اپنی پونچھ پکڑنے کی کوشش

’غلطی ہائے مضامین‘ پکڑنے کی کوشش میں ہم اوروں کی پونچھ پکڑتے رہے۔ اپنی پونچھ پکڑنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ پونچھ مختصر ہو اور دسترس سے دُور ہو تو اپنی پونچھ پکڑنا ایسا ہی ہے جیسے اپنے دانتوں سے اپنا کان پکڑنے کی کوشش۔ ایک وفادار جانور کو، جس پر پطرس مرحوم سیر حاصل مضمون لکھ چکے ہیں، ہمارے قارئین نے اکثر اپنی پونچھ پکڑنے کے چکر میں چکراتے دیکھا ہوگا۔ قارئین بے چارے بس یہی سب تو دیکھتے رہتے ہیں۔ جو کچھ دکھائے چرخ، سو ناچار دیکھنا۔ مگر خواہ کتنے چکر کھائے، اپنی پونچھ وہ بھی نہ پکڑ پائے۔ دوسروں کی پونچھ پکڑنا پہلے آسان کام سمجھا جاتا تھا، مگر اب یہ کام بھی خاصا خطرناک ہوتا جارہا ہے۔ غلطی سے بھی کسی کی پونچھ پکڑ لیجیے تو وہ فوراً اپنی مونچھ پکڑ لیتا ہے اور دکھا دکھا کر اُن پر تاؤ دینے لگتا ہے۔

ہمارے ہاں پونچھ کی جگہ فارسی لفظ دُم استعمال ہوتا ہے۔ پونچھ ہندی لفظ ہے۔ ہندوستان میں پونچھ والوں کی بڑی پوچھ ہے۔ وہ تو ’’اہلِ پونچھ‘‘ کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ گئو ماتا ہوں، ہنومان جی ہوں یا گنیش سرکار… سب اپنی اپنی پونچھ سمیت پوجے جاتے ہیں۔ پونچھ کو پونچھلا یا پُچھلّابھی کہا جاتا ہے۔ ہماری پنجابی زبان میں اسے پونچھل یا پچّھل کہتے ہیں۔ پونچھ کی تصغیر ’پونچھڑی‘ ہوتی تھی۔ اب شاید نہیں ہوتی۔ اُردو کے شعرا میںغالباً اپنی پونچھ استعمال کرنے کا رواج نہیں ہے۔ مگر ہماری اس رائے پر ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی ایسے بھڑکے جیسے ہم نے اُن کی پونچھ پر پاؤں رکھ دیا ہو۔ فرمایا:

’’رواج کیسے ہو؟ فیضؔ صاحب نے خود عاشق کی (یعنی اپنی) اس محرومی پر گریہ فرمایا ہے کہ: یاں نام و نسب کی پونچھ کہاں؟‘‘

ہمارے بچپن میں ایک پہیلی پوچھی جاتی تھی: ’’اتنے سے ٹِلّو میاں، اتنی بڑی پونچھ… جہاں جائیں ٹِلّو میاں وہاں جائے پونچھ … سَٹک گئے ٹِلّومیاں، اٹک گئی پونچھ‘‘۔ اگر آپ بُوجھ بُجھکّڑ یا ’پُونچھ بجھکڑ‘ ہیں توذرا یہ پہیلی بُوجھ کر بتائیے۔ (سَٹک جانا= چپکے سے نکل جانا، کھسک لینا) ہمارے لڑکپن میں ہمارے بزرگ ہماری زبان کی لڑکھڑاہٹ سے لطف اندوز ہونے کو ہمیں ایک فقرہ لکھ کر دیا کرتے تھے۔ کہتے تھے اس فقرے کو ذرا جلدی جلدی پڑھ کر سناؤ، مگر غلطی نہ ہونے پائے۔ آپ سے بھی یہی گزارش ہے۔ کالم تو ان شاء اللہ اٹک اٹک کر آپ آگے بھی پڑھ لیں گے۔ فی الحال ذرا یہیں رُک کر اِس فقرے کو تیزی سے دو تین بار پڑھ کرسنائیے:

