چوبیسویں قسط
جامعہ کے انتخابات کے بعد اسلامی جمعیت کی تنظیم کے فیصلے کے مطابق سید محمد عارف صاحب نے ملک بھر کی طلبہ یونینوں کا ایک کنونشن لاہور میں بلایا۔ منصوبے کے مطابق یہ کنونشن اگرچہ بوجوہ پوری طرح کامیاب نہ ہوسکا مگر بیک وقت بڑے دلچسپ، دل فگار اور عجیب واقعات اس کنونشن کے دوران رونما ہوئے۔ سید عارف صاحب کو کنونشن ہی کے دوران اچانک دل کی تکلیف ہوئی جس سے ہم سب جمعیتی ساتھیوں کو کئی دن تک سخت پریشانی اور تشویش لاحق رہی۔ سیّد صاحب کو اس سے قبل کبھی ایسا کوئی مسئلہ پیش نہ آیا۔ اللہ تعالیٰ نے سید صاحب کو چند دنوں کے اندر صحتِ کاملہ عطا کی تو ہم سب نے رحیم و کریم پروردگار کا شکر ادا کیا اور کئی ساتھیوں نے شکرانے کے نفل بھی پڑھے۔
اس کنونشن کے بارے میں میرے پاس اس وقت زیادہ تفصیلی نکات نہیں ہیں، نہ ہی وہ واقعات و حادثات جو اس دوران رونما ہوئے، میری ڈائری میں لکھے جاسکے۔ تاہم میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اس کنونشن نے مستقبل میں وجود میں آنے والی آئندہ کی پنجاب اسٹوڈنٹس کونسلز اور پاکستان اسٹوڈنٹس کونسلز کی بنیاد فراہم کی۔ اگرچہ فی نفسہٖ یہ کنونشن وقتی طور پرزیادہ کامیاب قرار نہ پایا تھا، مگر اس کی برکات آنے والے سالوں میں مسلسل وقوع پذیر ہوتی رہیں۔ اسی کی بنیاد پر بعد کے ادوار میں بہت مؤثر طلبہ کونسلز صوبوں اور مرکز کی سطح پر قائم ہوتی رہیں۔ ان سب کا مرکز جامعہ پنجاب اور قیادت اسلامی جمعیت طلبہ کے ہاتھ میں رہی۔
افسوس کی بات ہے کہ کئی سالوں کے تعطل کے بعد بحال ہونے والی اسٹوڈنٹس یونین کا وجود حکومت کو ہضم نہ ہوسکا۔ ابھی یونین کو منتخب ہوئے چندہ ماہ ہی ہوئے تھے کہ یونین پر ایک بار پھر بجلی گرا دی گئی۔ سید عارف صاحب جو طلبہ کے محبوب اور منتخب نمائندے تھے، حکومتی دبائو کے تحت جامعہ کی انتظامیہ کی طرف سے غیر قانونی طور پر صدارت سے سبک دوش کردیے گئے۔ یونین کا دستور تبدیل کردیا گیا اور حقیقت میں یونین بین کردی گئی۔ یہ واقعات کینیا میں قیام کے دوران میں نے جامعہ پنجاب کے رسالہ ’’محور‘‘ کے مدیر برادرم سلیم منصور خالد کے بار بار اصرار کرنے پر اپنی یادداشت سے لکھے تھے جو اس کی اشاعتِ اول میں شائع ہوئے۔
میں نے اس مضمون میں یہ واقعات مختصر طور پر تحریر کیے تھے اور ساتھ توجہ دلائی تھی کہ اس پر تفصیلی تاریخ مرتب ہونی چاہیے۔ میں نے لکھا ’’یہ وقوعہ بڑا ہی افسوس ناک تھا اور اس کی تفصیلات بڑی دلدوز ہیں، مجھے امید ہے کہ پاکستان میں بیٹھے ہوئے میرے دوست جنھوں نے بطور طالب علم وہ دور دیکھا تھا اس موضوع پر زیادہ تفصیل سے لکھیں گے، یہ اہم بھی ہے اور ہماری طلبہ تاریخ کا معلومات افزا اور عبرت انگیز باب بھی، جس کا ریکارڈ پر آجانا ازبس ضروری ہے۔‘‘
میں نے یہ بھی لکھا تھا ’’اگر مجھے اپنی مجوزہ کتاب تصنیف کرنے کا موقع ملا تو اِن شاء اللہ اُس میں اِس موضوع پر زیادہ شرح و بسط کے ساتھ لکھوں گا۔ اس دور میں سید عارف صاحب کی منتخب یونین میں ہمارے ایک کونسلر کامیاب ہوئے تھے جو غالباً شعبہ صحافت سے متعلق تھے۔ میری یادداشت کی حد تک موصوف کا نام عبدالشکور تھا اور گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے۔ ان کو اپنی یادداشتیں اس موضوع کے بارے میں مرتب کرنی چاہئیں۔‘‘ میرے توجہ دلانے سے پہلے برادرم سلیم منصور خالد نے اس منصوبے پر کام شروع کردیا اور جامعہ پنجاب کے رسالہ ’’محور‘‘ کے دو خصوصی نمبر شائع کیے۔ میرا مضمون پہلے نمبر میں شامل ہے۔ یہ مضامین رسالہ محور کے صدسالہ نمبر (1882تا 1982ء) کے لیے لکھے گئے تھے۔
