔ مگر غالبؔ بہر حال سب اہلِ صرف و نحو پر غالب ہیں۔بطور حرفِ زائد ’کو‘ استعمال کرنے کی ایک مثال عام بول چال میں بھی ملتی ہے:’’اب جاؤ، کل کو آنا‘‘
یا ’’آج کو تمھارے باپ زندہ ہوتے توتمھیں ایسانہ کرنے دیتے‘‘۔وغیرہ وغیرہ
امید ہے کہ ہمارا یہ کالم پڑھنے کے بعد آئندہ قائداعظم ’25 دسمبر میں‘ نہیں، ’25 دسمبر کو‘ پیدا ہوا کریں گے۔