اگر چہ خیر و شر کی جنگ قیامت تک جاری رہے گی، لیکن کائناتی سطح (Cosmic Plain) اور اصولی طور پر یہ جنگ معراج کے ساتھ ہی خیر کے حق میں فیصل ہوگئی اور اس حوالے سے ہر حجت تمام ہوگئی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کا واقعہ انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے۔ تمام رسولوں اور انبیاء کو معجزے عطا ہوئے۔ ان میں سے اکثر کے مقابلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق معجزات کی تعداد کم ہے، لیکن معراج کا واقعہ ہر معجزے سے بڑا معجزہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تفہیم میں عقل پرستوں ہی کو نہیں بعض اہلِ ایمان کو بھی دشواری ہوئی جن میں ہماری تاریخ کی عظیم ہستیاں بھی شامل ہیں۔ اگرچہ ہم نے خود یہ روایت نہیں پڑھی لیکن ایک صاحبِ علم راوی نے ہمیں بتایا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا گیا کہآیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج روحانی تھی یا جسمانی؟ اس سوال کا حضرت عائشہؓ نے یہ جواب دیا کہ رسول اکرم کی معراج روحانی تھی۔ اس سلسلے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جواب تو سب ہی کو معلوم ہے۔ آپؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی معراج پر یقینِ کامل رکھتے تھے، اور یہ روایت تو بہت معروف ہے کہ آپؓ معراج کی تصدیق کی وجہ ہی سے ’’صدیق‘‘ کے لقب سے سرفراز ہوئے تھے۔ تاہم مذکورہ روایت کے حوالے سے گمان ہے کہ سوال کرنے والے نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی رائے کی نوعیت ’’دریافت‘‘ کی ہوگی، اور صدیق اکبر کے جواب کے بعد ان کی رائے بدل گئی ہوگی۔ لیکن یہ گفتگو کا ایک الگ پہلو ہے۔
بلاشبہ معراج کا واقعہ حیرت انگیز محسوس ہوتا ہے، لیکن اس سفرِ مبارک کی دو کھلی نشانیاں اور دلائل ایسے ہیں کہ جنھیں پیش نظر رکھا جائے تو معراج کا واقعہ قطعی طور پر ناگزیر نظر آنے لگتا ہے اور جسمانی معراج کی حقیقت عیاں ہوجاتی ہے۔
ان نشانیوں میں سے پہلی نشانی ہبوطِ آدم یا زوالِ آدم کا واقعہ ہے۔ ہبوطِ آدم سے ایک کائناتی عدم توازن (Cosmic Imbalance) پیدا ہوا جو حضرت آدمؑ کی توبہ کی قبولیت سے بڑی حد تک رفع ہوگیا۔ لیکن یہ عدم توازن بہرحال باقی رہا اور اسے اپنی بحالی کے لیے ایک ایسی ذات کی حاجت لاحق رہی جو ایک جانب اس سلسلۂ نبوت کی خاتم ہو جس کا آغاز خود حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا تھا، اور دوسری جانب وہ بجائے خود انسانِ کامل ہو، تاکہ حضرت آدم علیہ السلام سے دنیا کے آخری انسان تک پوری نسلِِ انسانی کا فرضِ کفایہ ادا ہوسکے۔
حضرت آدم علیہ السلام کا زوال محض روحانی سطح پر نہیں تھا بلکہ اس کے نتیجے میں آپؑ کو جنت سے زمین پر بھیج دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اگر ہبوطِ آدم روحانی سطح پر ہوتا تو پھر حضور صلی اللہ وسلم کی معراج بھی روحانی ہوتی۔ لیکن چونکہ ہبوط جسمانی نوعیت کا بھی حامل تھا اس لیے سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا جسمانی معراج سے ہم کنار ہونا ناگزیر تھا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر معراج کا مفہوم یہ ہے کہ انسان نے اس ابتدائی حالت کو پھر بہ تمام و کمال حاصل کرلیا جس سے وہ اپنی غلطی کی وجہ سے محروم ہوا تھا، اور گویا اس طرح انسان اور کائنات کی تخلیق کا مقصد پورا ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری بعثت اور قیامت میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ اگر چہ خیر و شر کی جنگ قیامت تک جاری رہے گی، لیکن کائناتی سطح (Cosmic Plain) اور اصولی طور پر یہ جنگ معراج کے ساتھ ہی خیر کے حق میں فیصل ہوگئی اور اس حوالے سے ہر حجت تمام ہوگئی۔ اس بنیاد پر قیاس کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد قیامت تک جو وقت ہے وہ اُمتِ وسط کے امکانات کے اظہار اور خیر وشر کی جنگ کے جزوی فیصلوں کے لیے ہے۔
جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی معراج کا انکار کیا ہے اُن کی عظیم اکثریت نے اس انکار کے سلسلے میں قوانینِ فطرت کو بڑی اہمیت دی ہے، مثلاً آگ جلاتی ہے، پانی بھگوتا ہے۔ اس بنیاد پر بیچارے سرسید احمد خان نے جسمانی معراج ہی کا نہیں آتشِ نمرود کے گلزار بن جانے کا بھی انکار کیا ہے اور اس کی ایسی تاویل کی ہے کہ پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ قوانینِ فطرت موجود ہیں اور وہ اٹل بھی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ قوانین بنانے والا بھی ناگزیر طور پر ان قوانین کا پابند ہے۔ غور کیجیے تو اس سے اللہ تعالیٰ کے قادرِ مطلق ہونے کی حقیقت بری طرح مجروح ہوتی ہے۔ آخر جو خدا کسی چیز کا پابند ہوگا وہ قادرِ مطلق کیونکر کہلا سکتا ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے بعض وعدے کیے ہیں اور اس نے بعض اعلانات کررکھے ہیں ، اور یہ وعدے اور اعلانات ضرور پورے ہوں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے پورا ہونے کے سلسلے میں خود کو خود پابند کیا ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ برآمد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اُن وعدوں اور اعلانات کی بھی پابندی کرے گا جو اس نے کیے ہی نہیں۔ بلاشبہ قوانینِ فطرت موجود ہیں، لیکن قوانینِ فطرت کے سلسلے میں وقت کی اہمیت بنیادی ہے، اور وقت کا وجود وہاں ہے جہاں موجود اور ممکن میں فاصلہ ہے۔ جہاں موجود اور ممکن میں فاصلہ نہیں ہے وہاں وقت کا وجود بھی نہیں رہتا۔ اور جہاں وقت کا وجود نہ رہے وہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ عام انسان موجود کے اسیر رہتے ہیں، اُن میں سے بہت کم لوگ ممکن کی جانب بڑھتے ہیں۔ لیکن وہ موجود اور ممکن کی خلیج کو پاٹ نہیں پاتے۔ چنانچہ وقت ان پر اثرانداز رہتا ہے اور قوانینِ فطرت بھی۔ لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ میں موجود اور ممکن میں کوئی فرق، کوئی فاصلہ نہیں رہ گیا تھا، وہاں ممکن ہی موجود بن گیا تھا۔ نبوت اور رسالت اکتسابی چیز نہیں۔ یہ نعمت حاصل نہیں کی جاسکتی، یہ صرف عنایت کی جاتی رہی ہے۔ لیکن معراج رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے روحانی پہلو کا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشری پہلو کے ممکنات کی کاملیت کا نتیجہ تھی۔ ہبوطِ آدم کے سلسلے میں اس کی دلیل یہ بنتی ہے کہ ہبوطِ آدم بشری لغزش کا نتیجہ تھا، چنانچہ معراج کو بھی بشری کمال کا حامل ہونا چاہیے۔
موجود اور ممکن کی یہ بحث صرف معراج تک محدود نہیں، بلکہ عام انسانوں، یہاں تک کہ نباتات سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے۔ بیج ایک وجود ہے لیکن اس میں پورا درخت پوشیدہ ہے، لیکن موجود سے ممکن کا یہ سفر بعض لوازمات کی فراہمی سے مشروط ہے۔ بیج کو اپنی نشوونما کے لیے سازگار زمین، ہوا، پانی اور روشنی کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک خاص تناسب سے… اگر بیچ کو سازگار زمین فراہم ہوجائے، پانی میسر آتا رہے لیکن ہوا اور روشنی فراہم نہ ہو، یا کم فراہم ہو تو اس کے بہت سے ممکنات ظاہر نہیں ہوسکیں گے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو انسان کی زندگی میں وحی اور دین کی حیثیت ایک ناگزیر سفر کی ہے۔ اس کے بغیر انسان اور زندگی کے تمام ممکنات ظاہر نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے اور اس نے بہت سی چیزیں سب کے لیے مہیا کررکھی ہیں۔ ہوا اہلِ ایمان کے لیے ہی نہیں کافروں اور مشرکوں کے لیے بھی چلتی ہے۔ سورج نے اپنی روشنی کبھی ابوجہل سے بھی محفوظ نہیں رکھی۔ لیکن دین کا معاملہ شعوری ہے۔ آپ دین کو شعوری طور پر اختیار کریں تو اس کی روشنی آپ کو میسر آئے گی۔ یہ کوشش نہیں ہوگی تو آپ اس روشنی سے محروم رہیں گے۔ اس روشنی سے محرومی موجود اور ممکن کے درمیان بُعد اور فاصلہ پیدا کرتی ہے۔ بلاشبہ دنیا میں ایسے بہت سے عبقری ہوئے ہیں جو وحی کی روشنی سے محروم تھے، لیکن اس کے باوجود انھوں نے ایجادات و اختراعات کیں، قوانینِ فطرت دریافت کیے، بڑے بڑے نظریات وضع کیے۔ دیکھا جائے تو ایسے لوگوں کی مثال اُس درخت جیسی ہے جس نے دو شاخیں نکالیں مگر باقی شاخیں نہ نکال سکا۔ چنانچہ باقی ممکن شاخوں کی غذا اور نشوونما بھی دو شاخوں کے حصے میں آگئی جس سے وہ بہت پھل پھول گئیں لیکن اس کے باوجود یہ درخت ادھورا رہا۔ اور ادھورا پن خواہ کتنا ہی خوبصورت ہو اس میں ایک ازلی وابدی بدصورتی در آتی ہے۔ کلیّت بظاہر کیسی ہی سادہ یا غیر جاذبِ نظر کیوں نہ ہو، ازلی و ابدی خوبصورتی کا حصہ بن جاتی ہے۔