سازش سیاسی کھیل اور ریاستی بحران

کیا وجہ ہے کہ ہمارے ریاستی عمل میں ہر چند برس بعد کسی نہ کسی کو ہیرو اور کسی نہ کسی کو زیرو یا سیکورٹی رسک بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

پاکستان کی سیاست آئین کے مطابق نہیں بلکہ پسِ پردہ سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کی سازشوں کی بنیاد پر چلتی ہے، اور اسی بنیاد پر سیاست میں جوڑتوڑ اور تانے بانے بنائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سیاست کمزور اور غیر سیاسی قوتیں زیادہ طاقت ور ہوتی ہیں اور جمہوریت اپنے کھوکھلے پن کی وجہ سے اہمیت کھورہی ہے۔ اس وقت جو بحران ہے وہ محض سیاسی نہیں بلکہ یہ ایک بڑے ریاستی بحران کی شکل اختیار کرگیا ہے لیکن ہمارے فیصلہ ساز بحران کو یا تو سمجھنے کے لیے تیار نہیں، اور اگر سمجھتے ہیں تواس بحران کو کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھنا ان کے اپنے مفاد میں ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ طے کرلیا گیا ہے کہ معاملات کو ٹھیک نہیں کرنا، اور اگر اس میں کچھ بہتری پیدا کرنا مقصود ہو تو اس کی بنیاد براہِ راست اپنے مفادات سے جڑی ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ مفادات پر مبنی کھیل میں سازشیں غالب نظر آتی ہیں اور تمام فریق ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کے لیے سیاست، جمہوریت یا آئین وقانون کو اپنے اپنے مفادات کے لیے بطور ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ اسی حکمتِ عملی کو اختیا رکرکے طاقت کے مراکز وہ کچھ کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو براہِ راست ریاستی و قومی مفادات کے برعکس ہے۔ لیکن جب ذاتی مفاد اہم ہوجائے تو ریاستی قومی مفادات کی اہمیت کم ہوجاتی ہے، یا یہ مفادات پیچھے رہ جاتے ہیں۔

حالیہ سازشی کھیل کو سمجھنے کے لیے پانچ اہم خبریں موجود ہیں:
(1) حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے طے کرلیا ہے کہ سپریم کور ٹ کے فل بینچ نے مخصوص نشستوں پر جو فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں دیا ہے اس پر وہ اور الیکشن کمیشن کسی بھی صورت میں عمل درآمد نہیں کریں۔ اس کے لیے عدالتی فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا، اور سپریم کورٹ میں چار نئے ایڈہاک ریٹائرڈ ججوں کی تقرری سے اس فیصلے کو اپنے حق میں کیا جائے گا۔

(2) سپریم کورٹ نے اگر فیصلہ تبدیل نہ کیا، اس صورت میں حکمران اتحاد اور اسٹیبلشمنٹ مل کر ملک میں ایمرجنسی یا ایمرجنسی پلس لگاکر تمام ججوں اور سیاسی نظام کو بھی لپیٹ سکتے ہیں۔ اسی لیے عدلیہ اور ججوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ وہ اس فیصلے پر نظرثانی کریں۔ اس فیصلے کے تناظر میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور آرمی چیف کی دو گھنٹے پر محیط ملاقات کو بھی اہم حلقوں میں اہمیت دی جارہی ہے۔

(3) وفاقی حکومت نے ایک اعلان کے مطابق پی ٹی آئی پر مکمل طور پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور اُس کے بقول حکومت کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی بطور جماعت ملک دشمنی اور ریاست دشمنی کے عمل میں شریک ہے۔

(4) ایک خاص بیانیے اور مخصوص اینکرز یا یوٹیوبرز کی مدد سے یہ پیغام بھی عوام میں دیا جارہا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے مل کر طے کرلیا ہے کہ عمران خان اور ریاست، یا عمران خان اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ان کے بقول عمران خان ملک کی سیکورٹی اورسلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔

(5) سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی، سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان پر آئین سے انحراف کی بنیاد پر آرٹیکل چھے کے تحت غداری کا مقدمہ چلانا ہے۔

