ایک ملک کا سیاسی نظام اُس کے باشندوں کی اخلاقی اور ذہنی حالت کا پرتو ہوا کرتا ہے۔ اب پاکستان کے باشندے اسلام کی طرف ایک پُرزور میلان رکھتے ہیں اور اُن کے اندر اسلام کے راستے پر آگے بڑھنے کی خواہش موجود ہے تو کیوں نا اُن کی قومی ریاست اُن کے اِس میلان اور اِس خواہش کا پرتو ہو؟ آپ کا یہ ارشاد بھی بالکل درست ہے کہ اگر ہم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں پاکستان کے باشندوں میں اسلامی شعور، اسلامی ذہنیت اور اسلامی اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مگر میں نہیں سمجھا کہ اس کوشش میں حصہ لینے سے آپ خود ریاست کو کیوں مستثنیٰ رکھنا چاہتے ہیں…. اس وقت چونکہ پاکستان کا آئندہ نظام زیرتشکیل ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ایسی ریاست بن جائے جو اسلامی زندگی کی معمار بن سکے۔ ہماری یہ خواہش اگر پوری ہوگئی تو ریاست کے وسیع ذرائع اور طاقتوں کو استعمال کرکے پاکستان کے باشندوں میں ذہنی اور اخلاقی انقلاب برپا کرنا بہت زیادہ آسان ہوجائے گا۔ پھر جس نسبت سے ہمارا معاشرہ بدلتا جائے گا اُسی نسبت سے ہماری ریاست بھی ایک مکمل اسلامی ریاست بنتی چلی جائے گی۔
(’پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے‘، سیدابوالاعلیٰ مودودی، ریڈیو انٹرویو: وجیہ الدین، ترجمان القرآن، جلد36، عدد 4، شوال 1370ھ، اگست 1951ء، ص64-70)