دنیا بھر میں جگ ہنسائی

کسی نے کہا اور کیا خوب کہا کہ اخباروں اور نشریاتی اداروں کے مالکان کو کان ہوجائیں، اگر اُن کو پتا چل جائے کہ ’حشو و زوائد‘ سے مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ اُردو اخبارات اور اُردو نشریات کے اداروں سے مال بنانے والے مالکان کو معلوم ہو کہ ’کان ہونا‘ محاورہ ہے۔ مطلب نصیحت حاصل ہونا، کسی تجربے کے بعد متنبہ ہوجانا، خبردار ہونا یا عقل آجانا ۔ میرؔ صاحب فرماتے ہیں کہ پھول کو دعویٰ تھا کہ اُس کا منہ حسین ہے، پر جب اُس نے میرؔ صاحب کے معشوق کو دیکھا تو نصیحت پکڑلی۔ اللہ جانے محبوب کا منہ کیسا تھا کہ پھول نے عبرت پکڑی:

دعویِ خوش دہنی گرچہ اُسے تھا، لیکن
دیکھ کر منہ کو ترے گُل کے تئیں کان ہوئے

’حشو‘ کے معنی ہیں فالتو بات، فضولیات، الا بلا، بھرتی کی چیز۔ ’زوائد‘ جمع ہے زائد کی۔ یعنی کلام میں جو چیز ضرورت سے زیادہ ہو اور جس کے بغیر بھی کام چل سکتا ہو۔ ’حشووزوائد‘ سے مالی نقصان اس طرح ہوتا ہے کہ جو بات کم الفاظ میں لکھی یا کہی جاسکتی ہو، اُس کے لیے ضرورت سے زیادہ الفاظ کی بھرمار کردی جائے۔ ایسا ہوگا توایسی باتیں اخباروں میں زیادہ جگہ گھیریں گی، نشریاتی اداروں کا زیادہ وقت ضائع ہوگا۔ جگہ اور وقت بچا لیا جائے تو مزید اشتہارات کی گنجائش نکل آئے گی۔ آخر اشتہارات ہی کے فروغ کی خاطر تو یہ ادارے چلائے جارہے ہیں۔ اشتہارات کی نشریات سے کسی طرح وقت نکال کر کچھ خبریں دے دی جاتی ہیں، کچھ پروگرام چلا دیے جاتے ہیں۔

بعض لوگ تحریر و تقریر میں تکرار کو زبان و بیان پرقدرت کا اظہار سمجھتے ہیں۔ ایک بزرگ جو اپنے زَعم میں دنیا اپنے ساتھ لیے شب گوئی کرتے ہیں اس فن میں یدِ طولیٰ (لمبا ہاتھ) رکھتے ہیں۔ ’حشو و زوائد‘ کیا ہیں؟ یہ دیکھنا ہو تو اُن کو سننا مفید ہوگا۔ آپ جان سکیں گے کہ سوال کے بہانے طویل تقریر کرکے ادارے کا اچھا خاصا وقت اور اُردو زبان کو برباد کرنے کا کیا طریقہ ہے۔ اگر انھیں کسی ماہرِ معاشیات سے معلوم کرنا ہو کہ’’بجلی کے نرخ میں اضافے سے معیشت پر کیا اثرات پڑیں گے؟‘‘ تو اس بات کو وہ یوں پوچھیں گے:

