قائداعظم رائٹرز گلڈ پاکستان کے زیر اہتما م ’’مرحومین قلم کار یادگاری بکس ایوارڈز‘‘

قائداعظم رائٹرزگلڈ پاکستان کے زیراہتمام شیخ زاید اسلامک ریسرچ سینٹر کے آڈیٹوریم میں سابق گورنر سندھ، سابق وفاقی وزیر داخلہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل معین الدین حیدر کی زیر صدار ت ’’مرحومین قلم کار یادگاری ایوارڈز‘‘کی تقسیم کی تقریب کا انعقاد ہوا، جس میںگلوبل اسلامک مشن امریکہ کے چیئرمین اور تقریب کے سرپرستِ اعلیٰ ڈاکٹر مسعود احمد اشرفی سہروردی نے خصوصی خطاب کیا۔ گلڈ کے صدر جلیس سلاسل نے خطبہِ بسم اللہ پیش کیا اور ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی نے نظامت کی۔ مشا بنتِ عارف نے سورہ القلم کی تلاوت اور ترجمہ پیش کیا۔ پروگرام آرگنائزنگ کمیٹی کے چیئرمین محمد حلیم انصاری نے تقریب کے تمام انتظامات کیے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے اپنی صدارتی تقریر میں فرمایا ’’قلم کار ریاست کو زندہ رکھتا ہے۔ مصنفوں کی اسی طرح حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، ان ایوارڈز کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ اسلامی تعلیمات کے فروغ کے ذریعے ہی ہم اعلیٰ قوموں میں شمار ہوسکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ دین کو سمجھیں اور اس پر خلوصِ دل سے عمل کریں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’میں فوجی آدمی ہوں اور آپ لوگوں کی طرح کتابیں لکھنا چاہتا ہوں، آپ لوگ میری رہنمائی کریں۔‘‘

ڈاکٹر مسعود احمد اشرفی نے کہا ’’قرآن کے پیغام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ کا انعام پانے والوں کے نقوشِ قدم پر چلنا پڑے گا۔ آج دنیاکو صرف دینِ اسلام کی ضرورت ہے، اسلام کی حقیقی روح سے دنیا کو روشناس کرانا آپ قلم کاروں کا ہی فرض ہے۔ میں نے اسلام کے فروغ کے لیے تقریباًً پوری دنیا کا سفر کیا ہے۔ غیر مسلموں کو اسلام سے روشناس کروانے کے لیے میری کتاب، جسے قائداعظم رائٹرز گلڈ نے ایوارڈ سے نوازا ہے، کا 19 زبانوںمیں ترجمہ ہوچکا ہے۔ دنیائے اسلام میں اسلام تو ہے لیکن مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ اخلاقیات سے بالکل عاری ہیں۔ انہوں نے صرف عبادات کا نام اسلام رکھ دیا ہے۔ آپ قلم کار حساس دل رکھتے ہیں، ایک دوسرے کی نیک کاموں میں مدد کریں۔‘‘

قائداعظم رائٹرز گلڈ کے صدر جلیس سلاسل نے جنرل(ر) معین الدین حیدر کے گلڈ سے پچیس سالہ تعلق اور اُن کی جانب سے حوصلہ افزائی کی تفصیلات کے بعد اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ’’میں ان صاحبانِ کتب کو جو محب وطن اور محب اسلام ہیں خواہ وہ اس تقریب میں موجود نہ بھی ہوں، اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، ویسے تو وہ مجھ سے زیادہ خود بھی آگاہی رکھتے ہوں گے، کہ پاکستان کے معاشرے میں افراد اور بالخصوص نوجوان طلبہ و طالبات کو قرآن کے فلاحی قوانین سے روشناس کرائیں، اس لیے کہ اس کے بغیر معاشرے میں امن پیدا ہوگا نہ ہی وطنِ عزیز مستحکم ہوگا، اور عدالتِ عظمیٰ، عدالتِ عالیہ و ضلعی عدالتوں کو آگاہی دیں تاکہ قوم کے اعلیٰ و ادنیٰ ہر فرد کو انصاف مل سکے۔ میں نے ڈھائی سال قرآن کے فلاحی قوانین کی تحقیق و تدوین کی جو پانچ سو آیات سے زائد پر محیط ہے۔ میں ان تمام قلم کاروں کو واٹس ایپ اور ای میل کے ذریعے فراہم کرسکتا ہوں۔ اگرقلم کار اس کارِخیر میں شریک ہوں گے تو ان کے لیے یہ صدقہِ جاریہ ہوگا‘‘۔

قبل ازیں قائداعظم رائٹرز گلڈ کی سیکریٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی نے بتایا کہ قائداعظم رائٹرز گلڈ 33 سال قبل قائم ہوئی تھی۔ اس کی سو سے زیادہ تقریبات ہوچکی ہیں۔ آج اس کے تحت 55 کتابوں کو ایوارڈز دیے جارہے ہیں، اور ان کتب کا انتخاب بھی 55ججوں نے بارہ سال کی مطبوعہ کتب سے کیا ہے۔ ججوں میں پانچ مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، دس مختلف یونیورسٹیوں کے ڈین، دس یونیورسٹیوں کے شعبوں کے سربراہ، چار ایڈیٹرز اور ایک جنرل شامل ہیں۔ یہ ایوارڈز قومی سطح پر دیے جارہے ہیں۔ ایوارڈ یافتگان اور جسٹس پینل کے اراکین بھی صرف کراچی سے نہیں بلکہ ان میں ملک کے دیگر شہروں اور دیگر ملکوں میں بسنے والے پاکستانی بھی شامل ہیں۔ اپنی نوعیت کی یہ منفرد تقریب صرف قائداعظم رائٹرز گلڈ نے ہی منعقد کی ہے۔‘‘

واضح رہے کہ یہ ایوارڈز جن مرحومین قلم کاروں کے ناموں سے منسوب ہیں وہ تحریکِ پاکستان اور تعمیر پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی عظیم شخصیات ہیں۔