دھماکہ خیز مواد دوماہ پہلے اسرائیل سے ایران لایا گیا؟
پاسدارانِ انقلاب ِاسلامی ایران کے مہمان خانے میں بم کی تنصیب؟
اسرائیل کے لمبے ہاتھ یا نفسیاتی مہم؟
غزہ مزاحمت کاروں کے قائد اور پولیٹکل بیورو کے سربراہ اسماعیل عبدالسلام ہنیہ تہران میں قتل کردیے گئے۔ اسی دن شام کو جنوبی لبنان پر اسرائیل کے ایک حملے میں لبنانی مزاحمت کاروں کے کمانڈرفواد شُکر المعروف حاجی محسن جاں بحق ہوگئے۔ لبنانی حکام کا کہنا ہے کہ رہائشی عمارت پر بمباری سے ایک بچے سمیت 3 افراد ہلاک اور 74 زخمی ہوگئے۔ دوسرے دن اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ غزہ مزاحمت کاروں کے فوجی سربراہ محمد دیاب ابراہیم المصری المعروف محمد الضیف کو مٹادیا گیا۔ محمد ضیف 13 جولائی کو خان یونس کے المواصی پناہ گزین کیمپ میں نشانہ بنائے گئے تھے۔ بمباری سے بچوں سمیت 70 افراد جاں بحق ہوئے۔ جیسا کہ ہم پہلے ایک نشست میں عرض کرچکے ہیں کہ مزاحمت کاروں نے اسرائیلی دعوے کو جھوٹ قراردیا، لیکن اسرائیلی مُصر ہیں کہ وہ محمد ضیف کو راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
حماس کے سربراہان ہمیشہ سے اسرائیل کا ہدف رہے ہیں۔ تحریک کے بانی شیخ یاسین مارچ 2004ء میں امریکی ساختہ اپاچی ہیلی کاپٹر سے داغے جانے والے ہیل فائر میزائل کا اُس وقت نشانہ بنے جب وہ فجر کی نماز کے بعد اپنی وہیل چیئر پرگھر واپس جارہے تھے۔ 67 برس کے شیخ یاسین کا نچلا دھڑ فالج زدہ تھا۔ نظر بے حد کمزور اور سماعت نہ ہونے کے برابر تھی۔ شیخ صاحب کے بعد 56 سالہ عبدالعزیز الرنتیسی نے حماس کی قیادت سنبھالی، لیکن صرف ایک ماہ بعد 17 اپریل کو انھیں بھی ہیل فائر میزائل سے شہید کردیا گیا۔ اس واقعے میں اُن کا 27 سالہ لڑکا بھی جاں بحق ہوا۔
جناب اسماعیل ہنیہ حماس کے تیسرے قائد ہیں جو اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ شیخ یاسین اور الرنتیسی براہِ راست میزائلوں کا نشانہ بنے لیکن اسماعیل ہنیہ کے قتل کا معمّا اب تک نہیں سلجھا۔ جناب ہنیہ ایرانی صدر مسعود پیزیشکان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران آئے تھے۔ ایرانی خبر رساں ایجنسی فارس کے مطابق ہنیہ صاحب اپنے محافظ کے ساتھ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (IRGC)کے مہمان خانے نشاط کمپائونڈ میں ٹھیرے ہوئے تھے کہ انھیں 31 جولائی کو دوپہر دو بجے میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔ ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ میزائل ایرانی سرحد کے باہر سے داغا گیا تھا۔ مزید تحقیقات کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ میزائل ایرانی سرحد کے اندر سے فائر ہوا تھا۔ اس عمارت کی اوپر والی منزل میں اہلِ غزہ کے ایک اور رہنما زیدالنخلا ٹھیرے ہوئے تھے جن کے کمرے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ میزائل گرنے کی صورت میں پوری عمارے متاثر ہوتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
امریکہ کی آن لائن خبر رساں ایجنسی Axios کے مطابق دھماکہ خیز مواد دوماہ پہلے اسرائیل سے ایران اسمگل کیا گیا جسے موساد کے ایجنٹوں نے بہت باریکی کے ساتھ اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں نصب کردیا، اور یہ یقین کرلینے کے بعد کہ موصوف اپنے کمرے میں ہیں، موساد کے ایرانی ایجنٹوں نے ریموٹ کنٹرول سے دھماکہ کردیا۔
اگر Axiosکی رپورٹ درست ہے تو اس سے ایران کے حفاظتی انتظامات پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ اُن کا کسٹم جانچ پڑتال اور اندرونی سلامتی کا نظام اتنا ناقص ہے کہ اسرائیل سے دھماکہ خیز مواد نہ صرف ایران پہنچ گیا بلکہ اس کی IRGCکے VIP مہمان خانے کے ایک کمرے میں تنصیب کی بھی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی!
