دستوری حکومت

حضرت ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
”اس گھر کی مثال جس میں اللہ عزوجل کو یاد کیا جاتا اور اس گھر کی مثال
جس میں اللہ عزوجل کو یادنہیں کیا جاتا زندہ اور مردہ کی طرح ہے“۔
(مسلم ،کتاب صَلوٰۃ الْمسَافِر و قصرِھَا )

خلافت ِ راشدہ کی پہلی بنیاد یہ ہے کہ اس کا نظامِ حکومت شخصی نہیں، دستوری تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا کے تمام معلوم سیاسی نظام بادشاہی کی بنیاد پر قائم تھے یا شخصی آمریت کی۔ آپؐ نے جو نظامِ حکومت قائم کیا وہ شخصی بنیاد کے بجاے قانون کی بالادستی اور ایک معین دستور کی حکومت کی اساس پر تھا۔ اس میں نہ شہنشاہیت کی گنجایش تھی اور نہ آمریت کی، نہ خاندان پرستی تھی اور نہ شخصیت پرستی کی۔ حاکمیت کے اصل اختیارات اللہ تعالیٰ کو حاصل تھے اور اس کا عطا کردہ، قانون مملکت کا قانون تھا۔ امیر اور غریب اور اپنے اور پرائے سب اس قانون کے تابع تھے اور کوئی اس سے سرمو انحراف نہ کرسکتا تھا۔ یہی چیز ہے جس کا اظہار حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پہلے خطبہ میں فرمایا ہے:’’لوگو! میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں حالانکہ تم لوگوں میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں فلاح و بہبود کے کام کروں تو میری امداد کرنا ورنہ اصلاح کردینا۔ میں خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرنا لیکن خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے‘‘۔

پھر حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کو روانہ کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا: ’’میرا مقام صرف متبع کا ہے، میں بہرحال کو ئی نئی راہ نکالنے والا نہیں ہوں۔ پس اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر استوار ہوں تو میری پیروی کرنا اور اگر اس راہ سے ہٹ جائوں تو مجھے راہِ راست پر لے آنا‘‘۔

یہاں دستوری حکومت کا نقشہ پیش کیا جا رہا ہے۔ امیر جو کچھ چاہے وہ کرنے کے لیے آزاد نہیں ہے۔ وہ خود ایک قانون کا پابند ہے اور اس کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ اس قانون کو نافذ کرے۔ یہی قانون خود اس کے اُوپر بھی قائم ہوتا ہے اور یہی تمام مسلمانوں پر بھی۔ وہ لوگوں پر اپنی مرضی تھوپنے کا حق دار نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس حقیقت کو اس طرح ادا کیا ہے:’’ایک حاکم کو سب سے زیادہ اہتمام کے ساتھ لوگوں کے اندر جو چیز دیکھنی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو حقوق و فرائض ان پر عائد ہوتے ہیں ان کو وہ ادا کر رہے ہیں یا نہیں۔ ہمارا فرض صرف یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو جس اطاعت کا حکم دیا ہے اس کا حکم دیں، اور جس نافرمانی سے روکا ہے اس سے روکیں‘‘۔

امیر اپنی ذات میں مطاع نہیں ہوتا۔ اس کی اطاعت صرف اس لیے ہوتی ہے کہ وہ شریعت کو قائم کرنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ریاست کا بنیادی اصول ہے کہ اطاعت صرف معروف میں ہے منکر میں نہیں، اور یہ اصول شخصی حکومت کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔

قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ (المائدہ ۵:۱)معاونت کرو نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں اور تعاون نہ کرو گناہ اور برائی کے کاموں میں۔

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
اسلامی حکومت کے اصحاب امر کی اطاعت واجب ہے جب تک کہ وہ خدا اور رسولؐ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں۔ اور جب خدا اور رسولؐ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر نہ سننا ہے اور نہ ماننا ہے۔

