بنگلہ دیش میں فسادات

کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ تحریک، بدترین سنسر، سارا ملک مفلوج

بنگلہ دیش آج کل شدید بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ رائٹرز کے مطابق 19 جولائی کو صرف دو گھنٹے کے دوران ڈھاکہ کے مرکزی اسپتال میں جامعات کے27 طلبہ کی لاشیں لائی گئیں جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ یہ خونریزی اب تک 200 نوجوانوں کا لہو چاٹ چکی ہے۔ ملک گیر کرفیو، فون و موبائل اور انٹرنیٹ پر پابندی کے باوجود ہنگامے جاری ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے ساتھ فون (لینڈ لائن) پر پابندی کی وجہ سے بیرونی دنیا سے بنگلہ دیش کا رابطہ منقطع ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس نوعیت کی پابندیاں 2013ء میں مصری صدر محمد مرسی کی معزولی پر ہونے والے ہنگاموں کی خبریں روکنے کے لیے جنرل السیسی نے لگائی تھیں۔ (حوالہ:رائٹرز)

بنگلہ دیشی طلبہ کو سرکاری ملازمتوں میں نام نہاد جنگِ آزادی کے سپاہیوں کی اولاد کے لیے کوٹہ مختص کرنے پر اعتراض ہے۔

کوٹہ سسٹم کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ قیامِ بنگلہ دیش کے بعد سرکاری ملازمتوں میں مکتی باہنی کے ارکان کے لیے 10 فیصد اسامیاں مختص کردی گئیں۔ قوم پرستوں کا کہنا تھا کہ ایک سال سے زیادہ عرصہ جاری رہنے والی جنگ ِآزادی میں مصروفیت کے سبب ان نوجوانوں کا تعلیمی سال ضائع ہوا جس کا مداوا ضروری ہے۔ آہستہ آہستہ کوٹے کا حجم تیس فیصد کرکے سپاہیوں کے بچوں کے ساتھ اُن کے پوتے پوتیوں، نواسے اور نواسیوں کو بھی کوٹے کا حق دار قرار دے دیا گیا۔ اس وقت یہاں سرکاری ملازمتوں میں مختلف طبقات کا کوٹہ کچھ اس طرح ہے:

اقلیت: 5 فیصد
خواتین:10 فیصد
پسماندہ اضلاع: 10 فیصد
مکتی باہنی کے جوانوں کے بچے:30 فیصد
وزیراعظم کی صوابدید: 1 فیصد
میرٹ:44 فیصد

دنیا کے دوسرے مسلم معاشروں کی طرح بنگلہ دیش میں نوجوانوں کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ ہے جن کی بڑی تعداد بے روزگاری کا عذاب سہہ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 3 کروڑ 20 لاکھ تعلیم یافتہ بنگالی نوجوان بے روزگار ہیں۔ سرکاری ملازمتوں کا بڑا حصہ مکتی باہنی کے لواحقین کے لیے وقف ہے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نجی ادارے اور آجر انتہائی ظالمانہ شرائط پر نوجوانوں کو نوکریاں پیش کررہے ہیں۔

گزشتہ کئی برس سے کوٹہ سسٹم کے خلاف تحریک جاری ہے۔ حکومت نے اعتراض کو ’جماعتی سازش‘ قراردے کر مسترد کردیا اور سارے ملک میں اسلامی چھاترو شبر کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ شبر کے درجنوں کارکن ’پولیس مقابلے‘ کا شکار ہوئے۔ تاہم تحریک جاری رہی اور طلبہ کے تیور دیکھ کر حزبِ اختلاف کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ وزیراعظم کی اتحادی جاتیہ پارٹی نے بھی اپنا وزن تحریک کے پلڑے میں ڈال دیا۔ حسینہ واجد کو اس بات کا احساس تھا کہ پانی سر سے اونچا ہورہا ہے، چنانچہ انھوں نے اپنی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ کو اعتماد میں لے کر مکتی باہنی کا کوٹہ ختم کردیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ کوٹہ ختم کرنے کی یادداشت (میمورنڈم) کے خلاف عدالت میں استغاثہ دائر کردیا جائے گا اور عدلیہ اس میمورنڈم کو کالعدم قراردے دے گی۔

اس طرح ایک طرف تو بنگلہ دیشی عدالت کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے کا موقع ملتا کہ عدلیہ نے بلا خوف وزیراعظم کا حکم کالعدم قراردے دیا، اور دوسری طرف وہ مظاہرین کو کہہ سکیں گی کہ میں نے تو اپنی سی کوشش کرلی لیکن عدلیہ کے آگے میرے ہاتھ بندھے ہیں۔

اور ہوا بھی ایسا ہی کہ 5 جون کو عدالتِ عالیہ نے مکتی باہنی کے لواحقین کا کوٹہ ختم کرنے کا حکم غیر آئینی قرار دے دیا۔ عدالت کے فیصلے پر چھاترولیگ نے جشن منایا لیکن طلبہ اس پر سخت برہم تھے۔ لاوا پکتا رہا اور 12 جولائی کو ملک بھر کی جامعات کے طلبہ سڑکوں پر آگئے۔ حکمراں عوامی لیگ اور اس کی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ نے ہر جگہ مزاحمت کی اور تصادم میں 4 طلبہ ہلاک اور سیکڑوںزخمی ہوئے۔ تشدد سے تحریک میں مزید شدت آگئی۔

