’’سفرِ حجاز کی غیرروایتی روداد، حج بیتی‘‘

سفر نامہ ادب کی ایسی صنف ہے جس میں سفرنامہ نگار دورانِ سفر میں پیش آمدہ واقعات کو اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ مختلف مناظر اور گردوپیش کے مشاہدے سے مسافر کے دل و دماغ پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ انہیں بھی سفرنامے میں تحریر کرتا ہے۔ سفرنامے سے متعلقہ جگہوں کی تاریخ و جغرافیہ، مذہب و ثقافت، معاشرت کے علاوہ سماجی اقدار سے آگاہی ملتی ہے۔ قدیم سیاحوں میں البیرونی، حکیم ناصر خسرو اور ابن بطوطہ کے نام معروف ہیں۔ زندگی کے کئی شعبوں میں مسلمانوں کی ہی خدمات کو اوّلیت حاصل ہے۔ اسی طرح حکیم ناصر خسرو وہ پہلا سیاح ہے جس نے سیروسیاحت کو ایک فن کے طور پر اپنایا اور کئی سال مسلسل سفر میں رہا۔ ناصر خسرو نے اپنے سفر کا آغاز حج بیت اللہ کی سعادت سے سرفراز ہونے کے بعد کیا۔ مکہ و مدینہ کے بعد حجاز کے دیگر مقامات کی سیر کی اور اُس کے بعد اسکندریہ، بیت المقدس، قاہرہ، دمشق، بغداد، نجف وغیرہ کے علاقوں کی سیاحت میں مگن رہا۔ ان شہروں کے سفرناموں کو اُس نے ’’زادالمسافرین‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں مرتب کیا۔ اس کا ترجمہ ’’سفرنامہ حکیم ناصر خسرو‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

تصنیفی دُنیا میں سفرناموں کی مختلف اقسام نظر آتی ہیں جن میں سفرنامہ حج و عمرہ نمایاں ترین قسم بنتی ہے۔ حج کے قدیم ترین سفرناموں میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے سفرنامہ حج ’’جذب القلوب‘‘ اور شاہ ولی محدث دہلوی کے ’’فیوض الحرمین‘‘ (سفرنامہ حج) کو اوّلیت نظر آتی ہے۔ ان کے بعد رفیع الدین مرادآبادی، نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کے سفرنامے ملتے ہیں۔ اُردو زبان میں مولانا سیّد احمد شہید بریلوی کے سفرنامے ’’سوانح احمدی‘‘ کو پہلا سفرنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ جب کہ اُردو میں ’’سفرنامہ حج‘‘ محمد منصب علی خان کا ’’ماہِ مغرب‘‘ کے نام سے اوّل نظر آتا ہے جو کہ 1817ء میں لکھا گیا۔ سفرناموں کی تصنیف و تالیف کا سلسلہ آگے بڑھتا جاتا ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد بہت سے لوگوں نے اس میدان میں خدمات انجام دیتے ہوئے اپنے مشاہدات اور سفری روداد کو سفرنامے کی شکل میں قلم بند کیا۔ سفرناموں میں سب زیادہ سفرنامۂ حجاز یعنی سفرِ حج کی تعداد نظر آتی ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی زیرنظر ’’سفرِ حجاز کی غیرروایتی روداد، حج بیتی‘‘ کے نام سے معروف ادیب، قلمکار اور صحافی سیّد اعجاز گیلانی کے قلم سے منظرعام پر آئی ہے۔

حج بیت اللہ کی سعادت ملنا خاص نعمتِ الٰہی ہے، اور اُس کے بعد اس سفرِعظیم کے حالات و واقعات اور مشاہدات کو قلم بند کرنا بھی اس نعمت کا شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ سیّد اعجاز گیلانی نے اپنے اس سفرنامہ حج میں بیت اللہ اور درِ رسول اللہؐ پر حاضری کی کیفیات اور وہاں کے واقعات بیان کرنے کے لیے سادہ اور عام فہم الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ انھوں نے سفرِحج کی تیاری کو تفصیل سے لکھا ہے تاکہ وہاں جانے والے حضرات خوب اچھی طرح تمام معاملات کو سمجھ لیں اور وہاں پر کسی پریشانی سے دوچار نہ ہوں۔ دورانِ سفر اُمتِ مسلمہ بالخصوص ایشیائی ممالک کے حجاج کرام کے رویوں اور اُن کے معاشرتی رویوں کو بیان کرتے ہوئے اُن کی اصلاح کے لیے تجاویز بھی دی ہیں۔ انہوں نے دورانِ حج میں ہونے والے معاشی معاملات اور کاروبار کے بارے میں بھی اپنے مشاہدات کی روشنی میں بہترین تجاویز پیش کی ہیں۔

