”بلوچ راجی مچی“ تحریک کی قیادت خواتین کررہی ہیں فسطائی حربوں کے ذریعے دانستہ صوبے کو غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار کیا گیا
اہلِ اقتدار کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان میں وقتاً فوقتاً بے قراری سر اٹھا لیتی ہے، جبکہ ملک کے عوام کو بے خبر رکھا جاتا ہے۔ قومی میڈیا خواہ کاغذی ہو یا برقی، مجرمانہ طور پر ہدایات کے اسیر ہیں، کیوں نہ ہوں کہ ذرائع ابلاغ کے جملہ دفاتر کو اپنے کاروبار یعنی اشتہارات سے غرض ہے۔ اب تو غالب ادارے خواہ اخبارات ہوں یا ٹی وی چینلز… اسٹیبلشمنٹ کی دی ہوئی لائن پر چلتے ہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کی مراد پوری ہورہی ہے تو یہ محض ان کی کج فہمی ہے۔ ابلاغ کے سماجی وسیلوں کے توسط سے لوگ پل پل کی خبروں سے آگاہ ہیں۔ بلوچستان کا یہ پہلو عالمی میڈیا میں نمایاں ہے۔ چناں چہ بے کار حربے خودفریبی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
بلوچستان کی موجودہ حکومت جو پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی پر مشتمل ہے اور جسے جماعت اسلامی کے ایک رکن مجید بادینی کی حمایت بھی حاصل ہے، درحقیقت مقتدرہ کی ڈیزائن کی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی کے کئی لوگ فارم47کے تحت کامیاب کرائے گئے ہیں۔ یوں یہ تین جماعتیں اپنے مربیوں کی زیادہ مطیع و فرماں بردار ہیں۔ ظاہر ہے وفاقی حکومت کی خشت کاری بھی ایسے ہی ہوئی ہے اور ایک ضعیف، بیمار اور لاغر شخص آصف علی زرداری صدرِ مملکت کے اہم آئینی منصب پر بٹھائے گئے ہیں جو خود کوسندھ کے ساتھ بلوچستان کا بادشاہ سلامت بھی سمجھتے ہیں۔ جمہوریت کا قلادہ پہنی پیپلز پارٹی بلوچستان میں فسطائیت کی راہ پر گامزن ہے۔ غبن ماضی کی طرح اب بھی اس کا وتیرہ ہے۔ سرفراز بگٹی کی وزارتِ اعلیٰ ان سے منوائی گئی ہے وگرنہ وہ انہیں قطعی قبول نہیں ہیں۔ مقتدرہ کی رضا کے بغیر کوئی شوخی سوجھی تو آن کی آن میں ان کے کئی ارکانِ اسمبلی وفاداری تبدیل کرنے میں لمحہ بھر دیر نہیں کریں گے۔ پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کا اشتراک بلوچستان کے موجودہ حالات و واقعات میں بڑا واضح ہے۔ فسطائیت بلوچستان کی ابتری میں مزید اضافے کا موجب بنی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کا اجتماع ساحلی شہر گوادر میں 28 جولائی کو منعقد ہوا۔ بلوچ راجی مچی (بلوچ قومی اجتماع) کے عنوان سے اس جلسے میں رکاوٹ کا ہر حربہ استعمال ہوا۔ مرد و خواتین پر مشتمل قافلے صوبے کے مختلف اضلاع اور علاقوں میں روکے گئے۔ گاڑیوں اور بسوں کے ٹائر گولیاں چلا کر برسٹ کردیے گئے۔ کوئٹہ سے لے کر حب، اور سوراب سے لے کر تربت گوادر تک کی قومی اور بین الاضلاعی شاہراہیں جگہ جگہ کنٹینر کھڑے کرکے بند کردی گئیں۔ ردعمل میں مرد و خواتین جگہ جگہ دھرنوں پر بیٹھ گئے۔ کوئٹہ کا ریڈ زون چہار اطراف سے کنٹینر لگا کر سیل کردیا گیا جس سے صوبے کی سہ جماعتی حکومت (پیپلز پارٹی، نون لیگ اور بی اے پی) کا خوف ظاہر ہوا ہے۔ کوئٹہ کے اندر بھی خواتین کی قیادت میں سریاب روڈ، عبدالستار ایدھی چوک اور اسمبلی کے باہر مظاہرے ہوئے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پلیٹ فارم سے یہ تحریک خواتین کی سرکردگی میں اٹھی ہے۔ قیادت نوجوان خواتین ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، سمی دین بلوچ اور صبیحہ بلوچ کررہی ہیں۔ یہ خواتین گوادر پہنچ چکی تھیں۔ 28جولائی کو اجتماع کی اجازت نہ ملنے پر وہیں دھرنا دے دیا۔ روک ٹوک، زور زبردستی کے رویّے نے تصادم کو جنم دیا۔ کئی بلوچ نوجوان زندانوں میں ڈالے گئے، زخمی ہوئے اور تین جاں بحق ہوگئے۔ یہ سب کچھ میڈیا پر سنسر تھا۔ بقول آئی ایس پی آر: تصادم کے دوران ایک ایف سی اہلکار بھی جاں بحق ہوا اور سولہ زخمی ہوگئے۔ یہ خبر ٹی وی چینلز پر نمایاں طور پر چلی ہے۔ گویا 28 جولائی سے گوادر سمیت بلوچستان کا ایک وسیع رقبہ بند ہے۔ گوادر میں موبائل فون نیٹ ورک، حتیٰ کہ پی ٹی سی ایل کی لینڈ لائن اور انٹرنیٹ سروس بھی بند رکھی گئی۔ گوادر کا محاصرہ کیا گیا۔ ساحلی شہر تک جانے والے تمام راستوں کو حکومت نے سیل کردیا۔ راشن لے جانے والی مال بردار گاڑیوں کو بھی دس دنوں تک گوادر جانے کی اجازت نہیں دی گئی جس کی وجہ سے خوراکی اشیاء کی قلت پیدا ہوگئی۔ باقی شہروں میں قومی شاہراہوں پر مسافر گاڑیاں اور مال بردار گاڑیاں احتجاج کے باعث رک گئیں۔ سرحدی علاقوں سے کوئٹہ اور باقی شہروں کو ایرانی تیل اور کراچی سے تیل کمپنیوں کی جانب سے پیٹرول اور ڈیزل کی سپلائی بند ہوگئی۔ نتیجتاً دو سو روپے فی لیٹر فروخت ہونے والے ایرانی پیٹرول کی قیمت چار سو روپے تک پہنچ گئی۔ سیب، انگور، آڑو اور دیگر پھلوں، سبزیوں کی بین الاضلاعی اور بین الصوبائی سپلائی بند ہونے سے زمینداروں کا نقصان ہوا ہے۔ اسی طرح تاجر بھی متاثر ہوئے۔ کئی دنوں تک پاک ایران تجارت معطل رہی۔ گویا فسطائی حربوں کے ذریعے دانستہ صوبے کو غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار کیا گیا۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے 29 جولائی کو اسمبلی اجلاس میں اس بارے میں خصوصی گفتگو کی، انہوں نے دلیل دی کہ انہیں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے ارادوں کا علم تھا، وہ گوادر میں حالات خرابی کی طرف لے جانا چاہتی تھیں جبکہ ماہ اگست میں اہم غیر ملکی وفود کو گوادر کا دورہ کرنا ہے، گوادر ائرپورٹ کا افتتاح ہونا ہے۔
ماہ رنگ ایک دن چار یا پانچ گھنٹے کا جلسہ کرکے چلی جاتیں، مگر صوبائی حکومت یا کسی اور نے قدغن لگاکر حالات خراب کردیے، اور نتیجتاً 27 جولائی سے اگست کے پہلے عشرے تک بے امنی رہی۔ بندشوں کی حماقتیں حالات کی خرابی کی موجب بنی ہیں۔ صوبے کے اندر وفاقی اور صوبائی حکومت خصوصاً پیپلز پارٹی کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی عوام کی رائے کے برعکس بیانات دے رہے ہیں۔ انہیں یقیناً غرض اپنی حکومت اور اللوں تللوں سے ہے۔ مولانا ہدایت الرحمان اسمبلی اجلاس میں پولیس کی جانب سے احتجاج کرنے والی بلوچ خواتین کے دوپٹے کھینچنے کے واقعے کے خلاف بولے۔ جواب میں پیپلز پارٹی کے علی مدد جتک مولانا ہدایت الرحمان پر حملہ آور ہوئے، فحش گالیاں دیں، انہیں دو ٹکے کا ملا کہتے رہے۔ جمعیت علماء اسلام کے اراکین علماء کی توہین پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ مولانا ہدایت الرحمان نے صوبائی حکومت کی حمایت ترک کردی اور26 جولائی کے اجلاس میں حزبِ اختلاف کی نشست پر بیٹھ گئے۔
آصف علی زرداری نے بلوچستان کو باپ دادا کی جاگیر سمجھ لیا ہے۔ سندھ کے ضلع نواب شاہ کے علی حسن زہری کو پی پی 21 حب سے سردار اسلم بھوتانی کے خلاف انتخاب لڑوایا پولنگ کے دن علی حسن زہری کے لوگوں نے نری بدمعاشی دکھائی۔ مسلح جتھوں نے گولیاں چلائیں۔ سردار اسلم بھوتانی کے دو حامیوں کو قتل کردیا۔ اس حلقے کا نتیجہ آج تک رکا ہوا ہے۔ آصف علی زرداری کے حکم پر علی حسن زہری وزیراعلیٰ کے مشیر برائے صنعت و حرفت مقرر کیے گئے۔ اب یہ شخص حب کی نمائندگی کررہا ہے۔ سینیٹ الیکشن 2024ء میں اس کی ہمشیرہ حسنہ بانو کو خواتین کی نشست پر سینیٹر منتخب کرایا گیا۔ پیش ازیں علی حسن زہری کی اہلیہ ثمینہ زہری بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئی ہیں۔ دونوں خواتین غیر معروف ہیں جن کا کوئی سیاسی پس منظر بھی نہیں۔ بلوچستان سے اس سے پہلے ان کا کوئی واسطہ اور تعلق نہیں تھا۔ بلوچستان کی وہ قوم پرست جماعتیں جو عوام کو پارلیمانی سیاست کی طرف رغبت دلاتی ہیں، 8فروری2024ء کے فارم 47 والے انتخابات کے بعد اب ان جماعتوں کا بھی پارلیمانی سیاست پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ صوبے کی اسمبلی میں حزبِ اختلاف پوری طرح نکمی اور خوف زدہ ہے۔ حزب ِاختلاف دونوں طرف کھیل رہی ہے۔ سرفراز بگٹی اتحادیوں اور حزبِ اختلاف سے زیادہ پیپلز پارٹی سے بلیک میل ہیں۔