تھیوکریسی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان

قرار داد مقاصد کی منظوری اور حکمراں طبقے کی بد نیتی

انگریزی اخبارات میں آئے دن ایسے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں جنھیں پڑھ کر بند آنکھیں کھل جاتی ہیں اور کھلی ہوئی آنکھیں بند ہونے کی تمنا کرتی ہیں۔ کچھ عرصہ پیشتر لیاقت علی خان کی برسی کے موقع پر روزنامہ ڈان کراچی میں ایک ایسا ہی مضمون شائع ہوا ہے۔ یہ مضمون جناب شریف المجاہد کا تحریر کردہ ہے جو ملک کے نامور مدرس اور مؤرخ تھے۔

مضمون کا لبِ لباب یہ ہے کہ خان لیاقت علی خان نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تھیوکریسی کا راستہ روک دیا۔ مضمون نگار کے بقول لیاقت علی خان نے یہ کارنامہ قراردادِ مقاصد تیار اور منظور کراکے انجام دیا۔ مضمون نگار نے لکھا ہے کہ اگر قراردادِ مقاصد رجعت پسندانہ یا رجعتِ قہقری کا مظہر ہوتی تو اُس زمانے کے بائیں بازو کے نفسِ ناطقہ میاں افتخار الدین ہرگز ہرگز قرارداد کی کھلی حمایت نہ کرتے۔ شریف المجاہد نے حوالوں کے ساتھ فرمایا ہے کہ جب قرارداد کے بعض مندرجات پر اعتراضات ہوئے تو لیاقت علی خان نے معترضین کو بتایا اور یاد دلایا کہ قرارداد میں لفظِ خدا کا استعمال اتنا ہی سرسری ہے جتنا کہ بعض ملکوں کے آئین بالخصوص آئرش آئین میں ہے۔ لیاقت علی خان نے کہا کہ اس قرارداد کے دیباچے میں قطعی طور پر واضح کردیا گیا ہے کہ اصل اتھارٹی عوام کو حاصل ہے اور وہی اس امر کے فیصلے کے مجاز ہیں کہ ان کی جانب سے یہ اتھارٹی کون استعمال کرے گا۔ لیاقت علی خان نے مزید کہا کہ قرارداد اور تھیوکریسی میں کوئی باہمی تعلق نہیں۔ اگرچہ تھیوکریسی کے لغوی معنی خدا کی حکومت ہیں، چنانچہ اس اعتبار سے یہ پوری کائنات تھیوکریسی ہے۔ تاہم تکنیکی اعتبار سے تھیوکریسی کا مفہوم ایسے افراد کی حکومت ہے جو یہ دعویٰ کریں کہ انھیں جو اختیارات حاصل ہیں وہ خدا کے عطا کردہ ہیں۔ لیاقت علی خان نے کہا کہ اسلام میں ایسا کوئی تصور موجود نہیں۔ شریف المجاہد صاحب کے بقول لیاقت علی خان نے ان حقائق کو واضح کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا، چنانچہ انھوں نے اپنے دورۂ امریکہ میں بھی واضح کیا کہ اسلام میں تھیوکریسی کا کوئی تصور نہیں، اور ہم نے عزم کیا ہے کہ ریاست کا اختیار منتخب نمائندوں کو حاصل ہوگا۔ لیاقت علی خان نے اس ضمن میں مزید کہا کہ پاکستان میں اسلامی جمہوریت ہوگی لیکن یہ کام بہرحال منتخب نمائندوں کے توسط سے ہوگا۔

ان آرا کے اظہار کے بعد مضمون کے آخری پیراگراف میں شریف المجاہد صاحب نے لکھا ہے کہ قراردادِ مقاصد اپنی منظوری کے بعد سے تھیوکریسی کے لیے سدِّ راہ بنی ہوئی ہے، اور چونکہ نام نہاد مذہبی جماعتوں کے براہِ انتخابات اقتدار میں آنے کے بہت ہی کم امکانات ہیں اس لیے یہ قرارداد آئندہ بھی سدِّ راہ کا کردار ادا کرتی رہے گی۔

پروفیسر شریف المجاہد کے مضمون کے ان مندرجات کو دیکھا جائے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ’’اسلامی مذاقیہ پاکستان‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ یہ مذاق ابتدا ہی سے اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہورہا ہے۔ معاف کیجیے گا مذاقیہ کا ٹکڑا مفہوم کے اعتبار سے کمزور ہے لیکن یہاں مفہوم سے زیادہ صوتی ہم آہنگی اہم ہے۔

