راولپنڈی میں عوامی دھرنا دوسرے عشرے میں داخل ہوچکا ہے اور کسی بھی وقت اسے آگے بڑھنے کا سگنل مل سکتا ہے۔ گزشتہ ہفتے حکومت اور جماعت اسلامی کی کمیٹی کے مابین جو بات چیت ہوئی، اب تک حکومت نے اس پر کسی قسم کا کوئی مثبت ردعمل یا جواب نہیں دیا ہے، تاہم حکومت بیک وقت متعدد مؤقف اختیار کررہی ہے، کبھی کہا جاتا ہے کہ آئی پی پیز کے پورٹ فولیو کا جائزہ لیا جارہا ہے جلد اچھی خبر ملے گی، کبھی کہا جاتا ہے کہ صارفین پر بوجھ کم کرنے کے لیے جلد فیصلے کیے جائیں گے، بجلی کی قیمت کو نیچے لایا جائے گا۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ روپے کی قدر گرنا اور شرح سود میں اضافہ کیپیسٹی پیمنٹس کی وجہ سے ہے۔ چین اور پاکستان دونوں نے اب کوئلے کے پلانٹس کی مقامی کوئلے میں تبدیلی پر اتفاق کیا ہے۔ آئی پی پیز کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا جارہا ہے، اب پاور سیکٹر میں اصلاحات ہوں گی۔
حکومت جماعت اسلامی کے مؤقف کی حمایت تو کرتی ہے لیکن پیش رفت نظر نہیں آتی۔ راولپنڈی میں جماعت اسلامی کا دھرنا اسلام آباد کے اقتدار کی راہداریوں میں بہت زیادہ زیر بحث ہے، بیوروکریٹس کی مختلف آراء ہیں، متعدد کا کہنا ہے کہ معاہدے چاہے آئی پی پیز کے ہوں یا دوسرے،آج کی دنیا میں Sovereign گارنٹی کے بعد بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوتا ہے، بصورتِ دیگر نقصانات زیادہ ہیں، معاہدے ختم کرنا فوری طور پر ممکن نہیں، تاہم مرحلہ وار ختم ہوں گے، امپورٹڈ فیول پر چلنے والوں کو بھی مقامی فیول پر منتقل کیا جائے گا، مہنگی بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کے ساتھ معاہدے ختم کیے جاسکتے ہیں۔
عوام کی طرف سے جو آواز اٹھائی گئی ہے اس کا اثر محسوس کیا گیا ہے۔ ایک گروپ کا مؤقف ہے کہ مسئلے کا واحد حل معاشی ترقی اور سیاسی استحکام ہے، آئی ایم ایف سے نجات کے لیے پاکستان کو معاشی ایمرجنسی کی ضرورت ہے، اور برآمدات بڑھائی جائیں تاکہ قیمتی زرِ مبادلہ ملے۔
بجلی کے نرخوں کا مسئلہ واقعی ایک ایشو ہے۔ اصل میں تو اس سوال کا جواب چاہیے کہ حکومتِ پاکستان انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کے ساتھ معاہدے ختم کرنے میں کیوں ہچکچا رہی ہے؟ بلاشبہ خودمختار پاور پروڈیوسر ایک اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے جس نے نہ صرف ہر پاکستانی پر مالی بوجھ ڈالا ہے بلکہ ملکی معیشت شدید تناؤ کا شکار ہے۔ آئی پی پیز کے خلاف کارروائی غالباً اس لیے نہیں ہورہی کہ ان معاہدوںکی منسوخی کی صورت میں حکومت کو قانونی کارروائی کا خدشہ ہے۔ یک طرفہ فیصلے سے حکومت کو متاثرہ فریقوں کو معاوضہ دینا پڑ سکتا ہے۔ حکومت آئی پی پیز کے ٹھیکوں میں شفافیت اور جواب دہی کے فقدان کی وجہ سے کارروائی کرنے سے گریزاں ہے کیونکہ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ ٹھیکے ان کے اپنے’’بلیو آئی‘‘ کو دیے گئے ہیں، لیکن حکومت پر شدید عوامی دباؤ ہے کہ وہ آئی پی پیز کے تمام معاہدوں کو منسوخ کرے۔ اس وقت حکومت شیطان اور گہرے نیلے سمندر کے درمیان پھنس گئی ہے اور صحیح فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ ان آراء کے باوجود بہت سے بیوروکریٹس یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ملک اب ’’ڈائریکشن لیس‘‘ ہوتا جارہا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں، غیر ملکی قرض اور اس پر سود ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔
