نجی بجلی گھروں کا ’’فراڈ‘‘ اور 40 خاندان

آئی پی پی کے 80 فیصدل مالکان پاکستانی ہیںسابق نگراں وفاقی وزیر گورہر اعجاز کا انکشاف

بجلی کے نرخوں کے خلاف جماعت اسلامی کا دھرنا، اور تمام صوبائی ہیڈ کوارٹر پر دھرنے سو فیصد نتیجہ لے کر اٹھیں گے۔ بجلی سستی ہوگی اور لوڈشیڈنگ سے بھی نجات ممکن ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہے کہ بہت سے ٹیکس غیر ضروری ہیں یا ایک ہی ٹیکس کئی کئی بار لیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ ختم ہوجائے اور حکومت توازن کے ساتھ بلنگ کرے تو صارفین کے لیے آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے اگر حکومت بجلی کے گھریلو بلوں پر 24، کمرشل بلوں پر 37 اور صنعتی بجلی بلوں پر 27 فیصد ٹیکس ختم کردے۔ اس وقت حکومت گھریلو صارف سے ساڑھے 7 فیصد، کمرشل سے 12 فیصد اور صنعتی صارف سے 5 فیصد ایڈوانس ٹیکس لے رہی ہے، پچھلے سال بجلی بلوں کے ذریعے 388 ارب روپے کا ٹیکس لیا گیا ہے، اِس سال 450 ارب روپے ٹیکس لینے کا ہدف ہے۔ صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کو چاہیے کہ بجلی بلوں سے تمام ٹیکس جولائی سے اکتوبر کے لیے ختم کردیں، اس سے آمدنی میں 450 ارب روپے کی کمی ہوگی۔ صوبوں کو 265 ارب اور وفاق کو 185 ارب روپے کم ملیں گے۔ حکومت کے پی ایس ڈی پی سے 185 ارب روپے کم کرنے سے آئی ایم ایف کی شرط پوری ہوجائے گی۔ پچھلے سال حکومت نے 705 ارب پی ایس ڈی پی پر خرچ کیے، اِس سال پی ایس ڈی پی 1400 ارب روپے ہے، حکومت کو چاہیے کہ پی ایس ڈی پی کو 965 ارب روپے تک لے آئے تو تمام صارفین کے بلوں سے ٹیکسوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی کرنے کا اشارہ دے دیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ آئی پی پیز کے کنٹریکٹ کا جائزہ لے رہے ہیں، جو ہمارے فائدے میں نہیں ہوں گے انہیں خیرباد کہہ دیں گے تاکہ عوام پر سے بوجھ ختم ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی کے معاہدوں پر یک طرفہ کارروائی نہیں کرسکتے، حکومتِ پاکستان نے آئی پی پیز کو گارنٹیز دے رکھی ہیں، ہم ایسی قوم ہیں جوعالمی معاہدوں کی پاسداری کرتی ہے۔

دوسری جانب سابق نگران وزیر گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر نئی نجکاری سے پہلے آئی پی پی سے معاہدوں کے حوالے سے قوم کو مطمئن کریں، پچھلے 2 سال میں 23 ہزار 400میگاواٹ پر مبنی آئی پی پیز کی پیداوار میں سے 50 فیصد سے بھی کم استعمال ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ 5ہزار میگا واٹ کے درآمدی کوئلے پر مبنی آئی پی پیز پاور پلانٹس نے گزشتہ 2 سال میں 25 فیصد سے بھی کم صلاحیت کا استعمال کیا، 25فیصد کم کیپیسٹی پر چلنے کے باوجود فل کیپیسٹی چارجز یعنی 692 ارب روپے لے رہے ہیں، ونڈ انرجی آپریشنز 50 فیصد سے کم ہیں لیکن فی یونٹ اضافی چارجز کے ساتھ 175ارب روپے، جب کہ آر ایل این کو 25 فیصد کم صلاحیت پر چلنے کے باوجود 180 ارب روپے دیے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قومی المیہ نہیں تو اور کیا ہے، ان معاہدوں کی وجہ سے پاکستان کے 24کروڑ لوگوں سے سالانہ 2 ہزار ارب وصول کیے گئے ہیں۔ پچھلے سال آئی پی پیز سے 1198ارب روپے کی بجلی خریدی گئی اور ادائیگیاں 3127ارب روپے کی گئیں۔