برطانوی رسالے ٹیلی گراف نے 2 اگست کو شایع ہونے والی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اس کام کے لیے موساد نے حساس عمارات، شخصیات اور تنصیبات کو تحفظ فراہم کرنے والے IRGCکے ذیلی ادارے انصارالمہدی سیکورٹی ایجنسی کے چند سینئر اہلکاروں کو خریدا۔ ان ایجنٹوں نے نشاط کمپلیکس کے تین کمروں میں دھماکہ خیز مواد نصب کیا اور اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں رکھے گئے بم کو ایران کے باہر سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اڑا دیا گیا۔ موساد ذرائع کے حوالے سے بتایاگیا ہے کہ جناب ہنیہ کو سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی تدفین کے موقع پر مئی میں نشانہ بنایا جانا تھا جس کے لیے دھماکہ خیز مواد درآمد کیا گیا، لیکن سخت حفاظتی اقدامات کی بنا پر منصوبہ عین وقت پر معطل کردیا گیا۔
یہ بات تو ایرانی حکام خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے ملک میں موساد کا انتہائی مؤثر نیٹ ورک موجود ہے۔ کئی ماہر ایرانی جوہری سائنس دان موساد کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں۔ ماہرینِ سراغ رسانی کا خیال ہے کہ امریکی سی آئی اے کے نقشِ پا بھی ایران میں گہرے ہیں۔ شاہ ایران کے دور میں سی آئی اے نے یہاں ایک بہت بڑا تربیتی ڈھانچہ ترتیب دیا تھا، اور اب بھی سی آئی اے کے ایرانی ایجنٹ موجود ہیں۔ اسرائیل نے ایران میں کئی کامیاب آپریشن کیے ہیں۔ سب سے مشہور نومبر 2020ء میں ایرانی جوہری سائنس دان محسن فخری زادہ کا قتل ہے۔ جناب فخری زادہ کے قتل کے لیے خودکار مشین گن اسرائیل سے درآمد کی گئی، جس نے تصویر سے ہدف کی نشاندہی کی، صرف ایک منٹ میں فخری زادہ صاحب لقمۂ اجل بن گئے اور نشانہ اتنا درست کہ ساتھ کھڑی اُن کی اہلیہ کو خراش تک نہ آئی۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کی یہ چشم کشا تفصیلات اسرائیلی ذرائع سے جاری ہورہی ہیں اور اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ انکشافات کی صورت ان خبروں کا اجرا ان کی تزویراتی حکمت عملی کا حصہ ہو۔ اسرائیل کے لیے جناب ہنیہ کو قطر میں نشانہ بنانا کچھ مشکل نہ تھا لیکن انھیں تہران میں قتل کرکے اسرائیل نے کئی مقاصد حاصل کرلیے۔ ایک طرف پاسداران کی عمارت میں ایک انتہائی اہم مہمان کو نشانہ بناکر ایرانی قیادت کو باور کرادیا گیا کہ IRGCہیڈکوارٹر سمیت ایران کا کوئی علاقہ موساد کی پہنچ سے دور نہیں۔ پاسداران کے سینئر افسران کے ملوث ہونے کے انکشاف سے IRGCکی صفوں میں ہیجان اور عدم اعتماد پیدا ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف ان ’انکشافات‘ نے فلسطینیوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں ایران کے لیے شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں۔ مسلم دنیا میں سوشل میڈیا پر ایران کے خلاف مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس واقعے کو بنیاد بناکر فرقہ پرست عناصر شیعہ سنی کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ ’’گھر بلاکر مروا دیا‘‘، ’’ایران کے کوفی‘‘ جیسے عنوانات سے شبہات اور عدم اعتماد کے شجرِ زقوم کی آبیاری کی جارہی ہے۔ اسی کے ساتھ اسرائیلی ٹیکنالوجی کی عظمت و رفعت اور اس میدان میں مسلمانوں کی کم مائیگی بلکہ بے مائیگی کا بار بار ذکر کرکے احساسِ کمتری کو مہمیز لگانے کی تحریک بھی عروج پر ہے۔
