زندگی کے لیے نرمی اور صلابت دونوں بیک وقت ضروری ہیں۔ وہ صلابت جو نرمی سے محروم ہو اس سے وحشیانہ پن پیدا ہوتا ہے، اور وہ نرمی جو صلابت سے عاری ہو اس سے ایسا زنانہ پن پیدا ہوتا ہے جو عورتوں کے زنانے پن سے بھی آگے کی چیز ہوتا ہے۔
آج کے کالم میں ہم ممتاز صحافی ضمیر نیازی کی کتاب ’’زمین کا نوحہ‘‘ میں موجود معروف افسانہ نگار انتظار حسین کے ان تین مضامین کا تجزیہ کریں گے جن میں انتظار حسین کی نسائیت چھلانگیں مارتی نظر آتی ہے۔
علاوہ ازیں کتاب میں ظاہر کی گئی اس رائے کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر لوگوں نے اس طرح خوشیاں منائیں کہ مٹھائی کی دکانیں خالی ہوگئیں۔ تو آئیے جناب انتظار حسین کی نسائیت کے ذکر سے ابتدا کرتے ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہم شاعر ہیں اور نہ ادیب، مگر اس کے باوجود (بلکہ شاید اسی وجہ سے) ہمارے دل میں شاعروں اور ادیبوں کی بڑی قدر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ قدر کوئی رعایتی ٹکٹ نہیں ہے بلکہ شاعرانہ اور ادیبانہ طرزِ احساس ایسی چیز ہے جس کی قدر ہونی ہی چاہیے۔ لیکن اس طرزِ احساس کے حوالے سے ایک سنگین مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ شاعر اور ادیب ہونا بڑی بات ہے لیکن بہرحال صرف شاعر اور ادیب ہوکر رہ جانا کوئی اچھی بات نہیں۔ شاعرانہ اور ادیبانہ طرزِاحساس بلاشبہ ایک بڑی قوت ہے، لیکن اگر آدمی صرف شاعر اور ادیب بن کر رہ جائے تو یہ قوت سنگین معذوری میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ لیکن بعض لوگ اس طرزِ احساس کے اس حد تک اسیر ہوجاتے ہیں کہ خیال آتا ہے کہ وہ کچھ اور کیا، دانت برش کرتے ہوئے بھی شاعر اور ادیب ہی رہتے ہوں گے۔ لیکن زندگی ایک ہمہ گیر حقیقت ہے، اس میں انسان کہیں باپ ہے، کہیں بیٹا ہے، کہیں شوہر ہے، کہیں کسی ملت کا ایک حصہ ہے اور کہیں کسی ریاست کا شہری اور معاشرے کا ایک فرد۔ انسان کی ان حیثیتوں کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، اور ان تقاضوں کے لیے ایک مختلف طرزِ احساس کی ضرورت پڑتی ہے۔ بلاشبہ تلوار بہت کاٹ دار شے ہے لیکن تلوار سے قمیص کا بٹن نہیں ٹانکا جا سکتا، اس کے لیے سوئی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن سر کاٹنے کے لیے سوئی سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا، یہاں تلوار ہی کام آسکتی ہے۔ ہم نے انتظار حسین پر نسائیت کا الزام دھرا ہے تو اس لیے کہ وہ میدانِ جنگ میں بھی سوئی نکال کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بلکہ سوئی کی بات بھی ایک رعایت ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ کہیں گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر مور نامہ لکھنے لگتے ہیں۔ زندگی کے لیے نرمی اور صلابت دونوں بیک وقت ضروری ہیں۔ وہ صلابت جو نرمی سے محروم ہو اس سے وحشیانہ پن پیدا ہوتا ہے، اور وہ نرمی جو صلابت سے عاری ہو اس سے ایسا زنانہ پن پیدا ہوتا ہے جو عورتوں کے زنانے پن سے بھی آگے کی چیز ہوتا ہے۔ اگرچہ ذیل کی باتوں کا زیر بحث موضوع اور انتظار حسین سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں، لیکن اس کے باوجود ان کی اپنی اہمیت ہے۔ مثلاً اس اہمیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انتظار حسین صاحب مہا بھارت کے اچھے خاصے عالم ہیں اور ان کے یہاں اس کے حوالے آتے ہیں۔ زیربحث موضوع کے سلسلے میں مہا بھارت کے دو مناظر بہت معنی خیز ہیں۔
