آزاد فلسطینی ریاست ناقابلِ قبول ہے، اسرائیلی کنیسہ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے پر رضامند؟
عالمی عدالتِ انصاف (ICJ)کا کہنا ہے کہ غربِ اردن، مشرقی یروشلم (القدس شریف) اور غزہ پر اسرائیلی قبضہ غیر قانونی ہے اور اسے فوراً ختم کیا جانا چاہیے۔ تقریباً دوسال پہلے دسمبر 2022ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے معتمد عام نے اسرائیلی قبضے پر عالمی عدالت کی رائے طلب کی تھی۔ جمعہ 19 جولائی کو 15 رکنی بینچ کی جانب سے عدالت کے سربراہ جسٹس سلام نواف نے ICJ کی Advisory Opinion یا ’مشاورتی رائے‘ پڑھ کر سنائی۔ عدالت نے قبضے کو فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو ان علاقوں پر اپنی حکمرانی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کرنی چاہیے۔
یہ ’’عالیشان‘‘ عدالت قوتِ نافذہ سے محروم ہے، چنانچہ اس کے فیصلے، حکم کے بجائے ’رائے‘ یا سفارش کہلاتے ہیں۔ اور جب معاملہ اسرائیل کا ہو تو عالمی عدالت کی کیا مجال کہ تل ابیب کو حکم دے سکے! مسند پر بیٹھے قاضی حضرات لجاجت بھرے لہجے میں یہ کہہ کر رہ گئے ’’جان کی امان پائوں تو عرض کروں‘‘۔ ستم ظریفی کہ جس پندرہ رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا ہے اس میں امریکی جج محترمہ سارہ کلیولینڈ بھی شامل ہیں لیکن واشنگٹن کے لیے یہ فیصلہ قابلِ قبول نہیں۔
اس سے دودن پہلے اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) نے 9 کے مقابلے میں 68ووٹوں سے ایک قرارداد منظورکرلی جس میں کہا گیا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ قرارداد کے مطابق قلبِ اسرائیل میں قائم ہونے والی فلسطینی ریاست سے مملکت کی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ آزاد فلسطینی ریاست دراصل انتہا پسند و دہشت گرد اسلامی ریاست ہوگی جس سے صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ ہماری پڑوسی عرب ریاستیں بھی عدم استحکام کا شکار ہوجائیں گی۔ دائیں بازو کے انتہا پسند اور حزبِ اختلاف کے معتدل ارکان نے قرارداد کی پُرجوش حمایت کی، دونوں عرب جماعتوں اور لیبر پارٹی نے قرارداد کی مخالفت میں ہاتھ بلند کیے۔ قائدِ حزبِ اختلاف یارلیپڈ کی Yesh Atid (مستقبل پارٹی)کے ارکان رائے شماری کے دوران ایوان سے باہر چلے گئے۔
اسی دن کنیسہ کے عرب ارکان پٹتے پٹتے بچے۔ اسرائیل میں عرب شہریوں کو بھی ووٹ کا حق حاصل ہے لیکن شہریت کا حق صرف اُن لوگوں کے پاس ہے جو قیام ریاست کے وقت اسرائیل میں آباد تھے۔ یعنی غربِ اردن، غزہ اور گولان کے رہائشی اسرائیل کے شہری نہیں۔ اس وقت 120 رکنی اسرائیلی پارلیمان میں عرب ارکان کی تعداد 10 ہے، جن میں سے 5 کا تعلق اخوانی خیالات کی حامل رعم سے ہے، جبکہ سیکولر ہداش جماعت کے 5 ارکان ہیں۔ بحث کے دوران وزیراعظم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہداش کے سربراہ ایمن عودۃ نے کہا ’’بی بی! اصل دہشت گرد تم ہو جو غزہ کے بے گناہوں کو قتل کررہے ہو‘‘۔ اس پر حکومتی ارکان نے زبردست ہنگامہ کیا۔ اس کے بعد جب رعم کے سربراہ منصور عباس تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو حکومتی ارکان اُن کی ڈیسک کے سامنے آگئے اور ’’جنگ بند کرائو‘‘ کے نعرے لگائے۔ منصور عباس نے کہا ’’یقیناً جنگ بندی ہونی چاہیے کہ لڑائی میں 50 ہزار بے گناہ ہلاک ہوچکے ہیں‘‘۔ اس پر کئی ارکان منصور عباس کو مارنے کے لیے دوڑے اور اسپیکر نے مائیک بند کرکے انھیں بیٹھ جانے کا حکم دے دیا۔