اب آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کی گئی ہے جس میں ایک بار پھر 9مئی کے واقعات پر کوئی سمجھوتا نہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، اور ان کے بقول عدلیہ 9مئی کے ملزمان کو ریلیف دے کر دہشت گردوں کو تحفظ دے رہی ہے، اور پی ٹی آئی کو بطور جماعت ریاست مخالف کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ بنوں میں بھی دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے ہیں ان کا الزام پی ٹی آئی پر لگایا گیا ہے کہ وہ ان حملوں کو بنیاد بناکر الزام فوج پر لگانا چاہتی تھی۔ اس پریس کانفرنس میں کے پی کے کی حکومت کو بھی چارج شیٹ کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایسے موقع پر ہورہا ہے جب حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے مخصوص نشستوں کے مقدمے میں فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں کرکے حکومت کو دو تہائی اکثریت سے محروم کردیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت ایک منظم حکمتِ عملی کے تحت عدلیہ مخالف مہم کا حصہ بن رہی ہے اور تمام حکومتی وزرا عدلیہ اور ججوں کو ٹارگٹ کرکے عدلیہ مخالف مہم چلارہے ہیں۔ اس فیصلے کو تبدیل کرانے کے لیے حکومت نے ایڈہاک ججوں کی تقرری کا جو فیصلہ کیا ہے اس پر اعلیٰ عدلیہ سمیت وکلا تنظیموں اور سیاسی محاذ پر مختلف حکومت مخالف جماعتوں اور میڈیا میں حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت او راسٹیبلشمنٹ نے مل کر طے کرلیا ہے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے، اور اس کے لیے وہ آخری حد تک جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔

اس پورے کھیل کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اور ماضی میں مختلف سیاست دانوں کو سیکورٹی رسک قرار دے کر ہم نے کون سی اپنی سیاسی اور معاشی سمت درست کرلی ہے! کیا وجہ ہے کہ ہمارے ریاستی عمل میں ہر چند برس بعد کسی نہ کسی کو ہیرو اور کسی نہ کسی کو زیرو یا سیکورٹی رسک بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ بھٹو ہوں، بے نظیر ہوں، نوازشریف ہوں یا اب عمران خان… سب کو اِس ملک میں سیکورٹی رسک جیسے القابات سے نواز کر ان کے ساتھ پاکستان نہ چلنے کی باتیں کی گئیں مگر سب بے سود رہا، اور ان ہی لوگوں کو کچھ عرصے بعد نئے میک اپ میں قومی ہیرو یا محب وطن کے طور پر پیش کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف پورا ریاستی نظام ایک فرد کے خلاف اپنی سازشوں کے کھیل کو مضبوط بنانے کی کوشش کررہا ہے تو دوسری طرف عمران خان کی مقبولیت ان تمام تر حکمت عملیوں کے باوجود کم نہیں ہورہی، بلکہ بڑھ رہی ہے۔ عمران خان اگر آج قومی ہیرو ہیں یا مقبولیت میں سب سے آگے ہیں تو اس کی بھی بڑی وجہ خود عمران خان کم اور ان کے سیاسی مخالفین زیادہ ہیں۔ معلوم نہیں ہم ’’سیکورٹی رسک‘‘ اور ’’ملک سے غداری‘‘ کے کھیل سے کب باہر نکل سکیں گے! اورکیوں ہم ماضی کی غلطیوں یا کوتاہیوں سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں! یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا داخلی اور خارجی مقدمہ مکمل طور پر سوالیہ نشان کے طور پر موجود ہے اور لوگ ہماری ریاستی ساکھ پر سوال اٹھارہے ہیں۔ کیا پی ٹی آئی پر پابندی سے عمران خان کی عوامی مقبولیت کو کم کیا جاسکے گا؟ اورکیا ماضی میں اس طرح کی سیاسی پابندیوں کے ہماری سیاست پر مثبت اثرات پڑے تھے یا ہم مجموعی طور پر پیچھے کی طرف گئے تھے؟ سیاسی جماعتوں کا مقابلہ سیاسی حکمت عملی اور سیاست کی بنیاد پر ہی کیا جاسکتا ہے، اور جو بھی غیر سیاسی حکمت عملیاں سیاسی قیادت یا سیاسی جماعتوں کے بارے میں اختیار کی جائیں گی وہ نتیجہ خیز نہیں ہوں گی۔ 2024ء کے انتخابات سے ریاستی و حکومتی نظام کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ پوری پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی تھی، اس سے انتخابی نشان چھین لیا گیا، سیاسی مہم اور انتخابی مہم پر پابندی تھی اور اس کے امیدواروں کو ہراساں کیا جارہا تھا، گرفتار کیا جارہا تھا، یا تشدد کی مدد سے پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا تھا، لیکن اس ساری منفی مہم کے باوجود لوگوں نے پی ٹی آئی کو ہی ووٹ دیا، اور آج پی ٹی آئی فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد ایک سیاسی حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو ہر سطح پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی کے اثرات منفی ہوتے ہیں اور اس سے قومی سیاست میں بلاوجہ کی سیاسی انتہا پسندی پیدا ہوتی ہے۔ خاص طور پر جب ملک کا مجموعی ووٹ بینک ایک جماعت کے پاس ہو، پارلیمنٹ اور سینیٹ میں وہ اس وقت اکثریتی جماعت ہو، اور تمام تر پابندیوں کے باوجود لوگ پی ٹی آئی سے جڑے ہوئے ہیں تو ایسی پابندی کو کون قبول کرے گا! عالمی برادری میں اس طرح کی سیاسی پابندی سے ہم کیا حاصل کرسکیں گے ماسوائے بدنامی کے! دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس وقت اس سارے سازشی کھیل میں سہولت کاری کے فرائض قومی سیاسی اور جمہوری جماعتیں انجام دے رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اس پورے کھیل میں پیش پیش ہے اورایسے لگتا ہے کہ اس نے عمران خان کی دشمنی اور اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری میں آخری حد تک جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ حالانکہ مسلم لیگ (ن) میں خود بھی قیادت کی ان پالیسیوں پر شدید تحفظات ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو محض شریف خاندان کے سیاسی مفادات کو بنیاد بناکر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے جو اجلاس نوازشریف کی سربراہی میں مری میں طلب کیا تھا وہ بھی کسی وجہ سے ملتوی کردیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق مسلم لیگ (ن) میں ایک بڑا گروپ پی ٹی آئی پر سیاسی پابندی اورعدلیہ سے بلاوجہ کی محاذ آرائی پیدا کرنے کے حق میں نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نوازشریف کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ مزاحمت کا راستہ اختیار کریں، اور ان کے بھائی شہبازشریف مفاہمت سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے مجموعی طور پر خود کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑ ا کرلیا ہے جس سے یقینی طور پر اسے سیاسی طور پر بڑا نقصان ہورہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی اس سوچ کی کسی بھی سطح پر حمایت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ عمران خان کی دشمنی میں اس حد تک آگے جائے جس سے جمہوری عمل کونقصان پہنچے۔ خاص طور پر پی ٹی آئی پر پابندی یا ایمرجنسی کی جو لوگ بھی باتیں کررہے ہیں ہمیں اس پر اپنی اپنی سطح پر سخت مزاحمت کرنی چاہیے،کیونکہ پہلے ہی پاکستان میں جمہور ی عمل کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے اور ہم ابھی تک جمہوریت کے سلسلے میں ارتقائی عمل سے گزر رہے ہیں۔ ایسے میں سیاسی قیادت ہو یا سول سوسائٹی سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاست اور جمہوریت میں نہ تو خود تماشا بنیں یا سہولت کاری کریں، نہ اس ملک کو تماشا بنائیں، کیونکہ ہم پہلے ہی ایک بڑے ریاستی بحران سے گزر رہے ہیں، ایسے میں ہمیں سیاسی اور جمہوری اصولوں کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔

پاکستان کو آگے بڑھانا ہے یا داخلی اور خارجی محاذ پر اپنی سیاسی ساکھ قائم کرنی ہے تو پھر آئین و قانون کی حکمرانی اور سیاست کو جمہوری بنیادوں پر چلانے کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ سے جڑے لوگوں کو بھی سمجھنا ہوگاکہ پاکستان کو ایک ایسی تجربہ گاہ نہیں بنانا چاہیے جو ہمیں مزید بحرانوں کی طرف دھکیلے، کیونکہ جب ہم سازشوں کی بنیاد پر اپنی سیاسی حکمت عملی ترتیب دیں گے یا اس کو بنیاد بناکر آگے بڑھیں گے تو اس کے نتیجے میں ملک مزید پیچھے کی طرف جائے گا۔ کیونکہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ جب ایک ہوکر عدلیہ کو ٹارگٹ کریں گے یا اس کے خلاف مخالفانہ مہم چلائیں گے تو یہ ٹکرائو خطرناک ہوگا، اور اس کے نتیجے میں سیاست اور جمہوریت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر کسی سیاسی جماعت یا سیاسی لیڈر سے ریاست اور حکومت کی سطح پر اختلافات ہیں تو ان اختلافات کو حل کرنے کے لیے سیاسی حکمتِ عملی، مکالمے اور بات چیت کا راستہ اپنایا جائے، سیاسی مفاہمت کو بنیاد بنایا جائے۔طاقت کی بنیاد پر کسی بھی سیاسی طاقت کو ختم کرنے کا جنون ہم سب کو خراب کرے گا۔اب وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں ، سول سوسائٹی ، میڈیا اوروکلا تنظیمیں مل کر کوئی ایسا درمیانی راستہ نکالیں جو سب کے لیے قابل ِقبول ہو۔