ہاتھ کے قالین کی دم توڑتی صنعت

قالین سازی میں گھر تمام افراد اپنا کردار ادا کرتے تھے

ٹیکنالوجی نے بہت سے شعبوں کو بقا کے مسئلے سے دوچار کیا ہے۔ ایک صدی کے دوران بہت کچھ محض بدلا نہیں ہے بلکہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا ہے۔ ہر دور میں ایسا ہی ہوا ہے۔ جب انسان علم و فن کے میدان میں ترقی کرتا ہے تو کچھ نیا ہاتھ آتا ہے اور کچھ پرانا ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔

ہاتھ سے بُنے جانے والے قالینوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ دنیا بھر میں ہاتھ سے قالین بُننے والوں کو بقاء کا مسئلہ درپیش ہے۔ جنوبی ایشیا کا بھی یہی قصہ ہے۔ پاکستان اور بھارت میں ہاتھ سے قالین بُننے والے مشینی قالینوں کی صنعت کا مقابلہ نہیں کرسکتے، اِس لیے حکومت کی نگاہِ کرم کے منتظر رہتے ہیں۔ ہاتھ سے قالین بُننے کا معاملہ محض معاشی نہیں، معاشرتی بھی ہے۔ ہاتھ کے قالین ہماری ثقافت کا حصہ رہے ہیں اور ہیں۔ ہم اپنی ثقافت کو بچانے کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں۔ قالین کے معاملے میں کچھ نہ کچھ تو کیا ہی جانا چاہیے۔

بھارت کی شمالی ریاست اُترپردیش میں مرزاپور اور بھدوہی (یا بھدوئی) کے اضلاع ہاتھ کے قالینوں کی صنعت کا مرکز رہے ہیں۔ اِن علاقوں سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں نے یہاں بھی ہاتھ کے قالین کی صنعت کی بنیاد ڈالی اور ایک زمانے تک اِن کی کاری گری کو سراہا جاتا رہا۔ اب معاملہ رُل گیا ہے۔ ہاتھ سے قالین بُننے والوں کے لیے مشینری سے مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا۔

مرزا پور اور بھدوہی سے آنے والوں نے کراچی سمیت کئی شہروں میں ہاتھ کے قالینوں کی کھڈیاں یا اڈے لگائے اور ایک منفرد ثقافتی شناخت کی راہ ہموار کی۔ اِسی طور اُترپردیش کے شہر بنارس اور اُس سے ملحق قصبوں اور دیہات سے آنے والوں نے کھڈیوں پر ریشمی کپڑا تیار کرنے کی صنعت قائم کی اور اُسے پروان چڑھایا۔ آج یہ دونوں ہی صنعتیں شدید زوال کا شکار ہیں۔ کاری گر کم رہ گئے ہیں اور شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ ہماری ثقافتی شناخت کا ایک جُز بہت حد تک دم توڑ چکا ہے۔

کراچی میں ہاتھ سے قالین بُننے والوں نے منگھوپیر روڈ پر پاک کالونی، بڑا بورڈ، گل بہار اور بنارس کالونی (اورنگی ٹاؤن) میں کھڈیاں اور اڈے لگاکر کام شروع کیا۔ جب یہ صنعت اپنے نقطۂ عروج پر تھی تب گل بہار (گولیمار) میں ایک پورا علاقہ اِسی کام کے لیے وقف ہوکر رہ گیا تھا۔ وہاں گھر گھر کھڈیاں لگی ہوئی تھیں۔ اِسی لیے اُس علاقے کے ایک میدان کو کھڈی گراؤنڈ کا نام دیا گیا جو بگڑتے بگڑتے کھجی گراؤنڈ ہوگیا۔

آئیے، مرزا پور اور بھدوہی سے بات شروع کرتے ہیں۔ ان دونوں اضلاع میں دستی قالینوں کی بھارتی صنعت مرتکز ہے۔ یہاں 25 اقسام کے قالین تیار کیے جاتے ہیں جن میں دریاں بھی شامل ہیں۔ بعض قالین 6 ماہ کی محنتِ شاقہ کے بعد تیار ہوپاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ اِن دونوں اضلاع کے متعدد علاقوں میں تیار کیے جانے والے دستی قالین امریکہ اور یورپ برآمد کیے جاتے تھے۔ ضلع مرزاپور کے گاؤں ترکاپور میں پیدا ہونے والے سابق صحافی راجندر شری واستو کہتے ہیں کہ قالین بُننے کا بڑا مرکز بھدوہی تھا مگر خیر، مرزاپور میں بھی گھر گھر قالین بُنے جاتے تھے۔ کوئی محلہ ایسا نہ تھا جس میں قالین بُننے والے نہ رہتے ہوں۔ راجندر شری واستو نصف صدی کے مشاہدے کی روشنی میں بتاتے ہیں کہ بھدوہی اور مرزاپور میں قالین کے علاوہ غالیچے اور ’’میٹ‘‘ بھی تیار کیے جاتے تھے۔ یہ صنعت اِن علاقوں کے لوگوں کے لیے آمدنی کا بڑا ذریعہ تھی۔ لوگ کہیں جاکر کام نہیں کرتے تھے بلکہ سامان لاکر گھر میں یہ کام کرتے تھے اور گھر کے تمام افراد اس کام میں جُت جاتے تھے۔