غزہ میں زیرحراست اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے لیے مذاکرات جاری ہیں جن کے بارے میں امریکی وزیرخارجہ ہر دوسرے روز فرماتے ہیں کہ اصولی اتفاق ہوچکا اور دستخط چند روز کی بات ہے۔ اسرائیل میں یہ تاثر عام ہے کہ جنگ بند ہوتے ہی جانی نقصانات اور 7 اکتوبر کو اسرائیلی سراغرسانی میں کمزوری کی جو حقیقت سامنے آئے گی اس کے بعد نیتن یاہو کی حکومت ایک گھنٹے سے زیادہ نہ چل سکے گی۔ خود اتحادی جماعتیں بھی بی بی سے خوش نہیں اور حالیہ جائزے کے مطابق حکمراں اتحاد کے ارکان میں اب انتہاپسند وزیر اندرونی سلامتی اتامر بن گوئر وزیراعظم کے لیے پہلی ترجیح ہیں۔ وزیراعظم کو ابھی بھی امید ہے کہ وہ مزاحمت کاروں کے کسی بڑے رہنما کو قتل کرواکر اہلِ غزہ سے اپنی شرائط پر قیدی رہا کروا سکتے ہیں۔ 13 جولائی کو خان یونس کے المواصی پناہ گزین کیمپ پر 2000 پونڈ کے بم برسائے گئے اور حملہ ساری رات جاری رہا۔ صبح اسرائیلی فضائیہ نے فخر سے اعلان کیا کہ مزاحمت کاروں کے عسکری سربراہ محمد الضیف اس حملے میں مارے گئے۔ وزیراعظم بھرپور حفاظتی انتظام لیکن ’’فاتحانہ شان‘‘ کے ساتھ غزہ پہنچے، فوجیوں سے خطاب کیا اور انھیں محمد ضیف کے قتل کی خوش خبری سنائی۔ اسی شام غزہ سے اعلان ہوا کہ ہر مزاحمت کار شوقِ شہادت سے سرشار ہے اور کسی کی موت سے جدوجہد متاثر نہیں ہوگی لیکن محمد ضیف کو اُن کے رب نے دشمن کی تذلیل کے لیے زندہ رکھا ہوا ہے۔ اس وضاحت کے بعد بھی اسرائیلی حکومت کا اصرار تھا کہ محمد ضیف جاں بحق ہوچکے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیراعظم نے خود فرمایا ’’ہم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ المواصی پناہ گزیں کیمپ پر حملے میں مزاحمت کاروں کا کماندارِ اعلیٰ مارا گیا یا نہیں لیکن جنگجوئوں میں شگاف صاف نظر آرہا ہے‘‘۔ اس حملے میں بچوں اور عورتوں سمیت 70 بے گناہ شہری جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔
لوگ کہہ رہے ہیں کہ اب بی بی نے ڈونلڈ ٹرمپ سے امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کے قومی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق امریکی صدر نے دھمکی دی کہ ’’ہم (غزہ سے) اپنے قیدیوں کی واپسی چاہتے ہیں اور بہتر ہے کہ وہ میرے عہدہ سنبھالنے سے پہلے واپس آجائیں ورنہ آپ کو بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی‘‘۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ’’مشرق وسطیٰ کی حالیہ جنگ اہلِ غزہ کے حملے سے شروع ہوئی۔ اگر میں امریکہ کا صدر ہوتا تو اسرائیل پر حملہ ممکن ہی نہیں تھا۔‘‘
جناب ٹرمپ کی غرور سے چُور تقریر کئی سفید جھوٹ، دروغ آمیز دعووں اور عالمی معاملات پر شیخی سے عبارت تھی۔ خود کو دبنگ اور مضبوط رہنما ثابت کرتے ہوئے بولے ’’میں نے افغان ملا سے براہِ راست فون پر بات کی اور صاف صاف کہہ دیا کہ اگر ہمارے جوانوں پر آج کے بعد کوئی حملہ ہوا تو ہم ایسا ہتھیار استعمال کریں گے جسے دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ جواب میں ملا نے وعدہ کیا Your Excellencyایسا نہیں ہوگا۔ اور دیکھو اس کے بعد میرے دورِِ اقتدار میں وہاں ہماری فوج پر ایک بھی حملہ نہ ہوا۔‘‘
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امن مذاکرات سے کئی سال پہلے وہ 13 اپریل 2017ء کو افغانستان پر 21600 پونڈ کا Massive Ordnance Air Blast Bomb (MOAB)گرا چکے تھے، اور جب یہ حربہ بھی ناکام رہا تب مذاکرات شروع ہوئے۔ جس فون گفتگو کا صدر ٹرمپ نے حوالہ دیا وہ دھمکی نہیں ملّائوں سے جان کی امان کے لیے تھی۔ قطر امن مذاکرات کے بعد جب امریکہ بہادر افغانستان سے واپسی کو تیار ہوگئے تو سوال اٹھاکہ واپس ہوتی امریکی سپاہ کی حفاظت کا بندوبست کیا ہوگا؟ امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد کو ان کے افغان ہم منصب عبدالغنی برادر نے یقین دلایا کہ اگر امریکی اپنا بھاری اسلحہ یہیں چھوڑنے پر تیار ہوجائیں تو ذاتی اسلحے سے لیس ان کے سپاہیوں کو واپسی کا محفوظ راستہ دیا جاسکتا ہے، لیکن اس صورت میں امریکہ کو ڈرون حملے اور بمباری نہ کرنے کی ضمانت دینی ہوگی۔ باہمی اتفاق پر برادر صاحب نے اصرار کیا کہ وہ اس فائر بندی کی امریکی قیادت سے ضمانت چاہتے ہیں، جس پر 3 مارچ 2020ء کو سابق امریکی صدر اور ملا عبدالغنی برادر کی فون پر بات ہوئی۔ گفتگو کے فوراً بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے قصرِ مرمریں میں صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے ’’ملا عبدل سے 35 منٹ بات کی ہے‘‘۔ جناب ٹرمپ نے گفتگو کو مثبت اور اچھی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم بھی جنگ بند کرنا چاہتے ہیں اور ملا بھی۔ میرے عبدل سے اچھے تعلقات قائم ہوگئے ہیں۔ جس “Your Excellency” پر جناب ٹرمپ کو ناز ہے یہ سیاسی رکھ رکھائو (Protocol)کا حصہ ہے جس کا ملا صاحب نے اہتمام کیا جسے خوف سے تعبیر کرکے سابق امریکی صدر نے اپنی کم ظرفی ظاہر کردی۔
جناب ٹرمپ کی متوقع فتح کی شکل میں ڈوبتے نیتن یاہو کو تنکے کا سہارا مل گیا ہے، لیکن زمینی حقیقت جوں کی توں ہے۔ بے گناہوں کے قتلِ عام کے باوجود اسرائیلی فوج اب تک کوئی بڑا عسکری ہدف حاصل نہیں کرسکی، جبکہ اس کی ناقابلِ تسخیر ٹیکنالوجی کی پرتیں بھی ایک کے بعد ایک کھلتی جارہی ہیں۔
جمعہ 19 جولائی کو خلیج عدن سے داغے جانے والے ڈرون نے دارالحکومت تل ابیب کے مرکز شہر (Downtown)کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فوج کے تصویری اعلامیے میں کہا گہا ہے کہ UAV(ڈرون)، ڈپلومیٹک انکلیو، فوجی قبرستان اور ساحل کے قریب عین قلبِ شہر کی ایک رہائشی عمارت پر گرا جس سے ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ یعنی یہ ڈرون برطانیہ، امریکہ، بحرین اور اردن کے جدید ترین نظام کی آنکھوں میں دھول جھونکتا اسرائیل کی فضائی حدود میں داخل ہوا اور امریکی آئرن ڈوم سمیت اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام سے پوشیدہ رہ کر دارالحکومت کے وسط تک پہنچ گیا۔
جواب میں دوسرے روز اسرائیلی فضائیہ نے بحیرہ احمر کی یمنی بندرگاہ حدیدۃ پر بمباری کی جس سے درجنوں شہری ہلاک ہوئے۔ یمن کے لوگ بمباری کے عادی ہیں کہ ان بے چاروں کو سعودی، اماراتی، مصری اور امریکی فضائیہ دہائیوں سے مشقِ ستم بنائے ہوئے ہیں لیکن تل ابیب پر حملہ اسرائیلیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
غزہ اور غربِ اردن میں اسرائیلی وحشت و سفاکی کے ساتھ دنیا بھر میں آزادیِ اظہار پر قدغنوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ہفتے اسرائیلی وزیراعظم امریکی کانگریس کے مشتترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ اس موقع پر کچھ ارکان کانگریس نے احتجاج کا اعلان کیا ہے جن میں سینیٹر برنی سینڈرز بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر کی پارلیمان میں اجلاس سے واک آئوٹ اور بائیکاٹ معمول کا حصہ ہے لیکن امریکی کانگریس کے اسرائیل نواز عناصر اس معاملے پر بہت حساس ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کے قومی کنونشن کے موقع پرکانگریس کے اسپیکر مائک جانسن نے دھمکی دی کہ وہ خصوصی اجلاس کے لیے سارجنٹ ایٹ آرمز کی
اضافی نفری منگوا رہے ہیں اور جو رکن اسمبلی قابو سے باہر ہوا وہ گرفتاری کے لیے تیار رہے۔
دوسری طرف عالمی رائے عامہ تیزی سے منفی ہونے کی بنا پر اسرائیل کو ثقافت اور کھیل کے میدان میں تنہائی کا سامنا ہے۔ بیلجیم کی قومی فٹ بال ٹیم اور اسرائیل کا میچ ’خدشے‘ کے پیش نظر منسوخ کردیا گیاہے۔ بیلجیم فٹ بال فیڈریش (RBFA)کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے میچ 6 ستمبر کو برسلز میں ہونا تھا لیکن شہری حکومت نے حفاظتی خدشے کے پیش نظر میچ منعقد کرانے سے انکار کردیا ہے اور ملک کا کوئی بھی دوسرا شہر میزبانی کو تیار نہیں۔
تاہم اسرائیل کی عرب رہنمائوں میں مقبولیت کم ہوتی نظر نہیں آتی۔ صدر بائیڈن نے 16 جولائی کو انکشاف کیا کہ سعودی عرب امریکہ سے سلامتی کی ضمانت کے بدلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا چاہتا ہے۔ ایک انٹرویو میں امریکی صدر نے کہا ’’مجھے سعودیوں کا فون آیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ (حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