ابھی حال ہی میں پاکستان نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کو 3 ارب 60 کروڑ ڈالر سے زائد سود ادا کیا ہے، یہ رقم پاکستانی کرنسی میں 1004 ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔ دستاویز کے مطابق 30 برسوں میں آئی ایم ایف سے تقریباً 29 ارب ڈالر قرض لیا گیا جبکہ اس عرصے میں 21 ارب 72 کروڑ ڈالر سے زائد قرض واپس کیا گیا۔ گزشتہ 4 سال میں آئی ایم ایف سے 6 ارب 26 کروڑ ڈالر سے زائد قرض لیا گیا، اس دوران آئی ایم ایف کو 4 ارب 52 کروڑ 85 لاکھ ڈالر واپس کیے گئے۔ دستاویز کے مطابق گزشتہ 4 سال میں پاکستان کی جانب سے عالمی مالیاتی ادارے کو ایک ارب 10 کروڑ ڈالر سے زائد سود ادا کیا گیا۔ غیر ملکی قرض اور ملک کے اندر سرکاری اداروں میں بدعنوانی بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ توانائی کے مسائل پاکستان کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے کاروباری طبقہ اور عوام بہت پریشان ہیں، اور ہر حکومت ان مسائل کے حل کے لیے عملی اقدام کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت اور بیوروکریسی کی شہہ پاکر بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیاں معیشت کے لیے سفید ہاتھی ثابت ہورہی ہیں، اس کے باوجود حکومت ان کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ بات اب پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ جب تک آئی پی پیز کو لگام نہیں ڈالی جاتی تب تک بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو نہیں پایا جاسکتا، اوربجلی کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رہیں تو ملکی معیشت کا دیوالیہ نکل جائے گا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے اگرچہ آئی پی پیز کی کیپیسٹی پیمنٹ سمیت بجلی کے شعبے کے مسائل کے حل کا عندیہ دیا ہے اور سی پیک میں مزید سرمایہ کاری بھی آرہی ہے، اس کے باوجود کوئی عملی شکل ابھی واضح نہیں ہے۔ یہ کام اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک توانائی کے شعبے اور ایف بی آر میں جاری کرپشن ختم نہیں ہوتی۔ یہ دونوں کام ہوئے تو کشتی منجدھار سے باہر نکلے گی۔
حکومت اب بلوچستان کے لیے شمسی توانائی کا 70 ارب روپے کا منصوبہ شروع کرنے جارہی ہے جس میں 55 ارب روپے وفاق اور باقی صوبہ دے گا۔ یہ بھی فیصلہ ہونے جارہا ہے کہ 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو ریلیف دیا جائے۔ سب سے اہم پیش رفت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ میں ہوئی۔ کمیٹی نے آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی(نیپرا) کے چیئرمین وسیم مختار نے بریفنگ دی ہے، انہوں نے اعتراف کیا کہ حکومت، بجلی کمپنیوں اور صارفین کے درمیان توازن قائم کرنا سب سے مشکل کام ہے، اکتوبر نومبر میں صارف کو اجازت ہوگی کہ اپنی مرضی کی کمپنی سے بجلی حاصل کرے۔ وسیم مختار نے تسلیم کیا کہ ہم سب سے غلطی ہوئی ہے، دراصل حکومت کا خیال تھا کہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) 6 فیصد رہے گی، مگر بجلی کی طلب میں کمی آگئی، غلطی یہ ہوئی کہ ملک میں بجلی کی قلت کی وجہ سے حکومت نے کمپنیوں کو مراعات اور ڈالرز میں ادائیگی کرنے کی ضمانت دے دی،کرپشن کی انتہا یہ ہوئی کہ آئی پی پیز نے اوور پرائسنگ کرکے سارا پیسہ 10 سال میں کما لیا ہے، اسی لیے کمیٹی نے فرانزک آڈٹ کرنے کی سفارش کی ہے اور یہ مطالبہ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے کہ جن افسران اور اہلکاروں کو مفت بجلی اور پیٹرول مہیا کیا جارہا ہے ان سے یہ سہولیات فی الفور واپس لی جائیں۔ دوسری جانب کا منظرنامہ یہ ہے کہ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہہ دیا ہے کہ آئی پی پیز معاہدوں کو کسی صورت تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کا خیال ہے کہ معاہدے یک طرفہ طور پر ختم کیے تو 900 ملین ڈالر کا جرمانہ ہوگا جس کی ادائیگی مشکل ہے۔ بے شک کوئی بھی معاہدہ یک طرفہ طور پر منسوخ نہیں کیا جاسکتا، مگر جو معاہدے قومی خزانے پر بوجھ بن رہے ہوں اُن پر نظرثانی تو کی جاسکتی ہے۔ جو کمپنیاں بغیر بجلی فراہم کیے کھربوں روپے سے نوازی جارہی ہیں اُن سے اس لوٹ مار کی رقم واپس لی جائے، جنہوں نے ملک و قوم کے مفادات کے بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے ان کمپنیوں سے 2050ء تک کے معاہدے کیے اور اپنا کمیشن کھرا کیا ہے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ یہ سب فرانزک آڈٹ سے افشا ہوگا۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جن آئی پی پیزکے معاہدوں کی مدت پوری ہونے والی ہے یا ہوچکی ہے ان میں توسیع کی گنجائش نکالی جائے گی۔ حالات کے تناظر میں سب سے پہلے حکومت یہ طے کرلے کہ کسی بھی آئی پی پی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی مدت میں توسیع نہیں کی جائے گی۔ان پاور کمپنیوں کے ہاتھوں عوام کی جو درگت بن رہی ہے، وہ حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ ہونی چاہیے۔ آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کی اشد ضرورت ہے، جب تک ان کی اجارہ داری ختم نہیں کی جاتی، بجلی کی قیمتوں میں کمی کے اقدامات کامیاب نہیں ہوسکتے۔
سوال یہ ہے کہ آئی پی پی کی شرح اور صلاحیت کی ادائیگی کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟ سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ قانونی طور پر حکومت کی طرف سے خودمختار ضمانتوں کے ساتھ تمام معاہدوں کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن عوام کے حقِ انصاف، اور معاشی استحصال سے تحفظ کے حق کا آئینی عہد پاکستان کی معاشی اور سیاسی بقا سے جڑے ہونے کی وجہ سے مقدم ہے۔ حکمتِ عملی یہ ہونی چاہیے کہ پہلے قدم کے طور پر خاص طور پر جنوبی ایشیا زون میں، مروجہ بین الاقوامی تنصیب کی شرحوں کے ساتھ معاہدوں کے دور کا تعین کیا جائے۔ کسی بھی ضرورت سے زیادہ ادائیگی کی شقوں کو قومی مفاد کے خلاف، بدعنوانی اور بدعنوان ارادوں کے شبہ کے طور پر اجاگر کیا جائے، جو تمام بین الاقوامی ذمہ داریوں سے بالاتر ہے۔ ان معاہدوں کا مسودہ تیار کرنے، تجویز کرنے، منظوری دینے اور دستخط کرنے میں ملوث افراد سے پاکستان کے مفادات کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانے کی تحقیقات کی جائیں۔ ان کے ذاتی یا خاندانی کھاتوں اور اثاثوں میں افراطِ زر کا کوئی ثبوت الزامات کو مزید مضبوط کرسکتا ہے، اس بنیاد پر تمام مشتبہ معاہدوں کو منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ اگر فریق چاہیں تو دوبارہ مذاکرات بھی ہوسکتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ تمام ثالثی اور بین الاقوامی عدالتوں کو حقائق سے آگاہ کیا جائے، اور تمام کمپنیوں کے خلاف مقدمات چلائے جائیں تاکہ انہیں بیک فٹ پر رکھا جائے۔
یہ خبر بالکل درست ہے کہ IPPs سے معاہدے نظرثانی کے مرحلے سے گزرے ہیں، فی یونٹ نرخ پر بھی بات چیت ہوچکی ہے۔ محمد علی کی سربراہی میں سینیٹ کے لیے آئی پی پیز معاہدوں پر تفصیلی رپورٹ تیار کی گئی تھی جو آج تک سامنے نہیں آسکی ہے۔ اس رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ان معاہدوں پر نظرثانی ہوسکتی ہے۔ جماعت اسلامی کا تو سادہ سا مطالبہ ہے کہ معاہدے پبلک کردیں اور فرانزک آڈٹ پر جائیں۔ بھلا اس میں کون سے بین الاقوامی قانون کا مسئلہ بنتا ہے؟ مگر کوئی اس طرف آنے کو تیار نہیں کیونکہ اس میں پھندا نظر آتا ہے۔ یہ بھی راستہ ہے کہ حکومت 185 ارب پی ایس ڈی پی کم کرکے بجلی بل میں 20 سے 25 فیصد کمی لاسکتی ہے۔ پی ایس ڈی پی کے پیسے 1150 ارب کے بجائے 968 ارب روپے کردیے جائیں۔ اگر حکومت بجلی کے بلوں سے ٹیکسز ختم کردیتی ہے تو 185 ارب روپے کم ملیں گے۔ وزیراعظم ایک دستخط کردیں تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اسی طرح وفاق پی ایس ڈی پی سے اخراجات کم کردے تو فرق نہیں پڑے گا بلکہ کرپشن کم ہوجائے گی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے طے کردیا تھا کہ کوئی پلانٹ بغیر بڈنگ نہیں لگے گا۔ اس فیصلے کو بعد میں تحریک انصاف نے ملیامیٹ کردیا، اس کا بھی نقصان ہوا۔ کراچی کے قریب ونڈ پاور پلانٹ لگایا گیا ہے، وہ فری میں بجلی دے رہا ہے مگر حکومت کے پاس ٹرانسمیشن لائن نہیں ہے۔ بجلی کے حالیہ بحران پر سب سے مستند گواہی چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ سجاد غنی نے دی ہے کہ بجلی کے بحران میں واپڈا کا کوئی خاص کردار نہیں ہے، یہ نہ تو بجلی کی ترسیل کرتا ہے اور نہ تقسیم کرتا ہے۔ واپڈا کا اس وقت کام صرف بڑے ڈیم بنانا، بڑے پروجیکٹ لگانا اور انہیں چلانا اور ان سے بجلی بنانا ہے۔ پاور سیکٹر میں صورت حال واقعی گمبھیر ہے، لیکن نیّا نہیں ڈوبے گی۔ اس وقت ملک میں ہائیڈرو پاور پروجیکٹس بن رہے ہیں، واپڈا کی بجلی کی پیداواری صلاحیت اس وقت ساڑھے 9 ہزار میگاواٹ ہے جسے اگلے پانچ سالوں میں دوگنا کیا جارہا ہے جس کے بعد 11 ہزار میگاواٹ مزید بجلی بنائی جائے گی اور اس کے بعد زراعت کے لیے 11 ملین ایکڑ فٹ پانی میسر آئے گا۔ واپڈا اس وقت چار روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی سپلائی کررہا ہے۔ مہنگے یونٹس کی وجہ کچھ ترسیل کے مسائل اور کچھ تقسیم کاری کے مسائل ہیں، اس میں کچھ نااہلیت ہے، کچھ چوری ہے ۔