ایشیائی ترقیاتی بنک کے ایشین ڈویلپمنٹ آئوٹ لک میں پاکستان کی معاشی صورتِ حال کا جو منظرنامہ پیش کیا گیا ہے وہ حوصلہ افزا نہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق رواں مالی سال کے دوران ملک میں مہنگائی 15فیصد سے نیچے نہیں آئے گی جبکہ معاشی شرح نمو بھی 2.8 فیصد تک محدود رہے گی۔ یہی نہیں بلکہ اگلے 10سال تک ملکی معیشت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں آدھی رفتار سے آگے بڑھ سکے گی اور اس دوران قرضوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔

ایشیائی ترقیاتی بنک کی یہ رپورٹ حکومت کے لیے چشم کشا ہونی چاہیے۔ محض تخمینوں سے معاشی اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ حکومت کی موجودہ پالیسیوں میں نہ تو صنعتی شعبے کا فروغ شامل ہے اور نہ ہی زرعی شعبے کا۔ بجلی کے موجودہ نرخوں کی وجہ سے صنعتی پہیہ رواں رکھنا ناممکن ہوتا جارہا ہے جبکہ توانائی کی ناقابلِ برداشت قیمتوں کی وجہ سے چھوٹی، بڑی تمام صنعتیں بندش کا شکار ہیں۔ ملک میں صنعتی پہیہ بلاتعطل رواں رہے گا تب ہی عوام کو روزگار کے نئے مواقع میسر آئیں گے اور قوتِ خرید میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی کے اثرات کم ہوسکیں گے۔

انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسر(آئی پی پیز) سے متعلق اُنہوں نے کہا کہ 80 فیصد مالکان پاکستانی ہیں، اُن سے بات کرکے معاہدوں پر نظرثانی کرنا ہوگی، یہ چند سرمایہ داروں کی کمپنیاں ہیں جو قوم کو لوٹ رہی ہیں، کیپیسٹی چارجز اور پیٹرولیم لیوی برداشت نہیں کریں گے، بجلی کے بلوں نے بے کس عوام کی کمر توڑ دی ہے، حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ سگے بھائی ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں، ملک میں اِس وقت بجلی کی بڑھتی قیمتیں بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہیں۔

گوہر اعجاز نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام 106 آئی پی پیز کا ڈیٹا عام کیا جائے، قوم کو بتایا جائے کہ کس بجلی گھر نے اپنی صلاحیت کے مطابق کتنی بجلی پیدا کی؟ انہوں نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں اور ادائیگیوں پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ گزشتہ سال کے دوران آئی پی پیز کو 1.95 ٹریلین روپے کی ادائیگیاں کی گئیں جو کہ غلط معاہدات اور بدانتظامی کا نتیجہ ہیں۔ اِن معاہدوں نے صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں بے حد اضافہ کیا ہے، کچھ بجلی گھر حکومت کو 750 روپے فی یونٹ تک بجلی فروخت کررہے ہیں جبکہ کچھ کوئلے کے پلانٹس اوسطاً 200 روپے فی یونٹ، جبکہ ہوا اور شمسی توانائی پلانٹس 50 روپے فی یونٹ سے زیادہ قیمت پر بجلی بیچ رہے ہیں۔ گوہر اعجاز نے اِن معاہدوں کی غیر مؤثر کارکردگی کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئی پی پیز کو کم صلاحیت پر چلتے ہوئے بھی بھاری رقوم ادا کی جارہی ہیں۔ گوہر اعجاز نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اِن معاہدوں کو نہ صرف مذاکرات کے ذریعے دوبارہ طے کیا جائے اور تمام آئی پی پیز کو مرچنٹ پلانٹس کے طور پر رکھا جائے تاکہ بجلی صرف سستے فراہم کنندگان سے خریدی جائے، اِن غیر منصفانہ معاہدوں کے خلاف آواز بلند کرنا ضروری ہے تاکہ ملک کو مزید مالی بوجھ سے بچایا جا سکے، بجلی کی اصل قیمت 30 روپے فی یونٹ سے کم ہونی چاہیے، آئی پی پیز سے معاہدے کے نتیجے میں پاکستان میں عوام کو بجلی کا ایک یونٹ 65 روپے کا پڑ رہا ہے جس میں ہر ایک دو روز کے بعد اضافہ ہوجاتا ہے۔ افغانستان میں گھریلو صارفین کو بجلی کا ایک یونٹ 1.50 پاکستانی روپے میں پڑ رہا ہے، بھارت میں گھریلو صارفین کو ایک یونٹ 6 سے 9 روپے کے درمیان پڑتا ہے جبکہ کمرشل یونٹ کی قیمت 10 سے 20 روپے متعین کی گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک گھریلو یونٹ کی قیمت کم و بیش 20 روپے پاکستانی ہے۔ مذکورہ اعداد و شمار کے حساب سے جنوبی ایشیا میں سب سے مہنگی بجلی پاکستان میں ہے۔ بجلی کے بھاری بل ادا کرنا عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہوچکا ہے، بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ سے زیادہ اُن کا بِل آجاتا ہے۔