تجزیہ کیا جائے تو یہ مضمون کیا ہے… کٹ حجتی، خلطِ مبحث، تضاد بیانی اور تھڑدلی کی ایک داستان ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسلام میں کسی پروہت اور کسی پوپ کا کوئی تصور نہیں، لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں احکامات کی تشریح و تعبیر اور کسی بھی اجتماعی فیصلے کے لیے اہلیت اور صلاحیت کا کوئی تصور نہیں؟ غزل کی شاعری میں قافیہ پیمائی سطحی سی چیز ہے لیکن اس کے لیے بھی ایک صلاحیت درکار ہے۔ ڈاکٹر بننے کے لیے ایک صلاحیت بہم پہنچانی پڑتی ہے۔ یہاں تک کہ سائیکل کے مختلف حصے جوڑنے کے لیے بھی ایک تربیت ناگزیر ہے۔ یہ باتیں سب تسلیم کرتے ہیں لیکن جیسے ہی مذہب کا معاملہ آتا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے کس خاص انسان کی ضرورت نہیں۔ آخر عالمِ دین کسی وضع قطع کا نام تو نہیں۔ یہ ایک صلاحیت اور اہلیت کے سوا کیا ہے؟ لیکن یہاں معیار یہ بنایا گیا ہے کہ عوام جسے منتخب کریں وہی ریاست کی اتھارٹی استعمال کرنے کا مجاز ہوگا۔ کمال ہے! جب عوام کسی ڈاکٹر کو ڈاکٹر کی سند، اور انجینئر کو انجینئر کی سند عطا نہیں کرسکتے تو وہ کسی کو عالمِ دین ہونے کی سند کیونکر عطا کرسکتے ہیں! اگر ریاست قرآن وسنت کی روشنی میں قوانین مرتب کرے گی اور امورِ مملکت چلائے گی تو اس کے منتخب لوگوں کو کم از کم یہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ اس سلسلے میں قرآن اور سنت کیا کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال تک فرما گئے ہیں کہ اسلامی ریاست میں قانون سازی پارلیمنٹ کرے گی۔ ٹھیک ہے، مگر پارلیمنٹ میں کس طرح کے لوگوں کو موجود ہونا چاہیے؟ اس سلسلے میں اقبال نے بھی کچھ نہیں کہا۔

چلیے عالم ہونا بڑی بات ہے، یہاں تو یہ صورتِ حال ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری نہیں، کیونکہ جنرلوں کی چاپلوسی، دولت اور جاگیر کو بجائے خود سند کا درجہ حاصل ہے۔ اس لیے جس کے پاس یہ تمام یا ان میں سے کوئی بھی ایک سند ہو اُسے کسی اور سند اور کسی اور اہلیت کی ضرورت ہی نہیں۔ مگر یہ تو ایک کھلی دھوکا دہی ہے۔ تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ جب تک اقتدار ڈاکوؤں، اسمگلروں اور بدمعاشوں کے پاس ہے پروفیسر شریف المجاہد جیسے مہذب اور اہلِ علم لوگوں کو کوئی فکر نہیں، کیونکہ اس طرح تھیوکریسی کا راستہ رکا ہوا ہے۔ ہمارا لبرل طبقہ اس شوق میں ملک تڑوا سکتا ہے، قوم کی نصف صدی سے زیادہ برباد کروا سکتا ہے اور باقی ملک کو خطرے میں ڈال سکتا ہے لیکن اسے کسی چیز کی پروا نہیں۔ یہ تھیوکریسی سے بچنے کی بہت معمولی قیمت ہے۔ خاکم بدہن اگر یہ ملک صفحۂ ہستی سے مٹ جائے تو بھی یہ طبقہ یہی کہے گا: چلو! جو ہوا سو ہوا، تھیوکریسی سے تو بچے رہے۔

ہم نہیں کہتے کہ مذہبی جماعتوں کی حکومت آئی تو وہ بہت اچھی ہوگی، لیکن جناب! پہلے اس کا تجربہ تو کرلیجیے، پھر اس کے بعد جو چاہے کہیے گا۔ مگر آپ تو کسی تجربے کے بغیر ہی بلبلا رہے ہیں۔ کیا یونہی بلبلانا آپ کا کوئی شوق ہے یا عادت؟