’’کچھ اونٹ اونچا، کچھ پیٹھ اونچی، کچھ اونچی اونٹ کی پونچھ‘‘۔

لوجی! بات اپنی پونچھ پکڑنے سے چلی تھی، اور لگے ہم اونٹ کی پونچھ پکڑنے۔

اللہ سلامت رکھے، محترم ندیم صدیقی صاحب ممبئی (بھارت) سے ہمیں اکثر فون کرلیا کرتے ہیں۔ آپ صاحبِ تصنیف ادیب ہیں، کالم نگار ہیں، نقاد ہیں، ماہر زبان ہیں، اُردو شاعری کے حسن و قبح پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں کے ہم چشم رہے ہیں۔ جیسا عبور اُن کو اُردو زبان پر ہے اور جیسا اعلیٰ شعری ذوق وہ رکھتے ہیں، ایسے لوگ اب خال خال ہی ملتے ہیں۔ بلکہ خال تو کسی نہ کسی گال پر مل ہی جاتا ہے، ایسے شائستہ لوگ نہیں ملتے۔ ندیم صدیقی صاحب سے گفتگو کرکے علم میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور فرحت میں بھی۔ اللہ انھیں خوش رکھے ان سے بات کرکے طبیعت خوش ہوجاتی ہے۔

گزشتے جمعے کو بھی اُن کا فون آیا۔ خیر و عافیت دریافت کرنے کے بعد چند چیزیں مزید دریافت کیں۔ اُن کا یہی دل کش انداز تو مارے ڈالتا ہے۔ کبھی اغلاط کی راست نشان دہی نہیں کرتے۔ بس کچھ پوچھ لیتے ہیں۔ عقل مند را اِشارہ کافی است، بشرطے کہ وہ مرد ہو۔ کیوں کہ خواتین سے اشارے بازی خطرناک اور مذموم فعل ہے۔ اُن کے پوچھنے پر ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ کچھ بھول ہوئی ہے۔ اُس روز بھی بس ایک سوال کیا پھر ہماری دل جوئی کے لیے نہایت اعلیٰ درجے کے کچھ اشعار سنائے۔ اشعار کے فنّی محاسن بھی بتائے۔ سوال اُن کا یہ تھا کہ آپ نے اپنے کالم میں ’’محفلِ مذاکرہ‘‘ کیوں لکھا ہے؟ تب ہمیں خیال آیا کہ ’مذاکرہ‘ تو خود ایک محفل ہے جس میں دو یا دو سے زائد افراد بات چیت کرتے ہیں، اظہارِ خیال کرتے ہیں اور بعض اوقات تبادلۂ خیال بھی کرلیتے ہیں یعنی ایک دوسرے سے اپنے اپنے خیالات بدل کر ’خیال بدل بھائی‘ بن جاتے ہیں کہ آپ اپنے پاکیزہ خیالات مجھے دے دیں اور بے شک میرے بے ہودہ خیالات اپنے پاس رکھ لیں۔ غرض یہ کہ ’مذاکرہ‘ کے ساتھ ’محفل‘ حرفِ زائد ہے۔ کچھ غلطیاں ہم عادتاً کرتے ہیں۔ یعنی اس وجہ سے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ عادت لگی ہوئی۔ مشاعرہ، مسالمہ اور مقاصدہ وغیرہ بھی ’محافل‘ ہی ہیں، ان کے ساتھ ’محفل‘ کا لفظ اضافی ہوگا۔ ’مشاعرہ‘ وہ محفل ہے جس میں شعرا اپنے اپنے اشعار سناتے ہیں۔ دوسروں کے سنائیں تو سرقے کے جرم میں پکڑے جائیں۔ ’مسالمہ‘ وہ محفل ہے جس میں سلام پڑھا جاتا ہے، اور ’مقاصدہ‘ وہ کہ جس محفل میں قصیدہ خوانی ہوتی ہو۔ اس کے باوجود زبانوں پر محفلِ مشاعرہ، محفلِ مسالمہ اور محفلِ مقاصدہ چڑھا ہوا ہے۔ اتفاق کی بات کہ اگلے ہی روز ایک ’محفلِ عقد‘ میں عربی ادب کے مدرس و عالم پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمٰن عاصم سے ملاقات ہوگئی۔ باتوں باتوں میں زوائد کا ذکر آگیا۔ پروفیسر صاحب مسکرائے، کہنے لگے: عربی ادب میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ مگر اس سے اصرار یا تاکید مراد ہوتی ہے۔ مثلاً: ’’فَعَلْتَ اَنْتَ؟‘‘ خیر، عربی ادب کے رموز اہلِ عربی ادب جانیں۔ ہم ’بیر بہوٹیاں‘ یہ کیا جانیں۔