وقت نے بہت کچھ بدل ڈالا ہے۔ مشینی قالین زیادہ پسند کیے جارہے ہیں۔ بچوں سے لی جانے والی مشقت کے خلاف اقدامات نے بھی دستی قالین کی صنعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ کاری گر اِس شعبے کو چھوڑ کر اور بہت کچھ کرنے لگے ہیں۔ عالمی معیشت کی زبوں حالی نے بھی دستی قالین کی صنعت کو چرکے لگائے ہیں۔ بہرحال، اِن تمام حقائق کے باوجود کچھ لوگ اب بھی اِس صنعت سے وابستہ ہیں اور اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ دستی قالین اِن علاقوں کی ثقافت اور عوامی زندگی کی بُنت کا حصہ ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ مغل شہنشاہ اکبر کے زمانے میں ایران کے مایہ ناز دست کاروں کا ایک قافلہ جی ٹی روڈ سے گزر رہا تھا کہ ڈاکوؤں نے اُسے لُوٹ لیا۔ اِن دست کاروں میں قالین بُننے والے بھی تھے۔ مقامی دیہاتیوں نے اِن لٹے پٹے ایرانی دست کاروں کی مدد کی، اُنہیں پناہ دی اور کھانے پینے کا خیال رکھا۔ ایرانی قالین ساز مقامی لوگوں کے سلوک سے اِتنے متاثر ہوئے کہ آگے بڑھنے یعنی دارالحکومت اکبر آباد (آگرہ) جانے کے بجائے اِسی علاقے کو مستقل مستقر بنالیا۔

ایک زمانے سے ایران قالین کی صنعت کا قائد چلا آرہا تھا۔ ایران میں قالین بُننے کی روایت ڈھائی ہزار سال پُرانی ہے۔ جب برصغیر پر مغل حکومت کررہے تھے تب ایران پر صفوی خاندان کی حکمرانی تھی۔ صفوی حکمرانوں نے قالین کی صنعت کو بے مثال فروغ سے ہم کنار کیا۔ دنیا بھر کے خطوں میں ایران اپنے قالینوں اور نقاشی والے برتنوں کی بدولت معروف تھا۔

ایرانی کاری گروں نے مرزا پور اور بھدوہی میں قالین کی جو صنعت قائم کی وہ بعد میں بنارس، غازی پور، سوہن بھدر، کوشمبھی، الٰہ آباد، جونپور اور چنڈولی کے اضلاع تک بھی پھیلی اور پورے خطے کو ایک منفرد شناخت فراہم کرنے کا ذریعہ بنی۔

بھدوہی کے قالین تیار کرنے والے ادارے آئیڈیل کارپیٹس کے مالک کُندن آریہ البتہ کوئی اور ہی کہانی سُناتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ 1899ء میں ایک انگریز خاتون ایران سے چند کاری گروں کو مرزاپور لائیں اور کھمریا کے علاقے میں ای ہِل اینڈ کمپنی قائم کی۔ ایران سے جو کاری گر لائے گئے تھے اُنہوں نے مقامی لوگوں کو قالین بُننا سکھایا۔ یوں اِس علاقے میں ایک نئی صنعت نے جنم لیا۔

قالین کی صنعت کو فروغ دینے میں بادشاہوں، سرداروں اور نوابوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ قالین اور دیگر اشیا محض اس لیے بھی خریدتے تھے کہ یہ ثقافت کا حصہ تھیں اور ان کی خریداری سے لوگوں کے گھروں میں چولھے جل پاتے تھے۔

اُنیسویں صدی کے وسط میں نام نہاد جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد دہلی اور آگرہ کے سیکڑوں کاری گروں نے مرزاپور اور بھدوہی کا رُخ کیا اور یوں اِس علاقے میں قالین اور دیگر دست کاریوں کی صنعت بہت تیزی سے پروان چڑھی۔ آج بھی بھارت سے برآمد کیے جانے والے بیشتر دستی قالین اِسی علاقے میں تیار کیے جاتے ہیں۔

قالین کی صنعت کے لیے مرزا پور اور بھدوہی ہر اعتبار سے موزوں ترین علاقے تھے۔ خام مال بھی آسانی سے مل جاتا تھا اور تیار شدہ مال کو مقامی اور بین الاقوامی منڈیوں تک پہنچانا بھی سہل تھا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں دستی قالین کی صنعت نقطۂ عروج کو پہنچی۔

