کشمیر میں مودی کی سیاسی اور عسکری مشکلات

حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں قبرستان جیسی خاموشی طار ی کرکے امن کا قیام ایک ایسا فریبِ نظر ہے جس کی قلعی سیاسی، انتخابی اور عسکری محاذوں پر اب واضح طور پر کھلتی جارہی ہے

بھارت کی نریندر مودی حکومت نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات میں اضافہ کردیا ہے، جس کے بعد گورنر کا عہدہ تمام اختیارات کا منبع بن گیا ہے، اور یوں کشمیر کی انتظامیہ پر بالواسطہ طور پر نئی دہلی کے کنٹرول کو مضبوط کردیا گیا ہے۔ بھارتی حکومت نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کہ سپریم کورٹ نے کشمیر کی خصوصی شناخت چھیننے کے مقدمے میں حکومت کو اس خطے کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے ساتھ ساتھ 30 ستمبر تک ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا حکم دیا تھا۔ ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا مطلب کشمیر کے موجودہ انتظامی اور حکومتی ڈھانچے میں کشمیریوں کی شرکت ہے۔ اس شرکت کا دائرہ محدود اور کشمیری نمائندوں کو بے اختیار رکھنے کے لیے گورنر جو ہمیشہ سے دہلی کا نمائندہ ہوتا ہے، کے اختیارات میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا ہے۔

مودی حکومت کے لیے کشمیر کی خصوصی شناخت چھیننے کے بعد کشمیری عوام کا سامنا کرنے کا لٹمس ٹیسٹ لوک سبھا انتخابات تھے۔ ان انتخابات میں عوام کا مزاج بھانپتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی نے مسلم اکثریتی وادیِ کشمیر کی نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے سے راہِ فرار اختیار کرلی۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں تین پراکسی جماعتوں کے پردے میں الیکشن لڑنے کی حکمتِ عملی اختیار کی گئی۔ یہ تین جماعتیں سجاد لون کی پیپلز کانفرنس، سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کی آزاد پروگریسو پارٹی، اور الطاف بخاری کی جماعت ’اپنی پارٹی‘ تھیں۔ ان تینوں جماعتوں پر کشمیر میں بی جے پی کی پراکسی ہونے کا لیبل لگ گیا تو کشمیری عوام نے ان جماعتوں کو لوک سبھا انتخابات میں بری طرح مسترد کردیا۔ گوکہ محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی کوئی نشست جیت نہ سکی مگر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے دو سیٹوں پر میدان مار لیا، جبکہ ایک سیٹ تہاڑ جیل میں دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزام میں مقید انجینئر رشید نے جیت لی۔ انجینئر رشید کی جیت کو بھی نوجوانوں کے بھارت مخالف مقبول جذبات کی عکاسی کہا گیا۔ اس تجربے کے بعد بھارتی حکمرانوں کا خوف بڑھ گیا اور انہوں نے پیش بندی کے طور پر تخت ِ سری نگر پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کے لیے گورنر کے اختیارات میں اضافے کا راستہ اختیار کیا۔

گورنر کے اختیارات میں اضافے کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت گورنر کو آل انڈیا سروسز کے معاملات کی نگرانی کا اختیار ہوگا۔ اس اختیار کا مطلب پولیس اور بیوروکریسی کو گورنر کے ماتحت کرنا ہے۔ اسی طرح انسدادِ بدعنوانی بیورو،ڈائریکٹوریٹ آف پبلک پراسیکیوشن، جیل خانہ جات اور جموں وکشمیر فرانزک لیبارٹری، ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر لاء افسران کی تقرری سمیت کئی اہم امور گورنر کی صوابدید پر ہوں گے۔ اس فیصلے کے بعد کشمیر کی حکومت محض ربرا سٹیمپ ہوگی۔ اس سے لگتا ہے کہ بھارت کشمیری عوام کو اقتدار منتقل کرنے سے خوف محسوس کررہا ہے۔

کشمیر میں اس وقت نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی دوبڑی جماعتیں ہیں، اور یہ دونوں جماعتیں اگر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہیں تو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرسکتی ہیں۔ جماعت اسلامی بھی اس میدان میں قدم رکھتی ہے تو اس محاذ کو تقویت ملے گی۔ اس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کا اپنا وزیراعلیٰ لانے کا منصوبہ ناکام ہوسکتا ہے۔

2018ء سے کشمیر میں گورنر راج نافذ ہے۔ گورنر راج کا نفاذ اُس وقت کیا گیا تھا جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے محبوبہ مفتی کی حکومت کی حمایت واپس لی تھی اور حکومت گرنے کے بعد گورنر راج نافذ کردیا گیا تھا۔ یہ سب کچھ چونکہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ہورہا تھا اسی لیے اگلے ہی برس مودی حکومت نے کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کردی تھی۔ مودی حکومت کشمیر میں حالات کو اپنے موافق بنانے اور کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے کے اعلانات تو کررہی ہے مگر کشمیری عوام کا مزاحمتی مزاج اور غصہ اس کی پہلی مشکل ہے۔ یہ مشکل لوک سبھا انتخابات میں بھی عوامی فیصلے کی صورت میں اُبھر کر سامنے آئی تھی۔ اس سیاسی مشکل کے ساتھ ایک اورمشکل بھی مودی کے لیے سر اُٹھا چکی ہے۔یہ ہے عسکری کارروائیوں کی وادیِ کشمیر سے جموں کی طرف منتقلی۔رواں برس جموں کے مختلف علاقوں میں تشدد کی 11 کارروائیاں ہوچکی ہیں، اور یہ مودی حکومت کے ان دعووں کی نفی ہے کہ 5 اگست2019ء کے بعد کشمیر کے حالات قابو میں آچکے ہیں۔ اب تو بھارتی میڈیا یہ الزام بھی عائد کررہا ہے کہ پاکستان کے ساڑھے چار سو کے قریب باقاعدہ فوجی کمانڈوز کارگل طرز پر کشمیر میں داخل ہوچکے ہیں، اور جموں کے علاقوں میں منظم گوریلا کارروائیاں یہی لوگ کررہے ہیں۔ایک چینل پر یہاں تک کہا گیا کہ کارگل میں بھی واجپائی حکومت نے پہلے معاملے کو میڈیا سے چھپانے کی کوشش کی تھی مگر جب پانی سر سے گزر گیا تو پھر حکومت کو تسلیم کرنا پڑا تھا کہ پاکستانی فوجی دستوں نے کارگل کی چوٹیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔یہ بھی کہاگیا کہ آثار وقرائن بتارہے ہیں کہ کشمیر میں کچھ بڑا ہونے والا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں قبرستان جیسی خاموشی طار ی کرکے امن کا قیام ایک ایسا فریبِ نظر ہے جس کی قلعی سیاسی، انتخابی اور عسکری محاذوں پر اب واضح طور پر کھلتی جارہی ہے۔اپنی پسند کا سیاسی منظر تشکیل دینے میں ناکامی نے ہی بھارتی حکومت کو گورنر کے اختیارات میں اضافے کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔اس مشق کے بعد اب کشمیر کے انتخابات بے معنی ہوچکے ہیں، گورنر سے اختیار سیاسی نمائندوں کے بجائے واپس گورنر کو ہی منتقل ہونا ہے تو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ایسے انتخابات ایک بے مقصد کارروائی ہی ہوں گے، اور کشمیری عوام کو انتخابات کے نام پر کھلونے سے بہلانے کی یہ کوشش مثبت نتائج دینے میں ناکام رہے گی۔