اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی ناکامی کی کہانی

اگر اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی درستی کے بجائے نئی مہم جوئی کی اور نئے تجربوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی تو حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

پاکستانی سیاست کے اہم فیصلہ سازوں یا فیصلوں کی طاقت رکھنے والوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ انہوں نے قومی سیاست کا جو اسکرپٹ لکھا تھا وہ اپنی سیاسی ناکامی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ جو سیاسی حکومتی بندوبست طاقت کے زور پر قائم کیا گیا وہ اپنے مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا، اور اب یہ جہاں خود اپنے لیے ایک بڑا بوجھ بن گیا ہے وہیں اپنے منتظمین کے لیے بھی بوجھ بن کر رہ گیا ہے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ جن لوگوں یا سیاسی جماعتوں کے لیے اِس سیاسی بندوبست کا اہتمام کیا گیا تھا اُن پر پہلے ہی لوگوں میں شدید تحفظات تھے، اور معاملات حل کرنے کی صلاحیت سے محروم اس ٹولے نے ملک کو مزید نئی مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔ حالانکہ جن لوگوں کے لیے یہ سیاسی بندوبست کیا گیا تھا اُن کا دعویٰ تھا کہ وہ ملک کے حالات کو سنبھالنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان کی صلاحیت باقی سیاسی قوتوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ لیکن یہ سب دعوے غلط ثابت ہورہے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر حکومتی ہی نہیں بلکہ ریاستی مشکلات کا حجم بھی بڑھتا جارہا ہے۔ اس سے کیسے نکلا جائے؟ اس موضوع پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ سرجوڑ کر بیٹھ گئے ہیں، مگر ان کا مسئلہ محض معاشی ہی نہیں بلکہ سیاسی بھی بن چکا ہے۔ عمران خان کے گرد سیاست کا کھڑا رہنا اور بات عمران خان سے شروع ہوکر ان ہی پر ختم ہونا ظاہر کرتا ہے کہ عمران خان کی شخصیت ریاست و حکومت کے سر پر ایک خوف کی صورت میں موجود ہے۔ عمران خان نے اپنے تمام سیاسی اور غیر سیاسی مخالفین کو اپنی مزاحمت سے خاصا حیران کردیا ہے، اور نجی مجالس میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ عمران خان نے اپنی مزاحمت سے وہ کچھ کردکھایا ہے جس کی ہم ان سے کوئی توقع نہیں کررہے تھے۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ اعترافات بھی سامنے آرہے ہیں کہ عمران خان کے خلاف ہماری تحریک عدم اعتماد درست نہیں تھی اور اس مہم جوئی نے ہمیں آج ایک مشکل صورتِ حال میں پھنسا دیا ہے۔ وزیر دفاع تو بار بار یہ اعتراف کررہے ہیں کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ سیاسی جماعتوں کا نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا تھا اور ہمیں مجبور کیا گیا کہ اس فیصلے کی حمایت کریں وگرنہ سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس لیے رجیم چینج، پی ڈی ایم پارٹ و ن حکومتی بندوبست، نگران حکومت، جعلی انتخابات اور پھر پی ڈی ایم پارٹ ٹو حکومت اور موجودہ منظر نامہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی ناکامی ہی ناکامی کی کہانی بیان کر رہا ہے۔ اس کہانی نے جہاں سیاست میں تقسیم پیدا کی، وہیں ریاست اور حکومت سمیت تمام اداروں میں تقسیم کا عمل بہت گہرا نظر آتا ہے۔ اس کھیل کا ایک بڑا نقصان اسٹیبلشمنٹ پر بڑھتی ہوئی تنقید اور اس تنقید کے تناظر میں سیاسی سطح پر اسٹیبلشمنٹ کا بڑھتا ہوا کردار ہے۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت کے ہوتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو خو داپنے دفاع میں کچھ کرنے کے لیےخود سامنے آناپڑرہا ہے جس کے نتیجے میں اُس کے اپنے خلاف ردعمل بھی بڑھ رہا ہے۔

موجودہ سیاسی بندوبست کی ناکامی کی چار وجوہات ہیں:
(1) سیاسی استحکام کا پیدا نہ ہونا
(2) معاشی بدحالی
(3) امن و امان کی خرابی
(4) قوم میں بہتری کے تناظر میں امید کے بجائے مایوسی ہونا اور عوامی سطح پر اسٹیبلشمنٹ پر بڑھتی ہوئی تنقید

