پروفیسر عبدالرحیم قدوائی (پ:1956ء) ہندوستان کی معروف علمی و سماجی شخصیت ہیں۔ انگریزی ادب میں دنیا کی دو ممتاز جامعات مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ اور لیسٹر(Leicester) یونیورسٹی، انگلستان سے ڈاکٹریٹ کی سند رکھتے ہیں۔ قرآن مجید کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرچکے ہیں اور تقریباً ایک سو مکمل انگریزی تراجمِ قرآن کا مطالعہ کرکے ان کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کرچکے ہیں۔ انگریزی ترجمۂ قرآن کے ساتھ ساتھ قرآنیات، اسلامیات اور انگریزی و اردو ادبیات پرقدوائی صاحب کی 30 سے زائدکتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ قرآن مجید، سیرت طیبہ اور اسلامی شعائر سے محبت انہیں ورثے میں ملی ہے کہ وہ مولانا عبدالماجد دریا بادی ؒ کے نواسے ہیں۔
پروفیسر قدوائی اپنے تعلیمی پس منظر اور ذوق ِخاص کی وجہ سے دانش وران فرنگ کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں کہ اکثرمغربی فضلاء اسلام اور مسلمانوں سے متعلق خامہ فرسائی کرتے ہوئے ایسی تصویرکشی کرتے ہیں گویا کہ اسلام اور مسلمان شرِمجسم ہوں۔ ان مغربی فضلاء نے فاسد عقائد، قبیح اعمال اور قابل نفریں کرداروں کو اسلام اور مسلمانوں سے منسوب کرتے ہوئے قرآن مجید اور سیرتِ طیبہ کو بالخصوص مطعون کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر قدوائی گزشتہ کئی دہائیوں سے انگریزی اور اردو زبانوں میں مغربی فضلاء کی علمی خیانتوں اور اُن کی بدنیتی کو آشکار کررہے ہیں۔ انگلستان کے مؤقر تحقیقی اور علمی ادارے ’’اسلامک فاؤنڈیشن، لیسٹر‘‘ کے مجلے ’’مسلم ورلڈ بک ریویو‘‘ میں مغربی تصانیف اور انگریزی تراجم پر کثرت سے قدوائی صاحب کے تبصرے اور محاکمے شائع ہوتے رہے ہیں جو کہ ان کی کئی کتابوں کی اساس بنے۔
پیشِ نظر کتاب میں پروفیسر قدوائی کے قرآن مجید، سیرتِ طیبہ اور انگریزی ادب کے حوالے سے مغربی فضلاء کی تصانیف کے تنقیدی جائزے پر مشتمل درجِ ذیل 20 مقالات شامل ہیں:
1۔ اکیسویں صدی کے بعض مغربی فضلاء کے قرآنی مطالعات، 2۔ کورپس قرآنکیم: قرآنیات سے متعلق مستشرقین کا حالیہ علمی محاذ، 3۔ قرآن کریم کے اعجازی پہلو: مستشرقین کے مؤقف کا محاکمہ،4۔ انگریزی میں مطالعہ قرآن مجید کے جدید رجحانات: ایک حالیہ کتابیات کی روشنی میں، 5۔ جدید مستشرقین کے مطالعات ِتفسیر: رجحانات اور تعبیرات، 6۔ برطانوی مستشرقین کے تراجم ِقرآن مجید: ایک محاکمہ، 7۔ قرآن کریم کے انگریزی تراجم: ایک تنقیدی جائزہ، 8۔ قرآن مجید کے بارے میں مستشرقین کا علمی تعاقب، 9۔ ایک مستشرق کا خوشگوار انگریزی ترجمہ قرآن مجید، 10۔ دو حالیہ گراں قدر انگریزی تراجم قرآن مجید، 11۔ جنوبی افریقہ کے جج جان مرفی کا قبولِ اسلام، 12۔ سیرتِ طیبہ پر مستشرقین کی تصانیف، 13۔ سیرتِ طیبہ پر طامس کارلائل کا رجحان ساز خطبہ، 14۔ سیرتِ طیبہ: حالیہ مغربی تصانیف کے آئینے میں، 15۔ بہتر مسلم۔ عیسائی تعلقات کی نقیب ایک حالیہ گراں قدر تصنیف، 16۔ سیرت طیبہ پر مغربی فضلاء کی تصانیف: خوش آئند رجحانات، 17۔ استعماری فکر کی روایت انگریزی ادب کے تناظر میں، 18۔ انگریزی رومانوی شاعرات کے کلام میں ہندوستان کی تصویرکشی، 19۔ برطانوی ناول نگاری۔ایم۔فوسٹر: ہند۔ اسلامی تہذیب کا شناور، 20۔ قوموں کا عروج وزوال: چند مغربی مفکرین کی آراء۔
فاضل مصنف نے غیر مسلم فضلاء کے مؤقف کا منظم تحقیقی انداز میں مطالعہ کیا ہے اور محض چند آراء یا اقتباسات پر اکتفا کرنے کے بجائے غیر مسلم فضلاء کے افکار اور تسامحات پر سیر حاصل تنقید اور تبصرہ کیا ہے۔
کتاب کے مرتب جناب رفیق احمد رئیس سلفی کا کہنا ہے کہ:
’’زیر مطالعہ کتاب جو بیس بیش قیمت مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے، خوابِ غفلت سے بیدار کرکے ہمیں صورتِ حال کی سنگینی سے آگاہ کرتی ہے، قرآن مجید کے بارے میں دانش وران ِفرنگ کے خیالات کیا ہیں، سیرتِ طیبہ کو وہ کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، اسلامی تاریخ، اسلامی تہذیب اور اسلام کے سماجی، معاشی اور سیاسی معتقدات کے سلسلے میں ان کی آراء کیا ہیں، وہ قرآن، اسلام اور پیغمبر اسلام کے سلسلے میں جو موسوعات مرتب کرتے ہیں، ان میں ان کی ترجیحات کیا ہیں، وہ اپنے ناولوں، افسانوں، نظموں اور ڈراموں میں جو فرضی کردار پیش کرتے ہیں، ان سے دنیا کو وہ کیا پیغام دے رہے ہیں؟ یہ کتاب اپنے صفحات میں ان تمام سوالوں کا تفصیلی جواب فراہم کرتی ہے۔‘‘
اس موضوع پر اس سے قبل پروفیسر قدوائی کے مضامین کا ایک مجموعہ ’’مستشرقین اور انگریزی تراجم قرآن‘‘ (البلاغ پبلی کیشنز، دہلی، 2015ء) نے شائع کیا تھا۔ پیشِ نظر کتاب مذکورہ تصنیف کی بڑی حد تک توسیع ہے کہ اس میں سیرتِ طیبہ اور انگریزی ادب کے حوالے سے بھی جلوہ دانش ِفرنگ زیر گفتگو ہے۔ مزید برآں، مستشرقین اور انگریزی تراجم کے موضوع پر متعدد نئے مضامین شامل ہیں۔
پروفیسر ضیاء الدین فلاحی کے مطابق:
’’ان مقالات کا فائدہ یہ ہے کہ موجودہ صدی کے تکثیری معاشروں میں تقابلِ ادیان کے علمی و تحقیقی مطالعات کے لیے ان میں بھرپور مواد یکجا کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف امتِ مسلمہ کو مختلف تہذیبوں سے افہام و تفہیم میں یہ کتاب جگہ جگہ رہنمائی کرتی ہے۔ متعصب اسکالرز سے کیسے نمٹا جائے اور انصاف پسند دانش وروں کی کیوں کر تحسین کی جائے، یہ پہلو جگہ جگہ نمایاں ہوتا ہے۔‘‘
اپنے موضوع پر یہ عمدہ اور لائق ِ مطالعہ کتاب اردو ادبیات میں بھی گراں قدر اضافہ ہے۔