ایک منظر یہ ہے کہ کوروں اور پانڈوں کی فوجیں میدانِ جنگ میں آمنے سامنے کھڑی ہیں، ارجن پانڈوں کے سپہ سالار اور کرشن ان کے رتھ بان ہیں۔ ارجن جنگ کے آغاز سے قبل دشمن فوج کے ہراول دستے پر نظر ڈالتے ہیں تو انھیں جگہ جگہ اپنے عزیز کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان میں وہ عزیز بھی ہیں جن سے ان کا براہِ راست خون کا رشتہ ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے ارجن پر ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ وہ پلٹتے ہیں اور اپنے ہتھیار رکھ دیتے ہیں۔ اس طرح ایک سنگین مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ کرشن، ارجن سے ہتھیار رکھ دینے کا سبب دریافت کرتے ہیں۔ ارجن کا جواب صاف اور مدلل ہے: میں اقتدار کے لیے اپنے عزیزوں کا خون نہیں بہا سکتا۔‘‘
تب کرشن کھڑے ہوتے ہیں اور ایک طویل تقریر کرتے ہیں جس میں وہ بتاتے ہیں کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ روح کیا ہے اور دھرم یا مذہب کیا ہے اور اس مذہب کے تقاضے کیا ہیں؟ وہ ارجن سے کہتے ہیں کہ تم حق پر ہو اور یہ جنگ، جنگ نہیں تمھارا مذہب ہے۔ اگر تم اس جنگ سے گریز کرو گے تو گویا اپنے مذہب سے انحراف کرو گے۔ چنانچہ خود کو سنبھالو اور ہتھیار اُٹھا کر اپنا فرض پورا کرو۔ کرشن کی اس تقریر سے جو آگے چل کر گیتا کہلائی ، ارجن اس کیفیت سے نکل آئے جو جنگ میں مانع ہوگئی تھی۔
ہمارا زمانہ جنگ کی مذمت کا زمانہ ہے، اور جنگ کی مذمت ہونی ہی چاہیے، کیونکہ جنگ بہت بدصورت شے ہے۔ اس کے برعکس امن زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اور امن سے زیادہ خوبصورت شے کا تصور محال ہے۔ لیکن مذکورہ مثال سے ظاہر ہے کہ ہر جنگ بدصورت نہیں ہوتی اور ہر جنگ سے گریز امن کی خواہش کا نتیجہ نہیں ہوتا، اور نہ ہرگریز سے امن قائم ہوتا ہے۔ حق اور باطل ایک دوسرے کے گلے میں پھولوں کے ہار نہیں ڈال سکتے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ حق اور باطل بڑے موضوعی تصورات ہیں۔ ہر گروہ خود کو حق اور دوسرے کو باطل قرار دیتا ہے۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے، لیکن حق اور باطل کے معیارات واضح ہیں اور ان کی شناخت دشوار نہیں۔ اس لیے ہم انتظار حسین اور ان جیسے امن پسندوں سے عرض کریں گے کہ مجرد امن کوئی چیز نہیں ہوتا، اور کمزور قوموں کی ایٹم بم پرستی کی مذمت سے کچھ ہونے والا نہیں۔
مہا بھارت کا دوسرا منظر وہ ہے جب باطل قوت کی علامت فوج کا ایک اہم کردار اشوتھاما، وہ قوت استعمال کرلیتا ہے جو ایٹم بم سے حیرت انگیز طور پر مماثلت رکھتی ہے۔ اس کے جواب میں ارجن جوحق کی قوت کی علامت ہیں، اس طاقت کے استعمال کی تیاری کرتے ہیں مگر انھیں روک دیا جاتا ہے۔ لیکن اس سے اتنا تو ظاہر ہو ہی جاتا ہے کہ طاقت کے توازن کا تصور اُس وقت بھی موجود تھا۔ یہاں ’’اُس وقت‘‘ کا مطلب کئی ہزار سال پہلے کا ذکر ہے۔ محترم ضمیر نیازی، جناب انتظار حسین اور برادرم آصف فرخی کو اس پہلو پر یقیناً غور کرنا چاہیے۔ لیکن معاف کیجیے گا مٹھائی کی دکانوں کے خالی ہونے والی بات تو رہ ہی گئی۔