’’آپ ملکی معیشت پر گہری نظر رکھتے ہیں، آپ کے تجربے اور مہارت کے سب معترف ہیں، معاشی اُمور میں آپ کی رائے حرفِ آخر ہے، آپ کو اقتصادیات پر مکمل ’عبور حاصل‘ ہے، ذرا ہمارے ناظرین کی تسلی کے لیے تفصیل سے وضاحت فرما دیجیے کہ گزشتہ گزرے ہوئے دنوں میں حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں جو اضافہ کرا ہے، جس سے بجلی کے بل ناقابلِ برداشت حد تک عوام کی برداشت سے باہر ہوگئے ہیں، عوام خودکشیاں کررہے ہیں۔ جینے پر مرجانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ زندگی کا خاتمہ کررہے ہیں۔ دو بھائیوں میں بجلی کا بل ادا کرنے پر جھگڑا ہوگیا، ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو قتل کردیا۔ تباہی ہے، بربادی ہے۔ صنعتیں تباہ ہورہی ہیں۔ انڈسٹریاں غارت ہورہی ہیں۔ لوگ اپنے کارخانے بند کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ صنعتی پیداوار رُک گئی ہے۔ برآمدات میں کمی آرہی ہے۔ ہماری ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ ملک مقروض سے مقروض تر ہوتا جارہا ہے۔ افراطِ زر میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ انفلیشن حد سے بڑھ گیا ہے۔ سود کی شرح میں بھی اضافہ کرا گیا ہے۔ بجلی کی قیمتیں آسمان تک پہنچ جانے کے سبب کی وجہ سے معیشت تباہ ہوکر رہ گئی ہے۔ مختصراً تفصیلی وضاحت کردیجیے کہ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں جو نیا اضافہ کرا ہے اس سے آیندہ آنے والے دنوں میں ملکی معیشت کی تباہی پر کیا خوفناک اثرات ہوںگے؟ کیا ہم ڈیفالٹ ہوکر بالکل ہی دیوالیہ نہیں ہوجائیں گے؟ ذرا فرمائیے گا۔‘‘

ہر چند کہ انھوں نے مہمانِ محترم کے فرمانے کو کچھ چھوڑا ہی نہیں۔ پھر بھی مہمانِ عزیز کچھ کہنے کو منہ کھولتا ہے، ابھی دو جملے نہیں کہہ پاتا کہ وہ بیس سطروں کا ایک نیا سوال داغ دیتے ہیں۔ تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی۔ اگر سوال اُتنے ہی الفاظ پر مشتمل ہوتا، جتنے ہم نے اُن کی سوالیہ تقریر سے قبل درج کیے ہیں، تو مفہوم ادا ہوجاتا۔ مگر ’’گزشتہ گزرے ہوئے دنوں‘‘ سے لے کر ’’آیندہ آنے والے دنوں‘‘ تک ہر جملے میں اُنھوں نے اُردو کا جو ’’اسرافِ زر‘‘ کیا ہے اس کا موقع انھیں نہ مل پاتا۔

’یہ کام کرا ہے‘ اور ’وہ غلطی کری ہے‘ اُن ننھے منے بچوں کے منہ سے سن کر تو لطف آتا ہے جو ابھی بولنا سیکھ رہے ہیں، مگر بول بول کر بولا دینے والے بزرگ کے منہ سے اس قسم کے فقرے سن کر سخت کوفت ہوتی ہے۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ ان کو معاوضہ تو اُتنا ہی ملے گا جتنا طے ہوچکا ہے، اب وہ چاہے ایک جملے میں بات مکمل کرلیں یا بیس جملوں تک بک بک کرتے چلے جائیں۔ مرضی حضور کی!

ایک ہی بات کو لفظاً، معناً، حشواً اور زائداً دُہراتے رہنے سے سنجیدہ سے سنجیدہ بات مضحکہ خیز ہوجاتی ہے۔ واعظینِ کرام تو اِس تکرار کے عادی ہوتے ہیں۔ مثلاً ’’یہ جو ہمارے مقتدی ہیں، ہمارے پیچھے نماز پڑھنے والے، اس مسجد کے نمازی، ان میں سے ایک بڑی تعداد، یعنی ان میں سے اکثر لوگ اور بہت سے افراد ہم سے پوچھتے ہیں، فتویٰ مانگتے ہیں، استفتا کرتے ہیں کہ…‘‘ (یقین کیجیے کہ یہ فقرے ہمارے من گھڑت نہیں ہیں) یہ حضرات تو قرآنی اور مسنون دعاؤں میں بھی جب تک قافیہ آرائی نہ کرلیں چین نہیں پڑتا۔’’رَبَّنَا آتِنَا‘‘ والی دُعا سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 201کی رُو سے ’’وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘ پر مکمل ہوجاتی ہے۔ مگر قافیہ پیما واعظینِ کرام اِس دعا کو اُس وقت تک مکمل نہیں سمجھتے جب تک اس میں ایک دو مزید عربی قافیے ناپ کر ڈال نہ دیں اور ’’وَاَدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ مَعَ الْاَبْرَارِ یَا عَزِیْزُ یَا غَفَّار‘‘ کا اضافہ کرکے ہم سے آمین نہ کہلوا لیں۔ اسی طرح اور بہت سی دعاؤں میں بھی زوائد کا الحاق کیاگیا ہے۔ طولِ مدعا کرنا تو کوئی ان سے سیکھے۔