اس سفرنامہ حج کے بارے میں فاضل محقق، ادیب اور ماہر پاکستانیات ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں: ’’حج بیتی کے مطالعے سے قاری خود کو اعجاز گیلانی کے ہمراہ محسوس کرتا ہے۔ سفر کی رکاوٹوں سے اُلجھنے کا انداز سیکھتا ہے اور حجِ بیت اللہ کی خواہش اس کے دل میں مچلنے لگتی ہے۔ رواں، سلیس اور معلومات سے بھرپور یہ سفرنامہ سیّد اعجاز گیلانی کے فکروفن اور جذبہ اسلامی کا آئینہ دار ہے۔ ‘‘

اس سفرنامے کو اس انداز میں لکھا گیا اور ایسے الفاظ کا چنائو کیا گیا ہے کہ قاری کو پڑھتے وقت واضح طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ خود فاضل مصنف کے ہمراہ سفر کررہا ہے۔ سادہ اندازِ بیان، سادہ الفاظ، اپنے مخصوص انداز میں بغیر لگی لپٹی رکھے ہوئے اپنی بات بغیر کسی تبصرے کے اس طرح پیش کی ہے کہ قاری خود ہی اُس کو بہتر انداز میں سمجھ جاتا ہے۔

اس سفرِعظیم کی روداد سے جہاں بہت سے خوبصورت واقعات و کیفیات اور مشاہدات سے قاری روشناس ہوتا ہے وہاں پر کئی ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن سے انسان خصوصاً مسلمان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ائرلائنز کے عملے کی سردمہری، ٹریول ایجنٹ کی دھوکہ دہی اور بعض لوگوں کی بداخلاقیاں بھی نظرآتی ہیں۔ اس کتاب میں خاص طور پر پاکستان کے عازمین حج میں چھپے کئی ایسے کرداروں کو بے نقاب کرنے کی سعی کی گئی ہے جو کہ نہ صرف وطنِ عزیز پاکستان کے لیے بدنامی کا سبب ہیں بلکہ اُمتِ مسلمہ کے لیے بھی کسی بدنما داغ سے کم نہیں۔

معروف مصنف ظہیر احمد بابر ’’حج بیتی‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’سیّد اعجاز گیلانی کی حج بیتی کو چالیس دن کی ڈائری کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اسے صحافی کا رپورتاژ بھی کہا جاسکتا ہے جس میں جو دیکھا وہ بتایا اور جو خود پر بیتی وہ لکھا۔ اس لیے میری رائے یہ ہے کہ اللہ کے گھر جانے کے خواہش مند اگر صرف جذباتی اندازِ بیان چاہتے ہیں تو کوئی اور کتاب پڑھ لیں لیکن اگر آپ یا آپ کا کوئی اپنا حج پر جانے کا ارادہ باندھ چکا ہے تو پہلی فرصت میں یہ کتاب پڑھ لے۔ آپ کو پیش آنے والی بہت سے مشکلیں آسان ہوجائیں گی۔‘‘

سفرکی کیفیات کا بے تکلف اظہار وہی کر سکتا ہے جو معلومات کی وسعت کے ساتھ ساتھ انہیں قلم بند کرنے کی صلاحیت سے بھی بہرہ ور ہو اور اس میں اس قدر اہلیت اور قابلیت موجود ہو کہ جن دلچسپ اور پُرکشش مقامات اور واقعات سے اسے واسطہ پڑے، ان پر مکمل غور و فکر کے بعد دل نشین الفاظ کا جامہ پہنا سکے۔سیّد اعجاز گیلانی میں یہ اوصاف بدرجہ اتم نظر آتے ہیں۔ اُنھوں نے اپنے خیالات، دلی جذبات اور کیفیات کو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔
زیر نظر کتاب طٰہٰ پبلی کیشنز، اُردو بازار لاہور نے چار رنگہ خوبصورت سرورق، مضبوط جلدبندی اور سفید کاغذ پر شائع کی ہے۔
nn