رسالہ ’’محور‘‘ میں مختلف ادوار کے طلبہ رہنمائوں کے علاوہ کئی اساتذہ اور دانشوروں وادیبوں نے اپنی یادداشتوں کے مطابق مضامین لکھے، جن میں جمعیت کے نمائندوں کے علاوہ مخالف طلبہ گروپوں کے کئی لیڈروں کی تحریریں بھی شامل ہیں۔ پھر یہ سبھی مضامین ’’طلبہ تحریکیں‘‘ کے نام سے دو حصوں میں 1989ء میں ہمارے مرحوم بھائی حفیظ احمد صاحب نے چھاپ دیے(مرحوم کے حالات ہماری کتاب ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد ششم ص 107تا 126 میں محفوظ ہیں)۔ سلیم منصور خالد (مرتب) اور حفیظ مرحوم( ناشر) کا یہ کام طلبہ تحریکوں کے حوالے سے بہت قیمتی دستاویز ہے۔ تاہم میرے نزدیک جو معلومات جمع کی جانی چاہیے تھیں، وہ ہنوز تشنہ ہیں۔ بہرحال یہ بات مسلّم ہے کہ اتنا کام بھی نہ ہوسکتا تو اس دور کی طلبہ سرگرمیوں سے لوگ بالکل ہی ناواقف ہوتے۔ جتنا کام ہوا ہے، وہ بھی قابلِ قدر ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان کتابوں کی ایک ایک کاپی ادارہ معارف اسلامی کی لائبریری میں محفوظ ہے، اس کے علاوہ یہ کہیں سے بھی دستیاب نہیں… نہ ناشر کے پاس، نہ ہی مرتب کے پاس۔
طلبہ یونین پر پابندی جمعیت کے لیے ایک دھماکا تھا۔ جمعیت نے ہی سابقہ پابندی کے بعد اس کی بحالی کے لیے پُرزور جدوجہد کی تھی اور جمعیت ہی کے ہاتھ میں اُس وقت انجمن کی صدارت و قیادت تھی جب اسے بین کرنے کا یہ مجرمانہ فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے سے قبل بھی جن سالوں میں یونین ہوتی تھی، جمعیت ہی کے پاس اس کی قیادت رہی تھی۔ جب انجمن کو بین کیا گیا، ملک کے عمومی حالات روزبروز تبدیل ہورہے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح کے انتخاب میں ملک میں ایک متحدہ حزبِ اختلاف وجود میں آئی تھی جو زیادہ دیر تک کامیابی سے اگرچہ نہ چل سکی، مگر اس انتخاب نے فوجی آمر جنرل ایوب خان اور اس کے پورے آمرانہ بندوبست کی ہر چول کو ایک بار تو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح صدارتی الیکشن جیت رہی تھیں۔ جب ان کو انتخابی دھاندلی سے ہرا دیا گیا تو پھر اور انداز سے اپوزیشن پارٹیوںکا وفاق عمل میں آیا اور ملک میں بحالیِ جمہوریت کے لیے جدوجہد شروع کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔
اس دوران تعلیمی میدان میں طلبہ نے بڑا کام کیا، اسلامی جمعیت طلبہ نے ملک بھر میں اسلامی نظام تعلیم کے لیے بھرپور فضا پیدا کردی۔ ہینڈ بلز تقسیم کیے جاتے تھے اور شہروں میں بے شمار قسم کے پوسٹرز چسپاں کیے جاتے تھے۔ اسی دور میں کچھ عرصہ قبل خواتین یونیورسٹی کی زبردست مہم پورے ملک میں چلائی گئی تھی جس کا تذکرہ پہلے ہوچکا ہے۔ جمعیت کی زندگی میں وہ ایک نیا موڑ تھا۔ اس سے جمعیت نے بہت کچھ پایا اور بہت کچھ کھویا۔
