اس نظام سے 40 خاندان تو فائدے میں ہیں جبکہ 24کروڑ افراد کا گلا گھونٹا جارہا ہے
ملک میں بجلی کا بحران کثیرالجہت ہے، اور یہ ایک مصنوعی کھیل بلکہ کاروباری لابیوں کی مفادات کی لڑائی بھی ہے۔ ایک لابی آئی پی پیز (انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز) کی ہے اور دوسری لابی ٹیکسٹائل ملز مالکان اور کاروباری طبقے کی نگہبان ہے۔ اس بحران کا تیسرا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان نے براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کوئی قومی پالیسی نہیں بنائی، اور نہ ہی یہ پالیسی کبھی پارلیمنٹ میں زیر بحث آئی ہے۔ بیوروکریسی نے پہلے ملک میں بجلی کی کمی کا ایک بحران کھڑا کیا اور پھر حکومتوں کو مشورہ دیا کہ بجلی پیدا کرنے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آئے مگر انہوں نے کسی بھی حکومت پر اعتماد کرنے کے بجائے عالمی ضامن کو ان معاہدوں کا نگران بنانے کو ترجیح دی اور ایسے معاہدے کیے جو ہر لحاظ سے یک طرفہ مفادات کے نگہبان تھے۔ بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کے بارے میں یہ طے شدہ اصول ہے کہ ہر کارخانہ بیس سال کے اندر اندر اپنی اصل لاگت وصول کرلیتا ہے، اور اس کے بعد اُس کی ایفیشنسی میں کم و بیش80 فی صد کمی آجاتی ہے اور بجلی کی پیداوار دس سے بیس فیصد رہ جاتی ہے، مگر معاہدوں کے مطابق حکومتِ پاکستان ملک میں لگنے والے بجلی کے کارخانوں (پاور اسٹیشنز) کی طبعی عمر پوری ہوجانے کے باوجود اُن کی سو فی صد ایفیشنسی کے مطابق ہی ادائیگی کی پابند ہے۔ 106 میں سے 50 فیصد پلانٹ ایسے ہیں جو صرف 10 فیصد بجلی بنا رہے ہیں، ان میں سے 25 فیصد کوئی بجلی نہیں بنا رہے لیکن کیپیسٹی پیمنٹ پوری لے رہے ہیں۔ یہ نظام قوم کے گلے پڑا ہوا ہے کہ بجلی بنے نہ بنے، پلانٹ چلیں نہ چلیں، آپ انہیں اربوں روپے دے دیں۔ اس نظام سے 40 خاندان تو فائدے میں ہیں جبکہ 24کروڑ افراد کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔
وفاقی کابینہ نے بجلی چوروں اور نادہندگان سے وصولی پر انعامی رقم مزید بڑھا دی ہے اور بجلی چوری کا سراغ لگانے پر کم از کم وصولی شرح 100 کے بجائے 80 فیصد کردی گئی ہے۔ اس وقت عوام حکومت کو ایس او ایس کال دے رہے ہیں کہ معاملے کی سنگینی کا احساس کیا جائے، آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں پر نظرثانی کی جائے، کیپیسٹی چارجز کی مد میں حکومت 2.3 ٹریلین روپے زیادہ دے رہی ہے اس لیے مہنگے پلانٹس کا آڈٹ کیا جائے،580 ارب روپے کی اضافی پیمنٹ کا بھی آڈٹ ہونا چاہیے۔
پاکستانی کرنسی اور افراطِ زر کے بجائے امریکی ڈالر اور امریکی افراطِ زر کو سامنے رکھ کر معاہدے کیے گئے۔ بجلی کے فی یونٹ نرخ میں اضافے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ اس سے بھی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان نے کاروباری طبقے کو اپنے پاور اسٹیشن لگانے کی اجازت دی اور ان سے کہا کہ فالتو بجلی حکومتِ پاکستان خریدے گی۔ اسی اجازت کے سبب ملک میں کاروباری طبقہ اپنے پاور اسٹیشن لایا، اور یوں وہ واپڈا کی بجلی سے بے نیاز ہوگیا، جس سے وقت کے ساتھ ساتھ واپڈا کو بڑے صارفین سے محروم ہونا پڑا اور اُن سے فالتو بجلی بھی خریدنا پڑی۔ اس کے بعد جب سولر، ونڈ، تھرمل، کوئلہ، اور ایل این جی پر پاور ہاؤسز منتقل ہوگئے تو اس سے حکومت اور واپڈا کو مزید نقصان ہونا شروع ہوا۔ اب چونکہ بڑے صارفین بجلی پیدا کرنے کے لیے خودمختار ہیں تو واپڈا کے نشانے پر چھوٹے گھریلو صارفین آگئے ہیں جو واپڈا سے بجلی خریدنے پر مجبور ہیں، یوں لائن لاسز ہوں یا بجلی چوری… سارا بوجھ انہی چھوٹے گھریلو صارفین پر آن پڑا ہے، جن کے مفادات کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ، حکومت اور بیوروکریسی کے پاس کوئی مناسب اور قابلِ عمل لائحہ عمل نہیں ہے۔ اگر بجلی گھروں کی تنصیب سے پہلے حکومتِ پاکستان نے کوئی مناسب حکمتِ عملی بنائی ہوتی تو آج ملک میں بجلی کے چھوٹے گھریلو صارفین تڑپ نہ رہے ہوتے، لیکن ابھی بھی حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔
ملک میں سی پیک کا بہت شور اور غلغلہ ہے، کوئی اس بات کا جواب دینے کو تیار نہیں ہے کہ پچاس ارب ڈالر کی یہ چینی سرمایہ کاری کہاں گئی؟ اور اس ضمن یہ بات بھی غور طلب ہے کہ چین خود تو ہائی ٹیک پر منتقل ہورہا ہے جبکہ ہمیں اپنی پرانی ٹیکنالوجی دے رہا ہے جس کا سارا رس وہ خود چوس چکا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف کے حالیہ دورہء چین میں کئی اہم چینی صنعتوں کی پاکستان منتقلی کا معاہدہ ہوا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ معاہدہ ملک کی معاشی ترقی کا ضامن ثابت ہوگا اور اس کے نہایت انقلابی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ معاہدے کے تحت چین کی ٹیکسٹائل، پلاسٹک، لیدر، میڈیکل اور سرجیکل آلات کی صنعتوں کو پاکستان منتقل کرنے کے لیے چینی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری پر دستخط کیے جائیں گے، مگر معاہدے کی تفصیلات پارلیمنٹ میں ابھی تک پیش نہیں کی گئی ہیں۔ امکان ہے کہ کاروباری طبقہ اپنے تمام اسٹیک ہولڈرز اور اپنے تجارتی چیمبرز بھی اس بحث کے لیے متحرک کرنے کا کھلا ارادہ رکھتا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ جو بھی بجلی گھر لگائے گئے ہیں ان کا آڈٹ ہونا چاہیے، کیونکہ ایک بجلی گھر 50 ارب میں لگا اور اسے 400 ارب روپے دیے گئے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ آئی پی پیز کے کنٹریکٹ میں گڑبڑ ہے تو عالمی سطح پر کیس لڑا جاسکتا ہے۔ آئی پی پیز کے معاہدے کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آئی پی پیز کا بجلی فروخت معاہدہ ہے، بجلی خرید معاہدہ نہیں۔ یہ بحران کب ٹلے گا اس کا تو علم نہیں، البتہ ملک میں مزید 16 ہزار میگاواٹ بجلی کے آئی پی پیز آرہے ہیں، بجلی کی کھپت 18فیصدکم جب کہ پیداوار بڑھ رہی ہے۔ اس نکتے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ جب سے متبادل توانائی کے ذرائع استعمال میں لانے کی پالیسی بنی ہے اُس وقت سے واپڈا اور آئی پی پیز کی آمدنی میں بتدریج کمی آئی ہے۔ متبادل ذرائع کوئلہ، سولر، ونڈ، ایل این جی، نیوکلیئر اور تھرمل ہیں، ان ذرائع سے بجلی پیدا کیے جانے کے باعث واپڈا اور آئی پی پیز کی آمدنی میں فرق آیا جس کے باعث ملک میں ایک بحران اور تصادم نظر آرہا ہے۔ جب متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو سبسڈی بھی مل رہی تھی اُس وقت تک یہ خاموش تھے، لیکن اب حکومت کی آمدنی یا وسائل میں مسلسل کمی کی وجہ سے، یا اسے آئی ایم ایف کی شرائط کہہ لیں، سبسڈیز بند کی جارہی ہیں تو اب نجی اداروں کے لیے جو متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرکے خود بھی استعمال کرتے تھے اور واپڈا کو بھی دیتے تھے، مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ لہٰذا سب سے پہلے ٹیکسٹائل گروپ میدان میں اترا اور اس نے آئی پی پیز اور واپڈا کو نشانے پر رکھ لیا ہے، اس لیے گوہر اعجاز بولے ہیں اور ان سے پہلے محسن نقوی بھی بولے ہیں۔ یہ دونوں گہرے دوست ہیں اور ان کے مشترکہ کاروباری مفادات بھی ہیں۔ آئی پی پیز اور واپڈا کے پاس پہلے ملکی صنعتوں کے باعث بڑے صارف بھی تھے، لیکن جب سے یہ آہستہ آہستہ متبادل ذرائع کے استعمال سے اپنی بجلی خود پیدا کرنے لگے ہیں، اور ملک میں ٹیوب ویل بھی سولر پر چلے گئے ہیں تو واپڈا اور آئی پی پیز کے پاس صرف چھوٹے گھریلو صارفین رہ گئے ہیں۔ چونکہ بجلی کے کارخانے جب لگائے گئے تھے اُس وقت معاہدہ یہی تھا کہ حکومت ہر بجلی گھر کی کیپیسٹی کے مطابق اس کو ادائیگی کرے گی تو اب حکومت کے لیے یہ بوجھ اٹھانا مشکل ہورہا ہے، لہٰذا چھوٹے صارفین پر سارا بوجھ آن پڑا ہے۔ دوسرا سب سے بڑا فرق یہ پڑا کہ اب بڑی ہاؤسنگ سو سائٹیز کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ اپنے صارفین کو خود بجلی فراہم کریں، وہ بھی سولر پر چلے گئے یا اپنے بجلی گھر لگانے پر مجبور ہوئے۔ یوں واپڈا کے ہاتھ سے یہ صارف بھی نکل گیا۔ اب تو ڈی ایچ اے نے بھی اپنے اپنے بجلی گھر لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ تیسری وجہ یہ بنی کہ عمران خان کے دور میں آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے کے لیے مذاکرات ہوئے، لیکن یہ بات چیت بھی کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے بجائے انہی آئی پیز کو مزید توسیع دینے پر منتج ہوئی۔ عمران خان کے دور میں وزیر توانائی نے اس توسیع کے بدلے خوب مال کمایا۔ شاہد خاقان عباسی نے اپنے دور میں ایک فیصلہ کیا تھا کہ کوئی بجلی گھر فرنس آئل سے نہیں چلے گا، یہ سستے ذرائع کے استعمال سے بجلی پیدا کریں گے، لیکن عمران خان کے دور میں اس فیصلے پر بھی عمل درآمد روک دیا گیا۔ اِس وقت سب سے سستا ذریعہ کوئلہ ہے جس سے پیدا ہونے والی بجلی کی فی یونٹ قیمت تین سینٹ کے لگ بھگ ہے، اس کے بعد ایل این جی ہے اور ونڈ ہے، سولر بھی سستا ذریعہ ہے، لیکن کوئی بھی آئی پی پی ان سستے ذرائع پر منتقل نہیں ہوا۔ اگر آئی پی پیز سستے ذرئع پر منتقل ہوجائیں تو بجلی کی فی یونٹ قیمت کم ہوسکتی ہے، جب تک یہ نہیں ہوگا، بڑے صارفین چونکہ ہاتھ سے نکل چکے ہیں، آئی پی پیز اور واپڈا چھوٹے صارفین کو مہنگی بجلی مہیا کرتے رہیں گے، اور اس سے بھی اہم بات بلکہ اسے بنیادی وجہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تمام بجلی گھر جن کی عمر بیس سال سے زیادہ ہوچکی ہے ان کی ایفیشینسی دس سے بیس فیصد رہ گئی ہے لیکن حکومت ان کو سو فی صد ایفیشینسی کے مطابق ہی ادائیگی پر مجبور ہے، اگر ان بجلی گھروں کا آڈٹ کرکے ان کی ایفیشنسی کے مطابق ادائیگی کرنا شروع ہوجائے تو بہت فرق پڑ سکتا ہے، لیکن یہ معاہدے عالمی ضامن کی موجودگی میں ہوئے لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ اس وقت آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کی مدت عمران خان حکومت میں دی جانے والی توسیع کے مطابق 2047ء تک ہے۔ ٹیکسٹائل لابی کا دعویٰ ہے کہ معاہدوں کی وجہ سے حکومت بعض پاور پلانٹس سے بجلی 750 روپے فی یونٹ خرید رہی ہے۔حکومت کول پاور پلانٹس سے اوسطاً 200 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خرید رہی ہے جبکہ ونڈ اور سولر کی 50 روپے فی یونٹ سے اوپر قیمت ادا کر رہی ہے۔ ان مہنگے ترین آئی پی پیز کو کی گئی ادائیگی 1.95 کھرب روپے ہے، حکومت ایک پلانٹ کو 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر 140 ارب روپے ادائیگی کر رہی ہے، حکومت دوسرے پلانٹ کو 17 فیصد لوڈ فیکٹر پر 120 ارب روپے ادا کر رہی ہے جبکہ تیسرے پلانٹ کو 22 فیصد لوڈ فیکٹر پر 100 ارب روپے کی ادائیگی کررہی ہے۔ یہ صرف تین پلانٹس کے لیے 370 ارب روپے بنتے ہیں جو سارا سال 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر چل رہے ہیں۔ یہ سب معاہدوں میں کیپیسٹی پیمنٹ کی اصطلاح کی وجہ سے ہے، نتیجے میں بجلی پیدا کیے بغیر آئی پی پیز کو بڑی صلاحیت کی ادائیگی ہوتی ہے۔ یہ پلانٹس 52 فیصد حکومت کی ملکیت ہیں، 28 فیصد نجی سیکٹر کی ملکیت ہیں، اس لحاظ سے 80 فی صد پلانٹس پاکستانیوں کی ملکیت ہیں۔
دستاویز کے مطابق گزشتہ مالی سال 106 آئی پی پیز کو ایک ہزار 874 ارب روپے کی کیپیسٹی پیمنٹ کی گئی، تھر کول بلاک ایک پاور جنریشن کو 9 ماہ میں 128 ارب روپے کیپیسٹی کی مد میں ادا کیے گئے۔ چائنا پاور حب جنریشن کمپنی 9 ماہ میں 103 ارب روپے کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں لے اڑی اور کمپنی نے 5 ماہ سے کوئی بجلی پیدا نہیں کی جبکہ 4 ماہ پیداوار 18 فیصد تک رہی۔ ہوانینگ شانڈنگ روئی انرجی کو 9 ماہ میں 95 ارب روپے کی کیپیسٹی پیمنٹ کی گئی۔ پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی 9 ماہ میں 83 ارب روپے کیپیسٹی پیمنٹ لے اڑی۔ پنجاب تھرمل پاور پرائیویٹ کمپنی بھی 26 ارب روپے کی کیپیسٹی پیمنٹ کی حق دار ٹھیری، جبکہ واپڈا ہائیڈل کو 9 ماہ میں مجموعی طور پر 76 ارب روپے کی کیپیسٹی پیمنٹ کی گئی۔ بہت عرصے سے بند نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کو 10 ارب روپے ادائیگی کی گئی۔
حکومت نے پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے بجلی کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے،ماہانہ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے لوگ پروٹیکٹڈ صارفین مانے جاتے ہیں جن کے لیے موسم گرما میں رعایت کا فیصلہ کیا گیا ہے، مگر ساری کسر موسم سرما میں نکال لی جائے گی۔ وزیراعظم شہبازشریف کی ہدایت پر وفاقی کابینہ سے ہنگامی بنیادوں پر سرکولیشن سمری کے ذریعے ان صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں اضافہ واپس لینے کی منظوری لی گئی لیکن یہ ریلیف صرف جولائی سے ستمبر 2024ء تک دیا گیا ہے۔ حکومت ترقیاتی بجٹ میں سے قریباً 50 ارب روپے نکال کر ٹیرف پر ریلیف کے لیے بطور سبسڈی دے گی۔ ماہانہ 50 یونٹ والے لائف لائن صارفین کے لیے فی یونٹ ٹیرف 3.95 روپے، جبکہ ماہانہ 51 سے 100 یونٹ تک لائف لائن صارفین کے لیے فی یونٹ ٹیرف 7.74 روپے برقرار رہے گا۔ جس پچاس ارب روپے ریلیف کا ذکر حکومت نے کیا ہے اس کا مطلب ہوا کہ حکومت صارفین سے تین ماہ میں اوسطاً پچاس ارب روپے کما رہی تھی، یہی وجہ ہے کہ اتنی ہی مقدار میں ریلیف دیا گیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اسے ریلیف کا نام دینے کے بجائے اعتراف کرے کہ واپڈا نے پچاس ارب کا ڈاکہ ڈالا ہے۔ حکومت نے یہ اعتراف تو کیاکہ 100 یا 200 یونٹس بجلی استعمال کرنے والے غریب لوگ ہیں، جب اُن کے نرخ بڑھے تو ملک بھر میں احتجاج ہوا، اُن کا غصہ جائز تھا۔ تاہم حکومت یہ بات مان رہی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے لیے کچھ چیزیں طے کی تھیں لہٰذا ریلیف میں اسی لیے تاخیر ہوئی۔ حکومت کا اعلان محض ایک دکھاوا ہے، اسے جو نچوڑنا تھا وہ تو نچوڑ چکی ہے اب ریلیف کا دعویٰ کررہی ہے۔ حکومت کو بھی علم ہے کہ تین ماہ کے بعد اکتوبر میں موسم قدرے بہتر ہوجانے سے بجلی کا استعمال کم ہوجاتا ہے، بہتریہی ہے کہ حکومت ریلیف کے ساتھ ساتھ کرپشن کو بھی ختم کرے اور یہ بات معلوم کرے کہ کیا واقعی کراچی کی بندرگاہ پر درآمدی ڈیوٹی پر 1200 ارب روپے کی چوری نہیں ہورہی؟یہ اُن 2700 ارب سے ہٹ کر ہے جو کیسز ٹریبونلز میں پڑے ہوئے ہیں۔ شہبازشریف بار بار کہتے ہیں کہ ریاست کو بچانے کے لیے سیاست کو قربان کیا، لیکن عام صارفین پر ناجائز بوجھ اشرافیہ کی انا کی تسکین کے لیے ڈال رہے ہیں۔ اشرافیہ سے سالانہ 1700 ارب کی مراعات کب واپس لی جائیں گی؟
ویسے تو بجلی کا بل ہر طرح کے صارف کے لیے ہی ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔یہ کوئی ایسا خرچ نہیں ہے جو زندگی میں ایک ہی مرتبہ کرنا پڑتا ہے۔ بل تو ہر مہینے آتا ہے اور بھرنا بھی پڑتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ بجلی کے بل میں مختلف سلیبوں اور اوقات کی قیمت میں تو فرق ہے ہی، تاہم اُس پر عائد کردہ ٹیکس ’’فردر اور ایکسٹرا‘‘ سمیت مختلف ٹیکسوں کی بھرمار اِسے کئی گنا بڑھا دیتی ہے،امیر غریب ہر کسی کی جیب پر یہ بھاری بوجھ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ عوام اِن بِلوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اپنے اثاثے بیچ کر سولر پینل لگوا رہے ہیں لیکن اس کے بارے میں آئے روز حکومت کی پالیسی بدلنے کی خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ حکومت بجلی کے بلوں میں لیے جانے والے ٹیکسوں کی شکل میں ہونے والی آمدن پر انحصار کررہی ہے، اِسی لیے اسے لوگوں کا سولر پینل لگا کر خود مختار ہوجانا بھی خاص فائدہ مند نہیں لگ رہا۔ ہو سکتا ہے مستقبل قریب میں ذاتی سرمایہ کاری کرکے سولر پینل لگانے والوں کے لیے مسائل کھڑے ہو جائیں۔