مرویاتِ اہلِ بیت میں نقوشِ سیرت۔ اطلاقی جہات

ڈاکٹر سعید احمد سعیدی، ادارہ علومِ اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ایک ہمہ جہت و متحرک علمی شخصیت کے حامل ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن میں ’’قرآنِ حکیم کے مفاہیم‘‘، ’’خاندانِ نبوتﷺ (جامع اور تحقیقی تذکارِ مبارکہ)‘‘، ’’سیرتِ رحمتِ کونین ﷺ (سماجی و معاشی جہات)‘‘، ’ّفقہی اختلاف و تطبیق امام شعرانیؒ اور شاہ ولی اللہؒ کے نظریات کا تقابلی مطالعہ‘‘، ’’امام عبدالوہاب شعرانیؒ کے منہجِ تطبیق کی عصری معنویت (فقہی اختلافات کے تناظر میں)‘‘، ’’شاہ ولی اللہ ؒ کے منہجِ تطبیق کی عصری معنویت (فقہی اختلافات کے تناظر میں)‘‘، ’’شاہ ولی اللہ کے معاشی افکار(اطلاقی جہات)‘‘، ’’مشائخ سہرورد ؒ کی سماجی خدمات‘‘ اور ’’پُرامن بقائے باہمی کے فروغ میں صوفیہ کا کردار‘‘ شامل ہیں۔ کتابوں کے عناوین ہی سے آپ کے میدانِ اختصاص اور علمی و تحقیقی ذوق کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

پیشِ نظر کتاب ’’مرویاتِ اہلِ بیت میں نقوشِ سیرت۔ اطلاقی جہات‘‘ ڈاکٹر سعیدی کی تازہ علمی کاوش ہے۔ یہ کتاب تین ابواب اور متعدد فصول پر مشتمل ہے۔ قاری کی سہولیت کے لیے ہر باب کے آخر میں خلاصہ بحث بھی دیا گیا ہے۔ جیسا کہ باب اول ’’اہلِ بیت کا مقام و مرتبہ اور حقوق: تمہیدی علمی مباحث‘‘ میں آلِ بیت/ اہلِ بیت کے لغوی اور اصطلاحی اطلاقات کے حوالے سے علمی بحث کے بعد خلاصہ بحث کے طور پر لکھتے ہیں:

’’آلِ رسول/ اہلِ بیتِ رسول اللہ ﷺ کا اطلاق چار جہات سے مختلف نفوس و شخصیات پر ہوتا ہے۔ نبی کریمﷺ کے آبا و اجداد بالخصوص بنی ہاشم، ازواجِ مطہرات، اولادِ اطہار اور تمام متبعین اس اصطلاح کے دائرۂ کار میں شامل ہیں۔ پہلے تین طبقات اس کے خاص اطلاق جب کہ متبعین اس کے عام اطلاق کے تحت آتے ہیں۔ ہر طبقے کے اہلِ بیت/آلِ بیت ہونے کے دلائل قرآن و سنت میں موجود ہیں۔ ہمارے ہاں جب یہ ترکیب استعمال کی جاتی ہے تو عام طور پر اس سے اہلِ بیت ولادت مراد لیے جاتے ہیں۔ جب کہ بارہا اہلِ بیت نسب و سکونت مراد لیے جاتے ہیں۔ بہرحال ہر اطلاق کے اپنے خصائص و امتیازات ہیں۔ تمام متبعینِ رسولﷺ خوش نصیب ہیں جو امتِ محمدیہ میں شمولیت کے اکرام سے مزین ہیں۔ نسبی اعتبار سے آپؐ کے آبا و اجداد بے مثل و بے مثال ہیں۔ آپؐ کے حرم کی سعادت حاصل کرنے والی خواتین کی برابری دنیا کی کوئی خاتون نہیں کرسکتی۔ نفوسِ اربعہ کے لیے چادرِ تطہیر کا نوری سایہ اور میدان مباہلہ میں معیت کا شرف وغیرہ ایسے اعزازات ہیں جو کبھی کسی داماد، بیٹی اور نواسوں کا مقدر نہ ہوئے۔ لہٰذا مذکورہ تمام طبقات سے محبت تقاضائے ایمان ہے۔‘‘

اسی باب کی فصلِ دوم میں مناقب و محبتِ اہلِ بیت کی اہمیت کو بہت خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔ جب کہ فصل سوم میں اہلِ بیتِ اطہار کی منتخب شخصیات (حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب، حضرت آمنہ بنت ِوہب، حضرت عباس بن عبدالمطلب، حضرت ابوطالب بن عبدالمطلب، حضرت صفیہ بنتِ عبدالمطلب، حضرت خدیجۃ الکبریٰ، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت حفصہ، حضرت ہند بنتِ ابی امیہ المعروف حضرت ام سلمہ، حضرت میمونہ، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء، حضرت جعفر بن ابی طالب، حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت امام حسن، حضرت امام حسین، حضرت حلیمہ سعدیہ، حضرت شیما بنتِ حارث، حضرت ابو سلمہ رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے سوانحی نقوش پر اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔

باب دوم ’’عہدِ مکی کی مرویاتِ اہلِ بیت میں نقوشِ سیرت: اطلاقی جہات‘‘ میں ولادتِ نبویہ کے وقت مبشرات و ارہاصات، ان کے نتائج و اسباق، واقعاتِ میلاد کی استنادی حیثیت، ولادتِ مبارکہ سے قبل اور مابعد ظہور پذیر ہونے والے عجائبات، ولادتِ مبارکہ کے وقت حضرت آمنہ کے مشاہدات، رسول اللہ ﷺ کی طفولیت و رضاعت سے متعلق روایات اور سماجی استنتاجات اور رسول اللہ ﷺ کے عہدِ شباب و مکی عہدِ نبوت کے متعلق مرویات اور ان کے سماجی اسباق کا احاطہ کیا گیا ہے۔

باب سوم: ’’عہدِ مدنی کی مرویاتِ اہلِ بیت میں نقوشِ سیرت: اطلاقی جہات‘‘ میں عبادات، عائلیات، معاشرت، اخلاق، سیاست، معاش و اقتصاد پر مبنی روایات اور ان کی اطلاقی جہات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر سعیدی کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ’’اسلام مکمل اور جامع نظامِ حیات ہے۔ امور تعبدیہ ہوں یا معاشرت و عائلی امور، اخلاقیات سے متعلق معاملات ہوں یا سیاسیات و معاشیات، ہر میدان میں ہمارے لیے بہترین ہدایات موجود ہیں۔ اگر ہم اپنی زندگی میں توازن قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں امورِ تعبدیہ، عائلیات اور سماجیات پر مبنی مرویاتِ اہلِ بیت کی اطلاقی جہات کو اپنی زندگیوں میں شامل کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر متوازن زندگی کا خواب ادھورا رہے گا۔ ”

آخر میں مصادرو مراجع کی فہرست سے فاضل مصنف کی عرق ریزی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ کتاب سلیقے سے شائع ہوئی ہے اور قیمت بھی مناسب ہے۔