یہ موضوع اپنی جگہ ایک مستقل حیثیت کا حامل ہے، جس پر نہ صرف مستقل مضمون لکھا جا سکتا ہے بلکہ کتاب تصنیف ہوسکتی ہے۔ اس موضوع پر ہم نے اس سلسلۂ مضامین میں کچھ تفاصیل پچھلے صفحات میں بیان کردی ہیں۔ مختصراً جمعیت اب ایک مخصوص حلقے سے نکل کر ساری طلبہ برادری کی آواز بن رہی تھی۔ اپنی سابقہ حالت کے برعکس اب جمعیت ملک گیر قیادت کے لیے میدان میں نکل چکی تھی۔ سابقہ حالت سے میری مراد یہ نہیں کہ پہلے جمعیت قیادت سے کنارہ کشی کی پالیسی پر گامزن تھی، نہیں بلکہ سابقہ سالوں میں اس نے حکیمانہ منصوبہ بندی اور بہت اچھے وژن کے ساتھ اپنی صفیں مضبوط کرنے اور اپنی اندرونی تربیت اور کردار سازی پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی تھی۔
اب نئے حالات میں اس کی نوعیت ایک مقبول تحریک (Mass Movement) جیسی ہوگئی تھی۔ جمعیت کا تربیتی نظام اس بھرپور سیاسی دور میں بھی اپنے کارکنوں کا تزکیہ کرنے میں مصروف رہا۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ جس تیز رفتاری سے کام پھیلا اور جس عظیم تعداد میں طلبہ نے جمعیت کا رخ کیا اس کے مطابق تسلسل کے ساتھ ان کی تسلی بخش کردار سازی نہ ہوسکی۔ اگر کوئی عام سی تنظیم ان حالات سے دوچار ہوتی تو اس کا تو یقیناً خاتمہ ہوجاتا، یا مکمل طور پر حلیہ بگڑ جاتا، جمعیت بہرحال اپنی مضبوط بنیادوں کی وجہ سے اس ہنگامی دور کے جھٹکے سہہ گئی اور اپنا تشخص قائم رکھنے میں بھی کامیاب رہی۔ تاہم کردار سازی اور تربیت و تزکیہ، مطالعہ اور تحقیق وغیرہ کے شعبوں میں دورِ اوّل کے مقابلے میں خاصا زوال دیکھا گیا۔
اس موضوع پر زیادہ تحقیق کی ضرورت ہے اور مثبت بات یہ ہے کہ جمعیت کے اربابِ حل و عقد اور حلقہ احباب اکثر اس کے بارے میں غوروفکر کرتے بھی رہتے ہیں۔ خدا کرے کہ کوئی ٹھوس اور قابلِ عمل منصوبہ ایسا سامنے آ سکے کہ جمعیت کے ابتدائی دور کے کارکنوں کی مثالیں تاریخ کی گزرگاہوں سے نکل کر تنظیم کی اجتماعیت میں دورِ حاضر میں بھی عام ہوں۔ دیگر تنظیموں کے مقابلے میں معیار اگرچہ اب بھی خدا کے فضل سے بہت حد تک اچھا ہے اور کمیت کے ساتھ کیفیت پر بھی توجہ دی جاتی ہے، مگر سابقہ ادوار سے موازنہ کیا جائے تو کسی حد تک معیار روبہ زوال معلوم ہوتا ہے، اس کی جانب فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
میں پہلے اپنے جمعیتی سفر کا قدرے تفصیلی تذکرہ کرچکا ہوں جس کے مطابق درویش جمعیت کا رفیق فرسٹ ایئر میں ہی بن گیا تھا مگر نظم کے اصرار کے باوجود اپنے آپ کو رکنیت کے لیے پیش نہ کررہا تھا۔ (اس کی وجوہات تھیں جن کا بیان اس وقت مناسب نہیں، کیوںکہ اس کا سبب بننے والی شخصیات دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔) آخر اس دور کے ناظم اعلیٰ برادرم سید منور حسنؒ نے ایک روز جمعیت کے دفتر سعید منزل (انارکلی) کی سڑھیوں سے اترتے ہوئے جمعیت کی رکنیت اختیار کرنے کا حکم کچھ اس اپنائیت کے اندازمیں دیا کہ مجھ سے انکار نہ ہوسکا۔ انہی دنوں میں جمعیت کا سالانہ اجتماع اور انتخاب ہونے والے تھے۔ منور صاحب کی جگہ برادرم ڈاکٹر محمد کمال خان ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ لاہور کے ناظم اُس وقت پروفیسر عطاء اللہ چودھری تھے۔ میں نے رکنیت کا فارم پُر کرکے ناظم صاحب کے حوالے کردیا۔
