بچوں کی تعلیم و تربیت میں غیر نصابی لٹریچر کا اہم کردار ہوتا ہے
بچوں کا ادب کسی بھی معاشرتی و ثقافتی ڈھانچے کی بنیاد میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ نہ صرف بچوں کی تعلیم و تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہے بلکہ ان کے تخیلات، اخلاقی اقدار، اور معاشرتی رویوں کو بھی تشکیل دیتا ہے۔ پاکستان میں بچوں کے ادب کی تاریخ بھی دلچسپ اور متنوع ہے، جس میں وقتاً فوقتاً مختلف مسائل اور چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بچوں کے ادب کی اشاعت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، مگر معیار کے لحاظ سے یہ اب بھی کسی حد تک محدود ہے۔ بہت سے پبلشر بچوں کے لیے کتابیں شائع کرتے ہیں، مگر اکثر یہ کتابیں تجارتی مفادات کے تحت لکھی جاتی ہیں، جس سے معیار متاثر ہوتا ہے۔ جدید دور میں ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی وسعت نے بچوں کے ادب کے انداز اور طریقوں میں بھی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ دنیا میں اب بچوں کے لیے ای بکس، آڈیو بکس، اور موبائل ایپس کی صورت میں ادب دستیاب ہے، یہ نئے ذرائع بچوں کی پڑھنے کی عادات کو فروغ دینے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہورہے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کارٹون، فلموں اور گیمز کے لیے زیادہ ہے۔ بچے ہمارے مستقبل کا روشن چہرہ ہیں اور باشعور قومیں ہمیشہ اپنے اس قیمتی سرمائے کی قدر کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس حوالے سے صورتِ حال بہت اچھی نہیں ہے۔
بچوں کے ادیب ڈاکٹر افتخار کھوکھر کے مطابق انسان کی عمر کچھ بھی ہو، اس کے اندر ایک بچہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ یہ بچے کی معصومیت اور سلیم الفطرتی ہوتی ہے جو معاشرے اور ماحول کے اثرات کے تحت تبدیل ہوتی ہے۔ بچوں کی تربیت اور تعلیم میں معاشرتی ماحول اور تعلیمی نظام کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اسرائیل میں بچوں کو منصوبہ بندی کے تحت تربیت دی جاتی ہے، ایران میں شعوری تربیت پر زور دیا جاتا ہے، اور یورپ میں سسٹم کے تحت بچوں کی تربیت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیمی نظام میں بے شمار مسائل ہیں جو بچوں کی صحیح تربیت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
تعلیمی اداروں کا مشن پہلے تعلیم ہوا کرتا تھا، مگر اب یہ ایک انڈسٹری بن چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بچوں کے ادب کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔ پہلے کے زمانے میں بچوں کے رسالے اور ادب بچوں کی سماجی اور معاشرتی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے تھے، مگر اب یہ تعداد کم ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر افتخار کے مطابق غیر نصابی لٹریچر جیسے کہانیاں، ناول، اور رسائل بچوں کی معلومات اور تخیل کو وسیع کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ ادبی مواد بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اسی طرح غیر نصابی سرگرمیاں بچوں کی تعلیم و تربیت میں اہم ہوتی ہیں۔ جب بچے درسی کتابوں کے ساتھ ہم نصابی کتابیں پڑھتے ہیں تو ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کی تخیل کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ مختلف کہانیوں اور ناولوں کے ذریعے بچے معاشرتی مسائل کو سمجھتے ہیں اور ان کے اندر اچھائی اور برائی کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ والدین اور اساتذہ کو بچوں کی غیر نصابی سرگرمیوں کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اور انہیں اس طرح کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔
بدقسمتی سے کتب بینی کا کلچر ہمارے معاشرے میں پروان نہیں چڑھ سکا ہے۔ یورپ میں لوگ ریلوے اسٹیشنوں، ائرپورٹس، اور دیگر عوامی مقامات پر کتابیں پڑھتے نظر آتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں یہ رجحان بہت کم ہے۔ ڈاکٹر کھوکھر کے مطابق بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کتب بینی کو فروغ دینا ضروری ہے۔ اسکولوں میں لائبریری پیریڈ کا اہتمام کیا جانا چاہیے اور بچوں کو مطالعے کی طرف راغب کرنا چاہیے، لیکن ڈیجیٹل مصروف دنیا میں ہم یہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس پس منظر میں ڈاکٹر افتخار بتاتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کے ادب کی کمی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ بچوں کا ادب ریٹرن نہیں کرتا۔ لکھنے والوں کو بچوں کے ادب کے لیے کہانیاں لکھنے کا معاوضہ نہیں ملتا، اور انہیں اعزازی کاپی بھی نہیں دی جاتی۔ اس کے نتیجے میں لکھنے والے بچوں کے ادب کی طرف کم رجوع کرتے ہیں۔ بچوں کے ادب کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ لکھنے والوں کو مناسب معاوضہ دیا جائے اور ان کی تحریروں کی قدر کی جائے۔ دنیا بھر میں بچوں کے ادب کے ترجمے کی روایت موجود ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کے ادب کے ترجمے کی کمی ہے۔ ڈاکٹر کھوکھر کے مطابق بچوں کے عالمی ادب کا ترجمہ کرکے ہمارے بچوں کو بھی ان کہانیوں اور ناولوں سے مستفید کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے لکھنے والے اور مترجمین بچوں کے عالمی ادب کی طرف توجہ دیں اور اس کا ترجمہ کرکے ہمارے بچوں کے لیے پیش کریں۔
بچوں کے ادب کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور اس کی طرف توجہ دینا وقت کی ضرورت ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں غیر نصابی لٹریچر کا اہم کردار ہوتا ہے اور اس کے ذریعے بچوں کی معلومات اور تخیل میں اضافہ ہوتا ہے۔ والدین، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کو بچوں کے ادب کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اور اس کے فروغ کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ کتب بینی کا کلچر بچوں میں پروان چڑھانا ضروری ہے تاکہ وہ معاشرتی مسائل کو سمجھ سکیں اور ان کے اندر اچھائی اور برائی کا شعور پیدا ہو۔ بچوں کے ادب کے ترجمے کی روایت کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے بچے بھی عالمی ادب سے مستفید ہوسکیں۔ معیاری ادب کی تخلیق کے لیے مصنفین اور پبلشرز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اچھی کہانیوں، نظموں اور کتابوں کی اشاعت آج کی بھی ضرورت ہے۔
وطنِ عزیز میں بچوں کے ادب کی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے مل کر کوشش کرنا ضروری ہے۔ معیاری ادب کی تخلیق، کتابوں کی رسائی، اور تعلیمی نظام میں اس کی شمولیت سے بچوں کی تعلیم و تربیت میں نمایاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف بچوں کے تخیلات اور اخلاقی اقدار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے بلکہ ایک بہتر معاشرتی ڈھانچہ بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے۔