جب دعاؤں کا یہ حال ہے تو عام گفتگو یا عام تحریر میں حشو و زوائد کی نشان دہی کرنا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ مگر عجیب سا تو یہ بھی لگتا ہے کہ ’’کراچی میں شدید بارش کے بعد کوڑے کرکٹ کی بدبو سے تعفن پھیل گیا‘‘۔ ایک بار اسی قسم کا ایک بیان پروفیسر علم الدین غازی نے کسی وزیر کا نقل کیا تھا۔ آج ہم نے ٹیلی وژن کی خبرخواں سے بھی سن لیا۔ وہ ’بے چاری‘ کیا کرے؟ جس چارہ گر نے خبر لکھ کر دی تھی، نہیں معلوم کہ اسے بدبو کے معنی معلوم نہیں تھے یا تعفن کے۔ وزیر صاحب سے تو دونوں میں سے کسی کے معنی سے باخبر ہونے کی توقع نہ تھی۔ خواجہ معین الدین مرحوم کے زمانے میں کم ازکم اتنا تو تھا کہ ’’زیرِ تعلیم میں ووٹ کا واؤ لگا دیا جائے تو وزیرِ تعلیم بن جاتا ہے‘‘۔ لیکن اب تو ’’زیرِ تعلیم‘‘ ہونا بھی لازم نہیں رہا۔ ووٹ کا واو ٔلگ جانا کافی ہے۔ ضروری نہیں کہ عوام ہی لگائیں۔کوئی بھی اُٹھ کر’Wow’لگا دیتا ہے، بلکہ ’’واؤ، واؤ‘‘

وزیر بن جانے کے بعد اس قسم کی تصویر کھنچوانا بھی ضروری ہوتا ہے جس کے نیچے درج کیا جاوے یا جسے ٹی وی پر دکھاتے ہوئے بتایا جاوے کہ وزیر موصوف ’’ایک بیوہ عورت‘‘ کو ’’اشیائے ضرورت کی چیزیں‘‘عطا فرما رہے ہیں۔ اگر کوئی ’بیوہ مرد‘ ہوتا تو شاید وزیر صاحب ایسا نہ کرتے۔ ’اشیائے ضرورت‘ سے کیا مراد ہے؟ اس کی وزیر صاحب کو خبر ہے نہ خبر دینے والوں کو۔ ’ضرورت کی چیزیں‘ عام فہم اصطلاح ہے۔ وزیر صاحب کو چاہیے تھا کہ ’اشیائے ضرورت‘ یا ’ضرورت کی چیزوں‘ میں سے کوئی ایک چیز تھما دیتے۔ بوجھ کم ہوجاتا۔ خبر میں ’بیوہ‘ کے متعلق انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ ’عورت‘ تھی تو اُس نے اللہ جانے دو دو بوجھ کیسے اُٹھائے ہوں گے؟

لاعلمی کا ایک اور بوجھ جو ہمارے ذرائع ابلاغ اُٹھائے پھررہے ہیں، وہ ہے لفظ ’فریقین‘ کے معنی سے لا علمی۔ ہم سمجھا سمجھا کر تھک گئے کہ جس طرح ’والدین‘ سے مراد صرف دو ہستیاں ہیں، ’حرمین‘ سے مراد صرف دو مقاماتِ مقدسہ ہیں اور ’نعلین‘ کا مطلب فقط دونوں پاؤں کے جوتے ہیں اسی طرح ’فریقین‘ کا مطلب بھی ’دو فریق‘ ہیں۔خبریں سنیے تو یہ تکرارِ لفظی آپ کو سنائی دے گی کہ ’’عدالت نے دونوں فریقین کو طلب کر لیا ہے۔‘‘ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جب کسی مقدمے کے فریق دو سے زائد ہوں اور سب فریقوں کی پیشی ہو توخبر دی جاتی ہے کہ عدالت نے ’’تمام فریقین‘‘ کو طلب کر لیا ہے۔عدالتی نظام پر زیادہ بات نہیں کرسکتے، کیوں کہ ’’جگ‘‘ اور ’’دنیا‘‘ دونوں کے مطالب سے ناواقف ایک ’’دنیا دار‘‘ نے ابھی ابھی یہ تشویشناک اطلاع دی ہے کہ ’’ہماری دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔‘‘