پاسداران نے تحقیقات کے بعد 3 اگست کو بتایا کہ اسماعیل ہنیہ کو قریبی فاصلے تک مار کرنے والے یعنی short range میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔ ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میزائل پر نصب بم میں 7 کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔ فلسطینی مزاحمت کاروں نے بھی Axios اور نیویارک ٹائمز کی رپورٹوں کو فتنہ خیز و دروغ آمیز کہانی قرار دیا۔ مزاحمت کاروں کے ترجمان خالد قدومی نے تہران میں پاکستانی نجی چینل جیو نیوز کو بتایا کہ دھماکے سے ساری عمارت لرز گئی اور اس کی چھت میں شگاف سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک میزائل حملہ تھا۔ قدومی صاحب کا خیال ہے کہ مغربی میڈیا، بم کا افسانہ تراش کر اسرائیل کی برتری ثابت کرنے کے ساتھ ایران کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا چاہتا ہے۔
یہ اعصابی و نفسیاتی جنگ کا دور ہے جہاں حقیقت سے زیادہ ادراک واحساسِ حقیقت یا perception اہم اور فیصلہ کن ہے۔ دنیا بھر کے سیاسی و عسکری تجزیہ کاروں کے خیال میں اسرائیل یہ جنگ ہار رہا ہے کہ 300 دنوں میں 6000 فضائی حملوں اور سارے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنادینے کے باوجود اسرائیل اپنا کوئی بڑا عسکری ہدف حاصل کرنے میں اب تک ناکام رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا کہ 7 اکتوبر کو غزہ کا دفاع کرنے والے مسلح مزاحمت کاروں کی کُل تعداد 22000 تھی جن کے مقابلے کے لیے جدید ٹینکوں اور بکتروں پر سوار دو لاکھ سے زیادہ فوجی میدان میں اتارے گئے۔ اگست کے آخر تک اسرائیل نے 15000 مزاحمت کاروں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو دوتہائی افرادی قوت فنا ہوجانے پر مزاحمت ختم ہوجانی چاہیے تھی، لیکن اسرائیلی عسکری محکمہ سراغ رسانی نے چند دن پہلے کہا ہے کہ ان کی فوج کو اب بھی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ محکمے کے سابق سربراہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ مزاحمت کاروں کی نظریاتی بنیاد اتنی مضبوط ہے کہ انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ممکن ہی نہیں۔
اب تک اسرائیل نہ اپنے قیدی چھڑا سکا، نہ کسی اہم فوجی کمانڈر کو مٹا سکا۔ اس ہفتے جنرل الضیف کے خاتمے کا تسلسل سے دعویٰ کیا جارہا ہے لیکن مزاحمت کاروں نے اسے اسرائیلی فوج کے تیزی سے کم ہوتے حوصلے کو سہارا دینے کی کوشش قرار دیا ہے۔ محاذِ جنگ پر مسلسل ناکامی کی وجہ سے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اس وقت غیر مقبولیت کی انتہا پر ہیں، تقریباً 75 فیصد اسرائیلی نئے انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اسماعیل ہنیہ کا قتل نیتن یاہو کا ذاتی فیصلہ تھا، تاکہ وہ خود کو قدآور اور دبنگ ثابت کرسکیں۔ فواد شکر کا قتل اور محمد ضیف کے خاتمے کا ڈھنڈورا نیتن یاہو کی سیاسی بقا کے لیے مقوی انجکشن ثابت ہوا، اور اسرائیل میں ایک بار پھر ’’دہشت گردوں کو کچل دو‘‘ کا نعرہ گونج رہا ہے۔ گزشتہ سات ماہ میں پہلی بار سبت (ہفتہ) پر قیدیوں کی رہائی اور وزیراعظم کے استعفے کے لیے بڑی ریلی نہیں ہوئی۔ انتہا پسند بہت فخر سے کہہ رہے ہیں کہ صفِ اوّل کے تین رہنما یعنی اسماعیل ہنیہ، ابو موسیٰ مرزوق اور خالد مشعل میں سے ایک کو ٹھکانے لگادیا تو دوسری جانب عسکری قائدین یحییٰ سنوار اور محمد ضیف میں سے بھی ایک کو مٹاکر مزاحمت کاروں کی کمر توڑدی گئی ہے۔ لن ترانی اور شیخی اپنی جگہ، اسرائیل کی عسکری قیادت اور سنجیدہ عناصر جانتے ہیں کہ غزہ مزاحمت کی بنیاد نظریاتی وابستگی پر ہے جسے قتل و غارت گری سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