محترم ضمیر نیازی صاحب نے ’’زمین کا نوحہ‘‘ کے اختتامی مضمون میں بڑے دکھ کے ساتھ یہ بات لکھی ہے کہ ایٹمی دھماکوں پر بھارت اور پاکستان میں عوام نے اتنی خوشیاں منائیں کہ مٹھائیوں کی دکانیں خالی ہوگئیں۔ ہم ضمیر صاحب کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ ایٹمی دھماکے واقعتاً ایسی چیز نہیں کہ جس پر مٹھائیاں بانٹی جائیں۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے، اور یہ مسئلہ عوام سے متعلق ہے۔ جمہوریت عصرِ حاضر کا ایک اہم ترین سیاسی عقیدہ ہے بلکہ اسے سیاسی عقیدہ کہنا بھی درست نہیں۔ اس کی حیثیت تقریباً ایک مذہبی عقیدے کی سی ہے۔ اس عقیدے کی بنیاد عوام ہیں اور اس عقیدے کی روح یہ ہے کہ عوام اپنی تقدیر کے خود مالک ہیں۔ چنانچہ جمہوریت کے تحت عوام کی خواہش کو قانون کی حیثیت حاصل ہے۔ مغرب کے وہ ممالک جہاں جمہوریت کی جڑیں مضبوط سمجھی جاتی ہیں، اس صورتِ حال کی بہترین مثالیں ہیں، کیونکہ وہاں آئے دن عوام کی خواہش کے مطابق قوانین میں ترمیم ہوتی رہتی ہے۔
عوام کی مرضی ہے وہ انتخابات میں جسے چاہیں منتخب کریں اور جسے چاہیں مسترد کردیں۔ عوام جسے منتخب کریں وہ یقیناً اچھا ہے اور عوام جسے مسترد کردیں وہ یقیناً برا ہے، اور اگر برا نہیں تو یقیناً اتنا اچھا نہیں جتنا کہ وہ شخص، جسے عوام نے منتخب کیا ہے۔ عوام نے جسے منتخب کیا ہے وہ جمہور کی پسند ہے اور اس پر اعتراض ’’گناہِ کبیرہ‘‘ ہے۔ عوام چاہیں تو ابراہم لنکن کو منتخب کرلیں، چاہیں تو مارلن منرو کے سر پر تاجِ جمہوریت رکھ دیں۔ مگر یہ تو مغربی ممالک کی مثال ہوگئی۔
جمہوریت خیر سے ہمارے یہاں بھی بروئے کار آتی رہتی ہے۔ چنانچہ جمہوریت کے تحت لوگ ذوالفقار علی بھٹو کو منتخب کرلیں تو خوب… وہ قائدِ عوام، عظیم مدبر، عظیم رہنما…! عوام الطاف حسین کو قوت فراہم کردیں تو بہترین… وہ قائدِ تحریک، تاریخ ساز لیڈر …! صاحب یہ کیا تماشا ہے؟ بھٹو کا سماجی پس منظر عیاں تھا۔ ان کے علائق پوشیدہ نہیں تھے۔ موصوف روزِ اوّل سے ایک فاشسٹ ذہن رکھتے تھے۔ الطاف حسین کی کم نظری اور فاشزم بھی روزِ اوّل سے عیاں تھا، مگر ان کی پشت پر ’’عوام‘‘ تھے۔ چنانچہ ان کے عروج کو عوام کا پاگل پن قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔ یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں۔
رونالڈ ریگن ہالی وڈ کا ایک اداکار تھا۔ اس سے بھی بدتر بات یہ تھی کہ وہ تیسرے درجے کا اداکار تھا، مگر دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا سربراہ بن گیا۔ کیا یہ ایک عوامی پاگل پن کا مظاہرہ نہیں تھا! جارج بش سی آئی اے کا سربراہ تھا اور سی آئی اے ایک دہشت گرد ادارہ ہے اور لاکھوں کروڑوں انسانوں کے قتل کا بار اس کی گردن پر ہے۔ مگر جارج بش امریکہ کا صدر بن گیا عوام کے ووٹوں سے، عوام کی تائید سے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم اگر سیاسی دائرے میں کہیں بھی عوام کے انتخاب پر ہنس نہیں سکتے، اس پر طنز نہیں کرسکتے تو ایٹمی دھماکوں کے سلسلے میں عوام کی مسرت پر ہنسنے اور طنز کرنے کا کیا جواز ہے؟ کیا عوام کی یہ مسرت ایک جمہوری مسرت نہیں ہے؟ اگر ہاں تو پھر اس پر اعتراض خاصا غیر جمہوری فعل ہے۔
