برطانیہ گزشتہ کئی دنوں سے نسل پرست سفید فام گروہ کی جانب سے برپا کردہ فسادات کی لپیٹ میں ہے۔ اس کا آغاز اُس وقت ہوا جب شمالی انگلینڈ کے شہر ساؤتھ پورٹ میں بچوں کی ایک نرسری پر حملے میں تین معصوم بچیاں جاں بحق ہوگئیں۔ حملہ آور سیاہ فام نوعمر فرد تھا جس کے بارے میں افواہ یہ اڑائی گئی کہ یہ مسلمان انتہا پسند ہے۔ حملہ آور کو گرفتار تو کرلیا گیا لیکن اُس کی عمر 18 سال سے کم ہونے کی وجہ سے برطانوی قانون کے مطابق پولیس نے اُس کی شناخت ظاہر نہیں کی، تاہم معاملے کی حساسیت کے پیش نظر عدالت نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے حملہ آور کی شناخت کو ظاہر کردیا جوکہ سیاہ فام نوعمر لڑکا ہے جس کی پیدائش برطانیہ میں ہی ہوئی، جبکہ اُس کا خاندان روانڈا سے ہجرت کرکے برطانیہ آیا تھا، اور اس کا مذہب اسلام نہیں ہے۔ ان تمام وضاحتوں کے باوجود سفید فام نسل پرست گروہ جس کو ’انگلش ڈیفنس لیگ‘ کا نام دیا جاتا ہے، احتجاج کی آڑ میں مساجد پر مظاہرے کے دوران حملے کررہا ہے۔ ساؤتھ پورٹ شہر سے شروع ہونے والے یہ حملے اب پورے برطانیہ میں پھیل چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ و اتوار کو برطانیہ کے چھوٹے بڑے 30 شہروں میں مظاہرے ہوئے، ان کا مقام مساجد اور سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کے ہوٹل تھے۔ مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی، تاہم پولیس کی بھاری نفری موجود رہی جس کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہ ہوا، مساجد کے بعد مسلمانوں کے کاروبار کو منظم طور پر حملے کرکے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ برطانوی حکومت نے اس صورتِ حال پر ہنگامی اقدامات کرتے ہوئے تادم تحریر فوج کو بھی طلب کرلیا ہے اور دوسری جانب تشدد اور سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے پر بھی کریک ڈاؤن کرکے 200 افراد کو نہ صرف گرفتار کرلیا گیا ہے بلکہ ان پر مقدمات چلانے کے لیے عدالتوں کو 24 گھنٹے کھول دیا گیا ہے تاکہ فوری طور پر سزا دی جاسکے۔ برطانوی ریاست کا یہی وہ عمل ہے جس سے یہاں تشدد کو پھیلنے سے فوری طور پر روکا جاتا ہے۔ ماضی میں بھی لندن فسادات 2011ء کے بعد عدالتوں نے دن رات کام کرکے مجرموں کو سزائیں سنائی تھیں۔
ان حالات میں پوری دنیا کے مسلمان تشویش میں مبتلا ہیں اور وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یکایک یہ کیوں ہوا؟
اس حوالے سے بہت سے امکانات ہیں جن پر غور و خوص کی ضرورت ہے۔ مغرب میں فلسطین کے مسئلے پر سب سے منظم احتجاج جس میں ہر رنگ، نسل و مذہب کے افراد کی شرکت رہی، اس میں برطانیہ و امریکہ سرفہرست ہیں۔ یہ اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ اس مسئلے کی بنیاد ہی دراصل برطانوی کالونیوں کے دور میں پڑی، لہٰذا اسی ملک یعنی برطانیہ میں اس پر عوامی رائے عامہ کا اس بڑے پیمانے پر نہ صرف بننا، بلکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنی پوزیشن تبدیل کرنے پر مجبور کرنا ایک ایسی تاریخی کامیابی ہے جس کی نظیر ملنا ناممکن ہے۔ یہ سارا کام حکومت کی پالیسی کے برخلاف ہوا، اور اس پر مستزاد یہ کہ فلسطین کے حامیوں نے جن میں مسلمانوں کے علاوہ سفید فام افراد بھی شامل تھے برطانیہ کے الیکشن میں سیاسی بصیرت کا ثبوت دے کر سیاست میں ایک دھماکہ کردیا۔ 5 نشستوں پر حکمران جماعت لیبر پارٹی کو آزاد امیدواروں کے ہاتھوں شکست، 21 نشستوں پر شکست کا خطرہ اور اس کے بعد ان آزاد امیدواروں کا اپنی فتح کو فلسطین کے نام کرنا سیاست میں دھماکوں پر دھماکہ تھا، جس کے بعد لیبر پارٹی نے مسلمانوں اور جنگ بندی کے حامی عناصر کو قریب لانے کے لیے بڑے اقدامات کیے جس میں عالمی عدالتِ انصاف سے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری کے خلاف برطانیہ کی سابقہ حکومت کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف اپیل نئی حکومت کی جانب سے واپس لینا، اوربرطانیہ کی سابقہ حکومت کی جانب سے طلبہ کے احتجاج کے بعد نئی قانون سازی جس میں حکومت کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ طلبہ یونین کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے، جبکہ اس سے قبل یہ اختیار حکومت کے بجائے یونیورسٹی انتظامیہ کے پاس تھا، موجودہ حکومت کی جانب سے اس نئی قانون سازی کو کالعدم کرنا، یہ وہ اقدامات تھے جو کہ ایک بہت بڑی سیاسی کامیابی کے طور پر سامنے آئے۔ اس کے بعد سابق وزیراعظم فلسطین اور حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل کے بعد برطانیہ کے ماہرین اس کو ایک بھیانک غلطی قرار دے رہے تھے اور عمومی طور پر اس قتل کی پورے برطانیہ میں مذمت کی گئی۔
اس پوری صورتِ حال میں ایک طویل عرصے کے بعد یہ بات محسوس ہوئی کہ ریاست اسرائیل کی بالعموم جو حمایت تھی وہ عارضی طور پر نہیں بلکہ مستقل طور پر ختم ہورہی ہے، اسرائیلی ریاست کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کُشی نے ان تمام باتوں کو درست قرار دے دیا جوکہ ایک عرصے سے کہی جارہی تھیں لیکن شاید ان پر اس طرح سوچا سمجھا نہیں جارہا تھا۔ آج پورے برطانیہ میں اگر کوئی فلسطین کی حمایت نہیں بھی کرتا تب بھی یہ ضرور کہتا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کُشی کی جارہی ہے۔ یہ وہ بدلتی دنیا ہے جس میں برطانیہ موجود ہے۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ 2021ء کی مردم شماری کے مطابق برطانیہ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے، اور دوسری جانب سب سے تیزی سے سکڑنے والا مذہب عیسائیت ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے اعداد وشمار کے مطابق عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے کُل آبادی کا 59 فیصد تھے جوکہ 2021ء میں کم ہوکر 46 فیصد رہ گئے۔ اس کے برعکس 2011ء میں مسلمان کُل آبادی کا 4.8 فیصد تھے جو 2021ء میں 6.5 فیصد ہوگئے، اور اب عیسائیت کے بعد اسلام برطانیہ کا دوسرا بڑا مذہب ہے، گوکہ تناسب میں بہت بڑا فرق ہے لیکن جس طرح آبادی کی بڑی تعداد عیسائیت کو ترک کرکے لامذہب بن رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے اس بات کا امکان بہرحال موجود ہے کہ اسلام برطانیہ کا سب سے بڑا مذہب بن سکتا ہے۔ اہم ترین نکتہ جس نے مسلمانوں کو بظاہر مہاجرین سے نکال کر برطانیہ کا فردِ زمین بنادیا وہ یہ ہے کہ یہ وہ تاریخی موقع ہے جب برطانیہ میں مسلمانوں کی کُل آبادی کا نصف سے زیادہ یعنی 51 فیصد خود برطانیہ میں پیدا ہوا ہے۔ لہٰذا برطانیہ ان کا اپنا ملک ہے، اس لیے ان کا مکالمہ، ان کا محاورہ، ان کی زبان اور ان کا تجربہ وہی ہے جو ایک عام برطانوی شہری کا ہے، وہ اسی لب و لہجے، پیرائے اور دلیل میں جواب دیتے ہیں، اسی طرح مکالمہ و مناظرہ کرتے ہیں جس طرح عام برطانوی کرتا ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ فلسطین کے مسئلے پر دلیل، بحث، محاورے و مکالمے میں مسلمان حاوی رہے۔ اب اگر ان کو کوئی برطانوی نہ ہونے کا طعنہ دیتا ہے تو وہ پوچھتے ہیں کہ ہم اگر یہاں پیدا ہونے کے باوجود بھی مکمل برطانوی نہیں تو پھر تم کیوں ہو؟
اگر اس کو عام فہم الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ لب و لہجہ، دلیل جو مغرب کا عام فرد سمجھتا ہے، اس کی قوت مسلمانوں کے پاس بھی ہے، لہٰذا اس پورے منظر نامے پر وہ چھائے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ایک بڑی تعداد ہے جو اُن کی پشت پر کھڑی ہے جس میں سفید فام سر فہرست ہیں، اور اس سے بڑی تعداد ان کی بات سننے پر آمادہ ہے۔
مغرب آج مسلمانوں کی بات سننے پر آمادہ ہے، اور سن کر اور دیکھ کر متاثر ہورہا ہے۔ اس پورے منظرنامے میں نسل کُشی کرنے والوں کو ایک بڑی شکست کا سامنا ہے۔ حکومتی سطح پر اقدامات اور مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے قدم اور مکالموں کو روکنے کا اس سے بڑا حربہ بھلا کیا ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کی توجہ کو کسی اور جانب مبذول کروادیا جائے اور ان کے لیے کوئی اور نیا محاذ کھول دیا جائے!
