بھارت کے دفاعی و بین الاقوامی امور کے ماہر کا تجزیہ
پراوین ساہنی کا شمار بھارت کے چوٹی کے دفاعی ماہرین میں ہوتا ہے۔ وہ پاکستان، چین اور بھارت کے درمیان جیوپولیٹکل کھیل کے جانے مانے تجزیہ نگار اور اس موضوع پر کئی کتابوں کے مصنف اور ’دی فورس میگزین‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ نریندرمودی کی حکومت اُن کے آزاد دفاعی تجزیوں سے خوش نہیں رہتی، اور سخت گیر ہندو انہیں چین کا ایجنٹ اور کانگریس کا حامی قرار دیتے ہیں۔ اس کے باوجود پراوین ساہنی اپنی آزاد روی پر قائم ہیں اور وہ بھارت کو کشمیر سمیت چین و پاکستان جیسے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ نباہ کرنے کا مشورہ دیتے چلے آرہے ہیں۔ جموں میں بھارتی فوج پر ہونے والے حالیہ حملوں کے بعد پراوین ساہنی نے ایک وی لاگ کے ذریعے اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔ ان کے تجزیے کا ٹائٹل ہے ’’بھارتی حکومت کشمیر کی صورتِ حال سے بے خبر ہے‘‘۔ اس تجزیے کی بنیاد جموں کے علاقوں میں بھارتی فوج پر ہونے والے حملے ہیں۔ وادیِ کشمیر میں تو مزاحمت ہمیشہ زوروں پر رہی مگر جموں میں جہاں ہندوئوں اور مسلمانوں کی تعداد میں تھوڑا بہت فرق ہے، اس قدر تسلسل کے ساتھ حملے نہیں ہوئے جس انداز سے حالیہ چند برسوں میں ہونے لگے ہیں۔ چند ہی دن قبل ڈوڈہ کے علاقے میں بھارتی فوج پر ہونے والے حملے میں ایک کیپٹن سمیت چار فوجی مارے گئے، اور یہی واقعہ پراوین ساہنی کے تجزیے کی بنیاد بنا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں ڈوڈہ حملے کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں جموں کے علاقے میں 119 فوجی مارے گئے اور مجموعی طور پر چالیس فیصد اموات جموں ریجن میں ہوئیں۔
پراوین ساہنی نے اپنے تجزیے کا آغاز ہی اس جملے سے کیا ہے کہ دہشت گردی کا فوکس اب جموں منتقل ہوگیا ہے۔ ان کے مطابق بھارتی ریاست سیاسی، عسکری اور جیو پولیٹکل حوالے سے بند گلی میں پہنچ گئی ہے۔ ڈوڈہ میں بھارتی فوج کے چار جوان مارے گئے، یہ رواں برس کا اس علاقے میں چھٹا حملہ تھا۔ پراوین ساہنی نے ایک چونکا دینے والی بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ2021ء سے جموں میں بھارتی فوجی مارے جارہے ہیں اور اسی عرصے میں کشیدگی کا فوکس چین بھارت سرحد ’لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘ سے جموں کی طرف منتقل ہوگیا۔ غالباً وہ گلوان اور پنگانگ جھیل کے تصادم کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔ پراوین ساہنی کے مطابق جموں حملوں کے بعد ڈی جی کشمیر پولیس آر آر سوئین نے کہا ہے کہ علاقائی جماعتیں کشمیر میں پاکستان کی مدد کررہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بھارتی حکومت مقامی اور بیرونی عسکریت میں تفریق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اسّی لاکھ کشمیریوں کو اپنے سے کاٹ دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق لیفٹیننٹ گورنر کے پاس اس وقت تمام اختیارات ہیں اور اگر سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق بھارت کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کرائے گا تو اس کے نتیجے میں ایک چیف منسٹر بھی آئے گا۔ پھر ایسے حملوں کی بنا پر چیف منسٹر کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا حالانکہ اس کے ساتھ ماضی کی کوئی داستان نہیں ہوگی، جبکہ لیفٹیننٹ گورنر کے ساتھ ناکامیوں کا ایک ماضی ہے۔ اس کے باوجود لیفٹیننٹ گورنر پر کوئی الزام عائد نہیں کیا جارہا۔ پراوین ساہنی کے مطابق بھارتی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل ایس ڈی ہوڈا نے حال ہی میں ایک مضمون لکھا ہے ’’راولپنڈی کو اب پراکسی وار کی سزا دینا ہی واحد آپشن ہے‘‘۔ جنرل ہوڈا آزادکشمیر میں سرجیکل اسٹرائیکس کے حکمت کار رہ چکے ہیں۔ پراوین ساہنی کے مطابق سزا ایک سخت لفظ ہے اور یہ کمتر فوج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پاکستانی فوج بھارتی فوج کی ٹکر کی ہے۔ دونوں میں کئی جنگیں ہوچکی ہیں، اور جب جنرل ہوڈا سزا دینے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب کشیدگی بڑھانا ہے، اور کشیدگی بڑھنے سے کوئی بھی جنگ کو نہیں روک سکتا۔ پاکستان کو مسلسل اشتعال دلایا جارہا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع مسلسل پاکستانی کشمیر واپس لینے کے اعلانات کررہے ہیں۔
یہاں پراوین ساہنی یہ تجزیہ کررہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی اگلی جنگ کیسی ہوگی؟ ان کے مطابق یہ ماضی کی جنگوں سے قطعی مختلف ہوگی۔ بالاکوٹ حملوں کا جواب پاکستان نے دوسرے روز ہی دیا۔ پاکستانی فوج اعلان کرکے اندر تک آگئی، اور ایسے میں جب بھارتی فوج اس حملے کی توقع بھی نہیں کررہی تھی وہ اپنی کر گزرے۔ اس حملے سے پاکستانی فوج نے اپنی بہترین تربیت ثابت کی۔ اپنی بہترین الیکٹرونک جنگی مہارت ثابت کی۔ اگست2020ء میں پاکستان ائرفورس نے پیپلزلبریشن آرمی آف چائنا کی مدد سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو ترقی دی۔ پی ایل اے کی مدد سے انہوں نے الیکٹرونک وار فیئر میں اپنی مہارت ثابت کی۔ پاکستان اور بھارت کی ممکنہ جنگ میں پاکستان کی زمینی کے بجائے ائرفورس قیادت کرے گی۔ ماضی میں زمینی فوج لڑتی رہی ہے، اِس بار ایسا نہیں ہوگا۔ نریندرمودی نے آرٹیکل 370کو ختم کیا تو چین نے نئے نقشے کو قبول کرنے سے انکار کیا کیونکہ وہ پورے لداخ اور اروناچل پردیش کو اپنا علاقہ تصور کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سنکیانگ اور لداخ کے درمیان کوئی حدبندی نہیں۔ اب اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ میں چین براہِ راست مداخلت نہیں کرتا تو بھی چینی فوج لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر دبائو بڑھانے سے باز نہیں آئے گی تاکہ بھارت یہاں سے قوت منتقل کرکے پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرسکے۔ اس سے جنگ کی حرکیات
تبدیل ہوں گی۔ پاکستان ائرفورس الیکٹرونک وار فیئر پر کام کررہی ہے۔ چین مسلسل بھارت پر سائبر حملے کررہا ہے۔ ان سب عوامل کے ساتھ پاکستانی فوج کو چین کی آپریشنل مدد بھی حاصل رہے گی۔کارگل جنگ کے موقع پر جنرل پرویزمشرف اسی مشن پر چین پہنچے تھے کہ اگر کارگل کی جنگ باقاعدہ تصادم کی شکل اختیار کر تی ہے تو چین اسپیئر پارٹس اور ایمونیشن سمیت پاکستان کی کس طرح مدد کرے گا۔
اپنے تجزیے کے آخری حصے میں پراوین ساہنی ایک بار پھر یہ بات دہرا رہے ہیں کہ اسّی لاکھ کشمیری تنہائی محسوس کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چین اور پاکستان دونوں تنازعات کے باوجود بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں۔ پاکستان بھی کہہ رہا ہے کہ وہ کشمیر کے ساتھ ساتھ دوسرے امور پر بھی بھارت کے ساتھ بات چیت کرنے پر تیار ہے۔ نریندرمودی اس وقت نہیں مان رہے۔ وہ یہ حقیقت بھول رہے ہیں کہ اگر ایک قوم کا ہمسایہ امن میں نہیں تو وہ قوم بھی ترقی نہیں کرسکتی۔
پراوین ساہنی کا یہ تجزیہ تنازع کشمیر کی ایک نئی جہت کی جانب اشارہ کررہا ہے، وہ ہے برسوں سے خاموش اور غیر فعال کھلاڑی چین کا متحرک ہوجانا۔ اور یہ موقع نریندرمودی نے کشمیر کی خصوصی شناخت چھین کر خود فراہم کیا۔ بلائوں کے بند صندوق کے کھلنے سے نکلنے والی سب سے پہلی اور بڑی بلا یہ ہے کہ بھارت نے تنازع کشمیر میں چین کو سرگرم کردار ادا کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
(عالمی اور علاقائی حالات پر کالم نگار کے تجزیے یوٹیوب چینل Gardaabtvپر بھی سنے جا سکتے ہیں)