اس نظام کو چلانے والوں کا دعویٰ تھا کہ ہم عمران خان کے سیاسی بندوبست سمیت دیگر قومی معاملات کو بھی کنٹرول کرلیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ معاشی بنیادوں پر یہ سیاسی چورن بیچا گیا تھا کہ دنیا ہمیں نہ صرف ڈالر دے گی بلکہ ایک بڑی سرمایہ کاری کو بھی یقینی بنایا جائے گا، یہ سب غلط ثابت ہورہا ہے۔ اسی طرح ہماری ریاست اور حکومت پر عالمی اعتماد بھی کم نظر آرہا ہے، اور مختلف عالمی رپورٹس میں پاکستان کے بارے میں منفی رائے سامنے آرہی ہے۔ عالمی اداروں کے بقول پاکستان سیاست، جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاس داری سمیت آئین اور قانو ن کی حکمرانی سے دور ہورہا ہے اور یہاں ایک کنٹرولڈ نظام ہے جس کا ریموٹ کنٹرول سیاسی لوگوں کے پاس نہیں بلکہ کسی اور طاقت کے پاس ہے۔ اسی طرح اس بحران میں ہمیں عدلیہ کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کا بھی ٹکرائو دیکھنے کو مل رہا ہے۔ عدالتوں کا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑا ہونا اور اس بات کو تواتر کے ساتھ زبانی بھی اور تحریری بھی کہنا کہ ہم پر اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کا دبائو ہے جو ہمار ے آزادانہ فیصلوں اور ماحول کو چیلنج کرتا ہے۔ اس لیے اگر ریاست کے ادارے خود ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہوجائیں تو یہ عمل ریاست کے لیے مزید مسائل پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ یہ تاثر بھی عام ہورہا ہے کہ ملک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، اور کسی کے ساتھ بھی ہورہا ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل زیادہ ہے۔ یہ رائے پیدا ہونا خود اسٹیبلشمنٹ کے لیے کوئی اچھا عمل نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک مسئلہ یہ بھی بن گیا ہے کہ اس نے جن لوگوں کو سیاسی بندوبست میں شامل کیا ہے وہ اس کی مدد کرنے یا اس کے مخالفین سے نمٹنے کے لیے سیاسی حکمت عملی بنانے کے بجائے ناکا م ثابت ہورہے ہیں، اور اسی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ ایک مشکل وکٹ پر کھڑی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ موجودہ حالات میں ان ہی مسائل کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے یا تجزیے کی بنیاد پر نئی صف بندی اختیار کرنا اُس کی ضرورت بن گیا ہے؟ایک مؤقف یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کسی بھی صورت میں عمران خان کے ساتھ کوئی معاملہ طے نہیں کرنا چاہتی اور ان کودیوار سے لگانے کی حکمت عملی پر سختی سے عمل پیرا ہے۔حکمران طبقہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی بھی قسم کی گفتگو یا ڈیل کی تردید کرتا ہے اور ان کے بقو ل فوج عمران خان کو کسی بھی صورت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔لیکن اس کے برعکس ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ پر جو بڑا بوجھ ہے اس کی بنیاد پر اسے متبادل راستہ سوچنا پڑرہا ہے۔ اس متبادل راستے میں ایک راستہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس عمران خان سے رابطہ کرنا اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت ہے۔ اسی طبقے کے بقول پس پردہ کچھ نہ کچھ کھچڑی پک رہی ہے مگر ان کے بقول عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی سخت شرائط معاملات کے طے ہونے میں مسائل پیدا کررہی ہیں۔ عمران خان کے تین نکاتی ایجنڈے کو دیکھیں تو اس میں 9مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن، گرفتار لوگوں کی رہائی اور مقدمات کا خاتمہ اور نئے انتخابات کا مطالبہ ہے۔ جب کہ عمران خان کو پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ وسیع تر قومی مفاد میں پوری قوم کے سامنے 9مئی کے واقعات پر افسوس کا اظہار کریں اور معافی مانگ لیں تو حالات ان کے لیے بہتری کی طرف جاسکتے ہیں۔ پس پردہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان جو کچھ پیام و کلام ہورہا ہے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے حلقوں میں اس پر خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ کئی حکومتی وزرا اعتراف کررہے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کچھ ہورہا ہے اور عمران خان نے بڑے لوگوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ ان سے مفاہمت کریں گے تو بات آگے بڑھ سکے گی۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی درستی کے بجائے نئی مہم جوئی کی اور نئے تجربوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی تو حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ جبکہ ابھی بھی کچھ سیاسی اور غیر سیاسی لوگ ایسے ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں کسی بھی مفاہمت کے حامی نہیں اورسمجھتے ہیں کہ ان فاصلوں کو اور زیادہ وسیع ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران اتحاد اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ خوداسٹیبلشمنٹ کی نئی صف بندی اور نئی مہم جوئی کی بھی نگرانی کررہا ہے اور پیغام دیا جارہا ہے کہ اگر اقتدار عمران خان کے پاس گیا تو ان کے ساتھ ساتھ خود اسٹیبلشمنٹ کو بھی دفاعی پوزیشن پر کھڑا ہونا ہوگا۔