شریف المجاہد صاحب کے مضمون کے آخری پیراگراف کا تو جواب ہی نہیں، یعنی آپ عوام کو طاقت کا سرچشمہ مانتے ہیں لیکن پھر اس پر اطمینان کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ابھی یہ عوام مذہبی عناصر کو اختیار دینے پر آمادہ نہیں۔ لیکن فرض کیجیے عوام نے کل کلاں کو یہ ’’غلطی‘‘ کر ہی لی تو پھر کیا ہوگا ؟ کیا پھر تھیوکریسی جائز نہ ہوجائے گی؟ تو جنابِ والا معلوم ہوا کہ جمہوریت بڑی خطرناک چیز ہے۔

پاکستان میں حکمران طبقے کی نیت روزِ اوّل سے خراب رہی ہے، لیکن قراردادِ مقاصد کی منظوری اور ملک کے آئین میں لفظ ’اسلامی‘ کے اضافے سے بعض لوگوں کو یہ خوش فہمی یا غلط فہمی لاحق ہوگئی کہ چلو، ملک اسلامی ہوگیا اور اب اسلام کی آمد کی راہ ہموار ہوگئی۔ ہم قراردادِ مقاصد کی منظوری اور اس کے آئین کا حصہ بننے کی اہمیت کے منکر نہیں، لیکن یہ بات تو روزِ اوّل سے عیاں تھی کہ یہ ساری کارروائی حکمران طبقہ پورے شعور کے ساتھ انجام دے رہا ہے اور اس کا مقصد عوام کو مطمئن کرنے اور ان کا منہ بند ر کھنے کے سوا کچھ نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان حقائق کا ادراک نہیں کیا گیا۔ بہت سے لوگوں اور مذہبی وسیاسی رہنماؤں کو ان حقائق کا فہم تھا، لیکن یہ فہم ایک نئی جدوجہد کے لیے بروئے کار نہیں آسکا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خان لیاقت علی خان تھیوکریسی کے بڑے خلاف اور عوام کے بڑے قائل تھے اور ان کا کہنا تھا کہ تھیوکریسی میں ایک طبقہ خدائی فوجدار بن جاتا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہوگی، لیکن سوال یہ ہے کہ 1947ء سے لیاقت علی خان کے قتل یعنی 1954ء تک کیا ہوا؟ اور پھر 1954ء سے 1970ء تک کی کہانی کیا ہے؟ ان سوالات کا جواب مذکورہ تناظر میں یہ ہے کہ اس عرصے میں عوام جو طاقت کا سرچشمہ تھے کہیں موجود ہی نہیں تھے، اس لیے کہ پاکستان میں بالغ حقِ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے انتخابات 1970ء میں ہوئے ، چنانچہ لیاقت علی خان ہی نہیں اُن کے بعد آنے والے حکمران بھی اس عرصے میں خدائی فوجدار بنے رہے، وہ عوام کے نام پر ذاتی خواہش کو بروئے کار لاتے رہے۔ آخر یہ تھیوکریسی نہیں تھی تو کیا تھی؟ لیکن لبرل اور سیکولر عناصر کے لیے ہر چیز جائر ہے۔ کہتے ہیں کہ خان لیاقت علی خان کی زبان پر آخری جملہ یہ آیا کہ ’’اے خدا پاکستان کی حفاظت کر‘‘۔ چلیے، انھوں نے جس خدا کو قراردادِ مقاصد میں یونہی سرسری طور پر استعمال کیا تھا بالآخر اس خدا کو انھوں نے پاکستان سونپ دیا۔ ویسے مذکورہ تناظر میں ان کے لیے شایانِ شان بات یہ تھی کہ وہ عوام اور ان کے منتخب نمائندوں سے کہتے کہ اپنے پاکستان کی حفاظت کرو۔ خیر، منتخب نمائندے تو اُس وقت موجود نہیں تھے لیکن عوام کہیں مرتو نہیں گئے تھے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ لبرل عناصر تھیوکریسی کے بارے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں۔ اور پھر یہ کہہ کر اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب اسلام میں تھیوکریسی ہے ہی نہیں تو پھر اس کی مخالفت کا کیا جواز ہے؟ کیا کبھی کسی جیّد عالمِ دین نے مسلم دنیا کے کسی بھی کونے میں تھیوکریسی کی اصطلاح استعمال کرکے اس کی حمایت کی ہے؟ اصل میں قصہ یہ ہے کہ تھیوکریسی کی اصطلاح عیسائی مغرب سے آئی ہے، اور اس دور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مذہبی پیشواؤں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بادشاہوں سے گٹھ جوڑ کرلیا تھا۔ یہ لوگ عوام الناس پر طرح طرح کے ظلم کرتے تھے اور اپنے ہر اقدام کو اس بنیاد پر جائز قرار دیتے تھے کہ وہ خود مامور من اللہ ہیں۔ بلاشبہ ان باتوں میں بڑی صداقت ہے لیکن بہرحال یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ چرچ بادشاہوں کی قوت بن گیا تھا، لیکن ایسی مثالوں کی بھی کمی نہیں کہ عیسائی مذہبی رہنماؤں نے بادشاہوں کے اقدامات کی مزاحمت کی اور خلقِ خدا کے مفادات کا تحفظ کیا۔ لیکن جدید مغرب مذہب کے خلاف اتنی شدید رائے رکھتا ہے کہ تصویر کے دوسرے رخ کا تذکرہ ہی نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں جدید مغرب کے تعصب اور تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ اس نے عیسائیت کے اس عہد کو دورِ ظلمات یا Ages Dark کا نام دیا ہے۔ حالانکہ اب خود اہلِ مغرب تسلیم کررہے ہیں کہ اس دور میں تو علوم وفنون کو بڑا فروغ حاصل ہوا، اور اس زمانے کی تہذیب بڑی طاقتور تہذیب تھی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بہت سے علمائے کرام اور عام مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد اس سلسلے میں سیکولر مغرب کی آرا سے متاثر ہے۔