پچھلے کالم میں ایک فقرہ ہم یہ بھی لکھ گئے تھے کہ ’’… اور کس سے’تُو‘ کہہ کر تُوتکار کرنی ہے‘‘۔ ارے صاحِب! یہاں تُو کہنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ ’تو تکار‘ کا مفہوم ہی یہ ہے کہ اب دونوں طرف سے ’’تُو ہی تُو‘ ہوگی۔ ’تُو تڑاق‘ کا مطلب بھی غالباً یہی ہے۔ شبہ ہو تو کرکے دیکھ لیجیے۔

بعض زوائد بہ آسانی پکڑے جاتے ہیں۔ ایک خبر کی یہ سطر دیکھیے: ’’اس موقع پر فوج کے سپہ سالار کو پھولوں کا گُل دستہ پیش کیا گیا‘‘۔

ہمارے ہاں فوج کے علاوہ فرقوں کی ’سپاہ‘ بھی پائی جاتی ہیں (مع پشت پناہ کے)، چناں چہ یہ وضاحت ضروری سمجھی گئی کہ سپہ سالار ’فوج‘ کا تھا، سپاہِ صحابہؓ یا سپاہِ محمدؐ کا نہیں تھا۔ مہمانِ معظم کی توقیرِ مزید کے لیے توضیح کردی گئی کہ ’گُل دستہ‘ پھولوں ہی کا تھا خدانخواستہ کانٹوں کا گُل دستہ نہیں پیش کیا گیا تھا۔ اب یہ الگ بات ’’کہ ’اُن‘ نے شوقِ گُل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی‘‘۔ تو اس میں میزبانوں کا کیا قصور؟

قصور تو اُن کا بھی نہیں جو اپنی بنائی ہوئی خبروں میں روزانہ ’جیل خانہ‘ اور ’مذبح خانہ‘ لکھ رہے ہیں۔ اُنھیں اُن کے سالاروں نے کچھ سکھایا ہی نہیں۔ بھئی ’مرغی خانہ‘ مرغیاں رکھنے کی جگہ کو کہتے ہیں، ’مردہ خانہ ‘ لاشیں رکھنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور ’کتب خانہ‘ کتابیں رکھنے کی جگہ کو۔ ’جیل خانہ‘ کیا ہوتا ہے؟ جیل تو خود ایک خانہ (گھر) ہے لہٰذا ’جیل‘ لکھ دینا کافی ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ ’جیل خانہ‘ لکھنے پر مصر ہوں اُن کو عملی سبق کے لیے جیل بھیج دینا چاہیے۔ امید ہے کہ (اگر واپسی ہوئی تو) آیندہ کبھی بھولے سے بھی’جیل خانہ‘ نہیں لکھیں گے۔

’مذبح‘ کا مطلب ہے ’ذبح کرنے کی جگہ‘۔ یہاں بھی ’خانہ‘ خواہ مخواہ لگا دیا گیا ہے۔ حشو و زوائد سے تعلق رکھنے والی غلطیاں بار بار سمجھانے پر بھی ’’دوبارہ repeat‘‘ کی جانے لگتی ہیں۔ زوائد تو اور بھی بہت سے ہیں۔ کیا کیا مثال پیش کریں۔ ہاں آج ہمارے کالم میں کوئی شعر نہیں آیا۔ چوں کہ آج حشوو زوائد پر بات ہورہی ہے تو اخترالایمان کی نظم ’’شیشے کا آدمی‘‘ کا پہلا شعر بلکہ پہلا مصرع ہی پڑھ کر دیکھ لیجے کہ زوائدکے معاملے میں ’’بڑے بڑوں کے قدم لڑکھڑائے ہیں کیاکیا‘‘۔ اختر الایمان ہمیں حکم دیتے ہیں:

اُٹھاؤ ہاتھ کہ دستِ دُعا بلند کریں
ہماری عمر کا اِک اور دن تمام ہوا

شاعر تو فرمان جاری کرکے (1996ء میں) تمام ہوگیا۔ کس سے پوچھیں کہ ’ہاتھ اُٹھانے‘ کے بعد جو چیز بلند کرنی ہے، وہ کیا ہے؟