پاکستانی گیمر ارسلان صدیقی کو ٹیکن کی دنیا میں ’ارسلان ایش‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور جو ای اسپورٹس کی دنیا میں پاکستان کا نام تیزی سے روشن کررہے ہیں۔ 2024ء میں ہونے والا ای وی او ٹیکن ٹورنامنٹ جیت کر ارسلان نے اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور اب تک وہ پانچ مرتبہ ای وی او چیمپئن شپ جیت کر اپنا نام بنا چکے ہیں۔ اس ٹورنامنٹ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے فائنل میں پہنچنے والے دونوں کھلاڑیوں کا تعلق پاکستان سے تھا۔ ایک طرف ارسلان صدیقی اور دوسری طرف عاطف بٹ تھے۔ دونوں کھلاڑیوں نے فائنل میں شاندار کھیل پیش کیا، لیکن تجربہ زیادہ ہونے کی وجہ سے ارسلان ایش نے فائنل اپنے نام کرلیا، اور یوں پانچویں مرتبہ یہ چیمپئن شپ جیت لی۔ ارسلان ایش نے اس سے پہلے چار چیمپئن شپ ٹیک 7کے نام سے اپنے نام کی تھیں، لیکن 2024ء میں اس گیم کا نیا ایڈیشن آیا۔ ٹیکن 8 کے نام سے اس گیم کے آخریversion میں ارسلان اپنا لوہا منوا چکے تھے اور 2023ء میں سعودی عرب میں ہونے والا ٹیکن ٹورنامنٹ بھی اپنے نام کیا تھا جس کی انعامی رقم 500,000 ڈالر تھی جو پاکستانی کم ازکم 14کروڑروپے بنتے تھے۔ اس کے بعد وہ اس کھیل میں دنیا کے بہترین کھلاڑی بن گئے تھے۔
بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال تھا کہ ارسلان نے جس طرح ٹیکن 7 میں اپنا اور پاکستان کا نام ساری دنیا میں روشن کیا ہے، کیا ویسے ہی وہ ٹیکن ورژن 8 میں کامیابی حاصل کرسکیں گے؟ اس سوال کا جواب ارسلان ایش نے 2024ء میں ہونے والا ای وی او ٹیکن ٹورنامنٹ جیت کر دے دیا ہے، اس طرح انہوں نے پاکستانوں کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ گیمنگ کرنا ارسلان کا شوق تھا، لیکن اس مہارت کو ایک کھیل کے شعبے میں تبدیل کرنا ارسلان کے لیے بہت ہی مشکل کام تھا۔ ارسلان صدیقی سے ارسلان ایش تک کا سفر بہت مشکل تھا اور پاکستان جیسے ملک میں جہاں والدین گیمنگ کرنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں، لیکن آج کل ارسلان ایش جیسے گیمر نہ صرف ساری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کررہے ہیں بلکہ خوب پیسہ بھی کما رہے ہیں۔ آج ارسلان کو ریڈ بل جیسی بڑی بڑی کمپنیاں اسپانسر کررہی ہیں۔ ایک انٹرویو میں ارسلان ایش نے کہا کہ آج میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ صرف ٹیکن گیم ہی کی وجہ سے ہے۔ پاکستان میں ارسلان ایش جیسے بہت سے کھلاڑی موجود ہیں، لیکن مالی مشکلات اور حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے یہ ٹیلنٹ برباد ہورہا ہے، اوراسپانسر نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ کوئی ایونٹ نہیں کھیل پاتے۔
یہی حال ارسلان ایش کا بھی تھا کیونکہ وہ آج جو کچھ بھی ہیں اپنی مدد آپ کے تحت ہیں۔ ارسلان کو بھی مالی مشکلات کا سامنا تھا اور کوئی انہیں اسپانسر کرنے کو تیار نہ تھا۔ جب ارسلان ایش نے اپنا پہلا ٹورنامنٹ کھیلا تو تمام اخراجات انہوں نے خود اور اپنے دوستوں کی مدد سے پورے کیے تھے۔ ارسلان ایش کے بقول وہ اپنے پہلے ایونٹ میں دو دن تک بھوکے رہے۔ کسی کو یقین نہیں تھا کہ ایک پاکستانی بچہ جاپان میں ہونے والا یہ اہم ٹورنامنٹ جیت جائے گا۔ جبکہ جاپان وہ ملک ہے جو اس گیم کو بنانے والا ہے۔ لیکن ارسلان ایش جنہیں 2018ء میں پاکستان میں کوئی نہیں جانتا تھا وہ 2019ء میں ٹیکن کے چیمپئن بن جاتے ہیں، وہ نہ صرف پاکستان بلکہ ای اسپورٹس کی دنیا میں مشہور ہوجاتے ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں۔ ارسلان ایش کی فتوحات کا سلسلہ جاری ہے، وہ نہ صرف پاکستان میں ای اسپورٹس کو فروغ دے رہے ہیں بلکہ پاکستان میں موجود کھلاڑیوں کی بھی مدد کررہے ہیں اور انہوں نے ایک گیمنگ گھر بنایا ہوا ہے جسے ای اسپورٹس کی دنیا میں بوٹ کیمپ کہتے ہیں، دوسرے علاقوں کے گیمر وہاں آکر سہولیات کا فائدہ لیتے ہیں جو ارسلان ایش نے خود دوسرے کھلاڑیوں کو مہیا کی ہیں۔کیونکہ ارسلان ایش کا کہنا ہے کہ میں پاکستان میں اس کھیل کو فروغ دینا چاہتا ہوں۔ ان کی خواہش ہے کہ جن مشکلات سے وہ گزرے ہیں کوئی اور بچہ نہ گزرے، اوربچے اس کھیل میں اپنا اور ملک کا نام روشن کریں۔
عام طور پر جب کوئی بچہ کسی پیشے میں جانے کی بات کرتا ہے تو اپنے والدین کو دکھانے کے لیے اُس کے پاس کوئی مثال نہیں ہوتی۔ لیکن اب بچوں کو والدین کو دکھانے کے لیے ارسلان ایش ایک ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے اب بچوں کے سامنے ای اسپورٹس کا مستقبل بھی ہے اور اس کا رول ماڈل بھی۔ اگر حکومتِ پاکستان ای اسپورٹس کے کھلاڑیوں کی مدد کرے تو یہ کھلاڑی ساری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرسکتے ہیں۔ ارسلان ایش کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کی طرف سے بروقت ویزے ہی مل جائیں تو کھلاڑیوں کی بہت سی مشکلات کم ہوسکتی ہیں۔ ماضی میں بھی ارسلان ایش کو ویزے کی وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ای اسپورٹس ایک ایسا کھیل ہے جس کا کوئی میگا ایونٹ ہوتا ہے تو صرف ایک ملک میں ہی نہیں بلکہ چار سے پانچ ممالک میں اس کے میچز ہوتے ہیں، اور ارسلان ایش جیسے دیگر کھلاڑیوں کو ویزے نہ ملنے کی وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ حکومتی سطح پر کوئی مالی امداد نہیں دی جاتی جو واقعی لمحۂ فکریہ ہے۔ حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے اور اس کھیل کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا چاہیے۔