پاکستان آج شدید معاشی اور سیاسی بے حسی کے دوہرے بحران کا سامنا کررہا ہے۔ معاشی بدحالی، آئی ایم ایف کی سخت شرائط، آئی پی پیز کے متنازع معاہدات، بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے اور ایٹمی اثاثہ جات کی حفاظت کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خدشات نے عوام کو شدید بے چینی میں مبتلا کردیا ہے۔
خبر کے مطابق غیر ملکی کمپنیوں نے اپنی سرمایہ کاری سے بھی زیادہ منافع ملک سے باہر منتقل کردیا ہے۔ مالی سال 2023-24ء کے دوران غیر ملکی کمپنیوں نے 2 ارب 21 کروڑ ڈالر کا منافع پاکستان سے باہر منتقل کیا، جبکہ اسی دوران 1.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ غیر ملکی منافع کی منتقلی 6 سال کی بلند سطح پر پہنچ گئی ہے۔
دوسری جانب شہرِ قائد کے لیے بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ کے الیکٹرک کی جانب سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافے کی درخواست دی گئی ہے، جس کا اثر مئی اور جون کے ماہانہ ایف سی اے پر پڑے گا۔ یہ اضافے عوام کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنیں گے، جبکہ حکومت کی طرف سے بجلی کی بڑھتی قیمتوں اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ نے عوام پر اضافی بوجھ ڈالا ہے۔
اسی طرح پاکستان میں آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدے معاشی دہشت گردی کا نمونہ بن چکے ہیں۔ سابق نگران وزیر گوہر اعجاز کے مطابق، جنوری سے مارچ 2024ء کے دوران آئی پی پیز کو ماہانہ 150 ارب روپے ادا کیے گئے، جبکہ ان میں سے آدھے 10 فیصد سے بھی کم کیپیسٹی پر چل رہے ہیں۔
دوسری طرف قوم دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ دن دونی رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔ شاہانہ اخراجات، گاڑیوں کی خریداری، اور افسر شاہی کے لیے بجلی کی مفت فراہمی جیسے اقدامات عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔
پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا، قائداعظم نے دوراندیشی کی بنیاد پر ایک ایسے ملک کی قیادت کی تھی جسے دور تک جانا تھا اور قیادت کرنی تھی، اور ایک نظریے کی بنیاد پر ہی برصغیر کے مسلمانوں کو انہوں نے ایک قوم میں ڈھالا تھا۔ یہی نظریہ تھا جس نے پاکستان کو تاریخ کے عدم سے وجود میں لاکر دکھایا اور قائداعظم کو برطانوی طاقت کے ساتھ معرکہ آرائی کے قابل بنایا۔ اس نظریے کی طاقت نے پاکستان کو ایک مضبوط اور مستحکم بنیاد فراہم کی تھی۔
مگر افسوس کہ آج پاکستان اس نظریے کے اصل مقصد سے ہٹ کر شدید معاشی بحران اور سیاسی، سماجی، معاشی انتشار کا شکار ہے۔ وجہ صاف ہے کہ ملک نظریاتی قوت اور قائدانہ صلاحیت کے حامل لوگوں سے محروم ہے۔
مفاد پرست سیاست دانوں اور جرنیلوں نے بیرونی قوتوں کی آشیرباد سے ملک پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس پاکستان کو علامہ اقبال اور قائداعظم کے ویژن کے مطابق دنیا کے لیے ایک نظریاتی نمونہ بننا تھا، وہ معاشی موشگافیوں میں الجھ چکا ہے۔ اس صورتِ حال میں ہمارا صرف معاشی قتل نہیں ہوا بلکہ نظریاتی استحصال بھی جاری ہے۔ اس وقت ملک میں بے یقینی اور مایوسی کا عالم ہے، اور عسکری و سیاسی قیادت ملکی مسائل کو نظرانداز کررہی ہے۔
ایسے میں جماعت اسلامی کا دھرنا امید کی کرن بن کر سامنے آیا ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت میں جماعت اسلامی نے بجلی کی قیمتوں، آئی پی پیز، اور مہنگائی کے خلاف آواز اُٹھائی ہے۔ یہ دھرنا عوام کی آواز ہے اور حکومت کو عوام کی مشکلات کو سنجیدگی سے لینے کا پیغام دیتا ہے۔ اس کا مقصد حکومت کو فوری اور مؤثر اقدامات کرنے پر مجبور کرکے عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہے، لیکن اس دوران حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ دھرنے کی کامیابی کے بعد قومی مزاحمتی تحریک شروع کریں گے۔ یہ بات بہت اہم ہے جس کی پاکستان کو ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ جمہوری بالادستی، آزادیِ اظہارِ رائے، الیکشن ریفارمز، لینڈ ریفارمز، صحت و تعلیم سمیت خواتین کا جائداد میں حصہ یقینی بنانے کا ایجنڈا بھی قومی مزاحمتی تحریک کا حصہ ہوگا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کا آج بھی اپنی اصل کی طرف سفر شروع ہوسکتا ہے، تاریخ میں کئی قومیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے معاشی اور معاشرتی بحرانوں کا سامنا کیا، لیکن پُرعزم رہنماؤں کی قیادت میں دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوئیں۔ جرمنی، جنوبی کوریا، چین، اور جاپان کی مثالیں زیادہ دور کی بات نہیں، کہ مشکلات کے باوجود، عزم اور محنت کے ذریعے ترقی ممکن ہے۔
جنوبی کوریا نے کوریا کی جنگ کے بعد شدید غربت کا سامنا کیا، لیکن پارک چنگ ہی کی قیادت میں صنعتی ترقی اور اقتصادی پالیسیوں کے ذریعے ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔ چین نے 1978ء میں ڈینگ ژیاؤپنگ کی قیادت میں اقتصادی اصلاحات کے ذریعے ترقی کی بلندیوں کو چھوا۔ جاپان نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اقتصادی ترقی کے منصوبے بنائے اور تیز رفتار ترقی کی، اور اپنے مقصدِ حیات کے مطابق تبدیل ہوا، وہ آج معاشی لحاظ سے چند مضبوط ملکوں میں سے ہے۔
ہمیں تکمیلِ پاکستان کی تحریک کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں اپنے نظریے کی قوت کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا اور اپنے اصل مقصد اسلامی پاکستان کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔ ورنہ ہمارے لیے مشکلات کا سامنا کرنا اور بھی مشکل ہوجائے گا۔ ہمیں مل کر ایک نئی سمت اختیار کرنی ہوگی تاکہ نہ صرف معاشی بدحالی سے نکل سکیں بلکہ اپنے نظریاتی مقصد کو بھی حاصل کرسکیں جس کے بغیر ہم قائداعظم کے پاکستان کو آگے نہیں لے جاسکتے۔
(اے اے سید)