چند ہی دنوں بعد چودھری صاحب کی جگہ رانا عبدالحئی احمد صاحب لاہور کے نئے ناظم منتخب ہوئے۔ یہ 1967ء کا وسط تھا کہ محترم عبدالحئی احمد صاحب نے مجھے رکنیت کی منظوری کی اطلاع دی۔ میں انہی دنوں جی سی سے فارغ ہوا تھا اور ایم اے سالِ اول میں اورینٹل کالج میں داخلہ فارم جمع کرا کے چند دنوں کے لیے چھٹی منانے گھر گیا ہوا تھا۔ مجھے جب اپنی رکنیت کی منظوری کا خط اور حلف نامہ رکنیت ملا تو میری عجیب کیفیت تھی، اے کاش! کہ ایسی ہی ایمانی کیفیت ہر وقت نہیں توکبھی کبھار ہی دل و دماغ پر طاری ہوجایا کرے۔
میرا دورِ رکنیت بڑا ہی مختصر سا تھا۔ میں اواخر 1967ء سے اوائل 1970ء تک رکن رہا۔ رکن بننے کے چند دنوں بعد 1967ء کے وسط میں مجھے علاقہ وسط مغربی پاکستان کا معتمد بنادیا گیا اور تقریباً ایک ماہ بعد جب برادر محترم صفدر علی جمعیت سے فارغ ہوئے تو مجھے ان کی جگہ علاقے کا نگران بنایا گیا۔ اسی دوران مرکزی مجلس شوریٰ کی خالی سیٹ پر ضمنی انتخابات ہوئے جن کے نتیجے میں، مَیں شوریٰ کا رکن منتخب ہوا۔ اس طرح میرے بنیادی رکن بننے اور مرکزی شوریٰ میں منتخب ہونے میں چند ماہ کا فاصلہ تھا۔ میری معلومات کی حد تک اتنی کم مدت میں کسی نئے رکن کا مرکزی شوریٰ کا رکن منتخب ہوجانے کا یہ منفرد واقعہ ہے۔ چند ہی مہینوں کے بعد اگلے سالانہ اجتماع سے قبل جب شوریٰ کے لیے غیر علاقائی بنیادوں پر تین ارکان کے انتخاب کا نتیجہ نکلا تو اس میں بھی ارکان نے مجھے کُل پاکستان بنیاد پر منتخب کیا۔
دوسرے دو ارکان میں سے ایک برادرم عبدالمالک شہید (مشرقی پاکستان) تھے اور دوسرے (غالبًا) حیدرآباد سے احمد جمال اعجازی تھے، یہ 1968ء کی بات ہے۔ اسی سال کے دوران میں لاہور جمعیت کا ناظم منتخب ہوا اور جمعیت میں اپنی باقی ماندہ ساری زندگی یہ خدمت سرانجام دی۔ مجھ سے پہلے برادرم حمید اللہ خان لاہور جمعیت کے ناظم اور برادرم چودھری عبدالرزاق (رحیم یار خان) معتمد تھے۔ حمید اللہ خان مرحوم نے بعض وجوہ سے لاہور جمعیت کی نظامت سے اچانک استعفیٰ دے دیا۔ اس پر ناظم اعلیٰ برادرم محمد کمال خان صاحب نے اپنی موجودگی میں ارکانِ لاہور سے انتخاب کرایا اور اس کے نتیجے کے بعد مجھے مقامی جمعیت کا ناظم مقرر کردیا۔ میں 1969ء میں دوسری بار لاہور جمعیت کا ناظم چنا گیا۔ اس سال پھر میں غیر علاقائی بنیاد پر شوریٰ کا رکن منتخب ہوا۔ شہید شاہ جمال (ڈھاکہ) بھی اس سال غیر علاقائی بنیاد پر مشرقی پاکستان سے منتخب ہوئے تھے اور برادرم محمد حسن صاحب کراچی سے تیسرے رکن شوریٰ منتخب ہوئے۔
میری نظامتِ لاہور کے دور میں مرکز نے اسلامی جمعیت طلبہ کا کُل پاکستان اجتماعِ عام لاہور میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے ناظم اجتماع کی ذمہ داری سونپی گئی۔ یہ اجتماع دائود گارڈن، داروغہ والا میں منعقد ہوا۔ اس میں جتنی تعداد میں ملک بھر سے طلبہ شریک ہوئے، اس سے پہلے کسی اجتماع عام میں اتنے حاضرین شریک نہیں ہوئے۔ ہمارے دور کے یادگار اجتماعِ عام ملتان، لاہور (ڈونگی گرائونڈ)، حیدرآباد اور پھر داروغہ والا میں منعقد ہوئے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور دیگر تحریکی و عالمی رہنمائوں کی ان اجتماعات میں شرکت اور خطابات کی معطر اور حسین یادیں اس دور کے طلبہ کے ذہنوں میں ہمیشہ رس گھولتی رہیں۔
(جاری ہے)