تنخواہ دار طبقہ بجلی کے علاوہ ٹیکس کے بوجھ تلے بھی دبا ہوا ہے، پاکستان میں تنخواہ دار طبقے کی آمدنی پر ٹیکس اس خطے کے ممالک سے 9.4 گنا زائد ہے۔ اِس وقت ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ بجلی کی قیمتوں اور مہنگائی پر قابو پایا جائے۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے اِس وقت گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔ ٹیکسٹائل ملز مالکان کو گھر بیٹھے گزشتہ 10 برس سے سستی گیس کی مد میں ماہانہ تقریباً 19 ارب روپے کی سبسڈی مل رہی ہے جو سالانہ 232 ارب روپے بنتی ہے۔ گزشتہ 10 برس میں ٹیکسٹائل مل مالکان کو سستی گیس کی مد میں دی گئی رعایت 2320 ارب روپے (9 ارب ڈالر) بنتی ہے۔ تقریباً اتنا ہی حکومت نے پچھلے 10 برس میں آئی ایم ایف سے قرض لیا ہے۔

لیکن یہ ایک رخ ہے، دوسرا رخ بھی سامنے آنا بہت ضروری ہے۔ ابصار عالم کا کہنا تھا کہ گوہر اعجاز نے بہت اچھا کام کیا، ڈیٹا بھی شیئر کیا، اگرچہ یہ کام وہ حکومت رہتے ہوئے نہیں کر پائے تھے، اس کی جو بھی وجہ ہو لیکن اس کا فائدہ عوام کو ہوگا۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ اس لوٹ مار کا حساب لینے کے لیے سپریم کورٹ جارہے ہیں اور اپنے پیسے سے فرانزک آڈٹ بھی کروائیں گے، 40 آئی پی پیز مالکان کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے حالانکہ 101 افراد نے بجلی کے کارخانے لگائے تھے، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ گوہر اعجاز صرف 40 کے خلاف کیوں عدالت جا رہے ہیں؟ وہ آدھا سچ بتا رہے ہیں اور آدھا چھپا رہے ہیں جو ٹیکسٹائل ملز مالکان کے بارے میں ہے، کیونکہ وہ خود بھی ٹیکسٹائل مل کے مالک ہیں۔ کیا ان کے منتخب کردہ 40 آئی پی پیز مالکان میں وہ ٹیکسٹائل ملز مالکان بھی شامل ہیں جنہوں نے کیپٹیو پاور پالیسی کے تحت پاور پلانٹس لگائے، پھر بجلی بیچی اور سستی گیس کی مد میں حکومت سے 2320 ارب روپے (9 ارب ڈالر) کی رعایت بھی حاصل کی۔ اس رعایت کا پس منظر بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئی پی پیز کے علاوہ کیپٹیو پاور پلانٹس مالکان کے ساتھ بھی معاہدہ کیا تھا۔ ٹیکسٹائل ملز مالکان کا دعویٰ تھا کہ ہمیں سستی گیس فراہم کریں، جس سے ہم بجلی بنا کر سستی اشیا تیار کریں گے اور عالمی منڈی میں ان اشیا کی قیمت کم ہونے پر ہمیں کثیر زرمبادلہ حاصل ہوگا۔ یہ معاہدہ تقریباً 10 برس قبل 2012-13ء میں ہوا تھا۔ اس دوران تمام بڑے ٹیکسٹائل ملز مالکان کو سستی گیس کی مد میں 1300 سے 1600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو والی گیس 686 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو میں فراہم کی گئی۔ حکومتی پاور پلانٹس کو بھی یہ گیس ایک ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو میں دی جاتی تھی۔ ٹیکسٹائل ملز مالکان کو گھر بیٹھے سستی گیس کی مد میں ماہانہ تقریباً 19 ارب روپے کی سبسڈی ملتی رہی جو سالانہ 232 ارب روپے بنتی ہے۔ 10 برسوں میں 2320 ارب روپے، یعنی 9 ارب ڈالرکا فائدہ۔ اتنا ہی حکومت نے پچھلے 10 برس میں آئی ایم ایف سے قرض لیا۔ اس دوران برآمدات بھی نہیں بڑھیں۔کیا سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز 40 آئی پی پیز مالکان کی طرح ان ٹیکسٹائل ملز مالکان کو بھی سپریم کورٹ میں لے کر جائیں گے؟ آئی پی پیز عوام کا خون نچوڑ رہی ہیں، اپنی لاگت سے دس گنا زیادہ کما چکیں، کئی آئی پی پیز چل ہی نہیں رہیں، کسی کو 25، کسی کو 20 اور کسی کو 10 ارب مل رہے ہیں۔ سینیٹ کمیٹی نے 5 آئی پی پیز کا بتایا جنہوں نے جعل سازی کی ہوئی تھی۔ جس آئی پی پی نے جعل سازی کی ہوئی ہے اسے پکڑیں، فرانزک آڈٹ کریں۔ 70 سے 80 فیصد آئی پی پیز مقامی ہیں۔ نیت درست ہو تو سب قابو میں آسکتے ہیں۔ یہ اظہر من الشمس حقیقت ہے کہ حکومتی اقتصادی و مالی پالیسیوں کے باعث مہنگائی در مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام ملک کے سسٹم اور اپنے مستقبل کے حوالے سے آج جتنے مضطرب ہیں، کسی بھی عہدِ حکمرانی میں ایسا عوامی اضطراب نہیں دیکھا گیا۔ اگرچہ عوام کے استعمال کی ہر چیز کے نرخوں میں گزشتہ دو سال کے دوران تین سے چار گنا اضافہ ہوا ہے مگر بجلی کے بلوں نے تو عوام کی زندہ رہنے کی سکت بھی چھین لی ہے۔ ان بلوں میں شامل معلوم اور نامعلوم ٹیکسوں سے بھی عوام عاجز آئے ہوئے تھے اور احتجاج کے راستے ڈھونڈ رہے تھے، جبکہ اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کا نیا بیل آئوٹ پیکیج لینے کی خاطر اس کی ہر کڑی شرط من وعن قبول کرلی اور ان شرائط کی بنیاد پر مہنگائی کے اٹھتے سونامی کا سارا رخ راندۂ درگاہ عوام کی جانب کردیا۔ اس کے برعکس حکمران اشرافیہ طبقات نے نہ صرف نئے ٹیکسوں اور مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کا بوجھ خود پر نہیں پڑنے دیا بلکہ وفاقی اور صوبائی میزانیوں میں اپنی پہلے سے حاصل مراعات بھی بڑھا لیں اور مزید مراعات بھی حاصل کرلیں جس پر مہنگائی کی چکی کے پاٹوں میں پسنے والے عوام کا اضطراب اور غصے کا اظہار فطری امر تھا۔ اسی ناآسودہ فضا میں جب بجلی کے نرخوں میں سلیبز کے حساب سے تواتر کے ساتھ بے انتہا اضافہ کیا جانے لگا اور ساتھ ہی ساتھ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بھی بجلی کے نرخ بڑھانے کا تسلسل برقرار رکھا گیا تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عوام نے نجی تھرمل پاور کمپنیوں کا سارا کچا چٹھا نکال کر اپنے غصے کا رخ ان کی جانب موڑ دیا۔ اسی فضا میں سابق نگران حکومت کے وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے پریس کانفرنس کرکے آئی پی پیز کی ساری تفصیلات عوام کے سامنے پیش کردیں، انہوں نے آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا بھی اعلان کردیا۔ یہ تفصیلات سامنے آنے کے بعد عوام مزید حیرت زدہ ہوئے کہ ان میں سے بیشتر آئی پی پیز کو بجلی پیدا نہ کرنے کے باوجود کیپیسٹی چارجز کی مد میں اربوں روپے دیے جا چکے ہیں جبکہ یہ کمپنیاں لوڈشیڈنگ میں اضافے کا بھی موجب بنی ہیں۔ یہ کمپنیاں کس کس کی ملکیت ہیں اور انہیں باقاعدہ معاہدوں کے تحت کس طرح اور کیونکر نوازا گیا، یہ سارے معاملات میڈیا کی فعالیت کے اس دور میں کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ ان کمپنیوں کے اللے تللوں کے برعکس عام آدمی بالخصوص تنخواہ دار، مزدور طبقات بجلی کے بل ادا کرنے کی سکت نہ رکھتے ہوئے خودکشی، خودسوزی اور اپنے پیاروں کو اپنے ہی ہاتھوں قتل کرنے پر اتر آئیں تو ایسا معاشرہ کسی بڑے انقلاب کا ہی متقاضی ہوجاتا ہے۔ ایسا انقلاب مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کے خلاف ہی برپا ہوتا ہے۔