دنیا بھر میں اہم لوگوں کی جعلی ڈائریاں شائع ہوتی رہی ہیں، اس میں ہٹلر تک کی ڈائریاں شامل ہیں۔ چنانچہ یہ کہنا دشوار ہے کہ جنرل ایوب کی یہ ڈائریاں کتنی مستند ہوں گی۔ لیکن اگر جنرل ایوب نے واقعتاً وہی مشورہ دیا جو کہ رپورٹ ہوا ہے تو اس کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ ہزار خرابیاں پیدا کرنے کے بعد بالآخر ہمارے سابق فوجی آمر کا ذہن ٹھیک خطوط پر سوچ رہا تھا۔
سابق مشرقی پاکستان کی شکایات جنرل ایوب کی آمد سے بہت پہلے گہری اور نمایاں ہوچکی تھیں۔ بنگالی ملک کا 52 یا 54 فیصد ہونے کے باوجود طاقت کے مراکز میں کہیں بھی پانچ دس فیصد سے زائد نہیں تھے۔ 1948ء سے 1971ء تک یہ شرمناک اور ملک شکن صورت حال برقرار تھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جنرل نے مشرقی پاکستان کی شکایات کے ازالے کے لیے پُرخلوص کوششیں کیں۔ ضرور کی ہوں گی، مگر ان کی نوعیت یہ تھی کہ امراضِ قلب کے مریض کو دردِ سر کی دوا دی جارہی تھی۔ چنانچہ حالات خراب ہوتے چلے گئے اور جنرل ایوب کو بالآخر اقتدار چھوڑنا پڑا۔ مگر وہ اپنی جگہ جنرل یحییٰ کو بٹھا گئے۔ سوال یہ ہے کہ جنرل ایوب کو ملک بچانے کے لیے کنفیڈریشن کا خیال کیسے آیا؟ اور جنرل یحییٰ نے ان کا مشورہ کیوں تسلیم نہ کیا؟
اس کی وجہ ظاہر ہے، جنرل ایوب کو طاقت کا نشہ کیے ہوئے عرصہ ہوگیا تھا اور چیزیں انہیں اپنی اصل حالت میں نظر آنے لگی تھیں۔ مگر چشم بددور، جنرل یحییٰ صدرِ مملکت بھی تھے اور چیف آف آرمی اسٹاف بھی۔ چنانچہ طاقت کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ چنانچہ انہیں جنرل ایوب کا مشورہ یقیناً ’’کمزوری کی زبان“ محسوس ہوا ہوگا۔ مردِ آہن اور کمزوری کی زبان؟ چنانچہ فیڈریشن کیا، کنفیڈریشن کا امکان بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گیا اور فوجی آمروں کی طاقت ہماری تاریخ کی ہکلاہٹ بن گئی۔ بے شرم، بے بس اور بے حمیت لوگوں کی بات اور ہے ورنہ یہ ہکلاہٹ بچے کھچے پاکستان کی فضا میں موجود رہی ہے اور بے حسوں کے سوا سب کو محسوس ہوتی رہی ہے۔
بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمٰن کو قتل کرکے جنرل ضیاء الرحمٰن اقتدار میں آئے، اور ان کے دور میں ایک حلقے نے پاکستان اور بنگلہ دیش کی کنفیڈریشن کے مقصد کو لے کر ملاقاتیں شروع کیں اور وہ جنرل ضیاء الرحمٰن کو اس کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس سلسلے سے آگاہ ایک صاحب نے ہمیں بتایا کہ جنرل ضیاء الرحمٰن نے یہاں تک کہا کہ اگر پاکستان اس کے لیے آمادہ ہوجائے تو اپنے لوگوں کو قائل کرنے کی ذمے داری میری ہے۔ دروغ برگردنِ راوی چند لوگوں کے ایک وفد نے بھٹو صاحب سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے بات سنی مگر ہنس کر ٹال دی اور کہا کہ یہ عملاً ممکن نہیں۔
اور آج ہمارے حکمران پاکستان کے حوالے سے جو ’’نظریاتی فساد‘‘ پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ امریکہ اور بھارت ایسا چاہتے ہیں، بلکہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کا جغرافیہ سکڑ اور سمٹ گیا اور ہم اپنے اجتماعی اور تاریخی وجود کے دوسرے حصے سے محض چمٹے بھی نہ رہ سکے۔
(کالم شاہنواز فاروقی، جسارت، جمعرات 26 محرم الحرام 1428ہجری 15 فروری 2007ء(