بجلی ،گیس کے بھاری بل آئی پی پیزکے ظالمانہ ٹیکس: جماعت اسلامی کا کراچی میں بھی دھرنا

عوام کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے مطالبات منظور کرلیں ورنہ تحریک ’’حکومت گرائو تحریک‘‘ میں بدل جائے گی

جماعت اسلامی کا دھرنا راولپنڈی میں جاری ہے۔ اسی پس منظر میں کراچی میں لوڈشیڈنگ، کے الیکٹرک کی عوام دشمنی،گیس وبجلی کے بھاری بل، ظالمانہ سلیب سسٹم، آئی پی پیز سے عوام دشمن معاہدوں، ظالمانہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے و تاجروں پر ٹیکسوں کے خلاف کراچی میں بھی گورنر ہائوس پر دھرنا جاری ہے۔

اتوار کی شب کراچی میں امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے اس دھرنے میں خصوصی شرکت کی۔ دھرنے کے دوسرے روز آمد پر ان کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا۔ شرکا نے کھڑے ہوکر استقبال کیا اور پُرجوش نعرے لگائے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان سمیت دیگر قائدین کے ہمراہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر فیملی دھرنے و جلسہ عام کے ہزاروں شرکا سے اظہار یکجہتی کیا۔ شرکاء نے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جن پر تحریر تھا ’’گیس، بجلی، پیٹرول سستا کرو، عوام پر ظلم بند کرو،IPPsکے ظالمانہ اور عوام دشمن معاہدے ختم کرو، تنخواہ دار طبقے اور تاجروں پر ظالمانہ ٹیکس واپس لو، جاگیرداروں اور وڈیروں پر ٹیکس لگائو‘‘۔ شرکاء نے پُرجوش نعرے لگائے جن میں ’’نعرۂ تکبیر اللہ اکبر‘‘، ’’جینا ہوگا مرنا ہوگا، دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا‘‘، ’’گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو‘‘، ’’کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ کرو‘‘، ’’ظالمانہ ٹیکس ختم کرو‘‘، ’’کراچی کو پانی دو‘‘، ’’بچوں کو پڑھنے دو‘‘، ’’کے فور منصوبہ مکمل کرو‘‘، ’’بجلی سستی کرو‘‘، ’’تنخواہ دار کو جینے دو‘‘، ’’کراچی کو بجلی دو‘‘، ’’آٹا، چینی،دال پر ٹیکس نامنظور‘‘ و دیگر نعرے شامل تھے۔ دھرنے سے جہاں حافظ نعیم الرحمٰن نے خطاب کیا وہاں امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان کا خطاب بھی اہم رہا جس میں انہوں نے کراچی کا مقدمہ پیش کیا۔ اس کے علاوہ اپوزیشن لیڈر بلدیہ عظمیٰ کراچی و نائب امیر کراچی سیف الدین ایڈووکیٹ، رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق و دیگر نے بھی خطاب کیا، جبکہ سیکرٹری کراچی توفیق الدین صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنے مفصل خطاب میں کہا کہ جماعت اسلامی کی تحریک اپنے سروں سے ظالم حکمرانوں کو ہٹانے کی تحریک ہے۔ ہم نے تحریک کے پہلے مرحلے میں 7 نکاتی ایجنڈا رکھا ہے۔ بجلی کی قیمت کم کی جائے اور اس کی لاگت کے مطابق بل بھیجے جائیں۔ اس سے قبل کہ ہم عوام سے بجلی کے بل ادا نہ کرنے کی اپیل کریں حکمران ہوش کے ناخن لیں۔ جماعت اسلامی کا ایک کارکن بھی وزیراعظم سے مناظرہ اور مباحثہ کرسکتا ہے لیکن ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ فارم 45کے مطابق فیصلے کیے جائیں تو وزیراعظم شہبازشریف اور ان کے پورے خاندان سمیت ان کی اتحادی پارٹی بھی گھر چلی جائے گی۔ وزیراعظم عوام کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے مطالبات منظور کرلیں ورنہ تحریک ’’حکومت گرائو تحریک‘‘ میں بدل جائے گی۔ ہم تصادم نہیں چاہتے لیکن اگر عوام خود نکل کر حکمرانوں کا گھیرائو کرنے لگیں، ان کا گھروں سے نکلنا مشکل کردیں اور حالات قابو سے باہر ہوجائیں تو پھر اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ مذاکراتی ٹیم میٹنگ میں کہتی ہے کہ جماعت اسلامی کی تجاویز قابلِ عمل ہیں لیکن میڈیاکے سامنے مکر جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے پنڈی میں 10دن گزار لیے ہیں اور اب 100دن بھی گزاریں گے۔ ڈی چوک بھی دور نہیں۔ گیس پائپ لائن معاہدے میں ایران نے اپنا کام مکمل کرلیا لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے اپنا کام نہیں کیا اور ملک کے عوام کو سستی گیس سے محروم کررہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے 1994ء میں آئی پی پیز کے نام پر دھندا شروع کیا ہے۔ ایم کیو ایم ہر حکومت کا حصہ رہی ہے اور آج یہ آئی پی پیز کے حوالے سے اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں۔ جتنی بھی آئی پی پیز بنی ہیں ان سب میں مسلم لیگ ق، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم شامل ہیں۔‘‘