اب آئیے اس بات کو سیاسی دائرے سے باہر نکالتے ہیں۔ اس وقت ساری دنیا پاپ کلچر کی فضا میں سانس لے رہی ہے۔ یہ ایک کچرا اکلچر ہے، لیکن اس کی پشت پر عوام کی تائید موجود ہے، اور اس اعتبار سے اس کلچر پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا، اور اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں پر اپنی پسند نہیں ٹھوس سکتے۔ سوال یہ ہے کہ عوام کی پسند، ان کا اظہارِ ذات اگر دس جگہ قابلِ اعتراض نہیں تو محض ایک جگہ قابلِ اعتراض کیسے ہوسکتا ہے؟
اس سلسلے میں اُصولی پوزیشن یہ ہے کہ عوام کی پسند اور ناپسند کوئی چیز نہیں، اصل چیز معروضی اُصول ہے، یا پھر یہ کہ عوام کی پسند ہی سب کچھ ہے، معروضی اصول کوئی شے نہیں۔ اس سے متعلق کوئی تیسرا مؤقف ممکن ہی نہیں، اور اگر ممکن ہے تو اس کی اس لیے کوئی اہمیت نہیں کہ اسے تسلیم کرنے کے بعد صورتِ حال ہولناک حد تک پیچیدہ ہوجاتی ہے۔ عوام اگرچہ ایک ٹھوس حقیقت ہیں، لیکن فی زمانہ عوام ٹھوس حقیقت سے زیادہ ایک سیاسی تصور کی حیثیت سے اہم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا مزاج زیادہ سے زیادہ سیاسی ہوتا جارہا ہے۔ گویا لوگوں نے لاشعوری طور پر سہی، اپنی حیثیت کو تسلیم کرلیا ہے۔ چونکہ ایٹم بم بنیادی طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے، اس لیے اس کے ذیل میں لوگوں کا حد سے زیادہ جذباتی ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ اس جذباتیت پر اعتراض کیا جا سکتا ہے لیکن اعتراض کرنے والے پہلے اُس ذہنی سانچے کو بدلیں جس سے یہ جذباتیت پیدا ہورہی ہے۔ عوام پسندی اور عوام پرستی اور پھر عوامی جذبات کے اظہار کی مذمت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ اس مسئلے کا بنیادی پہلو ہے، لیکن اس پہلو پر توجہ دینے کے لیے کوئی تیار نہیں کیوں کہ یہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے والا کام ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو اس مسئلے کا جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے بھی بہت گہرا تعلق ہے۔ چینیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ہزاروں سال پہلے کاغذ اور بارود تیار کرلیا تھا، لیکن انھیں اندیشہ تھا کہ کاغذ اور بارود کا عام ہونا خطرناک ثابت ہوگا، چنانچہ انھوں نے انھیں صدیوں تک عام نہیں ہونے دیا۔ لیکن ایٹم بم کے بنیاد گزار جناب آئن اسٹائن فرماتے ہیں: اگر مجھے پتا ہوتا کہ میرا کارنامہ اتنی بڑی ہلاکت خیزی کے لیے استعمال ہوگا تو میں سائنس دان ہونے کے بجائے موچی ہونا پسند کرتا۔ اس انکسار کا بھی جواب نہیں۔ چینیوں کی مثال سامنے رکھی جائے تو آئن اسٹائن کا یہ تبصرہ جدید سائنس، جدید ذہن اور خود آئن اسٹائن پر ایک بلیغ طنز کی حیثیت رکھتا ہے۔