لیکن تشدد کی موجودہ لہر میں مسلمان نہ صرف خوف زدہ نہیں بلکہ اس سے بڑی بات جوکہ قابلِ ذکر بھی ہے وہ ان کے ساتھ سفید فام آبادی کی اکثریت ہے۔ یہ ایسی چشم کشا حقیقت ہے کہ جس کی تاب سازشیں کرنے والے نہیں لاسکتے، اب وہ مسلمانوں پر حملے کرکے ان کو تشدد پر اکسا رہے ہیں، لیکن مسلمان مساجد کے باہر آنے والے مظاہرین کو گلے لگا رہے ہیں۔ مغرب میں وہ مسلمان جن پر دہشت گردی کا لیبل ربع صدی سے چسپاں تھا ان کا موازنہ اب خود مغرب کررہا ہے کہ پُرامن مسلمانوں کی مساجد پر حملے، ان کی دعوت کے اسٹالز پر حملے کرکے تباہ کردینے کے جواب میں تاحال مسلمانوں نے ردعمل نہیں دیا، اب مغرب کا عام فرد نہ صرف فلسطین میں دیکھ رہا ہے کہ دہشت گرد کون ہے؟ بلکہ خود مغرب میں بھی اس کا مشاہدہ اپنی کھلی آنکھوں سے کررہا ہے۔ جن عناصر نے اس سازش کو رچایا تھا، اُن کاکھیل یہ تھا کہ غزہ کے مسئلے سے مسلمانوں کی توجہ کوہٹایا جائے، مسلمانوں اور سفید فاموں کے درمیان نفرت پیدا کی جائے، غزہ کے مسئلے پر سفید فاموں کو مسلمانوں کی حمایت سے دور کیا جائے اور مسلمانوں پر حملے کرکے انہیں ردعمل پر مجبور کیا جائے تاکہ ان کو دہشت گرد قرار دیا جاسکے۔ لیکن یہ تو اللہ کی قدرت ہے کہ سارا کا سارا منصوبہ خاک میں مل رہا ہے، سفید فام خود اس بات پر تعجب کا اظہار کررہے ہیں کہ ہمارے ساتھ رہنے بسنے والے مسلمانوں کو نفرت کا نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے؟
اور اس معاملے پر مسلمانوں میں کسی قسم کا خوف نہ ہونا بھی ان کے لیے باعث ِحیرت ہے کہ وہ کون سا ایمان ہے کہ غزہ سے لے کر مغرب تک مسلمان خوف زدہ نہیں! لگتا تو یہ ہے کہ تیار کی گئی اس گہری سازش سے بھی مسلمانوں کے حق میں خیر برآمد ہوگا ان شاءاللہ، پہلے مشرق کا مسلمان عالمی استعمار کو کھٹکتا تھا اور اب مغرب کا مسلمان ان کو کھٹک رہا ہے کہ یہ اب تک کیوں مسلمان ہے۔
گزشتہ پوری صدی اور اس صدی کے آغاز میں بھی مسلمان جس طرح مغلوب تھے اور چیرہ دستیوں کا شکار تھے وہ منظر اب مکمل طور پر تبدیل ہورہا ہے۔ گزشتہ صدی مسلمانوں کی مغلوبیت کی صدی تھی، یہ صدی مغرب میں مسلمانوں کی اصل شناخت کی صدی ثابت ہوگی۔ مغرب تبدیل ہورہا ہے، وہ اب اسلام کو سننا و سمجھنا چاہتا ہے۔ ان حربوں سے اس پیغام کو دبانا اب ناممکن ہے۔ مغرب میں مسلمانوں کی پیش قدمی عالمی استعمار کے لیے بھیانک خواب بن چکی ہے۔