امیر جماعت اسلامی پاکستان نے سندھ اور کراچی کے پس منظر میں اہم باتیں کیں اور کہا کہ ’’پیپلزپارٹی گزشتہ 16سال سے سندھ پر قابض ہے اور ایم کیوایم ہر حکومت میں شامل رہی ہے۔ اگر کراچی کی صنعتوں کو سستی بجلی اور گیس فراہم کی جائے تو یہ صنعتیں پاکستان کی معیشت کو آگے بڑھا سکتی ہیں۔ آرمی چیف نے سندھ میں زمینوں کے سسٹم کو ختم کرنے کی بات کی تھی۔ آج اسی سسٹم کو ایوانِ صدر کی کرسی پر بٹھادیا گیا ہے۔ بلوچستان میں بھی زمینوں پر قبضے ہورہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزیدکہاکہ ’’کے الیکٹرک ملک میں سب سے مہنگی بجلی فروخت کررہی ہے۔ حکومت، نیپرا اور کے الیکٹرک نے کراچی کے شہریوں کے خلاف ایک شیطانی اتحاد بنایا ہوا ہے۔ 19سال میں کے الیکٹرک نے اپنی پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ جب ملک میں اضافی بجلی موجود ہے تو کے الیکٹرک کو جنریشن کا لائسنس کیوں دیا گیا ہے اور کراچی کے عوام کو این ٹی ڈی سی سے سستی بجلی کیوں نہیں دی جاتی؟ ملک میں موجود دیگر ڈسکوز کو بھی پرائیویٹ سیکٹر میں دینے کی کوشش کی جارہی ہے، کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کو پرائیویٹ کرکے کراچی کے عوام کو مہنگی بجلی، لوڈشیڈنگ اور بھاری بل کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اسے سب سے پہلے پرویزمشرف نے ایم کیو ایم اور قاف لیگ کے ساتھ مل کر فروخت کیا، پھر زرداری نے ابراج گروپ کو بیچا، ایم کیوا یم اُس وقت بھی حکومت کا حصہ تھی۔ جماعت اسلامی کا دھرنا ایک بڑی تحریک میں بدل چکا ہے۔ راولپنڈی کا دھرنا گیارہویں دن میں داخل ہوچکا ہے اور کراچی میں بھی گورنر ہائوس میں دھرنا جاری ہے۔ ہم نے واضح کیا تھا کہ ہم کسی تصادم کا راستہ اختیار نہیں کریں گے۔ آئندہ دنوں میں پشاور اور لاہور میں بھی دھرنے کا اعلان کیا جائے گا اور بلوچستان میں بھی دھرنا ہوگا۔ جب بھی پیش رفت کی بات ہوتی ہے تو ڈی چوک اور پارلیمنٹ جانے کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ ’’حق دو عوام کو‘‘ تحریک پاکستان کو آگے بڑھانے کی تحریک ہے۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ جو بجلی استعمال ہی نہیں ہوئی ہے اس کی قیمت بھی وصول کی جاتی ہے! وزیراعظم سے لے کر نچلی سطح تک تمام حکمران جھوٹ بول رہے ہیں۔ اگر آج فارنزک آڈٹ کیا جائے تو سب پتا چل جائے گا کہ اوور کیپسٹی شو کی گئی ہے۔ بیرونی قرضوں میں سب سے زیادہ نواز لیگ، پھر پیپلزپارٹی نے قرضے لیے، اور پی ٹی آئی بھی بیرونی قرضے لینے والوں میں شامل ہے۔ آئی ایم ایف کی غلامی کا طوق عوام کی گردنوں میں ڈالا جارہا ہے۔ جماعت اسلامی عوام کو ریلیف دلانے کے لیے سڑکوں پر نکلی ہے۔ دھرنا پاکستان کے 25کروڑ عوام کی امید بن گیا ہے۔ بجلی کی قیمت کم کرو، جاگیرداروں پر ٹیکس لگائو، اپنی عیاشی ختم کرو۔ گورنر سندھ آج ہی اعلان کریں اور تہیہ کریں کہ 1300سی سی کی گاڑی میں سفر کریں گے۔ مراعات یافتہ طبقے کو فری پیٹرول اور مہنگی مہنگی گاڑیاں مفت میں استعمال کے لیے دی جاتی ہیں۔ قرضوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے جو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔‘‘ انہوں نے مزیدکہاکہ ’’بچوں کے دودھ اور اسٹیشنری پر بھی ٹیکس لگادیا گیا ہے، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں اضافہ کردیا گیا ہے، آج جاگیرداروں اور وڈیروں سے ٹیکس وصول کرنے کے بجائے تنخواہ دار پر بوجھ ڈالا جارہا ہے، تاجروں اور صنعت کاروں پر ٹیکس لگایا جارہا ہے اور مہنگی بجلی نے کاروبار اور صنعت کو مزید متاثر کیا ہے۔‘‘