پھر امیر اس قانون کو صرف اوروں ہی پر نافذ نہیں کرتا بلکہ خود اپنے اوپر بھی نافذ کرتا ہے اور خود بھی اس کی اس طرح اطاعت کرتا ہے جس طرح کہ دوسروں سے کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

حضرت عمرؓ نے اس بات کو اس طرح بیان فرمایا ہے: ’’میں ایک عام مسلمان اور ایک کمزور بندہ ہوں۔ صرف اللہ تعالیٰ کی مدد کا مجھے بھروسا ہے۔ میں جس منصب پر مقرر کیا گیا ہوں ان شاء اللہ وہ میری طبیعت میں ذرّہ برابر بھی تغیر پیدا نہیں کرسکے گا۔ بزرگی اور بڑائی جتنی بھی ہے سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ بندوں کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں۔ تم میں سے کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ عمرخلیفہ بن کر کچھ سے کچھ ہوگیا۔ میں اپنی ذات سے بھی حق وصول کرلوں گا اور جس معاملے میں ضرورت ہوگی خود بڑھ کر صفائی پیش کروں گا۔ میں تمھارے اندر کا ایک آدمی ہوں، تمھاری بہبود مجھے عزیز ہے، تمھاری خفگی مجھ پر گراں ہے اور جو امانت میرے سپرد کی گئی ہے مجھے اس کی جواب دہی کرنی ہے‘‘۔

خلافت ِ راشدہ کی یہی دستوری نوعیت ہے جس کی وجہ سے امیر کو بیت المال پر بے قید تصرف کا اختیار نہیں۔ وہ اس کو استعمال کرنے کا تو مجاز ہے مگر اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ شریعت کے احکام کے مطابق۔ خلافت ِ راشدہ میں نہ امیرخود اپنے اُوپر بیت المال کی رقم کو بے محابا خرچ کرسکتا ہے اور نہ دوسروں کے اُوپر۔ اس اصول کو حضرت عمرؓ نے اس طرح بیان کیا ہے: ’’میں نے اپنے لیے اللہ کے اس مال کو یتیم کے مال کے درجے پر رکھا ہے۔ اگر میں اس سے مستغنی ہوں گا تو اس کے لینے سے احتراز کروں گا اور اگر حاجت مند ہوں گا تو دستور کے مطابق اس سے اپنی ضرورتیں پوری کروں گا‘‘۔

یہی حال حضرت علیؓ کا تھا جو بیت المال سے بے جا طور پر نہ خود ایک پیسہ لیتے تھے اور نہ کسی دوست اور رشتہ دار کو دیتے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے یہ گوارا کرلیا کہ بہت سے لوگ خواہ ان سے کٹ کر دمشق کے اصحابِ اقتدار سے جاملیں لیکن یہ گوارا نہ کیا کہ کسی کو ایک پائی بھی بغیر حق دے دیں۔

خلافت ِ راشدہ کے دور میں اگر کوئی شخص بیت المال کی کوئی رقم غلط خرچ کرتا تھا تو اس پر سخت کارروائی کی جاتی تھی اور حضرت عمرؓ نے تو حضرت خالد بن ولیدؓ جیسے جرنیل تک کو ۱۰ہزار درہم غلط طور پر استعمال کرنے کے جرم میں معزول کردیا تھا۔
یہ ساری بحث ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ خلافت ِ راشدہ کی پہلی بنیاد یہ تھی کہ حکومت شخصی نہیں دستوری ہے، اور دستورعمل کی حیثیت خدا کی نازل کردہ شریعت کو حاصل ہے جس کی اطاعت امیرومامور سب کو کرنی ہے اور جس کی اطاعت سے انحراف کے بعد کوئی طاقت باقی نہیں رہتی ہے۔ اس اصول نے آمریت کے خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا، اور قانون کی حکمرانی کے اس دور کا آغا ز کیا جس کا اصول یہ تھا کہ ’’خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدؐبھی چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ قلم کردیا جائے گا“۔
( اقتباس، تبدیلی کی سمت اور منزل مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست| مارچ ۲۰۱۲ | اشارات)