القدس شریف میں انتہا پسندوں کی دراندازی پر یہودی علما مشتعل ا سرائیلی فوج میں مایوسی۔ محاذ پر جانے سے انکارغزہ بندر بانٹ کا منصوبہ
سیانے کہتے ہیں کہ ہر جنگ کی سب سے پہلی شہید سچائی ہوتی ہے۔ اس حقیقت کا دردناک مشاہدہ ہم گزشتہ دس ماہ سے کررہے ہیں۔ یکم اگست کو 21 کلومیٹر لمبی اور 10 کلومیٹر چوڑی پٹی پر مسلسل بمباری کے 300 دن مکمل ہوگئے۔ اس سے ایک ہفتہ پہلے امریکی کانگریس (پارلیمان) کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے بہت اعتماد سے کہا کہ ’’غزہ آپریشن انسانی تاریخ کی محفوظ ترین عسکری کارروائی ہے کہ جس میں شہریوں کا نقصان نہ ہونے کے برابر ہے‘‘۔ اسرائیلی وزیراعظم کے اس جملے پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت کے قانون ساز دومنٹ تک ڈیسک بجاتے رہے۔ اپنی تقریر میں نیتن یاہو نے فخر سے کہا کہ ’’ہم غزہ میں اب تک 14 ہزار دہشت گردوں کو ہلاک کرچکے ہیں‘‘۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں 15 جولائی تک مارے جانے والوں کی تعداد 38500 ہے۔ اگر اسرائیلی وزیراعظم کے دعوے کو درست مان لیا جائے تب بھی 24500 یعنی دوتہائی نہتے شہری مارے گئے ہیں۔
لیکن اس کی شکایت کس سے کی جائے کہ مسلم معاشروں سمیت ساری دنیا نے اس پر آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ اس حوالے سے 27 جولائی کو ایک ہی دن کے دو واقعات پیش خدمت ہیں:
دوپہر کو مقبوضہ گولان کے علاقے مجدل شمس پر لبنان سے ہونے والے میزائیل حملے میں 12افراد ہلاک ہوئے۔ لبنانی مزاحمت کاروں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے فٹ بال میدان میں قائم اسرائیل کے ایک فوجی تربیتی مرکز کو نشانہ بنایا، جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ میزائیل اُس وقت داغا گیا جب یہاں نوجوانوں کا فٹ بال میچ ہورہا تھا۔ ہلاک ہونے والے تمام افراد کی عمریں 10 سے 20 سال کے درمیان ہیں۔ امریکہ، یورپ اور ’’مہذب‘‘ دنیا کو اس پر شدید تشویش ہے۔ جنگ میں نہتے افراد کی ہلاکت یقیناً قابلِ افسوس اور ایسے واقعات کا کسی بھی تناظر میں دفاع غیر منصفانہ ہے۔ لیکن تقریباً عین اسی وقت غزہ میں دیرالبلاح کے ایک اسکول کو اسرائیلی بمباروں نے پیوندِ خاک کردیا جس میں 15 کم عمر بچوں اور اُن کی 8 استانیوں سمیت 30 افراد جاں بحق ہوئے۔ اسرائیل نے حملے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسکول مزاحمت کاروں کا اڈہ تھا۔ تاہم عینی شاہدوں نے رائٹرز کے نمائندوں کو بتایا کہ ہلاک یا زخمی ہونے والوں میں ایک بھی مزاحمت کار شامل نہیں۔’’مہذب‘‘ دنیا نے اسرائیل کی وضاحت کو من و عن قبول کرلیا۔ یادش بخیر 11 جولائی کو غزہ میں فٹ بال کھیلتے بچوں کو نشانہ بنایاگیا تھا جس میں CNNکے مطابق 50 بچے زندہ جل گئے۔
مجدل شمس میزائیل حملے کے بعد اسر ائیل لبنان براہِ راست جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اسرائیلی انتہاپسند ’لبنان کو کچل دو‘ کے نعرے لگارہے ہیں۔ نیتن یاہو نے اپنے جذباتی خطاب میں معصوم لہو کا انتقام لینے کا اعلان کیا تو دوسری جانب ایران کا رویہ بھی سخت نظر آرہا ہے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نصر کنعانی نے کہا کہ اگر اسرائیل نے لبنان کو جارحیت کا نشانہ بنایا تو اس مہم جوئی کی تل ابیب کو بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔
ہفتہ رفتہ میں اسرائیلی وزیراعظم کا دورۂ امریکہ ذرائع ابلاغ پر چھایا رہا۔ اس دوران نیتن یاہو نے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ امریکی صدر و نائب صدر کے علاوہ انھوں نے ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔
نیتن یاہو کے خطاب کا نائب صدر کملا دیوی ہیرس اور 80 ارکان نے بائیکاٹ کیا۔ فلسطینی نژاد رکن محترمہ رشیدہ طلیب نے بائیکاٹ میں حصہ نہیں لیا لیکن وہ اجلاس کے دوران اسرائیلی وزیراعظم کو ’جنگی مجرم‘ کا کتبہ دکھاتی رہیں۔ نائب صدر بربنائے عہدہ سینیٹ (راجیا سبھا) کی سربراہ ہیں اور ان کی غیر حاضری سب نے محسوس کی۔ نائب صدارت کے لیے ریپبلکن پارٹی کے امیدوار سینیٹر جے ڈی وانس بھی اجلاس سے غیر حاضر تھے۔ اس موقع پر ہزاروں لوگوں نے کانگریس کی عمارت کے باہر اور جس ہوٹل میں نیتن یاہو ٹھیرے ہوئے تھے اس کے سامنے زبردست مظاہرہ کیا۔ اس دوران پولیس کا رویہ انتہائی معاندانہ تھا، اور پکڑ دھکڑ کے ساتھ مظاہرہ کرنے والوں پر جِلد میں سوزش پیدا کرنے والے کیمیکل کا اسپرے کیا گیا جس کی وجہ سے کئی خواتین بے ہوش ہوگئیں۔
دوسرے دن اسرائیلی وزیراعظم نے صدر بائیڈن سے ملاقات کی۔ صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ باضابطہ مذاکرات کے دوران امریکی صدر کا رویہ دوٹوک تھا اور انھوں نے واضح کردیا کہ قیدیوں کی رہائی اور علاقے میں دیرپا امن کے لیے ان کے مرحلہ وار امن منصوبے پر عمل ضروری ہے۔ ملاقات کے بعد مشترکہ کانفرنس منعقد نہیں ہوئی۔
صدربائیڈن سے بات چیت کے بعد نائب صدر کملا ہیرس نے اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کی جس کے بعد صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے امریکی نائب صدر نے کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق اور اس حوالے سے اسے ہماری مکمل حمایت حاصل ہے لیکن اہلِ غزہ کے مصائب سے آنکھیں چرانا بھی بنیادی انسانی اخلاقیات کے منافی ہوگا۔ یہود دشمن رویہ (Antisemitism) ہو یا اسلام فوبیا اور نفرت کے دوسرے بیانیے، ان سب کو مسترد کیا جانا چاہیے۔ کملا ہیرس صاحبہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں فوجی جنگ بندی ضروری ہے اور اس سلسلے میں صدر بائیڈن نے تین مرحلوں پر مشتمل مسئلے کا دیرپا حل پیش کیا ہے:
٭مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کی غزہ کے آباد علاقوں سے واپسی
٭قیدیوں کی رہائی
٭اسرائیلی فوج کی غزہ سے مکمل واپسی
امریکی نائب صدر نے زور دے کر کہا کہ فلسطینیوں کو اپنی خودمختار ریاست کا حق حاصل ہے۔ فلسطینیوں کی امنگوں کے مطابق آزاد و خودمختار ریاست سے علاقے میں استحکام کے ساتھ اسرائیل بھی محفوظ ہوجائے گا۔ انھوں نے کہا کہ غزہ تنازع یک طرفہ نہیں، فریقین کے بیانیے اور نقطہ نظر کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سمجھ لینے کے بعد ہی مستقبل کی منصفانہ صورت گری ممکن ہے۔ صدر بائیڈن کی طرح کملا ہیرس صاحبہ نے بھی مشترکہ پریس کانفرنس سے گریز کیا۔
امریکی نائب صدر کے اس بیان پر ریپبلکن پارٹی کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار ہوا اور ریپبلکن یہود اتحاد (Republican Jewish Coalition) نے امریکی ذرائع ابلاغ پر اشتہار میں پیغام دیا کہ کملا ہیرس، مخصوص ووٹوں کے لیے اسرائیل کی پشت میں چھرا گھونپ رہی ہیں۔
عالمی سطح پر اس حوالے سے ایک بڑی تبدہلی برطانیہ کی جانب سے دکھائی دی جب لندن نے نیتن یاہو، اسرائیلی وزیردفاع اور عسکری سربراہ کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (ICC)کے پروانۂ گرفتاری پر اعتراض واپس لے لیا۔ سابق وزیراعظم رشی سوناک کی حکومت نے وارنٹ کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جس کی سماعت 26 جولائی کو ہونی تھی۔ برطانیہ کے اٹارنی جنرل لارڈ ہرمر (The Lord Hermer)نے ایک دن پہلے عدالت کو مطلع کیا کہ ان کی حکومت یہ درخواست واپس لے رہی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وزیراعظم کیئر اسٹرامر (Keir Stramer) نے کہا کہ برطانیہ قانون کی بالادستی پر یقین رکھتا ہے اور ہم عالمی عدالت کو غیر ضروری بحث میں نہیں الجھانا چاہتے۔
اس ہفتے حکومت کی اتحادی عزم یہود جماعت (Otzma Yehudit) کے سربراہ اور وزیر اندرونی سلامتی، اتامار بین گوئر(Itamar Ben Givr) نے القدس شریف میں گنبد صخرا کے سائے میں عبادت کی جو 1967ء میں اقوام متحدہ کو فراہم کی جانے والی ضمانت کی صریح خلاف ورزی تھی۔ جنگ 1967ء میں مشرقی بیت المقدس پر قبضے کے بعد اسرائیلی حکومت نے اس کے احترام کی تحریری ضمانت القدس شریف اوقاف اور اقوام متحدہ کو تحریری شکل میں جمع کرائی ہے، جسے Status Que Maintenance Documentکا نام دیا گیا۔ دستاویز کے مطابق غیر مسلم زائرین کو القدس کمپائونڈ میں عبادت کی اجازت نہیں۔
یہودی انتہا پسندوں کے لیے القدس کمپائونڈ جبلِ بیتِ محترم (Har haBayit) یا ٹیمپل مائونٹ ہے۔ حالیہ حکومت کے انتہا پسند، Status Quoدستاویز کو منسوخ کردینا چاہتے ہیں اور اسی کے اظہار کے لیے بن گوئر نے گنبدِ صخرا کے سائے میں عبادت کی۔ لیکن دلچسپ بات کہ مسلمانوں سے زیادہ یہودی علما بن گوئر کی مذمت کررہے ہیں۔ یہودیوں کا کہنا ہے کہ 70 عیسوی میں یروشلم کی تباہی اور رومن بادشاہ Titusکے ہاتھوں ہیکل سلیمانی کے انہدام کے بعد نئے ہیکل کی تعمیر تک ٹیمپل مائونٹ یہودیوں کے لیے حرام اور اس کی حدود میں داخلہ گناہِ کبیرہ ہے۔ یہودی عقیدے کے مطابق ہیکل سلیمانی کی تعمیرِ نو کا مقدس فریضہ، نجات دہندہ المعروفHa-mashiach اپنے دستِ مبارک سے انجام دیں گے۔ یہودیوں کے یہاں نجات دہندہ حضرت عزیر ؑ یا حضرت دائودؑ کے نامزد کردہ خلیفہ ہوں گے، جبکہ مسیحیوں اور مسلمانوں کے خیال میں Messiah حضرت مسیح ؑہیں۔ ٹیمپل مائونٹ پر عبادت کے بارے میں بن گوئر کی شیخی سے قدامت پسند سخت مشتعل ہوگئے۔ کنیسہ(پارلیمان) میں تقریر کرتے ہوئے نیتن یاہو کی اتحادی جماعت Shasپارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیرداخلہ موشے اربل نے کہا ’’ٹیمپل مائونٹ پر عبادت کرکے حضرت سلیمانؑ کے خلاف جس مکروہ توہینِ رسالت (blasphemy) کا ارتکاب کیا گیا ہے اس پرخاموش نہیں رہا جاسکتا۔ اسی جماعت کے ایک اور رکنِ پارلیمان موشے گیفی نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ ٹیمپل مائونٹ میں یہودیوں کے داخلے پر مکمل پابندی لگائی جائے۔