حافظ نعیم الرحمٰن نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے پس منظر میں کہاکہ ’’حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی دوحہ قطر میں نمازِ جنازہ میں پاکستان سے میں نے بحیثیت امیرجماعت اسلامی پاکستان شرکت کی، اور میں واحد پاکستانی تھا جو شریک ہوا۔ اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف فلسطین کے عوام مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں، اسماعیل ہنیہ کا پورا خاندان شہید ہوچکا ہے لیکن اس کے باوجود ایک بھی فلسطینی نے یہ نہیں کہاکہ ہم اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔ اہلِ غزہ و فلسطین ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں اور سرنڈر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔‘‘

دھرنے کے شرکاء سے امیرجماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’راولپنڈی میں جاری دھرنا پورے ملک کے عوام کی آواز بن چکا ہے اور کراچی گورنر ہائوس میں بھی دھرنا جاری رہے گا۔ آئی پی پیز نے عوام کا جینا مشکل کردیا ہے، عوام سے ناجائز ٹیکس وصول کیے جارہے ہیں۔ ماہِ اگست آزادی کی یاد دلاتا ہے، بدقسمتی سے ملک پر ایسے لوگ مسلط ہیں جو عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ حکمران یہ چاہتے ہیں کہ عوام کا خون چوسا جائے اور وہ شور بھی نہ کریں۔ کراچی پاکستان کا دارالحکومت رہا ہے اور پاکستان کی امیدوں کا مرکز ہے۔ کراچی شہر کے ساتھ ایک ظلم نہیں بلکہ کئی مظالم کیے گئے۔ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے مردم شماری میں شہرکی ڈیڑھ کروڑ آبادی کم کی۔ پیپلزپارٹی کراچی کے عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈال رہی ہے۔ کراچی کے عوام کے حقوق غصب کرنے میں ایم کیو ایم بھی شامل ہے۔ ظالم حکمرانوں نے غریب طبقے کو ختم کیا اور اب متوسط طبقے کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ حکمران اسٹیل مل کو چلانے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں اور پی آئی اے کو بھی فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ ملک میں 50 فیصد آئی پی پیز ایسے ہیں جو 10فیصد بھی بجلی پیدا نہیں کرتے لیکن انہیں ڈالرو ں میں ادائیگی کی جاتی ہے۔ 30 فیصد آئی پی پیز ایسے ہیں جنہوں نے ایک فیصد بجلی بھی پیدا نہیں کی، پھر بھی انہیں اربوں روپے دیے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی کا دھرنا بھی جاری ہے اور 9ٹائونز میں شجرکاری مہم بھی جاری ہے۔‘‘

نائب امیر جماعت اسلامی سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہاکہ ’’پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بیرونی اداروں سے قرضے تو لیے جارہے ہیں لیکن کرپشن اور نااہلی کے باعث خرچ کچھ نہیں کیا جارہا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کراچی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی طاغوت کے خلاف برسرپیکار ہے۔ جماعت اسلامی 77سال سے قابض ظالموں کے خلاف جدوجہد کررہی ہے۔ موجودہ انتخابات میں ظالم، عوام میں نمایاں ہوچکے ہیں۔ ملک کو چلانے کے لیے ٹیکس اور قرضے لینے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ حکمران خود تو عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں لیکن عوام کا کوئی خیال نہیں ہے۔ متوسط طبقے کا فرد اپنی تنخواہ سے گھر کے خرچے پورے نہیں کرپارہا تو مہنگے بل کیسے ادا کرے گا؟ جماعت اسلامی کی ’’حق دو عوام کو‘‘ تحریک کے نتیجے میں عوام بیدار ہوچکے ہیں۔‘‘

جماعت اسلامی کے واحد رکن صوبائی اسمبلی محمد فاروق نے کہاکہ ’’جماعت اسلامی 25کروڑ عوام کا مقدمہ پورے ملک میں لڑرہی ہے۔ جماعت اسلامی عوام میں امید کی کرن بن چکی ہے۔ مایوسی کے دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعت اسلامی کی ’’حق دو عوام کو‘‘ تحریک کا حصہ بنیں۔ جماعت اسلامی کے تمام مطالبات جائز ہیں۔ ‘‘

جماعت اسلامی کا دھرنا امید کی کرن ہے۔ قوم کی نظر اس دھرنے پر ہے۔ کراچی کے بعد لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں بھی گورنر ہائوس پر دھرنے کی تیاری شروع ہوگئی ہے۔ حکومت نے اگر ریلیف نہیں دیا تو لگتا ہے ملک کے حالات بنگلادیش سے زیادہ مختلف نہیں ہوں گے۔