ارادہ یہ تھا کہ آج ہم اپنی گفتگو اسماعیل ہنیہ کے المناک قتل تک محدود رکھیں گے لیکن ٹائمز آف اسرائیل نے غزہ کے قریب تشدد کے ایک مرکز کی جو تفصیل شایع کی ہے اس کا ذکر ہمیں ضروری محسوس ہورہا ہے۔
7 اکتوبر کو حملے کے آغاز پر صحرائے نقب (Negev Desert) میں غزہ سے 18 میل دور سدیہ تیمان حراستی مرکز (Sde Teiman detention center) قائم کیا گیا۔ یہیں زخمی قیدیوں کے علاج کے لیے ایک خیمے میں اسپتال بھی ہے۔ جی ہاں سخت گرمی کے دوران صحرا میں خیموں پر مشتمل اسپتال۔ یہ حراستی مرکز دراصل عقوبت کدہ ہے جہاں غزہ سے پکڑے جانے والے بچوں اور لڑکیوں کو لب کشائی کے لیے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بدترین بمباری اور مہلک ترین ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال کے باوجود اب تک مزاحمت کاروں کا ایک بھی رہنما ہاتھ نہ لگ سکا۔ کارروائی ڈالنے کے لیے غزہ سے نہتے بچے پکڑ پکڑ کر اس حراستی مرکز پر لائے جاتے ہیں جن سے مزاحمت کاروں کے بارے میں معلومات کے لیے تفتیش کی جاتی ہے۔ تشدد سے لڑکیوں سمیت درجنوں کم عمر افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
گزشتہ دنوں آن لائن عرب جریدے Arab 48نے دستاویزی شواہد کے ساتھ یہاں توڑے جانے والے مظالم کی روداد شایع کی، جس میں بتایا گیا کہ یہ حراستی مرکز اسرائیل کے اوباش سپاہیوں کا مرکز ہے جہاں غزہ سے اسلحے کی نوک پر اغوا کی جانے والی معصوم لڑکیوں کو یہ درندے بے آبرو کرتے ہیں۔ خبر کے مطابق غیر انسانی سلوک سے کئی بچیاں ہلاک ہوچکی ہیں اور بہت سی قریب واقع بیئرسبع کے فوجی اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔
اس خبر پر 9 سپاہیوں کے خلاف پرچے کٹے۔ ملٹری پولیس جب انھیں گرفتار کرنے پہنچی تو اڈے پر بغاوت ہوگئی۔ فوجیوں نے پتھرائو اور پولیس پر مرچ والے پانی کا چھڑکائو کیا۔ ملٹری پولیس کی مزید نفری بھیج کر مطلوبہ سپاہیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ یہ خبر سن کر انتہاپسندوں نے سدیہ تیمان مرکز کا گھیرائو کرلیا اور عمارت پر پتھر پھینکے۔ حکمراں جماعت کے ارکانِ کنیسہ مظاہرین کی قیادت کررہے تھے۔ دوسرے دن مظاہرین غربِ اردن کے فوجی اڈے بیت لِد پر چڑھ دوڑے۔ ان مظاہروں سے خود اسرائیلی فوج بھی پریشان ہے۔ دودن پہلے عسکری سربراہ جنرل حرزی حلوی بیت لِد آئے اور نقصانات کا جائزہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دائیں بازو کے انتہاپسند ملک کو خانہ جنگی کی راہ پر ڈال رہے ہیں۔
اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ گرفتار ہونے والے 9 وحشیوں میں سے 3 کو شواہد و ثبوت نہ ملنے کی بنا پر رہا کردیا گیا اور عسکری تحقیقاتی کمیٹی نے 3 مزید افراد کی بریت کی درخواست کی ہے۔
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