پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب تو کئی عشروں سے جاری ہے تاہم اس میں بجلی کے فی یونٹ نرخوں میں اضافہ عوام کی زندگیاں کھانے لگا ہے۔ کہیں کوئی بھائی زیادہ بل آجانے پر اپنے ہی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے، کہیں کوئی خودکشی کررہا ہے، اور کہیں کوئی بے بس خاتون نہر میں چھلانگ لگانے پر مجبور ہورہی ہے۔ ایسے واقعات اب مسلسل بڑھنے لگے ہیں، بجلی کی قیمتوں میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، جس کی وجہ سے عوام کا جینا محال ہوچکا ہے، تاہم حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے ہیں، حکومتی وفد میں وفاقی وزیر عطا تارڑ، اویس لغاری، طارق فضل، امیر مقام اور وزیراعظم کے میڈیا کوآرڈینیٹر بدر شہباز شامل ہیں، جبکہ جماعت اسلامی کے وفد میں لیاقت بلوچ، امیرالعظیم، سید فراست شاہ اور نصر اللہ رندھاوا شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں بھی حکومت نے اپنے انتظامی اخراجات میں 25 فیصد اضافہ کیوں کیا؟ ایک نجی تھرمل پاور کمپنی ایسی ہے جس کا ایک یونٹ 750 روپے میں پڑتا ہے۔ حکومت بتائے کون سی مجبوریاں ہیں جو وہ آئی پی پیز سے بات نہیں کرتی؟ جبکہ کئی آئی پی پیز نے اپنی لاگت سے دس گنا زیادہ عوام سے نچوڑ لیا ہے۔ ایک طبقے کے لیے بجلی، گیس فری ہے، یہ کیا مذاق ہے کہ 36 قسم کے ٹیکس بجلی کے بل میں لگا دیے گئے ہیں۔ ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے، بس 25 کروڑ عوام پر یہ ظلم بند کرو۔ پاکستان کے لوگوں کو دھرنے کے شرکاء سے امیدیں ہیں، دھرنا جاری رہے گا، دھرنے میں شامل ہونے کے لیے جماعت اسلامی کے کارکن اور شہری جس مشکل سے اسلام آباد پہنچے یہ صرف وہی جانتے ہیں۔ دھرنے میں خواتین کی بہت بڑی تعداد شریک ہے، یہ خواتین بہت مشکل مرحلے سے گزر کر اسلام آباد اور راولپنڈی پہنچی ہیں، ان کے عزم اور جرأت کو سلام پیش کرنے کو دل کرتا ہے۔ دراصل حکومت کی بے حسی کے خلاف جماعت اسلامی میدان میں اتری ہے اور پہلے مرحلے میں ’’حق دو عوام کو، بدلو نظام کو‘‘ کے نعرے اور بینر تلے اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم حکومتی رکاوٹوں کے باعث یہ دھرنا راولپنڈی میں دیا گیا۔
سستی بجلی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ پانی ہے، ہمارے ملک میں ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے بارش کا کروڑوں کیوسک پانی ہر سال ضائع ہورہا ہے۔ پانی کہیں محفوظ کرلیا جائے تو زراعت کے کام بھی آسکتا ہے اور ہائیڈرو پاور جنریشن بھی ہوسکتی ہے۔ متبادل میں سولر اور ونڈ ہیں یا پھر کوئلہ۔ تیل سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں نے ملک کو اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ مہنگی بجلی اب دسترس سے باہر ہوچکی ہے۔
عوام کی مشکلات کے مستقل حل کے لیے جماعت اسلامی رائے عامہ کو منظم کررہی ہے جس کے لیے دھرنوں جیسی حکمت عملی اپنائی گئی ہے کیونکہ حکومت ٹس سے مس ہونے کو تیار دکھائی نہیں دے رہی۔ راولپنڈی میں دھرنا دیے جانے کے دوسرے روز حکومت اور جماعت اسلامی میں بات چیت کے لیے ابتدائی رابطہ ہوا، تیسرے روز مذاکرات شروع ہوئے، تجاویز کا تبادلہ کیا گیا۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی قیادت وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کی، کمشنر راولپنڈی اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی حسن وقار چیمہ بھی حکومتی وفد کے ہمراہ تھے۔ جماعت اسلامی کی 4 رکنی مذاکراتی ٹیم نے نائب امیر لیاقت بلوچ کی سربراہی میں مذاکرات کیے۔ مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے تک جماعت اسلامی ’’حق دو عوام کو، بدلو نظام کو‘‘ تحریک جاری رکھے گی۔ جماعت اسلامی کی تحریک وقت کی ضرورت ہے کیونکہ حکومت نے 5جولائی کو ایک سال میں چوتھی بار بجلی کے نرخوں میں اضافے کا جو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، اس کی روشنی میں اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اپریل 2022ء سے ملک میں فی یونٹ بجلی کی اوسط قیمت میں 18روپے کا اضافہ ہوچکا ہے جس کے تحت کم سے کم ٹیرف 29 روپے33 پیسے اور زیادہ سے زیادہ76روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر تنخواہ دارنچلے اور درمیانے طبقے پر پڑا ہے جس کی اجرت بجلی کے بلوں سے بھی کم ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت بجلی کی قیمتوں میں طوفانی اضافے کے بعد صنعتوں سے لے کر گھریلو صارفین تک بجلی کا استعمال ایک ڈرائونا خواب بن چکا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ 1990ء کی دہائی میں بجلی کی قلت پر قابو پانے کے لیے شارٹ کٹ اختیار کرنے کے شوق میں قوم کے گلے میں بجلی کا پھندا ایسا فٹ کیا گیا ہے کہ اب ’’نہ پائے رفتن، نہ جانے ماندن‘‘ والا معاملہ ہوچکا ہے، گھریلو صارفین اپنی کُل آمدنی سے بھی زیادہ بل ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور انڈسٹری اس قیمت پر بجلی خرید کر مارکیٹ میں مقابلہ کرنے سے قاصر ہے، نتیجہ یہ ہے کہ صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت میں موجود آئی پی پیز مافیا نے حکومت کو ایسا چکر دیا کہ نہ صرف 35ہزار ارب کی اضافی ادائیگیوں کا معاملہ صرفِ نظر ہوگیا بلکہ معاہدے میں تبدیلی کرکے ٹیرف میں کمی کی شق ہی غائب کردی گئی۔
آئی پی پیز قوم کو تین طرح سے لوٹ رہی ہیں: (1) ابتدائی معاہدوں میں شامل کیپیسٹی پیمنٹ کی شق کا فائدہ اٹھاکر بند پاورپلانٹس بھی سیکڑوں ارب لوٹ رہے ہیں، (2) بار بار بجلی کے نرخ بڑھا کر، (3) پاکستان میں لگے ہوئے تقریباً تمام پاور پلانٹس 1950ء کی دہائی کے ہیں، جو اپنی طبعی مدت پوری کرچکے ہیں اور اس وقت بے پناہ فیول خرچ کرکے معمولی پیداوار دے رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ قوم فی یونٹ 24روپے اضافی دینے پر مجبور ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے آئی پی پیز کے ساتھ ظالمانہ معاہدے ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے راولپنڈی میں دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ اپنے گھروں اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر سڑکوں پر آنا کسی کی خواہش نہیں ہوتی، لیکن جب حکمران طبقہ سارے راستے بند کردے تو لوگ مجبوراً احتجاج کرتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ جہاں جمہوری آزادی نہ ہو، لوگوں کو کوئی ریلیف نہ مل رہا ہو، پارلیمنٹ اپنے حصے کا کام نہ کرے، نیپرا جیسی ریگولیٹری اتھارٹیز کا کام صرف یہ رہ گیا ہو کہ حکومت کے ہر حکم پر اسٹیمپ لگانی ہے، ایسی صورتِ حال پُرامن سیاسی مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ یہ احتجاج اور مزاحمت بھی آئین اور قانون کے مطابق ہے۔ امیر جماعت اسلامی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا آئین ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنی آواز بلند کرنے کے لیے دھرنا دے سکتے اور احتجاج کرسکتے ہیں، اور یہ صرف جماعت اسلامی کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کے 25 کروڑ لوگوں کا مسئلہ ہے، یہ ہر گھر کا مسئلہ ہے جہاں بجلی کے بل بم بن کر گررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے غریبوں کا جینا محال کردیا ہے، آپ اندازہ لگائیں کہ چھوٹے گھروں میں رہنے والوں کے بجلی کے بل اُن کے کرایوں سے بھی زیادہ آتے ہوں تو وہ کیسے ادا کریں گے؟ بچوں کی تعلیم اور علاج کے لیے پیسے کہاں سے لائیں گے؟ حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ حکومت نے مزدور کی کم سے کم اجرت 37 ہزار روپے رکھی ہے، شہبازشریف ان پیسوں میں ایک چھوٹے سے گھر میں رہنے والے غریب آدمی کا بجٹ بناکردکھادیں کہ وہ کیسے گزارا کرے گا! کیسے گیس اور بجلی کے بل ادا کرے گا؟ گیس نہیں ہوگی تو اسے ایل پی جی لانی پڑے گی۔ امیر جماعت اسلامی نے مزید کہا کہ ایسی صورتِ حال میں غریب آدمی کیا کرے؟ وہ چوری کرے، ڈاکہ ڈالے یا پھر منشیات کا عادی بن کر خود کو دنیا سے الگ تھلگ کرلے یا پھر خودکشی کرلے! لیکن ان غریبوں کے پاس ایک راستہ ہے، وہ اس سیاسی مزاحمت میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں وکلا سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ شامل ہوں جو ہر تحریک میں ڈٹ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ علمائے کرام سے بھی کہتا ہوں جن کی یہ دینی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو مظالم کے خلاف مزاحمت سے آگاہ کریں۔ سول سوسائٹی، تاجروں، صنعت کاروں سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ سب اس تحریک کا حصہ بن جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری تحریک کا جو بنیادی مقصد ہے، ہم نے اس کے مطالبات پیش کردیے ہیں، جس کے مطابق بجلی کی قیمت میں ہر صورت میں کمی ہونی چاہیے، ظالمانہ ٹیکسوں کا نظام ان بلوں سے ہٹایا جائے، تنخواہ دار لوگوں کا جو سلیب سسٹم نافذ ہے، وہ ایک ظلم ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے مزید کہا کہ آئی پی پیز کا ایک الگ ہی دھندا ہے، ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے چھپائے گئے، کئی گنا بڑھاکر کیپیسٹی چارجز وصول کیے گئے، اور پتا چلتا ہے کہ اس میں حکمران طبقے کے لوگ ہی موجود ہیں۔ ہم وہ پیسے ادا کررہے ہیں جس کی بجلی ہم خرچ ہی نہیں کررہے، ایسے میں معیشت کیسے ٹھیک ہوگی؟
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے دھرنے سے قبل اسلام آباد میں دھرنے میں شریک ہونے کے لیے آنے والے شرکاء سے خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ہم ڈی چوک ضرور جائیں گے، ابھی پلان بی پر عمل کررہے ہیں۔ ’’میں نے اسلام آباد آنے کا کہا تھا اور ہم آگئے ہیں، اس تحریک میں ہم کو پُرامن رہنا ہے۔ ابھی ہم نے پلان بی کے پہلے حصے پر عمل کیا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’دھرنا ختم نہیں ہوگا بلکہ ابھی تو آغاز ہے۔ فارم 47 کی پیداوار حکومت نے آج فسطائیت کی انتہا کی ہے‘‘۔ اسلام آباد کے سیکٹر آئی ایٹ کے بعد ایکسپریس وے پر حافظ نعیم الرحمٰن نے دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ ایک عظیم مقصد کے لیے یہاں آئے ہیں۔ ظلم کا یہ نظام 77سال سے ہم پر مسلط ہے، اس کے ہر چلانے والے نے لوگوں پر مزید ظلم کیا ہے، بجلی کے بم پھینکتے ہیں، بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں ’’آئی پی پیز‘‘ کو مسلط کرکے رکھا ہے اور پاکستان کے ہزاروں ارب روپے ہر سال کھا جاتے ہیں، مل کر لوٹ مار کرتے ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سب یہاں پر اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو انصاف دلانے کے لیے آئے ہیں، حق دلانے کے لیے آئے ہیں، آپ نے دو ہی دن میں برسوں کا سیاسی سفر طے کر لیا ہے اور اب پورا پاکستان آپ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فارم 47 کی پیداوار حکومت نے ہمارے دفاتر پر چھاپے مارے، ہمارے کارکنوں اور رہنمائوں کے گھروں پر پہنچے، انہیں گرفتار کیا اور اسلام آباد آنے والے سیکڑوں کارکنان کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، میں حکومت کو متنبہ کررہا ہوں کہ ہم پُرامن لوگ ہیں لیکن ہمارے کارکنوں کو رہا کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف تم ہم پر بجلی کے بم گراتے ہو، آئی پی پی مافیا کو ہم پر مسلط کرتے ہو، اور جب ہم آواز اٹھائیں تو اپنی حکومتی فسطائیت کا مظاہرہ کرتے ہو۔ عوام کا جماعت اسلامی پر اعتماد بڑھ رہا ہے اور اب یہ سیلاب رکنے والا نہیں ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے کارکنوں کو پولیس سے نہ لڑنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم پولیس والوں سے نہیں لڑیں گے، پولیس والے تو خود اپنے افسران سے پریشان ہیں، حکومت کے محکموں سے پریشان ہیں، ہمارے دھرنے کی وجہ سے دو تین دن سے ان کی ڈیوٹیاں لگی ہوئی ہیں، اس لیے آپ کو ان سے نہیں لڑنا، اور میں پولیس والوں اور اُن کے افسروں سے کہتا ہوں کہ آپ بھی ہمارے راستے میں رکاوٹ نہ بنیں، ہم پُرامن سیاسی مزاحمت پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس تحریک میں پُرامن رہنا ہے کیونکہ یہ سازش کریں گے اور امن کو خراب کرکے ایشوز سے توجہ ہٹانے کی کوشش کریں گے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ پلان بی کے دوسرے مرحلے کے تحت ہم مری روڈ پر پہنچ کر اپنی قوت کو مجتمع کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ریلیف لینے کے لیے آئے ہیں، یہ بجلی کی قیمت کم کردیں، آئی پی پیز کو بند کرنے کا طے کرلیں، تنخواہ دار طبقے کے لیے سلیب سسٹم ختم کردیں، پیٹرول پر لیوی ختم کردیں، آٹا، چینی، چاول، دالوں اور بچوں کے دودھ پر ٹیکس ختم کردیں تو ہم دھرنا ختم کردیں گے، ہمیں دھرنا دینے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ جب یہ نہیں مانیں گے تو ہم بھی اپنا راستہ نہیں چھوڑیں گے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ احتجاج ہمارا حق ہے، گرفتار کارکن رہا کیے جائیں۔ دھرنے کا ابھی آغاز ہوا ہے، اِن شا اللہ ہم یہی رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف آئی پی پیز ہم پر مسلط کرتے ہیں اوپر سے گرفتاریاں بھی کرتے ہو، یہ دھرنے کا اختتام یا ٹھیرائو نہیں بلکہ ابتدا ہے، ہم مختلف جگہوں پر بیٹھیں گے، پورے پاکستان میں دھرنے دیں گے، ہمارا اگلا پڑاؤ مری روڈ ہے، اگلا لائحہ عمل وہاں بتائوں گا۔
اس سے قبل اسلام آباد جانے والے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور وفاقی دارالحکومت کو مکمل طور پر بند کیے جانے کے بعد جماعت اسلامی نے دھرنے کے حوالے سے پلان بی منظرعام پر لاتے ہوئے شہر کے تین مختلف مقامات پر دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا۔ مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف جماعت اسلامی نے دھرنا دیا تو شرکاء کا جوش و خروش مسلسل بڑھتا رہا۔ دھرنے میں طلبہ، مزدوروں، دکان داروں، تاجروں کے علاوہ خواتین کی بہت بڑی تعداد شریک ہوئی، جماعت اسلامی کے دھرنے میں شرکت کے لیے بیرونِ شہر سے آنے والے قافلوں میں نوجوانوں کے علاوہ بزرگ شہریوں کی بھی بہت بڑی تعداد شامل تھی۔ جماعت اسلامی پاکستان حلقہ خواتین بھرپور طور پر فعال رہا، اس کی کوششوں سے دھرنے میں خواتین کی بہت بڑی تعداد شریک ہوئی، خواتین کے لیے الگ سے پنڈال بنایا گیا ہے، خواتین کی شرکت کے لیے جماعت اسلامی حلقہ خواتین ہمہ وقت پوری طرح متحرک رہا۔ اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے دھرنے کی کال کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت پنجاب بھر میں پولیس نے بدترین کریک ڈائون کرکے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت پنجاب بھر سے جماعت اسلامی کے دو ہزار سے زائد کارکن گرفتار کرلیے گئے۔ اسلام آباد میں سارا دن جماعت اسلامی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان آنکھ مچولی ہوتی رہی، جماعت اسلامی کے دھرنے میں شریک ہونے کے لیے آنے والے قافلوں میں شامل کارکنوں کو پولیس نے محاصرہ کرکے گرفتار کیا، ایکسپریس وے سے ڈی چوک آنے والے 13کارکنا ن کوگرفتارکرلیا گیا۔ ڈی چوک آنے والے راستوں کو پولیس و انتظامیہ نے کنٹینر لگا کر بند کردیا۔ شہر کے داخلی راستوں پر بھی کنٹینر رکھ دیے گئے ہیں جبکہ شہر کی اہم شاہراہوں اور چوراہوں پر ٹریفک کے لیے صرف ایک لائن کھلی رکھی گئی ہے۔ فیض آباد پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی، جبکہ واٹر کینن اور آنسو گیس سے لیس پولیس نفری بھی فیض آباد پہنچا دی گئی۔ پولیس لائنز سے آنسو گیس کے 10 ہزار شیل فراہم کیے گئے، زیرو پوائنٹ پل کے نیچے دو لینز کھول کر باقی کنٹینر لگا دیے گئے۔ مقامی انتظامیہ نے تین سرکاری اسپتالوں کے سربراہان کو شعبہ ایمرجنسی سوموار تک ہائی الرٹ رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ پولیس نے مختلف شہروں میں کریک ڈاؤن کرکے متعدد رہنماؤں اور کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔ اسلام آباد میں دھرنے کے لیے پہنچنے والے قافلے سے پانچ کارکنان کو حراست میں لے لیا گیا، جبکہ ڈی چوک سے دو کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔ لاہور کے مختلف علاقوں میں ساٹھ سے زائد مقامات پر چھاپے مارے گئے۔ پولیس کے مطابق جماعت اسلامی کے متعدد کارکنوں کو بھی مختلف مقامات سے حراست میں لیا گیا۔ جنوبی پنجاب سے جماعت اسلامی کے پندرہ سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ اٹک میں بھی پولیس نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے اور بارہ عہدیداروں و کارکنان کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔ جماعت اسلامی کے ضلعی نائب امیر ناصر اقبال کو بھی گھر سے گرفتار کیا گیا۔ لاہور میں پولیس نے 60 سے زائد مقامات پر چھاپے مارے۔ اس صورتِ حال پر امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ عوام کی طاقت کو کنٹینر سے نہیں روکا جا سکتا۔ بہرحال تمام تر حالات اور رکاوٹوں کو عبور کرکے راولپنڈی کے لیاقت باغ کے سامنے مری روڈ پر جماعت اسلامی کے دھرنے میں شرکاء بڑی تعداد میں جمع ہوگئے تھے۔ دوسرے روز دھرنے کی انتظامیہ کی جانب سے شرکاء کے لیے ناشتے کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ تیسرے روز اتوار کی شام کو فقیدالمثال جلسہ ہوا۔ دھرنے کے دوران شرکاء پُرامن رہے، اور لیاقت باغ کے اطراف کی آبادیوں کے علاوہ مری روڈ کے تاجروں، دکان داروں کو بھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ جماعت اسلامی پاکستان نے دھرنے کے لیے 12 جولائی کی تاریخ دی تھی، لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر تاریخ تبدیل کی گئی۔ جماعت اسلامی کی دھرنے کی اپیل کے بعد حکومت میں ہلچل مچ گئی تھی اور سیاسی حلقوں میں بھی اس اعلان کو بہت اہمیت دی گئی، متعدد مسلم ممالک کی پاکستان میں موجود سفارتی ٹیمیں بھی جماعت اسلامی کے دھرنے کو غیر معمولی سیاسی سرگرمی کے طور پر دیکھتی رہیں، اس کی تفصیلات فی الحال بیان نہیں کی جاسکتیں، تاہم یہ بات جماعت اسلامی کے سیاسی وزن اور اخلاقی اہمیت کے اعتبار سے غیر معمولی قرار دی جاسکتی ہے۔
جماعت اسلامی کا دھرناعوام کے لیے امید ہے اور لوگ جماعت اسلامی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ہم بجلی بل اور آئی پی پیز تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اس پورے نظام کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ ان کا یہ اعلان وقت کی ضرورت ہے۔ یہ دھرنا امید کا چراغ روشن کرے گا اور مایوسی کو ختم کردے گا۔
امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ یہ بھیڑئیے آئی پی پیز کے نام پر خون چوستے ہیں اور یہ دھرنا اُن کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کررہا ہے، پاکستان کے چپے چپے کے عوام امید لگائے بیٹھے ہیں۔ حکومت نے دھرنے سے قبل راستے بند کرکے جماعت اسلامی کو روکنے اور ہمارے کارکنان کو ایمانداری سے کام کرنے والے پولیس اہلکار سے لڑانے کی کوشش کی، مگر ہم نے اس منصوبے کو ناکام بنادیا کیونکہ پولیس والا بھی اب بجلی کا بل ادا نہیں کرپارہا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے مذموم مقاصد پورے نہیں ہونے دیے اور امن کو ترجیح دی، کشیدگی کو روکنے کے لیے ہم نے ایک دھرنے کو تین دھرنوں میں تقسیم کیا جبکہ ڈی چوک پر بھی دھرنا ہوچکا اور اُس میں حکومت راستے بند کرکے ہمارے کارکنان کو گرفتار کرکے شکست کھا چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے جدوجہد کو ترجیح دی ہے اور اب حق لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ وزیر اعظم اور وزرا اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ وہ کمیٹی بنائیں اور ہم دھرنا مؤخر کردیں۔مذاکرات اور دھرنا ساتھ ساتھ چلیں گے، اگر ٹال مٹول سے کام لیا تو پھر ہم پیش رفت کریں گے اور اسلام آباد میں پہنچ کر پارلیمنٹ پہنچیں گے۔ اپنے دس نکاتی مطالبات سے کسی طور پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ’’ہم پُرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے، آئین اور قانون کے مطابق اپنا سیاسی حق استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے 25 کروڑ لوگوں کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ ہم 16، 17 کروڑ نوجوانوں کا مقدمہ لڑ رہے ہیں، جنہیں اس حکمران طبقے نے اپنے اور اپنے ملک کے مستقبل سے مایوس کیا ہے۔ لہٰذا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اس پورے مسئلے پر امید کے چراغ جلائیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں یہ مواقع ہونے چاہئیں کہ ہمارے نوجوانوں کو تعلیم ملے، روزگار ملے اور ان کے لیے ایک روشن مستقبل ہو۔
جماعت اسلامی کا دھرناعوام کے لیے امید ہے اور لوگ جماعت اسلامی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ہم بجلی بل اور آئی پی پیز تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اس پورے نظام کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ ان کا یہ اعلان وقت کی ضرورت ہے۔ یہ دھرنا امید کا چراغ روشن کرے گا اور مایوسی کو ختم کردے گا۔