چلیے، اس زمانے کے پادری بڑے ظالم اور انسانیت دشمن ہوں گے لیکن جدید مغرب کے عوامی لیڈر کون سے بڑے نرم خو اور انسان دوست ہیں! جدید مغرب کی تاریخ جنگوں اور انسانوں کے قتلِ عام سے بھری پڑی ہے۔ آخر پہلی اور دوسری جنگِ عظیم جن میں 7 کروڑ سے زیادہ افراد مارے گئے اور اس سے زیادہ زخمی ہوئے، سیکولر اور لبرل مغرب ہی میں لڑی گئی ہیں۔ ایٹم بم کا استعمال بھی سیکولر مغرب کی سیکولر قیادت ہی نے کیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا پہلی اور دوسری جنگِ عظیم اہلِ مغرب کے قائدین نے عوام کے مشورے سے شروع کی تھی؟ اور کیا امریکہ کے صدر نے جاپان کے خلاف ایٹم بم استعمال کرتے ہوئے اپنے عوام سے مشورہ کیا تھا؟

بات یہ ہے کہ تھیوکریسی میں اگر عوام کی کوئی حیثیت نہیں تو جمہوریت میں بھی عوام کی حیثیت ایک ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں۔ نام بلاشبہ عوام کا ہوتا ہے لیکن کام چند ایسے افراد کا جومامور من اللہ نہ ہوتے ہوئے بھی اسی طرح سوچتے اور عمل کرتے ہیں کہ جیسے وہ خاص اسی کام کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔

یادش بخیر کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ اسلام کا دورلد چکا، اب اسلام کوئی اجتماعی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔ ایران کے انقلاب نے اس نام نہا د رائے کو دفن کردیا تو کہا جانے لگا کہ مذہبی عناصر طاقت کے ذریعے تو آ سکتے ہیں مگر ووٹ کے ذریعے نہیں آسکتے۔ الجزائر اور ترکی کے عوام نے اس دعوے کی مضحکہ خیزی بھی ثابت کردی۔ لیکن الجزائر اور ترکی میں جو کچھ ہوا وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ سیکولر مغرب اور اس کے مقامی کتوں نے اپنے آئیڈیلز پر تھوک دیا، اس کے بعد ہم نے ایک مغربی صحافی کا مضمون پڑھا جس میں لکھا تھا کہ جمہوریت ایک خطر ناک آلہ ثابت ہوئی ہے کیوں کہ اس کے ذریعے تو بنیاد پرست بھی اقتدار میں آسکتے ہیں، چنانچہ جمہوریت میں ایسی اصلاح کی ضرورت ہے جس کے ذریعے اس خوفناک امکان کی راہ روکی جا سکے۔