جیسا کہ ہم پہلی کئی نشستوں میں عرض کرچکے ہیں کہ طاقت کے بہیمانہ استعمال کے باوجود اسرائیل غزہ میں اب تک کوئی عسکری ہدف حاصل نہیں کرسکا اور اسرائیلی مظالم کی داستانیں اور ناکامی کے قصے اب خود ان کے اپنے سپاہی بیان کررہے ہیں۔
مشہور امریکی جریدے گارجین کے ہفتہ وار رسالے Observerنے اپنی 27 جولائی کی اشاعت میں اسرائیلی سپاہیوں یووال گرین، طل وردی اور مائیکل اوفرزیو کی روداد شایع کی ہے جس میں ان تینوں نے اسرائیلی فوج کی غیر انسانی حرکتوں پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ غزہ جانے سے انکار کردیا ہے۔ یہ رپورٹ رسالے کی سینئر کالم نگار محترمہ روتھ مائیکلسن اور فوٹوگرافر کیئرزن بام (Quique Kierszenbaum) نے مرتب کی ہے۔کیئرزن بام صاحب ایک راسخ العقیدہ یہودی اور یروشلم کے رہائشی ہیں۔
یورال گرین نے جس کا تعلق طبی عملے سے ہے، خان یونس میں پچاس دن اسرائیلی فوج کے ساتھ گزارے۔ گرین ایک رضاکار فوجی ہے جو 7 اکتوبر کے حملے کی روح فرسا خبریں سن کر دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے غزہ آیا تھا، لیکن اسرائیلی فوج کے غیر انسانی رویّے اور مجرمانہ سرگرمیوں نے اسے بدظن کردیا۔ گرین نے بتایا کہ اسلحے کی تلاش کے لیے مارے جانے والے چھاپوں میں گھر سے قیمتی چیزیں بطور ’نشانی‘ اٹھالی جاتی ہیں۔ خواتین کے عرب نقاشی والے زیور اسرائیلی سپاہیوں کو بہت محبوب ہیں جو وہ نشانِِ بہادری کے طور پر اپنی بیویوں اور گرل فرینڈز کو روانہ کرتے ہیں۔ کئی گھروں کو کچھ نہ ملنے پر جھنجھلا کر جلادیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق معاملہ ان تین سپاہیوں تک محدود نہں۔گزشتہ ماہ رفح میں تعینات 41 رضاکار (Reserve) سپاہیوں نے فوج کے سربراہ کے نام کھلے خط میں کہا ہے کہ ان کا ضمیر غزہ آپریشن کا حصہ بنے رہنے کی اجازت نہیں دیتا۔ خط میں انھوں نے لکھا کہ ’’نصف سال سے ہم یہاں جنگ کررہے ہیں اور اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ فوجی کارروائی سے قیدیوں کو وطن واپس نہیں لایا جاسکتا۔ ہر گزرتا ہوا دن نہ صرف قیدیوں اور غزہ میں ہمارے فوجیوں کے لیے خطرات میں اضافہ کررہا ہے بلکہ شمالی سرحدوں پر رہنے والوں کی زندگی بھی مشکل میں پڑگئی ہے۔‘‘
اہلِ غزہ کو اسرائیلی حملوں کے ساتھ عرب دنیا کی جانب سے بھی منفی اشاروں کا سامنا ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی کے بعد پٹی کی بندر بانٹ کے لیے بات چیت فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ گزشتہ ہفتے ابوظہبی میں اسرائیل، امریکہ، متحدہ عرب امارات اور مصر کے اعلیٰ سطحی عسکری اہلکاروں کا اجلاس ہوا جس میں اسرائیلی فوج کی واپسی کے بعد پٹی کے عسکری و سیاسی بندوبست کو آخری شکل دی گئی۔
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