پیغمبرِ اسلام نبی کریمؐ کی بعثت سے پہلے کے دور کو جاہلیت کا زمانہ کہا گیا ہے جہاں دیگر انسانی اقدار ناپید، اور غیر انسانی افکار، رسومات اور اعمال کا دور دورہ تھا۔ انھی جاہلی تصورات میں سے ایک عورت کے بارے میں منفی تصور تھا۔ اس ماحول میں ایک عورت انتہائی حقیر مخلوق تھی، ان کی نگاہ میں عورت صرف بچوں کی پرورش کے لیے ایک وسیلہ تھی۔ عرب میں خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم کی داستان کو قرآن اور تاریخ نے محفوظ کیا ہے، کہ جب کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خبر دی جاتی تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا، یعنی بیٹی کی پیدائش کو وہ اپنے لیے عار سمجھتے تھے، بلکہ معصوم بچیوں کو زندہ درگور کرنے کے واقعات بھی تاریخ نے نقل کیے ہیں۔ پیغمبر اسلام محمدؐ کی بعثت کا مقصد ہی ان جاہلی رسومات کو مٹانا تھا اور اسلامی معاشرے کا قیام آپؐ کا نصب العین تھا۔ آپؐ نے قرآن کریم کی روشنی میں اسلام کی حیات بخش تعلیمات انسانیت کے لیے پیش کیں۔ ان میں سے ایک عورتوں کے بارے میں منفی افکار کی نفی اور ان کو معاشرے میں حقیقی مقام عطا کرنا تھا۔
آپؐ نے عورت کے مقام کو مختلف زاویوں سے بیان کیا۔ جیسے بیٹی، ماں، زوجہ، بہن کا مقام اور عورت کی فضیلت اور اس کے حقوق۔ آپؐ نے مثالی خواتین کو معاشرے میں روشناس کرایا اور ان کی تعریف، توصیف، تمجید اور مقام و منزلت کو بیان کیا۔ انھی میں سے ایک حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی ذاتِ گرامی ہے، جن کی فضیلت، مقام اور کردار کو پیغمبرِ اسلام محمدؐ نے اپنی پوری زندگی میں اہمیت دی۔ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی سیرت، کردار، معرفت اور عمل نے ہی آپ کو اس مقام پر پہنچادیا کہ رسولؐ نے آپؓ کو ’’عالمین کی عورتوں کی سردار‘‘ جیسے القاب سے نوازا، ساتھ ہی آپؓ کے احترام میں پیغمبرؐ کا کھڑا ہونا بھی آپؓ کی عظمت کی دلیل ہے۔ یہ سب ایسے ماحول میں ہوا جب عورت کو انسان نہیں سمجھا جاتا تھا۔
’’حرفے چند‘‘ میں محمد متین خالد رقم طراز ہیں:
بہ قول شخصے ’’تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو ہمیں بہت سے نام ایسے ملتے ہیں جو تاریک راتوں میں آسمان کی وسعتوں میں رونق پیدا کرتے ہیں، چاند ستاروں جیسی آب و تاب سے چمک رہے ہوتے ہیں۔ بلاشبہ ایسی پاک سیرت شخصیات کی کمی نہیں جنہوں نے اپنے لیل و نہار میں ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیے جن کے ذکر سے تاریخ فخر سے جھوم اٹھتی ہے، جن کے لمحوں کے نقوش صدیوں کی تاریخ پر جھومر کی طرح تابندہ و درخشاں نظر آتے ہیں۔ ان میں ایک نام سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کا بھی ہے جو تاریخ اسلام کے ماتھے پر نجم سحر کی طرح جگمگا رہا ہے۔
آپؓ کے قدموں میں ان بیٹوں کی جنت ہے جو خود جنت کے سردار ہیں۔ علامہ اقبالؒکی یہ رائے کتنی صائب اور ان کا حرفِ تحسین کس قدر صادق ہے کہ اگر سیدہ بتولؓ کی گود نہ ہوتی اور حضرت محمد مصطفیؐ کا بستان تربیت نہ ہوتا تو پھر کوئی حسینؓ بھی نہ ہوتا۔ حضرت شبیرؓ کا راہِ حق میں عاشقانہ جذبۂ تسلیم و رضا اور آزادیِ حق کی خاطر ظلم و جبر کے سامنے سینہ سپر ہونا دراصل سیدہ بتولؓ کی گود کا صدقہ اور بستان مصطفیؐ کی رعنائی کا رہین منت ہے۔ ایک مرتبہ کسی مفکر سے سوال کیا گیا کہ جناب! عالم اسلام میں ایک حسنؓ اور حسینؓ پیدا ہوئے، بتائیں اس کے بعد گلشنِ اسلام کو کوئی حسینؓ کیوں نہ ملا؟ اس مفکر نے نہایت خوب صورت جواب دیا ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فاطمہؓ کے بعد کوئی فاطمہؓ پیدا ہوتی تو حسینؓ ملتا‘‘۔
زیر نظر کتاب ’’سیرتِ فاطمۃ الزہراؓ‘‘ جناب ملک محمد الدین کی منفرد اور قابلِ صدتحسین تالیف ہے جس میں انہوں نے سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی سیرت کے ہر گوشے کو بہترین خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ آج سے تقریباً 100 سال پہلے شائع ہونے والی یہ کتاب اپنے اندر تحقیقی، علمی، ادبی اور روحانی سوز و گداز کی سوغات لیے ہوئے ہے جسے پڑھتے ہوئے قاری پر عجیب رقت طاری ہوجاتی ہے۔ سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کی منزہ و مزکی زندگی کے مصفی حالات، روشن و تابندہ واقعات، ہدایت افروز اور ایمان پرور فرمودات و کلمات کی روشنی میں ہم اپنی زندگی کی شاہراہ کو منور کرسکیں یہی اس کتاب کی اشاعت ِنو کا مقصدِ وحید ہے۔
کتاب عمدہ و خوب صورت سرورق، مضبوط جلد بندی، عرق ریزی سے بھرپور حروف خوانی اور بہترین کمپوزنگ کے ساتھ اچھی طبع ہوئی ہے۔