اس وقت اسلام آباد کے سیاسی ماحول میں خاصی ہلچل ہے۔ ہر سیاسی پنڈت اپنی اپنی خبر اور تجزیے کی بنیاد پر حکومت جانے کی باتیں کرکے نئے سیاسی بندوبست کی دہائی دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے مستقبل کے بارے میں غیریقینی کا ماحول ہے۔ حکومتی سطح پر بعض وزرا کا نجی مجالس میں یہ اعتراف بھی سامنے آرہا ہے کہ ہمارے جانے کا فیصلہ ہوگیا ہے یا ہونے جارہا ہے۔ اس لیے پیپلزپارٹی نے بھی مسلم لیگ ن سے سیاسی فاصلے بڑھا دیے ہیں اور حکومت کی ایک اور اہم اتحادی ایم کیو ایم بھی کہیں سرگرم نظر نہیں آرہی، اور حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ جب خود حکومت کی کشتی ڈوب رہی ہو تو ہم کیوں اس کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنے لیے مشکلات پیدا کریں! لگتا ہے کہ اس وقت فیصلہ ساز کسی مشکل میں ہیں اور مشکل سے باہر نکلنے کا راستہ بھی تلاش کررہے ہیں، ان کے ذہن میں کئی آپشن بھی موجود ہیں جن کی مدد سے نیا سیاسی نقشہ کھینچنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی نقشہ بنانے کی کوشش ہے وہ سیاسی مہم جوئی کے قریب ہے۔ یعنی قومی سیاست کو تجربہ گاہ بنانا، اور اس میں اپنی مرضی اور منشا کے مطابق کسی کی حمایت اور کسی کی مخالفت میں اپنا رنگ بھرنا۔ حالانکہ اس وقت ہماری قومی سیاست کسی بھی طرح کی مہم جوئی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی، اور نہ ہی ہمیں اس طرح کی سیاست کی طرف بڑھنا چاہیے۔ قومی حکومت، ٹیکنوکریٹ حکومت یا تمام جماعتوں پر مشتمل کوئی نئی مہم جوئی حالات کو مزید خرابی کی طرف لے جائے گی۔ ہمیں نئے انتخابات کا راستہ ہی تلاش کرنا ہوگا، لیکن انتخابات سے پہلے سیاسی مداخلت کا خاتمہ اور ہر صورت میں منصفانہ اور شفاف انتخابات ہی ملک کو بحران سے نکال سکتے ہیں۔ اگر کسی کی حمایت اور کسی کی مخالفت میں پرانا کھیل کھیلا گیا تو اس سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ حالات اور زیادہ بگاڑ کی طرف جائیں گے۔ جو لوگ بھی فیصلے کی طاقت رکھنے والے افراد یا اداروں کو نئے انتخابات سے قبل دو برس کے لیے ایک عبوری حکومت بنانے کا مشورہ دے رہے ہیں وہ حالات کو بگاڑنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اس طرز کی مہم جوئی سے سیاست تو کجا خود معیشت کا بھی کوئی بھلا نہیں ہوگا، اور خود عالمی برادری بھی ہمیں نظرانداز کرے گی۔ جب تک اسٹیبلشمنٹ اصل حقائق سے نظریں چرا کر مصنوعی کھیل کا حصہ بنتی رہے گی ہمیں سیاسی و معاشی سطح پر بحرانوں ہی کا سامنا رہے گا۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ غلط فیصلوں کے بجائے ایسے فیصلے کریں جو حالات میں بہتری اور نئے سیاسی ومعاشی امکانات پیدا کرسکیں، اسی سے پاکستان کا مفاد بھی جڑا ہوا ہے۔