ہفتہ 13 جولائی کو وزیراعظم نے ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر جذباتی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات ہارنے کے بعد جماعت اسلامی اور بی این پی تشدد کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔ پاک فوج کے تنخواہ دار ’جماعتی‘، سونار بنگلہ کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم مکتی باہنی کے احسانات نہیں بھول سکتے۔ حسینہ واجد نے جذباتی انداز میں کہا ’’دیش کو 1971ء کی سی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ بنگلہ دیش میں اگر مکتی باہنی کی اولاد کو نوکری نہیں ملے گی تو کیا 1971ء کے ’خونی رجاکاروں‘ کی اولاد کو نوازا جائے!‘‘ یہ دراصل 1971ء میں مکتی باہنی کے مقابلے میں پاکستانی رجاکاروں(رضاکاروں) کی مزاحمت کی طرف اشارہ تھا جو البدر اور الشمس کے عنوان سے منظم ہوئے تھے۔

قومیت کا یہ تیر کارگر تو کیا ہوتا، وزیراعظم کی تقریر کے بعد جامعات میں کچھ نئے نعرے گونجنے لگے کہ

’’توئی کی، امی کی، رجاکار، رجاکار‘‘ (تو کون؟ میں کون؟ رضاکار، رضاکار) ’’چھیتے گلم اودھیکار، ہوئے گلم رجاکار‘‘(اگر حق چاہتے ہو تو رضاکار بن جاؤ)

طلبہ کے ساتھ اب عام سیاسی کارکن بھی مظاہرے کررہے ہیں۔ منگل 16 جولائی کو کاکسس بازار میں عوامی لیگ اور چھاترو لیگ کے تمام دفاتر تباہ کردیے گئے۔ اسی روز ڈھاکہ میں ٹیلی ویژن کی مرکزی عمارت جلادی گئی اور اس کے تین دن بعد مظاہرین ڈھاکہ جیل پر چڑھ دوڑے اور وہاں نظربند 800 قیدیوں کو باہر نکال کر عمارت کونذرِ آتش کردیا گیا۔ (حوالہ: رائٹرز)

پولیس کے غیر مؤثر ہوجانے پر بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (BGB) کے دستے طلب کرلیے گئے۔ اس پر مزید اشتعال پھیلا کہ عام بنگالی، BGBکو ’بھارتی گارڈ‘ کہتے ہیں۔ گارڈز کی تعیناتی پر ہنگاموں میں مزید شدت آگئی اور مشتعل مظاہرین نے ڈھاکہ چاٹگام شاہراہ کے مرکزی پل کو نذرِ آتش کرکے دارالحکومت کا باقی ملک سے رابطہ جزوی طور معطل کردیا۔ طلبہ نے الزام لگایا کہ عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ کے کارکن BGPکی وردی پہن کر فائرنگ کررہے ہیں۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ حکومت مارے جانے والوں کی لاشیں غائب کررہی ہے۔

جمعہ 19 جولائی کو BGBہٹاکر ملک کو فوج کے حوالے کردیا گیا اور ساتھ ہی طلبہ کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے حسینہ واجد نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کا خون بہتے نہیں دیکھ سکتے۔ عدالتی احکام کی خلاف ورزی ممکن نہیں لیکن قابلِ عمل درمیانی راستہ تلاش کرنے کے لیے ہم ’اپنے بچوں‘ کو بات چیت کی دعوت دیتے ہیں۔ اسی کے ساتھ وزیراعظم نے طلبہ سے مذاکرات کے لیے وزیر قانون انیس الحق اور وزیرتعلیم محب الحق پر مشتمل ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کردی۔ لیکن طلبہ نے مذاکرات کی دعوت مسترد کردی۔ طالب علم رہنما حسنات عبداللہ نے صاف صاف کہاکہ پہلے کوٹے کی منسوخی کا سرکاری گزٹ جاری کرو پھر بات ہوگی۔ دبلے پتلے چھریرے بدن کے حسنات نے پُرعزم لہجے میں کہا کہ ہم اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، نہ اپنے ساتھیوں کے لہو کا سودا کریں گے۔ (حوالہ: ہندوستان ٹائمز، روزنامہ ہندو، بی بی سی)

بہیمانہ تشدد بھی جب کام نہ آیا تو باعزت پسپائی کے لیے عدلیہ سے مشاورت کی گئی اور 19 جولائی کو سرسری سماعت کے بعد ڈھاکہ ہائی کورٹ نے مکتی باہنی کا کوٹہ5 فیصد کردیا۔ عدالتی حکم کے مطابق 2 فیصد اسامیاں اقلیتوں کے لیے مختص ہوں گی، جبکہ 97 فیصد تقرریوں کی بنیاد قابلیت (میرٹ) ہوگی۔ ذرائع ابلاغ پر بندش کی وجہ سے عدالت کے اس نئے حکم پر طلبہ کا ردعمل تادم تحریر سامنے نہیں آیا۔

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