مرزا پور کی قالین کمپنی ’’ولیج ویورز‘‘ کے ڈائریکٹر وِکرم چندر جین کہتے ہیں کہ جس طور آج کل سیاست دان ووٹ مانگنے گھر گھر جاتے ہیں بالکل اُسی طور بیسویں صدی کے اوائل میں قالین بنوانے کے شوقین مال دار لوگ کاری گروں کے پاس جاتے تھے اور اُن پر زور دیتے تھے کہ اُن کے قالین تیزی سے بنائے جائیں۔ بہت سے لوگ اپنا مال جلدی بنوانے کے لیے زیادہ رقم بھی ادا کرتے تھے۔

قالین سازی پورے گھر کا معاملہ ہوا کرتا تھا۔ گھر کے تمام ہی افراد قالین کی تیاری میں اپنا کردار ادا کرتے تھے۔ اب دستی قالین کی صنعت بہت کمزور پڑچکی ہے مگر اِس کے باوجود بھدوہی اور گوپال گنج کے 400 گھروں میں قالین تیار کیے جارہے ہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عہدِ عروج میں اِن علاقوں کا کیا حال ہوگا۔ وکرم چندر جین بتاتے ہیں کہ 40 سال قبل مرزاپور کے 25 ہزار مکانات میں قالین کی کھڈیاں لگی ہوئی تھیں!

قالین کے پھندوں نے بھدوہی قصبے کو ’’کارپیٹ سِٹی‘‘ کا نام دیا مگر اب یہ پھندے کھل رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے مشینی قالینوں کو مقبولیت بخشی۔ یہ جلدی تیار ہوجاتے ہیں اور لاگت بھی کم آتی ہے۔

1990ء کے عشرے میں چائلڈ لیبر کا مسئلہ کھڑا ہوا تو بھدوہی اور مرزاپور میں قالین کی صنعت بھی شدید متاثر ہوئی کیونکہ اِس میں بچے بھی کام کرتے تھے۔ 2014ء میں تیار کی جانے والی رپورٹ ’’ٹینٹیڈ کارپیٹس: سلیوری اینڈ چائلڈ لیبر اِن انڈیاز ہینڈ میڈ کارپیٹ سیکٹر‘‘ میں بھارت کی 9 ریاستوں میں 3200 معاملات کا جائزہ لے کر بتایا گیا کہ جبری مشقت، معاہدے کے تحت لی جانے والی مشقت، بچوں سے لی جانے والی مشقت اور انسانی اسمگلنگ کے سیکڑوں کیس سامنے آئے ہیں۔ اس کے بعد قالین کی صنعت میں بچوں سے مشقت لینے پر پابندی لگادی گئی اور یوں ہاتھ سے بنائے جانے والے قالین کی صنعت زوال سے دوچار ہوئی۔ وکرم چندرجین اِس رپورٹ کو غیر سرکاری تنظیموں کی سازش قرار دیتے ہیں۔ کُندن آریہ کہتے ہیں کہ قالین کے کاری گر اپنے بچوں کو یہ ہنر سکھاتے ہیں۔ سیکھنے کے اس عمل کو مشقت قرار نہیں دیا جاسکتا۔

کُندن آریہ اور وکرم چندرجین کہتے ہیں کہ حکومت اس صنعت کو بچانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کررہی۔ سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں نہ سبسڈی۔ عالمی منڈی میں غیر معمولی مسابقت درپیش ہے۔ کچھ سر پھرے ہیں جو اب بھی اپنی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ کووِڈ سے قبل مرزاپور میں قالین کی 10 ہزار کھڈیاں تھیں، اب 800 رہ گئی ہیں۔ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رہ کر پُرسکون انداز سے کام کرنے والے بیشتر کاری گر حالات سے مجبور ہوکر دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں محنت مزدوری کررہے ہیں۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو دس پندرہ سال کے بعد ہاتھ سے قالین بُننے والے ڈھونڈے سے بھی نہ ملیں گے۔
پاکستان، ترکی اور افغانستان میں بھی ہاتھ کے قالین کی صنعت کو غیر معمولی چیلنج درپیش ہیں۔ ایک طرف اِن کی طلب گھٹ رہی ہے اور دوسری طرف حکومت کی طرف سے کاری گروں کی معاونت کا کوئی اہتمام نہیں کیا جارہا۔ کراچی میں ہاتھ کے قالین کی کھڈیاں اب برائے نام رہ گئی ہیں۔ ایسے میں صرف ایران اور بھارت کے کاری گر ثقافتی ورثے کا درجہ رکھنے والی اِس صنعت کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