بجلی کے ہوش ربا بلوں نے سیاسی بحران کو ریاستی بحران میں بدل دیا ہے
کیا واقعی حکمران طبقہ بند گلی میں داخل ہوچکا ہے اور اِس سیاسی بندوبست کو بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے؟ کیونکہ اسلام آباد میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس میں حکمران طبقے کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں، جس کا اظہار بہت سے وفاقی وزرا اور سیاسی پنڈت بھی کررہے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے بقول اکتوبر میں عدالتی فیصلے کے تحت انتخابات کا اعلان ہوسکتا ہے اور موجودہ حکومت کو گھر بھیجا جاسکتا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں ایمرجنسی، ٹیکنوکریٹ حکومت، مارشل لا اور نئے انتخابات کی باتیں بھی کی جارہی ہیں۔ عمران خان نے جیل سے پیغام دیا ہے کہ پارٹی نئے انتخابات کی تیاری کرے جو اِسی برس دسمبر میں ہوسکتے ہیں۔ جب کہ عمران خان کے اس پیغام کو جو انہوں نے آرمی چیف کو دیا ہے کہ وہ موجودہ صورتِ حال میں کسی پارٹی کی حمایت یا مخالفت کے بجائے خود کو نیوٹرل کرلیں اور سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے دیں، عمران خان کے سیاسی مخالفین سرینڈر کا نام دے رہے ہیںاور کہہ رہے ہیں کہ عمران خان خود کو ملٹری کورٹ بھیجے جانے کے فیصلے سے خوف زدہ ہیں اوراسی بنیاد پر انہوں نے فوج کو صلح کا پیغام دیا ہے۔ مگر کچھ لوگوں کے بقول اسلام آباد یا پنڈی میں جاری پسِ پردہ مختلف اہم لوگوں کی ملاقاتوں میں بہت کچھ طے ہورہا ہے اور اس حکومت کی جگہ ایک نئے بندوبست کی کوشش ہورہی ہے۔ وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ کے بقول ہمیں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ پر نظر رکھنی ہے کیونکہ ڈر ہے کہ عمران خان اپنے معاملات بڑوں سے طے کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے بھی ہورہا ہے کچھ لوگوں کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ اور شریف اور زرداری خاندان کے درمیان ہونے والا ’’لندن پلان‘‘ کی وہ اب قابلِ عمل نہیں رہا، کیونکہ اس کا جو بھی اسکرپٹ لکھا گیا تھا وہ باہمی بداعتمادی میں آگے نہیں بڑھ سکا۔ سب سے زیادہ مایوسی مسلم لیگ (ن) میں نظر آرہی ہے، اُن کو لگتا ہے کہ پارٹی سمیت حکومتی معاملات ہمارے ہاتھوں سے نکل رہے ہیں اور حکومتی معاملات پر ہماری گرفت خاصی کمزور ہوگئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض ذمہ داران نے شریف خاندان کو واضح پیغام دیا ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی اور جماعتی سطح پر ایسا ہی چلتا رہا تو ہمیں مستقبل میں اور زیادہ سیاسی تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نوازشریف کی پراسرار خاموشی نے بھی پارٹی کی سطح پر بے چینی پیدا کی ہوئی ہے۔ کئی بار اُن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ اب سرگرم ہونے والے ہیں اور پارٹی کی بھرپور انداز میں قیادت کریں گے، لیکن ایسا کچھ نہیں ہورہا۔ ان ہی صفحات پر پہلے بھی لکھا تھا کہ نوازشریف کو مایوس کرنا ایک منصوبے کا حصہ ہے، اور اگر ان کی جانب سے ریڈلائن کراس کی گئی تو ان کی بیٹی اور بھائی کو اقتدار سے علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔ نوازشریف کو ایک طرف خاندانی اقتدار اور دوسری طرف پارٹی کو بچانے کا چیلنج درپیش ہے۔ اسی کشمکش میں نوازشریف مری کے ہوکر رہ گئے ہیں اور کوئی بڑا فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ حال ہی میں اُن کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگایا کہ یہ لوگ لندن نوازشریف کے پاس گئے اور ان کے پائوں پکڑے کہ وہ پاکستان آکر عمران خان کے خلاف ہماری مدد کریں۔ اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میںکیپٹن(ر) صفدر کے بیان کو سخت ناپسند کیا گیا اور یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ انہوں نے یہ بیان کس کے کہنے پر دیا ہے اور کہیں اس کے تانے بانے نوازشریف اور مریم نوازسے تو نہیں ملتے! نوازشریف اور شہبازشریف کی سیاسی حکمت عملیوں پر اختلافات بھی نمایاں ہیں، اور آج کل شہبازشریف سے زیادہ مریم نواز خود کو اسٹیبلشمنٹ کا وفادار بنانے کے کھیل میں شامل ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو اہم عہدہ دینے اور ان کو لاہور میں لاکر بٹھانے کے پیچھے بھی مستقبل کی صف بندی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ حمزہ شہباز کا لاہور بیٹھنا اور انہیں وفاقی حکومت کی مدد حاصل ہونا یقینی طور پر مریم نواز کے لیے خود ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پی ٹی آئی پر سیاسی پابندی اور عمران خان، ڈاکٹر عارف علوی اور قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتوں کو بھی پارٹی کے اندر اور اتحادی جماعتوں کی سطح پر بھی پذیرائی نہیں مل سکی ہے۔ ایک خبر کے مطابق بعض دوست ممالک نے بھی حکومت کو یہی مشورہ دیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی پر پابندی اور غداری کے مقدمے سے خود کو دور رکھے کیونکہ اس فیصلے کو کسی بھی سطح پر داخلی یا خارجی قبولیت حاصل نہیں ہوگی۔ بروکنگ انسٹی ٹیوٹ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی کی وجہ حکومتی ناکامی نظر آتی ہے، اور وہ خود کو ایک گہری کھائی اور عدم تحفظ کا شکار محسوس کرتی ہے۔ اسی طرح جس طریقے سے عمران خان اور پی ٹی آئی کے لوگوں کو عدالتی ریلیف مل رہا ہے وہ بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے۔ حالانکہ حکومت ہو یا اسٹیبلشمنٹ، 9مئی کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں، اور بار بار کہا جاتا ہے کہ اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ حال ہی میں آئی ایس پی آر کے ترجمان کی پریس کانفرنس میں بھی پی ٹی آئی کو سخت پیغام دیا گیا تھا۔ مگر لاہور ہائی کورٹ نے9 مئی کے 12 مقدمات میں عمران خان کا ریمانڈ دینے کی درخواستوں کو کالعدم قرار دیا جو یقینی طور پر حکومت کے لیے اچھا پہلو نہیں۔ عدالت نے تحریری فیصلہ دیا ہے جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ حکومت اور پراسیکیوٹر ایک برس سے ان مقدمات میں کوئی ٹھوس گواہی یا ثبوت پیش نہیں کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں حکومت کی طرف سے عدالتوں اور مخصوص ججوں کے خلاف منفی مہم دیکھنے کو مل رہی ہے جس میں ججوں اور عدالتی فیصلوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، یا متنازع بنایا جارہاہے۔ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے پی ٹی آئی کی حمایت میں آنے والے فیصلے پر کسی سطح پر بھی عمل نہ ہوسکے۔ ویسے پی ٹی آئی یا عمران خان کا مسئلہ یہ مخصوص نشستیں نہیں ہیں، اور نہ ہی وہ ان میں دلچسپی رکھتے ہیں، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی ضد پر قائم رہے تاکہ اس سے ایک طرف توہینِ عدالت اور دوسری طرف اس کے نتیجے میں بڑا سیاسی بحران پیدا ہو۔ کیونکہ عمران خان فوری طور پر نئے انتخابات کے حامی ہیں جس کا واضح اشارہ بھی انہوں نے کردیا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اقتدار میں عملاً واپسی نئے انتخابات کی صورت میں ہی ہوسکتی ہے۔ پی ٹی آئی موجودہ سیاسی بحران سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھارہی ہے، اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی اور عمران خان فرنٹ لائن پر کھڑے ہیں اور ان کی، حکومت کی ناکامی کے باعث، مقبولیت بھی بڑھ رہی ہے۔ عمران خان اگرچہ جیل میں ہیں مگر وہی اس وقت طاقت کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور دائرۂ کار ان ہی کے گرد گھوم رہا ہے۔ اس لیے اس حکومت سے مفاہمت یا گرتی ہوئی حکومت کو ریلیف یا آکسیجن دینا عمران خان کے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے۔ خود پیپلزپارٹی کو بھی احساس ہے کہ اِس وقت مسلم لیگ (ن) کی سیاست ایک بوجھ ہے اور ہمیں اس بوجھ سے خود کو علیحدہ رکھنا ہے، یہی پالیسی ایم کیو ایم کی بھی لگتی ہے کہ ہمیں کھل کر حکومتی فیصلوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور چیف الیکشن کمشنر کے خلاف پی ٹی آئی جوڈیشل کمیشن سے رجوع کرچکی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کو اُن کے عہدے سے ہٹانے اور چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ پر عمران خان کے مقدموں میں عدم اعتماد کردیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کو لگتا ہے کہ چیف جسٹس کی مدت پوری ہونے اور نئے چیف جسٹس کی آمد پر پی ٹی آئی کے لیے حالات میں بہتری نظر آئے گی اور جو ممکنہ تبدیلی وہ دیکھ رہے ہیں اسے تقویت مل سکتی ہے۔ بالخصوص انتخابات کی شفافیت سے جڑی درخواست کو فوری سنا جائے گا تاکہ انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ سامنے آسکے۔ حکمرانوں کو پہلے ہی یہ خطرہ ہے کہ الیکشن ٹریبونل میں اُن کے خلاف فیصلے آسکتے ہیں، اور اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومت کی سیاسی اور قانونی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی، اور اس کا براہِ راست اثر نئے انتخابات کے مطالبے کی صورت میں سامنے آئے گا۔
بجلی کے بحران اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے بھی حکومتی مشکلات بڑھادی ہیں۔ خاص طور پر کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں اربوں روپوں کی ادائیگی پر عوام میں سخت غصہ ہے۔ سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز اس وقت آئی پی پیز کے معاہدوں کے خلاف مہم چلارہے ہیں، اُن کا مطالبہ ہے کہ ان معاہدوں کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے اور جو بھی ان معاہدوں کے ذمہ داران ہیں ان کا احتساب کیا جائے۔ اب گوہر اعجاز نے اعلان کیا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی آئی پی پیز کے معاہدوں کے خلاف سپریم کورٹ جارہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف عوامی مسائل اور بجلی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے خلاف جماعت اسلامی کا راولپنڈی اسلام آباد میں دھرنا ہے جس نے عملی طور پر اپوزیشن کی یاد تازہ کردی ہے، کیونکہ پی ٹی آئی جو حزبِ اختلاف کی ایک بڑی جماعت ہے اپنی داخلی مشکلات کی وجہ سے سیاسی بحران سے دوچار ہے۔ ایسے میں جماعت اسلامی نے لوگوں کو متوجہ کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس دھرنے کے نتیجے میں کیا کچھ ہوتا ہے، مگر ایک بات طے ہے کہ بجلی کا بحران محض بجلی کا بحران نہیں بلکہ اس نے مجموعی طور پر حکومتی اور ریاستی بحران کو بھی سنگین کردیا ہے۔ اس مسئلے کو اجاگر کرنے میں جماعت اسلامی کی کوشش قابلِ دید ہے، اور اب دیگر جماعتوں کو بھی بجلی کے مسئلے پر آواز اٹھانی ہوگی۔ جماعت اسلامی نے سب سے پہلے یہ مطالبہ کیا کہ ان آئی پی پیز کے معاہدوں کو پبلک کیا جائے، ان معاہدوں کا پوسٹ مارٹم ہو، اور اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے تاکہ ان معاہدوں میں جو لوگ بھی ملوث ہیں اُن کا کڑا احتساب ممکن ہوسکے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کی شرائط بڑھتی جارہی ہیں جس کا نتیجہ مزید مہنگائی کی صورت میں سامنے آرہا ہے جو حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ حکومت نے ابتدائی طور پر جماعت اسلامی کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی بھی بنائی ہے جس سے جماعت اسلامی کے مذاکرات ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی نے دھرنے کے تناظر میں دس نکاتی ایجنڈا بھی دیا ہے، اس میں خاص طور پر بجلی کی قیمتوں میں کمی کرنے، ٹیکس کم کرنے اور آئی پی پیز کے معاملات کو پبلک کرنے کے مطالبات شامل ہیں۔ ویسے اگر حکومتی سطح پر مذاکرات کرنے والی کمیٹی کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے معاملات کو ٹالنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن جماعت اسلامی نے واضح طور پر پیغام دیا ہے کہ ہم کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ جماعت اسلامی کا دھرنا ایک امید ہے، اس تحریک میں باقی جماعتوں سمیت عوام کو بھی حصہ دار بننا ہوگا۔ کیونکہ یہ تحریک جماعت اسلامی کی نہیں بلکہ پاکستان کی ہے، اور اس تحریک کی کامیابی پاکستان اور عوام کی ہی کامیابی ہوگی۔